تحفظاتِ زر

ہم بعض چیزوں کے لیے ترستے ہیں مگر جب وہ مِل جاتی ہیں تو تشویش میں مُبتلا رہتے ہیں کہ اُن کا کیا کریں! مثلاً کامیابی کے لیے زندگی بھر کوشش کرنے والے بھرپور کامیابی ملنے پر یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتے ہیں کہ اب اُسے برقرار کیسے رکھیں!

جب ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو اور لوگ ایک دوسرے کے بارے میں خدشات اور تشویش میں مُبتلا ہوں تو تحفظ کے احساس کی ضرورت بہت شِدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُسے کسی نہ کسی حد تک تحفظ حاصل ہو۔ مرزا تنقید بیگ کا شِکوہ یہ ہے کہ تحفظ کے طلب گار تحفظات کا رونا رہتے ہیں! لوگوں کو تحفظ درکار ہے لیکن اگر کوئی ”تحفظات“ کا اظہار کرے تو اُسے تشویش بھری نظروں سے طرف دیکھتے ہیں!

مرزا تنقید بیگ کو تحفظات کے بارے میں ہمیشہ تحفظات لاحق رہے ہیں۔ وہ اب تک یہ بات سمجھ نہیں پائے کہ تحفظات کے بارے میں لوگ اس قدر تحفظات کیوں رکھتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ قتل و غارت کے اِس دور میں اگر تحفظات لاحق ہوں تو اِنسان کو سُکون کا سانس لینا چاہیے کیونکہ تحفظات میں ”تحفظ“ بالکل ہے اور پورا کا پورا ہے! جب بھی ہم نے مرزا کو تحفظات کی ماہیت اور اصلیت سمجھانے کی کوشش کی ہے، اُنہوں نے ہمیں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا ہے جیسے ہماری ذہنی حالت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہوں! اپنا ذہنی تحفظ یقینی بنانے کے لیے اب ہم مرزا کو کچھ بھی سمجھانے سے مقدور بھر گریز ہی کرتے ہیں۔

سیاست کی بساط کے کھلاڑیوں نے تمام مذموم عزائم کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے اُنہیں تحفظات کا لبادہ اوڑھا دیا ہے۔ جب بات نہ بن رہی ہو اور سیاسی ڈرامے میں کوئی ڈھنگ کا ڈائیلاگ ادا نہ ہو پا رہا ہو، پورا سین ہی بے جان لگ رہا ہو اور تماشائیوں کی طرف سے ہوٹنگ کا خطرہ ہو تو سیاسی اداکار تحفظات کے ”ایکٹ“ کی تیاری کے لیے اسٹیج کے پیچھے چلے جاتے ہیں! المیہ یہ ہے کہ اب سیاسی ڈرامے کا بیشتر حصہ اسٹیج کے پیچھے ہی پیش کیا جارہا ہے اور بے چارے تماشائی سیاسی اداکاروں کے اسٹیج پر آنے کے اِنتظار میں طنز بھری سیٹیاں بجاتے ہی رہ جاتے ہیں!

انگریزوں نے sorry کی شکل میں ایک لفظ ایسا دیا ہے جو ہر موقع کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ کچھ بھی کر گزریے اور sorry کہہ کر گردن بچا لیجیے۔ یہی حال reservation کا ہے۔ اگر کسی معاملے میں بات ٹھیک سے نہ بن رہی ہو یعنی مرضی کے سائز اور بَھرائی والا بریف کیس نہ مل پا رہا تو کہہ دیجیے کہ بھائی! میرے چند ”تحفظات“ ہیں! بس، بات ختم! پھر کِس کی مجال ہے جو یہ پوچھے کہ تحفظات سے کیا مُراد ہے! کوئی اِس لیے نہیں پوچھے گا کہ اب سبھی جانتے ہیں کہ تحفظات کیوں ہوتے ہیں اور کِس طرح دور کئے جاتے ہیں!

پاکستان کی سیاست میں تحفظات نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا ہے مگر اب لگتا ہے پورا سیاسی ڈراما اِسی ایک ایکٹ کے گرد گھوم رہا ہے۔ کئی سیاست دان ایسے ہیں جن کی پوری سیاست صرف تحفظات سے عبارت ہے۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اُن کی سیاست تحفظات کے گرد گھوم رہی ہے یا تحفظات اُن کی سیاست کا طواف فرما رہے ہیں! مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست وہ گھوڑا ہے جو تحفظات کی دُلکی چال دوڑتا رہتا ہے! جس طرح فٹ پاتھ پر دوا بیچنے والوں کے پاس کوئی ایک آدھ دوا ایسی ہوتی ہے جو ہر بیماری، زخم اور ناسُور کے لیے اِکسیر ہوتی ہے بالکل اِسی طرح مولانا کے پاس میڈیا والوں کے ہر سوال کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ”ہمارے کچھ تحفظات ہیں!“ اب اگر تحفظات کی وضاحت طلب کیجیے تو دنیا بھر کی لاتعلق باتوں کا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے۔ میڈیا والے ٹھہرے سطحی ذہن کے لوگ۔ مولانا کی طبّاعی کی تاب وہ کہاں لاسکتے ہیں؟ میڈیا ٹاک میں بالعموم ہوتا یہ ہے کہ مولانا کوئی بات کہتے ہیں، میڈیا والے بس غور کرتے رہ جاتے ہیں اور حضرت مُسکراتے ہوئے چل دیتے ہیں! مولانا کی جسمانی شخصیت بھی ماشاءاللہ کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میڈیا والے تحفظات کی وضاحت کا مطالبہ کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں!

چاندنی رات ہو، ماحول پر سِحر طاری ہو، طبیعت ہر اُلجھن سے آزاد ہوکر محبت آمیز لمحات کی فضا میں پرواز کے لیے پَر تول رہی ہو اور ایسے میں اگر مچّھر حملہ کردیں! اب اگر اِس مَسحُورکن ماحول میں پوری رات تالیاں پیٹ پیٹ کر مچّھر مارنے میں گزر جائے تو؟ آپ مقامی انتظامیہ اور تقدیر ہی کو روئیں گے نا؟ بس کچھ ایسا ہی مُقدر ہمارے بھان مَتی کے کنبے یعنی مخلوط حکومت کا بھی ہے۔ بے چاری اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنے پر مجبور ہے! تحفظات دور کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کو ایوان صدر بُلانا پڑتا ہے اور داخلی امور کو روتا بلکتا چھوڑ کر وفاقی وزیر داخلہ کو لندن کا ٹکٹ کٹانا پڑتا ہے! صدر کی اُلجھن تو اور بھی زیادہ ہے۔ اُنہیں لندن کے ساتھ ساتھ یو اے ای اور چین کے بھی چکر لگانا پڑتے ہیں! ایسے میں پاکستان کے لیے وقت نکلے تو کیسے!

مرزا تنقید بیگ کا کہنا ہے کہ تحفظات اور زر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے ”جب بھی کسی کو تحفظات لاحق ہوتے ہیں تو زر کا چورن چٹایا جاتا ہے تاکہ لالچ کے پیٹ میں کلبلانے والے تحفظاتی کیڑوں کو ختم کیا جاسکے! قومی معیشت ایک زمانے سے ترسیلاتِ زر کی کمی کا رونا رو رہی ہے اور ’تحفظاتِ زر‘ ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جس طرح اِسٹاک ایکسچینج میں یومیہ بنیاد پر اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے بالکل اُسی طرح سیاست میں تحفظاتِ زر کا گراف یومیہ بنیاد پر اور صورت حال کے مطابق صرف چڑھتا، گرتا.... بلکہ صرف چڑھتا رہتا ہے!“

پاکستان میں تحفظاتِ زر کے عارضے کا ایک ہی ہسپتال ہے جسے عرفِ عام میں ایوان صدر کہا جاتا ہے! جب صدر محترم تحفظات دور کرنے میں مصروف ہوں تو ہر معاملے میں عدم تحفظ کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ حکومت گویا تحفظات دور کرتے رہنے کا نتیجہ اور صدقہ ہے۔ قوم منتظر ہے کہ صدر اور اُن کے ساتھی تحفظات ختم کرنے کی مہم سے فراغت پائے تو کچھ ترقیاتی مہم جوئی کا بھی سوچا جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483360 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More