)یہ کہانی ان بے قصور نوجوانوں
کی حقیقی مگر مظلومانہ کہانیوں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جنہوں نے ناکردہ
گناہوں کی سزاپائی اور اس طرح پائی جس طرح کوئی کردہ گناہوں کی سزابھی نہیں
پاتا۔جنہیں راہ چلتے سے اٹھایا گیا اور ان کے ناپختہ جسموں پر ابوغریب اور
کیوبا کے عقوبت خانوں کی ابلیسی تاریخ کو دہرایا گیا۔)
آج اسکول کے لیے خوامخواہ تاخیر ہوگئی حالانکہ گھر پر کوئی ایسا اہم کام نہ
تھاجو تاخیر کی جائز وجوہات میں شامل ہوسکتا تھا۔جب کبھی خوامخواہ تاخیر
ہوجاتی ہے تو مجھے سخت جھنجھلاہٹ محسوس ہوتی ہے۔میں گاڑی سے اتر کر تیزی سے
استقبالیہ کی طرف بڑھی، استقبالیہ میں کئی عورتیں جو اپنے بچوں کی اسکول
فیس جمع کروارہی تھیں اس طرح محو گفتگو تھیں اور جلدی جلدی اپنے منہ کی
باتیں پوری کر رہی تھیں، گویا اگر یہ موقع گزرگیا تو جیسے سب کچھ گزر جائے
گااور جو کچھ باقی بچے گا وہ بجز کچھ نہیں کے اور کچھ نہ ہوگا موضوع گفتگو
شاید مرد وں کی ذات تھی۔
میری آہٹ پاکر سب خاموش ہوگئیں اور رسپشنسٹ قلم ہاتھ میں لیے لئے صنوبر کی
طرح سیدھی کھڑی ہوگئی۔ میں نے استقبالیہ کاؤنٹرکے عقب میں کھڑی نادیہ کے
نصف بالائی حصہ پر اوردوسری جانب صوفے پربیٹھی ہوئی عورتوں کے چہروں پر ایک
طائرانہ نظرڈالی اور تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ کچھ تو دیر
ہوجانے کے باعث اور کچھ اس باعث کہ میری آمد کی آہٹ کے احساس نے استقبالیہ
پر خاموشی طاری کردی تھی ، میں ٹھیک سے نہ کچھ سن پائی اور نہ کچھ دیکھ سکی
، اتنی عجلت میں جو کچھ سننے اور دیکھنے کو مل سکا وہ بس کھی کھی کھی کھی
کی دم توڑتی ہوئی ہلکی آوازیں اور زیر لب مسکراہٹیں تھیں۔ بعد میں نادیہ نے
میرے استفسار پر ساری تفصیل بتائی۔
” مردوں کو تو بس ایک ہی کام آتا ہے“
نادیہ کی زبان سے یہ اور اس جیسے جملے سن کر میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی
پھٹی رہ گئیں۔ جب وہ ماحصل بیان کررہی تھی تو خود اس کے ہونٹوں پر بھی کسی
نقرئی خواب جیسی شرمیلی اور دبی دبی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی حالانکہ وہ
ابھی نو عمر تھی اور زندگی اور زندگی کو جنم دینے والے بیشتر تجربات سے
نہیں گزری تھی۔
مجھے یہ موضوع کبھی بھی پسند نہیں رہا، نہ پڑھائی کے زمانے میں جب اکثر
لڑکیاں زیادہ تر مردوں کی باتیں کرتی تھیں،کٹھی میٹھی اور کڑوی کسیلی اور
نہ ہی اِس وقت مجھے اس سے کچھ خاص رغبت ہے جب میں دو بچوں کی ماں ہوں اور
شہر کے پوش علاقے میں اردومیڈیم اسکول کی پرنسپل بھی۔مجھے تو تمام مرد اپنے
شوہر کی طرح لگتے ہیں سیدھے سادے اور کام سے کام رکھنے والے۔جو پکا دیا وہ
کھالیا اور جو کہہ دیا وہ کرلیا۔فارغ اوقات کے لئے کرکٹ اور فلمیں بہت کافی
ہیں کہ وہ ان سے دل بہلائیں اور بلاوجہ کی بیزاری اور تنہائیوں کی مار سے
بچے رہیں۔
”آج پکانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کیا پکاؤں، کوئی سبزی وبزی ہی لادیتے اور
ہاں کریلے تو لانا مت اور ٹنڈے بھی مت لانا آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں“
میرے منہ کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوپاتی ہے اور وہ ہیں کہ یہ جا اور وہ
جا۔
”ارے تیل کو کہنا تو بھول ہی گئی تیل اور ہاں گھی بھی توبالکل ختم ہوگیا جب
آپ چلے گئے تو یاد آیامیں بھی کتنی بھلکڑ ہوں“جب وہ بازارسے ہانپتے کانپتے
لوٹتے ہیں تو میں ان کے سامنے دوسرا سوال رکھتی ہوں اور وہ ذرادیر میں
نظروں سے غائب۔اورسکینڈ کی سوئی ابھی پورا ایک چکر بھی نہیں لگا پاتی اور
تیل اور گھی حاضر۔
مجھے تو ایسے ہی مرد اچھے لگتے ہیں۔اور میں انہیں ’روبومرد‘ کہتی
ہوں۔کیونکہ وہ روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا زیادہ سہل
ہے۔
شوہر کا خیال آیا تو ان کے ساتھ بتائے ہوئے تمام سہانے پل بھی ایک ایک کرکے
یاد آنے لگے۔اور میں ان میں جیسے کھونے لگی مگر یہ کام کا وقت تھا اور مجھے
یہ گوارہ نہیں کہ کوئی میرے کام میں رخنہ اندازی کرے چاہے وہ میرے سرتاج ہی
کیوں نہ ہوں یا پھران سے جڑی ہوئی تمام کھٹی میٹھی اور خوشگوار یادیںمیں نے
سر کو ہلکی سی جنبش دی ،سرتاج اور ان سے جڑی ہوئی کھٹی میٹھی یادیںذہن کے
دریچہ سے دور چوبارے پرجاپڑیں اور میں ہفتہ بھر سے رُکا ہوا کام نمٹانے میں
جٹ گئی۔
٭٭٭
”مردوں کو تو بس ایک ہی کام آتا ہے“ جب سے مجھے یہ تبصرہ سننے کو ملا ہے تب
سے تمام مرد بےچارے سے دکھائی دینے لگے ہیں اس کے بعد سے جب بھی میں بازار
جاتی ہوں، کسی تقریب میں شرکت کرتی ہوں یا شرارتی بچوں کے باپ ان کی
شکایتیں لے کر اسکول آتے ہیںتو ان کے چہروں کو غورسے دیکھتی ہوں۔ چلتے
پھرتے،اٹھتے بیٹھتے اور نہاتے دھوتے تمام مردوں کے چہروں پر بیچارگی کی ایک
موٹی تہہ نظر آتی ہے ۔ میں اپنی نظر اور دماغ کی پلکوں پر اس موٹی تہہ کو
اٹھائے گھر واپس لوٹتی ہوں۔تکان اور نقاہت کے احساس سے خود کوبوجھل محسوس
کرنے لگتی ہوں۔ جیسے برسوں کی بیماری سے اٹھی ہوں اور آج ہی غسل صحت کیا ہے
۔
”مگر کسی ایک کام کا آنا تو اچھی بات ہے بہ نسبت اس کے کہ کسی کو کوئی ایک
کام بھی نہ آتا ہو۔“ رات کے پچھلے پہر جب میں نے ان مردوں کے بارے میں سوچا
جو بیچارے اس ایک کام کے بھی اہل نہیں، تو میری روح کے مسامات سے پسینہ
چھوٹنے لگا ، مجھے ان کی بیچارگی در بیچارگی پر بڑا ترس آیا۔مجھے لگا جیسے
میرے سرتاج ان بے مصرف لوگوں کی بھیڑ میں اکیلے ہیں، اپنے سر پر مردانگی کی
چھتری تانے ہوئے اوردل کے دامن پر مصروفیتوں کی جنتیں سجائے ہوئے۔
”مگر بیچارہ عشق“میری فکر بیچارگی کے پاتال میں اترنے لگی، جیسے لال
چیونٹیاں اپنے بلوں کی تاریک گہرائیوں میں اترتی ہیں، دھیمے دھیمے اور قطار
اندر قطار۔بیچارہ عشق !!
پچھلے دنوں جب میں نے اپنے شہر کے ایک حکیم سے پوچھا تھا کہ عشق بیچارہ
کیوں ہے ؟ تو اس نے بتایاتھا کہ عشق بیچارہ اس لیے ہے کہ وہ بھیس نہیں
بدلتا ۔ نہ وہ یہ کرنا چاہتا ہے اور نہ کرسکنے کی سکت رکھتا ہے، کیونکہ نہ
تو وہ ملا ہے، نہ زاہد اور نہ حکیم۔تب سے مجھے عشق بڑا بیچارہ بیچارہ سا
دکھائی دینے لگا تھا۔اور اُس وقت پہلی بارمجھے اپنی ذات کے تعلق سے یہ
خوشگوار احساس ہواتھاکہ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ میں نے اپنی ٹانگ عشق کے
غلیظ پھندوں میں نہیں پھنسائی۔یا میرے اوپر یہ افتادہی نہ پڑی۔ ’بیشک اللہ
جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے‘۔
بیچارگی کے پاتال میں اترتی ہوئی میری فکر جب گارے جیسی لسلسی مٹی کی گداز
تہہ پر جاکر اس طرح بیٹھ گئی جس طرح بڑے بڑے پنکھ اور لمبی دم والی زہریلی
اسٹنگریز پانی کی گہرائیوں میںبیٹھا کرتی ہیں تو مجھے ایسے تمام مردبڑی شدت
کے ساتھ یاد آئے اور ان بیچاروں کی بیچارگی پر رونا آیاجن بیچاروں کو”وہ
ایک کام“ بھی نہیں آتا اور اوپر سے عشق کے غلیظ پھندوں میں اپنے چاروں ہاتھ
پاؤں پھنسالیتے ہیں۔
”ان کے لیے سب سے بہتر تعبیر کون سی ہوسکتی ہے؟“ میں نے شہر کے حکیم سے
پوچھا حالانکہ میں اس کے پاس نہ جانے کا فیصلہ لے چکی تھی۔مگر یہ بات ہی
کچھ ایسی تھی کہ مجھے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔
”سب سے بہتر تعبیر؟ہوں“اس نے شہادت کی مخروطی انگلی اپنے سیاہی مائل ہونٹوں
پر رکھی۔
”بیچارے نامرد عاشق“
”یقینا“مجھے عجیب سی خوشی کا احساس ستانے لگا ۔شاید اس لیے کہ اس نے میرے
دل کی بات کہہ دی تھی۔
میں وہاں سے اٹھ آئی اور پھر کبھی اس کے پاس نہ جانے کا عہد اپنے من میں از
سر نو استوار کیا۔کیونکہ اب مجھے عشق ، عاشق،معشوق اور عشق کی تشریح کرنے
والوں سے بیزاری ہونے لگی تھی۔
’ ’ بےچارے نامرد عاشقیہ محض عشق کرسکتے ہیں مگر عشق کے حقوق ادا نہیں
کرسکتے۔“
میری فکر ایک بار پھر نامرد عاشقوں کے نامراد کرب سے جھوجھنے لگی۔
ایک بار میری ایک دوست نے مجھے بیچاری کہہ دیا ۔اب مجھے یاد نہیں رہا کہ وہ
کیا پس منظر تھا۔ یقین مانئے مجھے بہت غصہ آیااور میں اپنے آپ کو بھی اس
عاشقِ نامرادکی جگہ محسوس کرنے لگی جسے عورتوں کی نظر میں بس ”ایک ہی کام“
آتا ہے ۔
عبداللہ مجھے اسی لئے بےچارہ سا لگنے لگا تھا کہ اس کے بارے میں عورتوں میں
یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ اسے ”وہ ایک کام بھی“ نہیں آتا۔اول اول یہ راز
کی بات صرف ان عورتوں کی گھسر پسر میں سنی گئی جو وقت اور حالات کی مار
جھیلتے جھیلتے اوّل نمبراینٹ کی طرح پک چکی تھیں اور زندگی کے ہر تجربے سے
گزرنے کی وجہ سے ان کی حیاسربرہنہ ہوگئی تھی۔ جب یہ راز کی بات پکی ہوئی
عورتوں کی کانا پھونسی سے نکلی تو نوعمر اور کھلنڈری لڑکیوں کے کانوں تک
جاپہونچی ، انہوںنے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، جھٹ آس پاس کے گھروں کی اونچی نیچی
دیواریں پھلانگ گئیں اور نوبیاہتا دلہنوں کے کان بھردئے ۔
٭٭٭
”ایک بات بتاؤں وہ آپ“ رخسار نے اپنے خاوند کو کچھ اس طرح مخاطب کیا کہ اس
کے من کی ساری کلیاں دم کے دم میں کھل کر گلاب ہوگئیں۔
”ہاں ہاں بتاؤ۔“ اس نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا۔
اس وقت رخسار کے گال وفورشوق سے تمتما رہے تھے۔ویسے وہ تھی بھی کچھ سیب کی
طرح کی رنگت والی،موسم سرماں کی روپہلی دوپہروں میں جب وہ نہا دھو کر اپنے
آنگن میں دھوپ سینکنے بیٹھا کرتی ہے تو اس کے خدوخال سے اسی طرح شعلے
بھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیںجس طرح پت چھڑ کے موسموں میں چنار کے دیو ہیکل
درختوں کے کیسری پتے شعلوں کی مانند بھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ میرا بس
چلے تو میں اسے دہکتے ہوئے سرخ انگارے سے یا لپکتے ہوئے شعلے سے تشبیہ
دوں،مگر مجھے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے آگ کے پچاری برہم ہوجائیں گے، کہ نار
سے ناری کو کیا نسبت؟۔
مگر عبداللہ کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا ،اس نے سوچا کہ اس بار
رخسار کو”کچھ“ہے؟ اس خوشخبری کو سننے کے لیے وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے دن ہی
نہیں بلکہ لمحے گن رہا تھا۔اس کا داہنا ہاتھ بے اختیار رخسار کے پیٹ پر
چلاگیا۔اور رخسار اپنی دیگر چھوٹی بہنوں کی مودجوگی میں اس قدر شرمائی کہ
اس کے لیے وہاں ٹہرنا بھی مشکل ہوگیا۔
اس کے چہرے پر کئی سارے رنگ یکے بعد دیگرے چڑھے اور اتر گئے اور اپنے پیچھے
ایک انجانے خوف کاکالاسایہ چھوڑ گئے۔
”کیا میں کبھی باپ نہیں بن پاؤں گا“ اسے جھرجھری آگئی۔
شکیل اپنے بھاری بھرکم ڈیل اور لال پیلی آنکھوں کے ساتھ اس کے سامنے آکھڑا
ہواجیسے اس کے من میں کسی انتقام کا سودا سمایاہوا ہو۔
جب دو سال تک شکیل کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تو اسے اپنے سیانے دوستوں
کی تیکھی نظروں، تعلق والی سجیلی عورتوں اورکھلنڈری لڑکیوں کی خنجر جیسی
زبان کا سامنا ہونے لگا ۔جب وہ منہ پھیر تا یا پشت گھماتا تو اس کی سماعتوں
سے بعض نسوانی اور مردانی آوازیں ٹکراتیں،اس کے معا بعد دوپٹہ منہ پر رکھ
کر نکالی جانے والی کھی کھی کھی کھی کی آوازیں سنائی دیتیں،وہ ٹھیک سے کچھ
بھی نہ سمجھ پاتا پر اسے ایک قسم کی دل آزاری کاخیال گزرتا ۔
ایک بار تو حد ہی ہوگئی ،جب اس پربھری محفل میں آوازے کسے گئے۔
”نامرد“
یہ عبداللہ تھا جو محفل کے ایک نسبتا تاریک گوشے سے چلایا اورکتّا بنے بنے
پیچھے سے کھسک لیا۔وہ تو اچھا ہوا کہ اس کی بناوٹی آواز پہچانی نہ جاسکی،
نہیں تو شکیل کے ایک ہی مکے میں اس کے سارے دانت باہر ہوتے۔
اب وہ تین بچوں کا باپ بن چکا تھااور راستے اور گلیوں میں سینہ چوڑا کرکے
چلتا تھا۔اب عقبی راستوں اور چور دروازوں سے آنے جانے کی وجوہات ختم ہوچکی
تھیں۔اب اس کی پشت کی جانب سے سجیلی عورتوں اور کھلنڈری لڑکیوں کی کانا
پھونسی پر مبنی مبہم آوازیں بھوتوں کی طرح غائب ہوچکی تھیں۔جو صرف ڈراؤنے
خوابوں میں نظر آتے ہیں یا پھر وہم وگمان کی دنیا میں۔
عبداللہ کی آنکھوں میں چار سال پہلے والی اُس بھیگی بھیگی شام کا منظرایسے
ابھرنے لگا جیسے یہ آج کل ہی کی بات ہو۔اس کے کانوں میں سنسناہٹ دوڑنے لگی
اسے خیال گزرا کہ وہ بھری بزم میں مرکزی مقام پر بیٹھاہےاور ہال کے نیم
تاریک گوشوں سے نامردنامردنامرد کی بے شمار آوازیں اس کے کان کے پردوں کو
پھاڑے دے رہی ہیں۔اور بہت سارے لوگ کتّے بنے بنے عقبی دروازوں اور چور
راستوں سے کھسک رہے ہیں۔
”ارے رے رکو تو سہی کہاں بھاگی جارہی ہووہ بات تو “
عبداللہ ہکلاتا رہ گیا اور رخسارننگے پاں کچن کی طرف بھاگ گئی۔
٭٭٭
”کیا بات ہے پچھلے کچھ دنوں سے کچھ خاموش خاموش سی لگ رہی ہوسب ٹھیک تو ہے
نا؟؟“ آج اسکول سے واپسی پر جب میں گھر پہونچی تو سرتاج نے میرے اندر
تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔پہلے تو میں نے ٹالنا چاہا مگر پھر
سرتاج کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔اور پھر انہیں ان عورتوں کی ساری گفتگو
جو مجھےنادیہ نے بتائی تھی من وعن سنادی۔
”ہاہاہاہاہاہا تو ہماری موہنی کو اتنی سی بات نے غمزدہ کردیا ہے“وہ عجیب سی
ہنسی ہنسے۔اس سے پہلے میں نے انہیں اس طرح ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
”تم کیا جانو کہ کونسی بات اتنی سی ہے اور کونسی اتنی سی نہیں ہے۔ تم موٹی
کھال کے آدمی جو ٹہرے۔“میں من ہی من میں دیر تک جانے کیا کیا بُدبُداتی
رہی۔میں نے ان کی طرف کنکھیوں سے دیکھا وہ بدستور ہنسے جا رہے تھے۔
”اور میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے“ اس سے پہلے کہ وہ مستی کے موڈ میں
آتے میں سالن جلنے کا بہانہ کرکے ان کے پہلو سے اٹھ گئی اور کچن میںجا
گھسی۔
”سرتاج بے چارے کیسے ہوسکتے ہیں میں ان کے بارے اتنا کچھ جانتی ہوں جنتا وہ
خود بھی اپنے بارے میں نہیںجانتے۔وہ تو ہر کام میں ماہر ہیں ہر فن مولاادھر
کام بتایا اور ادھر کام پورا۔تھنک دی ڈیول اینڈ ڈیول از ہئر۔اور مرد اتنے
پھرتیلے کہاں ہوتے ہیں۔وہ موٹی کھال کے ضرور ہیں مگر بیچارے ہرگز نہیں
ہیں۔“میرے دماغ کی سوئیاں ایک بار پھر تیزی سے گھومنے لگیں۔پتہ نہیں ان میں
ایسی کیا بات ہے کہ میں جب بھی ان کے بارے میں سوچتی ہوں تو سوچ کا عمل برق
رفتار ہوجاتاہے ۔
٭٭٭
اس سے پہلے میں نے کسی بھی آدمی کو بیچارہ محسوس نہیں کیا تھا یہاں تک کہ
عبد اللہ کو بھی نہیں۔ حالانکہ وہ ایک مسکین باپ کی اولاد تھااور خود اس کی
صورت سے بھی مسکینیت ایک بارٹپکنے کے بعد تا دیر اسی طرح ٹپکتی رہتی تھی جس
طرح برسات کے دنوں میں اولتی دیر تک ٹپکتی رہتی ہے۔
اس نے کبھی کوئی کام ڈھنگ سے نہ کیا ، اسے باتیں بنانا بھی نہیں آتا تھا،
شاطر اور چالاک ذہن کے لوگ کمائی کے راستے ڈھونڈلیتے ہیں مگر وہ تھا کہ خرچ
کرنے کے بہتر طریقے بھی نہیں ڈھونڈپاتا تھا۔اکثر الٹی سیدھی چیزیں خرید
لیتا۔اسے زیادہ ضروری اور کم ضروری چیزوں کے درمیان ترجیح دینے کا فن بھی
نہیں آتا تھا۔اور تو اور اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھاکہ بڑے لوگوں سے کس
طرح بات کی جاتی ہے، وہ مجھ سے بھی الٹے سیدھے لہجے میں بات کرتا تھا۔مجھے
کبھی کبھی اس کی بے تکی باتوں اور الٹی سیدھی حرکتوں پر غصہ بھی آجاتا
تھامیری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ بزرگوں کی مجلسوں میںآتا جاتا رہے
اور ادبی نشستوں میں اٹھتا بیٹھتا رہےخاص کر اپنے شہر کے حکیم کے پاس ضرور
آیاجایاکرےمیں نے اس کو اردو زبان وادب کی کئی ساری ابتدائی کتابیں بھی
لاکر دیں تاکہ ان کے مطالعہ سے اس کی فکر میں نکھار پیدا ہو اور اس کی زبان
میں شفافیت آئے اور شیرینی پیدا ہومگر وہ تو جیسے کورے گھڑے کی مانند تھا ،
اس نے بڑی مشکل سے دوچار خوبصورت الفاظ سیکھے جیسے خوش آمدید، تشریف رکھئے،
نوش کیجئے ، ملاحظہ فرمائیے اورشب بخیر وغیرہمیرے غریب خانے پرجب بھی کبھی
آسمان ِادب کی بزرگ ہستیاں قدم رنجا فرماتیں اوراس کی زبان سے اس طرح کے
خوبصورت الفاظ سنتیں تو خوشی کا اظہار کرتیںمگر میں اسے زیادہ دیر ان کے
پاس ٹہرنے نہ دیتی اور کام کے بہانے ادھر ادھر بھیج دیتی اس کے اندر اور
بھی بہت ساری ایسی کمیاں تھیں جو اسے کمزور شہری بناتی تھیں،پر اس کے
باوجود میں نے اس کو اس طرح نہیں دیکھا تھااور اس کے چہرے پر بیچارگی کی
کوئی موٹی یا پتلی تہہ مجھے کبھی نظر نہیں آئی تھی۔حالانکہ مجھے معلوم تھا
کہ اس کی شادی کو قریب تین سال ہونے کو آتے ہیں اور ابھی تک رخسار کی گود
ہری نہیں ہوئی۔
مگر آج شام جب وہ میرے گھر آیا تومیں نے اس کی نظریں بچاکر اس کو غورسے
دیکھا۔مجھے وہ بیچاروں کا بیچارہ نظرآیا۔یہاں تک کہ میں خود بھی سوچ میں
پڑگئی کہ یہ کہیں میرا وہم نہ ہو۔میں نے دوبارہ اس کے سراپا پر نظر کی، اس
کی کنپٹیوں کی لو کو دیکھا جو دھوپ کی تمازت سے سرخ ہورہی تھیں اور اس کی
نظروں کو پڑھنے کی کوشش کی جن میں ابھی تک جوانی کی چمک تھی، میں نے محسوس
کیا کہ بیچارگی کی ایک موٹی تہہ اس کے سارے وجود سے لپٹی ہوئی ہے۔
عبد اللہ ،سائرہ بانوں کااکلوتا بیٹا تھا، ہم دونوں پچپن کے دوست تھے، ایک
ہی محلے میں پلے بڑھے اور ایک ہی اسکول میں پڑھنا لکھنا سیکھا۔سائرہ بانوں
اپنے شوہر کے ساتھ کافی خوش تھی ، لیکن جب اس نے عبداللہ جیسے خوبصورت لڑکے
کو جنم دیا تو اس کی خوشیوں کو مانو پر لگ گئے ۔دن گزرتے گئے اور وہ دونوں
زندگی کی پرپیچ پگڈنڈی پر ہشاش بشاش آگے بڑھتے رہے ۔پھر ایک دن جب خوشیاں
دوسری بار اس کے آنگن میں رقص کرنے کو بے تاب تھیں، اس نے ایک زور دار چیخ
ماری اورپھر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ڈاکٹر نہ زچہ کو بچا سکے اور نہ بچے
کو۔عبد الحمید کی دنیا اندھیری ہوگئی ، وہ کچھ دنوں زندگی کی پرپیچ پگڈنڈی
پر ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا اور بالآخرایک دن جب سورج اپنی بھر پورجوانی کا
جوبن بکھیر رہا تھاعبدالحمید ہائی وے پر ایسی حالت میں پایا گیاکہ اس کے
جسم کے اکثر حصوں کو تارکول کی کالی سڑک سے کھرچ کر جمع کیا گیا۔
اب اس بھری پری دنیا میں میرے سوا عبداللہ کا اور کوئی نہ تھا۔میں نے اپنی
بساط کی حد تک اسے پڑھانے کی کوشش کی مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ اس کو
پڑھائی میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے تو میں نے سرتاج سے کہہ کر
دہرادون میں ان کے ایک بہت قریبی دوست کی فیکٹری میں چھوٹے موٹے کام پر
لگوادیا۔جب وہ ذرا ہوشیا ر ہوگیا اور اس نے اپنی معمولی تنخواہ سے تھوڑا
بہت پس انداز کرلیا تو میں نے اس کی بچپن کی دوست رخسار کے ساتھ باندھ
دیا۔اور اس طرح ایک اجڑا ہوا گھرایک بار پھر بسنے کی شاہراہ پر چل
نکلاتھا،ایسا میں سمجھ رہی تھی مگر عبداللہ کو جس کے سرسے کئی قیامتیں پہلے
ہی گزرچکی تھیں مزید اور کئی قیامتوں کو گزرنا تھا،ایسا قدرت کا فیصلہ تھا۔
پھر کئی سارے دن یکے بعد دیگرے اس طرح گزرتے چلے گئے جس طرح لمحے گزر ا
کرتے ہیں۔عبد اللہ اپنے کام پر دہرادون چلا گیااورمیں رات دن بیچارگی کی
فکرسے جوجھتی رہی۔اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول آتے جاتے جتنے بھی مرد نظر
آتے میں ان کے چہروں کو اس وقت تک تکتی رہتی جب تک مجھے یہ خبر رہتی کہ یہ
ابھی میرے دیکھنے سے بے خبر ہیں۔ مجھے ان کے چہروں پر بیچارگی کی موٹی تہہ
نظر آتی ، یہاں تک کہ میں اپنی اس عادت سے اکتا گئی اور میں نے ان کے چہروں
کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا، جب کسی مرد سے بات کرنا ناگزیر ہوتا توزیادہ تر
اپنے اور اس کے پیروں کو دیکھتی رہتی ۔اور اس طرح بیچارگی کی فکر سے بچنے
کی کوشش کرتی ۔مگر اب یہ ساری کوشش بے کار تھی کیونکہ اب بیچارگی ان کے
سارے وجود میں سما چکی تھی۔اب میری حالت اس شخص کی سی ہوگئی جس کے لیے اس
دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ رہ گئی ہو۔اب میں جس طرف بھی نظر کرتی مجھے
بیچارگی کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آتا،یہاں تک کہ میں اپنے لقموں اور پانی
کے گھونٹوں میں بھی بیچارگی کو اپنے اندربھرنے لگی۔اس وقت مجھے احساس ہوا
کہ مجھے اپنی دوست کی بات کا برا نہیں ماننا چاہئے تھا۔ میں بیچاری نہ سہی
پر بیچارگی کی زندہ تصویر تو بن ہی چکی ہوں۔
اسکول اور بازا ر سے لوٹتی تو ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتی مگر بیچارگی تھی کہ
وہ یہاں بھی پیچھا چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ٹی وی اسکرین پرڈوبتے ابھرتے تمام
مردانہ خاکے اور تصویریں بیچارگی کے باعث بے رونق معلوم ہوتی تھیں، جبکہ
زنانہ تصویریں اورخاکے ہرے بھرے معلوم ہوتے تھے۔جیسے بہار یں مانگ بھر آئی
ہیں اور باغ میں کوئل کوک رہی ہے۔
ادھر ایک ماہ سے تمام نیوز چینل پر ملک کے کئی بڑے شہروں میں سیریل بم
بلاسٹ کی خبریں زیادہ جگہ پارہی تھیں۔گھروں میں رکھے ہوئے رنگین ٹی وی سیٹس
اپنے ہی مکینوں پرآگ برسا رہے تھے۔ مختلف شہروں سے کئی ملزموں کو پکڑا گیا
تھا ان سب کے نام جانے پہچانے لگتے تھے۔ ان کے منہ کالے کپڑے سے ڈھکے ہوئے
تھے اور ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دئے گئے تھے ، نہ وہ بول سکتے تھے
اور نہ کوئی اشارہ کرسکتے تھے ۔اور ٹی وی اینکران میں سے ایک کی طرف اشارہ
کرکے باربارچیخ چیخ رہا تھا ” سیریل بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کوپکڑلیاگیا
ہے اور یہ پولیس کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہےیہ جو درمیانے قد کا لڑکا ہے
یہی ہے وہ دہشت گرد اور سیریل بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈاس کا نام عیدو ہے
پولیس نے اسے پونے سے گرفتار کیا ہےمعتمد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ عید
کے دن پیدا ہوا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام عیدو پڑگیایہ وہ ہے اور یہ
وہ ہے“
نیوز چینل رات دن زہر اگل رہے تھے اور یہ زہرٹی وی سیٹ سے نکل کربھاپ اگلتی
ہوئی میری گرم کھوپڑی میں قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا-
میں اس طرح کی خبریں اس وقت سے سن رہی تھی جب میں ابھی یونیورسٹی میں ہی
تھی ۔ اورمجھے ایسی خبروں سے شروع ہی سے نفرت تھی۔
آج ایک ماہ گزرجانے کے بعد بھی جب سبھی نیوز چینلوں پر اسی طرح کی نیوز
سنیں تو میں نے جھنجلاہٹ کے عالم میں ٹی وی بند کردیا اورپلٹ کر سرتاج کو
دیکھا اب وہ بھی پہلے جیسے دکھائی نہ پڑتے تھے۔ مجھے لگا کہ ان کے اندر کسی
چیز کی کمی بڑھ رہی ہےشاید مردانگی کی مگر نہیں ان کی تو ساری میڈیکل
رپورٹیں اوکے ہیں۔ان میں ایسی کوئی کمی نہیں۔
پھر ایک دن جب میں اپنے گھر میں گلاب کے پودوں کو پانی دے رہی تھی مجھے
اطلاع ملی کہ عبداللہ باپ بن گیا ہے۔یقین جانئے مجھے یہ سن کر دہری خوشی
ہوئی ایک تو بچے کی پیدائش کی اور دوسرے اس بات کی بھی کہ اب وہ سجیلی
عورتوں اور نئی نویلی دلہنوں کی کھسر پسر اور کاناپھونسی کا موضوع نہیں بنے
گا۔اور اب کبھی بھی اس کے عقب سے پہلے کی طرح مردانی اور نسوانی آوازیں
نہیں آئیں گی جو اس کے لیے دلآزاری کا باعث بنتی تھیں۔اور وہ دن بھر
سویاسویا سا اور کھویا کھویا سارہتا تھا۔
عبد اللہ کا ادھر ایک ماہ سے کوئی اتہ پتہ نہ تھا، اس کا موبائل فون بند
تھا اور فیکٹری کے مالک نے بتایا تھا کہ وہ تو یہاں سے ایک ماہ کی چھٹی
پرگیا ہوا ہے۔
میں دل ہی دل میں اس کے لئے خیرو عافیت کی دعامانگنے لگی۔رخسار کا تو عجب
حال تھا ایک طرف اس کے گھرمیں چاندنی جگمگا رہی تھی اور دوسری طرف اس کے من
کی دنیا میں تاریکی آہستہ آہستہ پیر پسار رہی تھی۔اگر وہ اس وقت زچ خانے
میں نہ ہوتی تو اس کے نام سے سینکٹروں نفل پڑھ ڈالتی،ختم خواجگان کا اہتمام
کرتی اوراپنے محلے کی مولوَن سے فال کھلواتی۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرااضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ میراخیال نہ جانے کیوں
اس درمیانے قد کے لڑکے کی طرف بار بارجارہا تھاجس کے منہ پر کالا کپڑا لپٹا
ہوا تھا اور اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔کاش اس کامنہ کھلا ہوا
ہوتا اور وہ بتا پاتاکہ شہلا آنٹی اور رخسار جانُوں’میں آپ کا عبداللہ نہیں
ہوں‘۔پھر اس خیال کومیں اپنی حماقت سمجھ کر جھٹک دیتی ۔کچھ دیر ذہن ادھر
ادھر کے کاموں میں مصروف رہتا اور اتنی دیر تک دل کو ذراسکون رہتا اور پھر
یکایک خیال کی سوئیاں کالے کپڑے پر ٹھیک ناک کے دائیں بائیں دو چھوٹے چھوٹے
سراخوں پر جم جاتیں، مجھے لگتا کہ یہ آنکھیں مجھ سے مدد کی بھیک مانگ رہی
ہیں۔
پھر ایک دن جب سورج بادلوں کی اوٹ میں منہ چھپائے ہوئے تھا عبداللہ آگیااس
کو دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔یہ وہ عبداللہ نہیںتھااس کے کپڑے گندے تھے اور
وہ سالوں کا بیمار لگ رہا تھا جیسے برسوں سے کومہ میں پڑا ہوا آدمی اچانک
چلنے لگے۔
عبداللہ آگیا تھا میرے لیے یہ بھی بہت تھا ، رخسار زچخانہ کی تکلیف بھول
گئی اور اس سے لپٹ کر بے تحاشہ رونے لگی۔
عبداللہ آگیا تھا مگر آدھا ادھوراوہ نو ماہ قبل جس طرح دہرادون گیا تھا اس
طرح واپس نہیں آیا تھاپچھلے ایک ماہ میں اس نے جتنے عذاب جھیلے تھے اتنے
عذاب تو کسی کو سات جنموں میں بھی نہیں جھیلنے پڑتے اسے شام کے چھٹپٹے میں
راہ چلتے سے اٹھایا گیااس پر دنیا بھر کے الزام لگائے گئےذہین، شاطر، چالاک
یہاں تک کہ سیریل بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ بھی بتایا گیا جھوٹے کاغذات پر
دستخط کرانے کے لیے دردناک اذیتیں دی گئیں۔اور جب وہ ادھ مرا ہوگیا ، اور
پولیس کو لگا کہ یہ اب گھنٹے دو گھنٹوں کا مہمان ہےتو پولیس کسٹڈی میں ملزم
کی موت کے خوف سے اسے سنسان جگہ پرچھوڑدیا۔
مجھے رخسار نے بتایا کہ وہ پورے طور پر واپس نہیں آئےاور اس نے نظریں
جھکالیں پھر جانے کیا ہوا اس پر غشی طاری ہوگئی میں نے لپک کر اس کے بچے کو
پکڑاڈاکٹروں نے تو صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ اس کے جسم پر گم چوٹیں آئی
ہیں۔اور جسم کے ہر حصہ پر وقفہ وقفہ سے اس طرح ضربیں لگائی گئی ہیں کہ اندر
ہی اندر ساری نسیں ناکارہ ہوگئی ہیں۔خاص کر جسم کے خفیہ حصوں کی نسیں۔
رخسار کے اوسان بحال ہوئے تو پھر سے بتانے لگی وہ سوچ سوچ کر بول رہی تھی”
اب وہ دوسرے بچے کے باپ نہیں بن پائیں گے۔“اور وہ رونے لگی اسے لگا جیسے وہ
بیوہ ہے۔دنیا کی انوکھی بیوہ جس کا شوہر زندہ ہے مگر اس طرح کہ وہ اسے صرف
دیکھ سکتی ہے اور سونگھ سکتی ہےاب وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی اور اس
نے اپنے اکلوتے بچے کو سینہ سے اس طرح چمٹا لیا جیسے کوئی اسے چھین لے گا۔
عبد اللہ آگیا تھا ، عبداللہ باپ بھی بن گیا تھا، پیٹھ پیچھے سے آنے والی
بیزارکن آوازیں بھی بند ہوچکی تھیں شکیل کے ذریعہ نامرد کہہ کر چڑھانے کا
خوف بھی اس کے دل سے نکل چکا تھا مگر عبد اللہ عبداللہ ہمیشہ کے لیے باپ
بننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا تھا عبداللہ حقیقت میں بیچارہ بن چکا
تھا۔اور عورتوں میں اس کے بارے میں غلط طریقے سے مشہور ہوجانے والی بات سچ
ہوگئی تھی کہ عبداللہ ” اس ایک کام “کا بھی اہل نہیں۔عبداللہ کو میں نے
پہلی بارسائرہ بانوں اور عبدالحمید کو یاد کرکے روتے ہوئے دیکھا۔ |