شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ سیاحوں کی ایک جماعت سفر پر روانہ ہو رہی تھی ۔ میں
نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔انہوں نے انکار کیا تو میں نے
یقین دلایا کہ میں آپ حضرات کے لیے مصیبت اور پریشانی کا باعث نہیں بنوں گا
بلکہ جہاں تک ہو سکے گا آپ کی خدمت کروں گا۔وہ پھر بھی نہ مانے اور اُن میں
سے ایک سیاح نے کہا بھائی ہمیں معاف ہی رکھو۔ اس سے پہلے رحمدلی کے باعث ہم
سخت نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تمہاری طرح ایک شخص ہمارے پاس آیا
اور ساتھ سفر کرنے کی اجازت مانگی۔ ہم نے اُس کا اعتبار کیا اور ساتھی بنا
لیا۔ سفر کرتے کرتے ہم ایک قلعے کے پاس پہنچے تو آرام کرنے کے لیے ایک
موزوں جگہ پر ٹھہر گئے۔ جب سونے کے لیے اپنے بسترو ں پر لیٹے تو اُس شخص نے
ایک سیاح سے پانی کی چھاگل لی کہ وہ پیشاب وپاخانہ کے لیے جانا چاہتا ہے۔
چھاگل لے کر وہ قلعے میں گھسا اور وہاں سے قیمتی سامان چرا کر رفو چکر ہو
گیا۔قلعے والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے ہم لوگوں پر شک کیا اور پکڑ کر قید
کر لیا۔ بڑی مشکل سے اس مصیبت سے نجات ملی۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ میں
نے اُن سیاحوں کا شکریہ ادا کر کے کہا کہ اگرچہ مجھے آپ کا ہمسفر بننے کی
عزت حاصل نہیں ہو سکتی لیکن آپ نے جو اچھی باتیں بتائیں اُن سے مجھے بہت
فائدہ حاصل ہوا۔ سچ ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔شیخ
سعدی ؒ نے اس حکایت میں ایک نہایت ہی لطیف نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے
کہ گناہ کرنے والے کا فعل صرف اُس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ جن لوگوں
کو وہ براہِ راست نقصان پہنچاتا ہے اُن کے علاوہ نہ جانے اور کتنے لوگ اُس
کی غلط کاری کے باعث جائز فوائد سے محروم ہو جاتے ہیں۔لوگ کسی فریب کار کے
ہاتھوں نقصان اُٹھا کر شریف اور مستحق لوگوں کا اعتبار بھی نہیں کرتے۔
قارئین!آج سے کچھ عرصہ قبل جب وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید
برطانیہ کے دورے پر گئے تو اُن کی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سینئر وزیر چوہدری
محمد یٰسین نے سنبھالی اور چند دنوں میں ہی آزادکشمیر کے تمام اضلاع کے
طوفانی دورے کئے اور اُن کا ہیلی کاپٹر عید کے دنوں میںبھی نوید بانٹتا
پھرا۔اس دوران انہوں نے مختلف اقدامات کے لیے احکامات جاری کئے جن پر فی
الفور عمل در آمد بھی ہو گیا۔دورے کرتے کرتے چوہدری محمد یٰسین سدھنوتی
یعنی پلندری بھی تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے
جیالوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے دوران ایک ایسا حکم جاری کیا کہ جس نے
آزادکشمیر کے سب سے پہلے اور واحد کیڈٹ کالج یعنی ”پلندری کیڈٹ کالج“ میں
کھلبلی مچا دی۔ انہوں نے اس کیڈٹ کالج کو بانی پاکستانی پیپلز پارٹی ذو
الفقار علی بھٹو شہید کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کر دیا۔اس اعلان پر
عمل درآمد بھی ہو گیا، قارئین آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پورے
پاکستان میں جتنے بھی کیڈٹ کالجز ہیں کسی ایک کالج کو بھی کسی سیاسی شخصیت
کے نام سے آج تک منسوب نہیں کیا گیا۔حسن ابدال، جہلم،ایبٹ آباد، پٹارو سے
لے کر جتنے بھی کیڈٹ کالجز پاکستان بھر میں قائم ہیں ہر کیڈٹ کالج سے فارغ
التحصیل ہونے والا کیڈٹ ساری زندگی اُس کالج کے ایک مخصوص”نک نیم“ کے ساتھ
جانا جاتا ہے اور یہ اُس کی شناخت ہوتی ہے۔جب سے کیڈٹ کالج پلندری کا نام
تبدیل کیا گیا ہے ہمیں درجنوں فارغ التحصیل کیڈٹس نے رابطہ کیا جو افواجِ
پاکستان میں مختلف عہدوں پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اپنے دل کے
دُکھ سے آگاہ کیا۔ کیڈٹ کالج پلندری سے جڑے تمام کیڈٹس اس بات پر شاکی ہیں
کہ آخر کیوں صرف اُنہی کے نک نیم کو سیاسی شخصیت کے ساتھ منسوب کیا جارہا
ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پورے پاکستان کے تمام کیڈٹ کالجز کو سیاسی
شخصیت کے ناموں کاتڑکا لگا دیا جائے ورنہ پلندری سے فارغ التحصیل ہونے والے
کیڈٹس کی شخصیت متنازعہ بن کر رہ جائے گی۔
قارئین سمجھ نہیں آتا کہ ہماری موجودہ وفاقی اور آزاد کشمیر کی حکومت فلمی
ہیروئنز کی طرح خود ہی اپنے سکینڈل بنوا کر کیوں خوش ہوتی ہیں۔فوج ایک
انتہائی معتبر اور پاکستان کا واحد ایسا ادارہ ہے جس پر پوری قوم فخر کر
سکتی ہے۔سیاسی شخصیات کو چاہےے کہ اپنی سیاسی قلابازیوں اور اُلٹ پھیریوں
کو کم از کم اس ادارے کی حدود سے باہر رکھیں۔ آرمی اس وقت دفاعِ پاکستان کا
فریضہ انجام دے رہی ہے اور فوجی جوانوں اور افسرو ں کو قوم کی طرف سے پشت
پناہی کی ضرورت ہے نا کہ اس طریقے سے فضول قسم کے سیاسی اعلانات کر کے اُن
کو نفسیاتی لحاظ سے تکلیف پہنچا کر ہماری سیاسی قیادت کوئی کارنامہ انجام
دے رہی ہے۔ اس وقت کیڈٹ کالج پلندری کے سینکڑوں کیڈٹس میں شدید ترین بے
چینی ، اشتعال اور غم و غصہ ہے جسے وہ فوجی ڈسپلن کی وجہ سے ابھی تک دبا
رہے ہیں۔ لیکن جس دن بھی یہ تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی تو جذبات کا ایک
طوفان نکلے گا جس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا۔اول تو آزاد حکومت فوری طور پر یہ
حکمنامہ واپس لے ۔بصورتِ دیگر حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ جاہل اور بےوقوف
مشیروں کے مشوروں پر عمل کر کے ایسے احکامات جاری کرنے کا سلسلہ ختم کروایا
جائے اور اس کیڈٹ کالج کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔بقول غالب
وارُستہ اُس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرہ غیر کا گلہ
ہر چند برسبیلِ شکایت کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
اُس فتنہ خُو کے دل سے اب اُٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
قارئین! قومی ادارے سیاسی اعلانات کی نذر کرنے کی جگہیں نہیں ہوتی یہ وہ
ادارے ہوتے ہیںجو قوم کے مستقبل کی پرورش اور نگہبانی کرتے ہیں آج اگر یہ
حکمنامہ واپس نہ کروایا گیا تو یاد رکھئے کہ پاکستان کے تمام قومی اداروں
کو انہی سیاسی اعلانات کی نذر کر دیا جائے گا اور آنے والے دور کا مورخ جو
بھی تحریر کرے گا وہ کچھ اچھا نہ ہو گا۔سیاسی لیڈروں کو یہ چاہیے کہ اپنی
انتہائی معزز قیادت کو اگر خراجِ تحسین پیش کرنا ہی ہے تو اُن کے نام سے
رفاعی ادارے بنا کر قوم کی خدمت کی جائے ناکہ پہلے سے موجود قومی اداروں کی
شناخت کو مجروح کیا جائے۔ یہی وقت کی آواز اور ہماری آج کی درخواست
ہے۔اُمید ہے کہ اس درخواست کو جیالا بن کر نہیں بلکہ ایک محبِ وطن پاکستانی
اور کشمیری بن کر سنا اور سمجھا جائے گا۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک موٹر سائیکل پر تین آدمی سوار تھے راستے میں پولیس والے نے اُن کو پکڑا
اور پوچھا ۔ایک موٹر سائیکل پر تم تین آدمی کیوں سوار ہو۔
اُن میں سے ایک نے جواب دیا ۔
”جناب دراصل ہمارا چوتھا ساتھی اپنے گاﺅں گیا ہوا ہے۔“
قارئین!سیاسی قائدین ایسے کام نہ کریں کہ جو اخلاقی قوانین کی نظر میں درست
نہیں ہے۔ اگر ایسی غلطی سرزد ہو جائے تو اُس غلطی پر معذرت کر کے اُسے درست
کر دینا ہی عقلمند لوگوں کا شیوہ ہے۔ |