کچھ نعت رنگ و نعت ریسرچ سینٹرکے بارے میں

بہت سال گزرے جب پانچویں کلاس کا ایک طالب علم حیدرآباد سندھ کے علاقے لطیف آباد کی ایک مسجد میں لہک لہک کرمسدس حالی کے اشعار پڑھ رہا تھا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا

لفظ بیڑے کو وہ بٹیرے پڑھ گیا، لاوڈ اسپیکر کھلا تھا اور محلے والے سن رہے تھے۔ قریب بیٹھے ایک صاحب نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور آہستگی سے تصحیح کی۔ اس نے بوکھلا کر شعر دوبارہ پڑھا۔

وقت گزرتا گیا ، فن نعت گوئی کا احترام دل میں رہا! گرچہ اس طالب علم نے دوبارہ کبھی نعت نہیں پڑھی لیکن اس جانب ایک انسیت اس کے دل میں موجود رہی ۔

صاحبو! یہ ذکر میرا اپنا ہی تو ہے۔ کالج کا زمانہ آیا ، کراچی میں زیر تعلیم تھا کہ ایک روز ایک مسجد سے باآواز بلند کوئی صاحب نعت پڑھ رہے تھے۔ میں نے چونک کر اپنے ساتھی سے کہا کہ بھائی ذرا دیکھنا تو، یہ صاحب تو نور جہاں کا گانا گا رہے ہیں:
قدموں میں تیرے جینا مرنا

پھر یوں ہوا کہ راہ چلتے بھی نعت کے اشعار میں فلمی گانوں کو کھوجنے کی عادت سی ہوگئی ۔ محمد رفیع سے لے کر مکیش تک، کیا کیا نہ یاد آجاتا تھا۔
یہ رنگ دیکھ کر ایسے لوگوں سے طبیعت کچھ بیزار سی ہوگئی !

بقول شخصے، نعت گوئی، نبی کریم ﷺ کا ذکر بلندکرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ لیکن نعت کہنے کے لیے جس احتیاط کی ضرورت ہے اور مدحت نگاری کے لیے موضوع سے جس قدر باخبری درکار ہے وہ بیشتر نعت گو شعرا کے کلام سے ظاہر نہیں ہوتی، اس پر مستزاد مساجد سے بلند آواز میں فلمی گانوں کی طرز پر نعت پڑھنے والے یہ لوگ جن کے کلام کو سن کر دھیان صرف اور صرف فلمی گانوں کی طرف جاتا ہے۔

ایک روز ایک دوست نے انکشاف کیا کہ ان دنوں تو نعت گوئی میں بہت پیسہ ہے، پھر دیر گئے وہ مکمل طریقہ کار بتاتے رہے۔ اتنی رقم نعت خواں کو دیجیے، لندن جا کر سی ڈی تیار کروائیے اور ایک کروڑ جیب میں۔ انہی دنوں مشہور نعت خواں مظفر وارثی کی خودنوشت ’ گئے دنوں کا سراغ‘ نظر سے گزری۔ وارثی صاحب نے ایک جگہ اپنی شراب نوشی کا ذکر کیا، اس علت سے وہ تائب ہوچکے تھے۔ حیرت ہوئی کہ نعت گوئی کے تعلق سے اتنا مشہور شخص اور یہ عادت ۔پھر خیال آیا کہ کم از کم مظفر وارثی میں اتنی ہمت تو تھی کہ اپنی کتاب میں اس کا اعتراف کیا۔

وقت کچھ اور گزرا، نوے کی دہائی کا ایک مشہور فنکار، گانے سے تائب ہوا ، وہ اب ٹی وی اکثر نعت پڑھتا نظر آتا ہے ۔ چند برس قبل کراچی میں یہ ہوا سی چل پڑی تھی، کئی اور گلوکار بھی گلوکاری سے گریزاں تو ہوئے لیکن روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر کے مصداق اور کچھ نہیں تو نعت گوئی کی جانب آگئے۔ ٹی وی چینلز نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ تمام فنکار اپنی گائی نعتوں میں موسیقی کے نام پر صرف دف کے علاوہ تمام آلات موسیقی کو ناجائز قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ دلچسپ امر کہ ٹی وی پر رونق افروز ہونا ان کے نزدیک سراسر جائز ہے۔

یہ جمود اس وقت ٹوٹا جب ایک روز صبیح رحمانی صاحب تشریف لائے ۔ کتابوں اور رسالوں سے لدے پھندے۔ اب جب ان کتابوں کو بغور دیکھا تو حیران بھی ہوا اور پشیمان بھی کہ میں ایسے لوگوں سے بیزار ہوا جنہوں نے سرکار دو عالم ﷺ سے وابستہ اس صنف کو بھی پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے او ر اسی کیفیت میں فن نعت گوئی کی جانب کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ کیسے کیسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی فن نعت گوئی کے سنجیدہ فروغ کے لیے وقف کردی ہے۔

ذکر ہے رسالہ نعت رنگ و نعت ریسرچ سینٹر کا۔ محترم صبیح رحمانی نے اس کا ڈول نوے کی دہائی میں اس وقت ڈالا جب نعت رنگ کا پہلا شمارہ اپریل 1995 میں شائع ہوا جبکہ 2002 میں اقلیم نعت کے زیر اہتمام کراچی میں نعت ریسرچ سینٹر کا عمل میں آیا ۔ نعت ریسرچ سنیٹر کی شاخیں بھارت اور لندن میں بھی قائم ہوچکی ہیں ۔ ان تمام کاوشوں کے پیچھے صبیح رحمانی کی کاوشیں کار فرما ہیں۔ صبیح رحمانی 28 جون 1965 میں پیدا ہوئے اور محض تیس برس کی عمر میں نعت رنگ کا پہلا شمارہ شائع کرکے عاشقان مصطفی میں نام لکھوا لیا۔

سن و ماہ اشاعت کے اعتبار سے نعت رنگ کے تاحال شائع ہوئے شماروں کی تفصیل کچھ یوں ہے:

پہلا شمارہ : اپریل 1995
دوسرا شمارہ: دسمبر 1995
تیسرا شمارہ: ستمبر 1996
چوتھا شمارہ: مئی 1997
پانچواں شمارہ: فروری 1998
چھٹا شمارہ: ستمبر 1998
ساتواں شمارہ: اگست 1999
آٹھواں شمارہ: ستمبر1999
نواں شمارہ: مارچ 2000
دسواں شمارہ: اپریل 2000
گیارھواں شمارہ: مارچ 2001
بارھواں شمارہ: اکتوبر 2001
تیرھواں و چودھواں شمارہ: دسمبر 2002
پندرھواں شمارہ: مئی 2003
سولہواں شمارہ: فروری 2004
سترھواں شمارہ: نومبر 2004
اٹھارواں شمارہ: دسمبر 2005
انیسواں شمارہ: دسمبر 2006
بیسواں شمارہ: اگست 2006
اکیسواں شمارہ: 2006
بائیسواں شمارہ: ستمبر 2011

نعت رنگ کے پہلے شمارے میں درج ہے کہ نعت رنگ کی اشاعت کا مقصد نعت نگاری کی طرف رجوع عام کے اس دور میں نعت کو رطب و یاس اور شعراءکے غیر محتاط رویوں سے محفوظ رکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔

بقول ریاض مجید:
”نعت رنگ کے کچھ مقاصد آغاز کار ہی سے اور طرح کے ہیں۔ تخلیق نعت اور تعارف شعرا و کتب نعت کے علاوہ اس جریدے نے تنقیدات نعت کے حوالے سے گراں قدر کام پیش نظر رکھا ہوا ہے۔ تنقیدات نعت کے باب میں نعت رنگ کی کارکردگی کو دیکھ کر صبیح رحمانی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔ ان کی محنت اور مختلف مسالک سے جڑے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کے شائستہ رویوں کی قدر و قیمت کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو تنقید نعت جیسے نازک مسائل سے جڑے ہوئے ہوں۔ “

نعت رنگ کے اب تک شائع ہونے والے پندرہ شماروں میں دنیا بھر کے معتبر شاعروں اور ادیبوں کے اشعار، مضامین، مقالے ، تنقید مضامین شامل ہیں۔ مذکورہ پرچے میں نعت گوئی سے متعلق اختلافی مسائل کو بھی جگہ دی جاتی ہے ۔

نعت رنگ کے وہ عنوانات جن کے تحت مضامین شامل کیے جاتے ہیں، کچھ اس طرح ہیں:
تحقیق نعت،تنقید نعت،فکر و فن، مقالات ، مدحت منظوم، تراجم، خاکہ، خطوط، فیچر، مطالعات کتب، مضا مین ، تجزیاتی مطالعے وغیرہ

ان عنوانات میں تنقید و تحقیق کی مہم کو سر کرنے کے لیے نعتیہ ادب کے جو مہم جو تلاش بسیار کے بعد ہاتھ آئے وہ ان اسماءگرامی یہ ہیں:
ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسحاق قریشی، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، پروفیسر سحر انصاری، ادیب رائے پوری، ڈاکٹر عاصی کرنالی، رشید وارثی، عزیز احسن، مولانا شاہ محمد تبریزی، پروفیسر افضال احمد، پروفیسر شبیر قادری، ڈاکٹر ہلال نقوی، مولانا سید ابو الحسن ندوی، ڈاکٹر وقار احمد رضوی، جاذب قریشی ، حفیظ تائب، سعید بدر، سید آل احمد رضوی، ڈاکٹر آ فتاب نقوی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق وغیرہ۔

تحقیق و تنقید کے عنوانات سے ہٹ کر دیگر عنوانات پر نگارشات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر اسلم فرخی، عطاءالحق قاسمی، پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق، ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی و دیگر شامل ہیں۔

نعت رنگ و نعت ریسرچ سینٹر کے بارے میں اہل علم کی آراءملاحظہ ہوں:

نعت رنگ میں نعت گوئی کے تاریخی، فکری، جمالیاتی اور فنی پہلوؤں کے بارے میں بصیرت افروز مباحث ملتے ہیں
(مشفق خواجہ)
٭
آپ نے جس سلیقے اور عمدگی سے نعت رنگ مرتب و شائع کیاہے وہ یقیننا قابل تعریف ہے۔ معیار اور حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایسا کوئی دوسرا رسالہ میری نظر سے نہیں گزرا۔
(ڈاکٹر جمیل جالبی)
٭
نعت رنگ کی جو جلدیں مجھے موصول ہوئیں انہیں تو میں انسائیکلو پیڈیا کہہ سکتا ہوں
(پروفیسر جگن ناتھ آزاد)
٭
نعت رنگ جس شان سے نکلا ہے وہ جناب آپ اور آپ کے رفقائے کار ہی کا حصہ ہے۔ جو کچھ بھی رسول عالی مقام ﷺ کے تعلق سے لکھا جائے گا وہ محترم تو ہو ہی جائے گا۔ ان معنوں میں نعت رنگ احترام سے پڑھی جانے والی کتاب ہوگی۔
(کالی داس گپتا رضا)
٭
نعت رنگ سے نعت کے ادبی پہلوؤں کے جائزے کا جو ادبی سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے ارباب نظر کو تفہیم نعت کی طرف متوجہ کردیا ہے۔
(ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی)
٭
نعت رنگ نے پرانی لکیر کو نہیں پیٹا بلکہ نعت کی پیشکش کا نیا انداز نکالا ہے۔ جب تک اس پیشکش کا اس سے بہتر نقش سامنے نہیں آتا، اس اقلیم میں اسی کا نام منور نظر آئے گا۔
(ڈاکٹر انور سدید)
٭
درج بالا آراءکے حوالے مرتب کرتے ہوئے کتاب ’ نعت رنگ اہل علم کی نظر میں‘ میں ڈاکٹر انور سدید کے مضمون سے بھی اقتباس لیا گیا۔ دلچسپ بات دیکھیے کہ نعت رنگ کے بارے میں لکھتے وقت بھی وہ ڈاکٹر سلیم اختر سے اپنے سنگین تنازعے کو درمیان میں لے آئے، کہتے ہیں:

” ڈاکٹر سلیم اختر جس ذہن کے ادیب ہیں، اس کا تذکرہ یہاں ضروری نہیں۔ غنیمت ہے کہ ایک سرکاری ابلاغی ادارے نے ان سے نعت کے موضوع پر مضمون لکھوایا اور صبیح رحمانی نے اسے نعت رنگ میں محفوظ کرلیا۔ اس مقالے سے روپے پیسے کی بو بھی آتی ہے۔لیکن ضعیف العمری قبر کا خوف پیدا کردیتی ہے۔ تو یہ خوف سیکولرازم اور اسلام گریزی کی عادت پر بھی غالب آجات ہے اور پھر کئی بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست بھی مل جاتی ہے۔ اگر سلیم اختر کو بھی جادہ مستقیم نظر آگیا ہے اور وہ زمانے اور نفع پسندی کی دھول سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں تو میں انہیں مبارکباد پیش کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان سے اگلی ملاقات اقبال ٹاو ¿ن کی عید گاہ میں ہو اور میں انہیں خدا کے حضور میں سر جھکائے ہوئے سجدہ کناں دیکھ لوں۔ اس کے بعد مجھے موت بھی آجائے تو کوئی بات نہیں۔“ (جسارت۔13 جون 1997)

ڈاکٹر انور سدید نے یہ رائے 1997 کے ایک مضمون میں لکھی تھی۔ کچھ ہی عرصہ قبل راقم کی ڈاکٹر انور سدید سے بات ہوئی تھی، ماشاءاللہ وہ صحیح سلامت ہیں ۔ چنانچہ ایک بات تو ثابت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر سلیم 1997 سے تاحال مسجد نہیں گئے ہیں۔ دونوں بزرگوں میں جس غضب کی دشمنی ہے ، اور جس طرح وہ ایک دوسرے کی جان کے درپے رہتے ہیں ، اس کو دیکھتے ہوئے تو ڈاکٹر سلیم اختر کے پاس ڈاکٹر انور سیدید سے گلو خلاصی کا ایک نہایت آسان طریقہ ہے ، بس انہیں صرف ایک بار اقبال ٹاؤن لاہور کی عید گاہ میں نماز کے لیے جانا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ راستہ دکھانے والے خود ڈاکٹر انور سدید ہی ہیں۔

نعت ریسرچ سینٹر کا پتہ یہ ہے:
بی۔ 50۔ سیکٹر ۱۱ اے۔نارتھ کراچی۔۰5858

جناب صبیح رحمانی اس بات کے خواہش مند ہیں کہ اگر کسی کرم فرما کے پاس فن نعت گوئی کے تعلق سے کوئی نادر کتاب موجود ہے تو اسے نعت ریسرچ سینٹر کے مندرجہ بالا پتے پر ارسال کردیں، کتاب کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔ کتاب ارسال کرنے سے قبل ذیل میں درج ای میلز پر رابطہ کیا جاسکتاہے:
[email protected]
[email protected]

نعت گوئی کے فن سے متلعق صبیح رحمانی کی نگرانی میں انٹرنیٹ پر چار ویب سائٹس دستیاب ہیں:
www.sabihrehmani.com
www.naatresearchcenter.com
www.naatrang.net
www.visaaleyar.com
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 279654 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.