غازی کشمیر غازی الٰہی بخش کی یاد میں

12دسمبر2011ءکو تحریک حریت کشمیر کے ایک قافلہ سالار ،جنگ آزادی کشمیر کے ایک نامور مجاہد اور تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم ستون غازی کشمیر غازی الٰہی بخش کی37ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔غازی کشمیر 12دسمبر1974ءکو صبح ساڑھے آٹھ بجے میرپور میںحرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال کرگئے۔غازی صاحب کی اچانک وفات پرجنگ بندی لائن کے دونوں طرف گہرے دکھ اوررنج کا اظہار کیا گیا۔میرپور میں یہ المناک خبر سنتے ہی تمام کاروبار بند ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے غازی منزل کی طرف رخ کیا۔ دوسرے روز گیارہ بجے پاکستان پارک میں تقریباً دس ہزا رمسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ میرپور کی تاریخ میں کسی شخصیت کے جنازے میں لوگوں کایہ سب سے بڑا اجتماع تھا۔ اپنی قبر کےلئے اس جگہ کا انتخاب مرحوم نے وفات سے چند روز قبل خود کیاتھا۔

غازی الٰہی بخش جنوری 1906ءمیں میرپور میں پیدا ہوئے تھے ۔آپ کا خاندان انیسویں صدی کے وسط میں سری نگر سے آکر میرپور میں آباد ہوا تھا اس خاندان کے بعض افراد آج بھی سری نگر (امیراکدل) میں سکھ مذہب کے پیروکار ہیں اور صراف کا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ نو مسلم خاندان کی حیثیت سے غازی صاحب کے خاندان کے افراد پرجوش مسلمان ہیں ان کے دادا میاں سخی محمد مرحوم اور والد حاجی خدا بخش مرحوم یکے بعد دیگرے میرپور کے بارسوخ ہندوﺅں کے سامنے چٹان بن کر مسلمانوں کے تحفظ کیلئے سینہ سپر رہے۔ اسلام سے اس خاندان کی گہری وابستگی اور جوش و جذبہ کایہ عالم تھا کہ ایک بار مقامی سکھوں نے شہر کے چوک میں بکرے کا جھٹکا کیا۔ غازی خاندان نے سکھوں کی اس حرکت کو مسلمانوں کی غیرت و حمیت کےلئے چیلنج تصور کرتے ہوئے اس کا یہ داندان شکن جواب دیا کہ دوسرے روز اسی چوک میں دن کے وقت گائے ذبح کی اور قصبے کے تمام مسلمانوں میں گوشت تقسیم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈوگرہ حکومت نے گاﺅ کشی کی سزا موت مقرر کررکھی تھی اس لئے اس دور میں چوری چھپے بھی گاﺅکشی کا ارتکاب ممکن نہ تھا۔غازی الٰہی بخش نے جرات، بے باکی اور حق گوئی خاندانی روایت میں پائی تھی ۔اسلام کے ساتھ گہری وابستگی اور مذہبی جوش و جذبہ بھی انہیںخاندان سے ورثہ میں ملا تھا ۔انہوں نے جب ہوش سنبھالا تو مقامی سکول میں داخلہ لیا لیکن طبعیت پڑھنے کی طرف مائل نہ ہوئی اور پہلوانی کی طرف مائل ہوگئے۔ جوان ہوئے تو کھلم کھلا ہندوﺅں کے مظالم اور ظالم ڈوگرہ اہلکاروں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی۔ جہاں کسی مسلمان کی مظلومیت کی اطلاع ملتی تو فوراً موقع پر پہنچتے اور ہندوﺅں کو ظلم کا مزا چکھاتے۔دیہات سے جو مسلمان اپنے کاموں کے سلسلہ میں شہر آتے تھے ان کے ساتھ مقامی ہندو اور ڈوگرہ اہلکار توہین آمیز اور انسانیت سوز سلوک کرتے تھے۔ لیکن غازی الٰہی بخش کا وجود ان مظلوم مسلمانوں کےلئے ایک مضبوط سہارا بن گیا۔ مقامی ہندوجوکسی کو بھی خاطر میں نہ لائے تھے غازی صاحب کے نام سے کانپنے لگتے۔ ڈوگرہ اہلکاروں نے میرپور کے ازلی سرکار پرست اور ٹوڈی مسلمان جاگیرداروں سے اس بے باک نوجوان کی شکایت کی تو ایک روز علاقہ اندربل کے جابر مسلمان ذیلدار اپنے گھوڑے پر سوار اس نوجوان کی سرکوبی کیلئے آیا۔ جب وہ میرپور پہنچا تو گھوڑے پر بیٹھے ہی غازی الٰہی بخش کو اپنے پاس بلانے کیلئے آواز دی۔ نوجوان غازی نے انہیں جواب دیا ”آپ باہر سے آئے ہیں گھوڑے سے نیچے آکر انسانوں کی طرح بات کریں“ مسلمان ذیلدار کیلئے یہ آواز نئی تھی انوکھی تھی اس نے غصے میں آکر غازی صاحب کے بارے میں بدکلامی کی اس پر غازی الٰہی بخش نے ڈوگروں کے اس ٹوڈی مسلمان جاگیردار ذیلدار کی وہ پٹائی کی کہ پھر کسی سرمایہ جاگیردار اور ذیلدار نے غازی صاحب سے اونچا بولنے کی جرات نہ کی ۔نوجوان غازی کی اس جرات مندی ‘اخلاص مندی اور دردمندی نے انہیں بہت جلد مقامی مسلمانوں کا رہنما بنادیا۔ یہ دور ظلم و تشدد اور ڈوگرہ بربریت کے عروج کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں حق کی بات کرنا مفلوک الحال مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنا غیر معمولی جرات کی بات تھی۔

جموں میں قائد کشمیر چودہری غلام عباسؒ اور ان کے بعض مخلص ساتھیوں نے جموں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو ازسرنو منظم کیا اور اس کی شاخیں جموں سے باہربھی قائم کردیں تو نوجوان غازی الٰہی بخش نے بھی میرپور میں راجہ محمد اکبر خان مرحوم اور حاجی وہاب الدین کے ساتھ ینگ مسلم ایسوسی ایشن قائم کی۔ 1931ءمیں جموں میں توہین قرآن پاک کا حادثہ پیش آیا اور سری نگر سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ حکومت نے احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر گولی چلوائی ۔اس طرح پونے دو درجن مسلمانوں کی شہادت کے ساتھ ہی تحریک حریت کشمیر کا آغاز ہوا۔ پنجاب میں اس وقت مسلمانوں کی فعال ترین سیاسی جماعت مجلس احرار نے کشمیری مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر کشمیر چلو کی تحریک شروع کی ۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان رضا کار مجلس الاحرار کے پروگرام کے مطابق ریاست میں داخل ہونے لگے ریاستی مسلمانوں نے ان رضاکاروں کے استقبال کے سلسلہ میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔میرپور ان کا مرکز تھا جہاں الٰہی بخش جو ان دنوں صرف میاں الٰہی بخش کہلاتے تھے ،نے نوجوانوں کی ایک رضاکار تنظیم قائم کی ۔وہ خود اس تنظیم کے سالار اور روح رواں تھے اور وہ سالار الٰہی بخش کے نام سے مشہور ہوگئے۔ میرپور کے مقامی مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ کھڑی کے علاقے میں احرار رضا کاروں پر ڈوگرہ پولیس نے گولی چلائی اور چنیوٹ کا ایک رضاکار الٰہی بخش شہید ہوگیا ہے تو سالارالٰہی بخش نے مقامی مسلمانوں کا ایک زبردست جلوس ترتیب دیا جو کھڑی کیلئے روانہ ہوا ۔مرحوم خود اس تاریخی جلوس کی قیادت کررہے تھے میرپور سے باہر ڈوگرہ پولیس نے جلوس کو روکا ۔رضاکار مرحوم کی ہدایت پر سڑک پر لیٹ گئے اور اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کیا ۔اس پر ہندو سپرنٹنڈنٹ پولیس راﺅ رتن سنگھ نے رضاکاروں کے ساتھ انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا جب وہ خود ایک کم سن رضاکار کو بے رحمی کے ساتھ پیٹ رہا تھا تو سالار الٰہی بخش اس ظلم کو برداشت نہ کرسکے تو انہوں نے راﺅ رتن سنگھ کے سر پر ڈنڈا رسید کیا۔ غلام قوم کے ایک فرد کی طرف سے اس جسارت پر ڈوگرہ حکومت سیخ پا ہوگئی اور سالار الٰہی بخش کو گرفتار کرکے ساڑھے چارسال قید سخت کی سزا دلائی۔قوم نے اس سزا یابی پر اپنے رہنما کو غازی کا خطاب دیا جو عمر بھر مرحوم کے نام کا لازمی جزو بنا رہا۔ غازی الٰہی بخش نے ساڑھے چار سال قید سخت کی سزا میرپور جیل، منگلا قلعہ اور جموں جیل میں مکمل کی۔ اس دوران ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ تشدد کی انتہا کردی گئی، بیدزنی تو روزکا معمول تھا انہیں کئی من وزنی کولہو کے آگے جوتا گیا لیکن غازی کا عزم متزلزل ہونے کے بجائے راسخ ہوگیا۔وہ” بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں ہر سزا کے بعد “ کی عملی تفسیر بن گئے۔

غازی الٰہی بخش جیل میں ہی تھے کہ ریاست کے قومی رہنماﺅں قائد کشمیر چودہری غلام عباسؒ اور شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے تحریک حریت کشمیر کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے منظم کیا غازی صاحب کو غیر موجودگی میں اس قومی جماعت کی جنرل کونسل کا رکن منتخب کیا گیا اور اکتوبر 1932ءمیں ریاستی مسلمانوں کے اولین سیاسی اجتماع میں غازی الٰہی بخش کی رہائی کا خصوصی طور پر مطالبہ کیا گیا۔ اکتوبر 1933ءمیں مسلم کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس غازی صاحب کے آبائی شہر میرپور میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا یہ فیصلہ بھی دراصل غازی صاحب کی منفرد جرات اور بے پناہ قربانیوں کو خراج تحسین کے طور پر ہوا تھا ۔اس سالانہ اجلاس میں بھی خطبہ استقبالیہ (جو محمد اکبر خان مرحوم نے پڑھا تھا) اور خطبہ صدارت میں بھی غاز ی الٰہی بخش کی قومی قربانیوں کا خصوصی ذکر موجود تھا۔ رہائی پر میرپور کے عوام نے اپنے رہنما کا والہانہ اور تاریخی استقبال کیا رہائی کے فورا ًبعد غازی صاحب سالانہ اجلاس میں شمولیت کیلئے سری نگر روانہ ہوئے ۔اسی تاریخی سالانہ اجلاس میں کشمیر مسلمانوں نے ریاست میں پہلی بار ذمہ دار نظام حکومت کو مطالبہ کیا ۔ واپسی پر غازی الٰہی بخش کو ضلع مسلم کانفرنس میرپور کا صدر منتخب کیا گیا ۔اس کے بعد مرحوم کواکثر قیدوبند اور زبان بندی کا سامنا رہا۔

اسی دور میں میرپور میں ایک عظیم الشان عوامی اجتماع میں غازی الٰہی بخش کو شیر میرپور کا خطاب دیا گیا۔1946ءتک غازی صاحب نصف درجن بار قید ہوئے اور 1947ءتک مرحوم واحد کشمیری رہنما تھے جنہوں نے بیک وقت ساڑھے چار سال قید کاٹی ہے۔ مسلم کانفرنس کے نشاة ثانیہ کے بعد 1942ءمیں جب نیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس میرپور میں ہوا تو غازی صاحب کی قیادت میں میرپوری مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات کے باوجود ڈوگرہ حکومت نے کوٹلی کی شاہی مسجد کو مسلمانوں کیلئے واگزار نہیں کیا تھا۔ غازی الٰہی بخش کی اسلامی حمیت اور غیرت یہ توہین کیونکر برداشت کرتی۔چنانچہ انہوں نے اس مسجد کی واگزاری کیلئے تحریک کاآغاز کیا اور اپریل 1946ءمیں رضا کاروں کا ایک جیش لے کر خود کوٹلی گئے اور اس مسجد کا تالہ توڑ کر اس کا قبضہ حاصل کیا۔س تحریک میں سینکڑوں مسلمان قید ہوئے ۔اس کے فوراً بعد کوٹلی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر پنڈت جیالعل نے آنحضرت کی شان میں توہین آمیز بات کی تو مقامی مسلمانوں نے غازی صاحب کی سرکردگی میں زبردست احتجاج کیا اور آپ پھر گرفتار ہوئے۔ان کی رہائی کے بعد جنوری 1948ءمیں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو آپ کی کوششوں سے ریاست کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار اس حلقہ (میرپور اور کوٹلی) سے مسلم کانفرنس کے امیدوار چوہدری محمد یوسف کامیاب ہوئے جبکہ ڈوگرہ حکومت کے امیدوار چوہدری عباس علی اور نیشنل کانفرنس کے امیدوار مرزا فرمان علی بمشکل اپنی ضمانت بچاسکے۔ جولائی 1948ءمیں مسلم کانفرنس کا ایک خصوصی کنونشن سری نگر میں ہوا اس موقع پر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے (ایک گہری سازش میں آکر) خودمختار کشمیر کے حق میں ایک قرارداد منظور کی تھی لیکن جب یہ قرارداد توثیق کیلئے جنرل کونسل میں پیش کی گئی تو وہاں غازی الٰہی بخش اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی کوششوں سے مجلس عاملہ کو اپنی قراداد واپس لےکر پاکستان سے الحاق کی قرارداد پیش کرنی پڑی۔
جون 1958ءمیں جب قائدکشمیر چوہدری غلام عباسؒ نے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کیلئے تحریک آزادی کشمیر (کے ایل ایم )شروع کی تو غازی الٰہی بخش مرحوم اس تحریک میں صفحہ اول کے رہنماﺅں میں تھے اور کئی ماہ تک پلندری جیل میں قید رہے۔ آپ کے دس جانثاروں کے ایک جیش نے ہی اس تحریک میں جنگ بندی لائن عبور کرائی تھی۔ قائد کشمیر چوہدری غلام عباسؒ کی وفات کے بعد آپ نے مسلم کانفرنس کی تنظیم نو کے سلسلہ میں سردار محمد عبدالقیوم خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ستمبر 1970ءمیں مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس میرپور میں ہوا تو وہاں آپ کو اتفاق رائے سے مسلم کانفرنس کا سینئر نائب صدرمنتخب کیا گیا۔ اکتوبر1970ءکے عام انتخابات میں جماعت کی کامیابی کیلئے مرحوم نے شب و روز کام کیا یہ ان کی اور ان کے مخلص ساتھیوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ضلع میرپور سے مسلم کانفرنس کے صدارتی امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ مسلم کانفرنس کی کامیابی کے بعد آپ چند ماہ تک مسلم کانفرنس کے قائمقام صدر بھی رہے، سوا سال تک حکومت آزادکشمیر میں وزیر تعمیرات و جنگلات بھی رہے اور جماعت کو ہائی کمان نے کابینہ کو ازسرنو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا تو مرحوم رضاکارانہ طور پر وزارت سے مستعفی ہوگئے۔
غازی الٰہی بخش ایک مثالی کردار کے رہنما تھے۔ آپ اپنے عظیم رہنما قائد کشمیر چوہدری غلام عباسؒ سے عقیدت اورقومی مقاصدسے ان کی گہری وابستگی مثالی اور منفرد تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ضلع میرپور میں مسلمانوں کی جدوجہدکا ہی دوسرا نام غازی الٰہی بخش تھا۔ ان کے تحریک کے کئی ساتھی مفادات کیلئے وزارت امور کشمیر اور برسراقتدار ٹولہ کے کاسہ یس بن گئے لیکن غازی الٰہی بخش نے اپنے اصولوں کی پاسداری نہیںچھوڑی ۔انہیں خریدنے کی بارہاءکوشش کی گئی لیکن خریداروں کو رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا۔مرحوم کے مخالف بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ غازی الٰہی بخش نے جماعت سے وفاداری اور اصول کی لاجواب مثال قائم کی ہے۔ غازی الٰہی بخش ایک مثالی مسلمان، درمند انسان، بااصول، نڈر، بے باک اور جرات مند رہنما محب وطن کشمیری اورپاکستان کے کٹر شیدائی تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کی وحدت پر ان کا پکا ایمان تھا اور ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان سے باوقار الحاق ان کی زندگی کا مقدس مشن تھا۔جنگ بندی لائن کے دونوں طرف تحریک حریت کشمیر کے انتہائی اہم مخلص اور نمایاں ایک درجن رہنماﺅں کی فہرست میں غازی الٰہی بخش مرحوم کا نام نمایاںہے۔تحریک آزادی کشمیر کی گھمبیر صورتحال اور آزاد کشمیر کا تحریکی امور کر نظر انداز کر کے مقامی معاملات اور جھگڑوں میں ملوث ہوتے ہوئے آزاد کشمیر کے بنیادی کردار اورتشخص کو زک پہنچانے ووالی صورتحال میں غازی الہی بخش مرحوم کی جرات مندی ،بے باکی اور عزم غیر متزلزل ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614408 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More