شور برپا ہے خانہ دل میں ۔۔۔کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ناصر کاظمی کی گذشتہ روز 86ویں سالگرہ تھی ۔اس سر زمین پاک کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا سارا خاندان لقمہ اجل بن گیا اور یہ عظیم شاعر تنہا مملکت خداداد میں آبسے ۔تزہین گلستان میں ان کے خاندان کا خون تو شامل ہے مگر افسوس وہ اس ملک کے چمن میں کوئی خوش کن بہار نہ دیکھ سکے۔ناصر کاظمی تو 1972میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر آج 2011میںبھی یہ قوم اس خزاں رسیدہ چمن میں بہار کی امید پر شجر سے پیوستہ ہے۔دسمبر کا مہینہ ہے موسم خزان شروع ہو چکا ۔۔۔بہار کے پھول تو نہیں البتہ افواہوں کے”شگوفے “ ہر طرف کھلے ہوئے ہیں۔

صدر مملکت آصف علی زرداری کی اچانک دبئی روانگی نے ان گنت افواہوں کو جنم دیا ۔ ان افواہو ں پہ مذاکرے شروع ہوئے اصل خبر افواہوں کی گرد میں کہیں گم ہوگئی۔مجھے ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد آرہا ہے
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہوائیں تو پرانی ہی تھیں لیکن لہریں تازہ ۔۔۔عام خیال یہ تھا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزاایوان صدر کی پشت پناہی میں تباہ کن میزائل چلا رہے ہیں۔اس وقت بھی تحریر کیا تھا کہ دوستی میں دراڑیں پڑھ چکی ہیں ۔۔۔اور درمیان میں مروت کی کھڑی دیوار گر چکی ہے ۔۔۔یہ وہ وقت تھا جب صدر زرداری کو ایک شدید دھچکا لگا تھا۔کاش وہ سنبھل کر اپنے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی کر لیتے اور مردم شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوستوں اور دشمنوں میں ایک لائن کھینچ لیتے تو دوستی کے درمیان مروت کی کھڑی دیوار منہدم نہ ہوتی۔صدر زرداری کا معاملہ بقول ناصر کاظمی کچھ اس طرح ہے کہ
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
یاد کے بے نشان جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی

ہر شخص یہ سوال پوچھتا ہے کہ صدر زرداری کو دل کی تکلیف ہوئی ہے یا محض ڈرامہ ہے ؟ مجھ سے بھی بے شمار لوگوں نے پوچھا ۔کوئی ایک سوال ہو تو جواب دیں یہاں تشنہ جواب سوالوں انبار ہیں۔اور یہی منظر زیر بحث ہے ۔۔۔آنے والے دنوں کے سوال بھی یہی ہیں مثلاً !

کیا صدر زرداری استعفیٰ دے دیں گے۔۔۔کیا حکومت این آراو کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرے گی۔۔۔کیا آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ میمو گیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق جواب داخل کریں گے۔۔۔کیا صدر مملکت ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔۔۔کیا سپریم کورٹ این آر او کیس میں صدر کے استثنیٰ پر اپنا فیصلہ دے گی۔۔۔کیا شمسی ائیر بیس خالی کرانے کے بعد جیکب آباد ائیر بیس بھی خالی کرایا جائے گا۔۔۔کیا واقعی ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے کر اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کریں گے۔۔۔کیا نیٹو سپلائی معطل رہے گی یا چند دنوں یا ہفتوں بعد بحال کر دی جائے گی۔۔۔کیا عام انتخابات قبل از وقت ہوں گے اور سینٹ کے انتخابات وقت پر ہو پائینگے۔۔۔کیا کسی بنگلہ دیش ماڈل پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے یا حالات مارشل لاءکی طرف جا رہے ہیں۔۔۔میمو گیٹ سکینڈل کا ڈراپ سین کیا ہوگا۔۔۔کیا حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی۔۔۔کیا بلاول بھٹو زرداری ایوان صدر میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی کو منتشر ہونے سے بچا سکیں گے۔۔۔کیا حکومت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان محاذ آرائی ہوگی۔۔۔اگر صدر کا استثنیٰ بذریعہ سپریم کورٹ ختم ہوگیا تو آئین کے آرٹیکل 190کو حرکت میں لایا جائے گا۔۔۔اور اس طرح کے ان گنت سوالات ہیں جن کا عوام کے دکھ درد سے کوئی تعلق نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ سارے سوال ”ملکی سلامتی“ کے ہیں ۔عوام کی پکار کچھ اور ہے۔۔۔ہے کوئی جو اس پکار کو سنے۔۔۔ بقول ناصر کاظمی
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
جھونپڑی والو کی تقدیر
بجھا بجھا سا اک دیا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
اومیرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا

اگرچہ ناصر کاظمی نے کہا تھا وقت اچھا بھی آئے گا ناصر غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔ مگر زرداری،نواز شریف، عمران خان ، جنرل کیانی سمیت تمام بڑے بڑے لیڈر اپنی طبعی عمریں پوری کر چکے ہیں ۔نقارہ اجل کسی وقت بھی بج سکتا ہے ۔اس سے پہلے کہ زندگی کا چراغ گل ہو جائیں۔ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے چمن میں بہار لانے کے اجتماعی کوشش کر کے اللہ کے حضور سرخرو ہو جائیں۔
 
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 20377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.