”ستارہ ایک سا ہے“ پر تنقیدی خطوط

ہمارے پہلے مجموعہ کلام ”ستارہ ایک سا ہے“کی پہلی تقریبِ رونمائی کوچند ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ ہمیں دور دور سے مبارکباد اور حوصلہ افزائی کے خطوط مو صول ہونے لگے۔تمام خطوط اخلاص و محبت کے جذبوں کا مرقع تھے اگرچہ اس نوعیت کا کوئی بھی خط نہیں تھا جس کے لیے ہماری نگاہیں فرشِ راہ تھیں لیکن پھر بھی لکھنے والوں کی محبت ہے ورنہ اس کمپیوٹرائزڈ دور اورایس ایم ایس زدہ ماحول میں کون کسی کو بقلمِ خود یاد کرتا ہے۔ چونکہ بعض خطوط شدید ادبی نوعیت کے تھے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ افادہ عام کے لیے پیش کیے جائیں۔ کھلابٹ ٹاون ہری پور سے اکرم رضوی فرماتے ہیں: ”ستارہ ایک سا ہے“ کو پڑھا ‘ہماری منطق یہ ہے کہ ہر کوشش قابل تحسین ہوتی ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے سو ہم بغیر سوچے سمجھے آپ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ آپ جیسے معروف شاعر کے تعارف سے ہمارا نگار خانہ معلومات آج تک کیسے محروم رہا۔

معلوم نہیں کتاب پر آپ کی تصویر اور سن پیدائش کے اندراج میں غلطی ہو گئی ہے یا قصدا ایسی غلطی کا اہتمام کیا گیاہے لیکن آپ کی تصویر اور سنِ پیدائش سے آپ کی شاعری کا ربط و ضبط غیر منطقی نظر آتاہے غالبا تصویر آپ جوانی کے زمانے کی چھپوا بیٹھے ہیں اورسن پیدائش کسی چھوٹے بھائی یا بھتیجے کا درج ہو گیا ہے۔

ذرایہ اشعار دیکھیے اور پھرآئینے میں اپنی تصویر دیکھیے:
چراغِ آخرِ شب ہوں یہ کوئی کم تو نہیں
طلوعِ صبح کا ساماں تو کر گیا ہوں میں (صفحہ نمبر۴۴)

چند سانسوں کا رہ گیا ہے سفر
ڈوبنے کو ہے آفتابِ حیات (صفحہ نمبر۳۴)

جس پہ نازاں ہیں سارے لوگ لطیف گاوٴں کا وہ پرانہ گھر میں ہوں (صفحہ نمبر۶۷)

ہے غنیمت کہ دیکھ سکتے ہیں
آج ہم مستعار آنکھوں سے (صفحہ نمبر۱۳۹)

( ظاہر ہے نظر اصولا اور طبعا آخری عمر میں کمزور ہوتی ہے تاہم خراب پہلے بھی ہوسکتی ہے) ۔

اس قبیل کے مزیدبہت سارے اشعار شامل ِ اشاعت ہیں جو ہماری رائے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں نہ جانے کتنے ایسے پیکرصداقت اشعار اوربھی ہوں گے جو افشائے راز کے خطرے کے پیش نظر کتاب میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے ہوں گے ۔

کراچی سے جنید ساگر تحریر فرماتے ہیں کہ کتاب پر مندرج تنقیدی مضامین میں فاضل مبصرین نے جو اردو ادب کی انتہائی مستند شخصیات ہیں نے بیک جنبشِ قلم یعنی با اتفاق آراء آپ کی شاعری کو منفرد لب و لہجے کی شاعری قرار دیا ہے آپ کے منفرد رنگ و آہنگ کا تذکرہ کیا ہے یہاں تک کہ روایتی موضوعات کے باب میں بھی آپ کو جدید تر شاعر قرار دیا ہے۔ آپ کی شاعری کے بغورمطالعہ سے ہی ہمیں ان آراء کی گہرائی اور گیرائی سمجھ آ سکی اب ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کا اپنا ایک الگ ہی لب و لہجہ ہے آپ کی شاعری واقعی سب سے منفرد بھی ہے جدید ترین بھی اور آپ کا شاعرانہ رنگ بھی منفرد یعنی سات رنگوں سے سوا ہے۔ اس لب و لہجے اور رنگ و آہنگ کی کوئی اورمثال یاجواز ملے نہ ملے ہم تو قائل ہو گئے۔ ویسے یہ اپنا رنگ اور لب و لہجہ کچھ اور لوگوں کا بھی ہے جن کی مناسب موقع پر نشان دہی کی جا سکتی ہے۔

جہلم پنجاب سے پروفیسرسلطان محمود عینی کی خامہ فرسا ئی ملاحظہ کیجیے:
کتاب پر آپ کا تعارف دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم از کم پبلشر بائنڈر کمپوزراورڈسٹری بیوٹر جیسے غریب طبقے کے راندہ درگا ہ اہل کاران کو آپ جیسے بیرون ملک مقیم قلمکار کا تعاون حاصل ہوا ‘ورنہ یہ اندرون ملک والے مصنف تو پائی پائی کا حساب لیتے ہیں جبکہ ریٹ طے کرنے میں کوئی کسر پہلے ہی نہیں چھوڑتے ، یہ ربط و ضبط کسی غریب ہم وطن کی بیرون ملک منتقلی اور قومی سطح پر شرح آمدنی میں خاطر خواہ اضافے کی خواہش کا باعث بھی بن سکتا ہے، اللہ کرے آپ جیسے مزید بیرونیوں( قلم کاروں) کو یہ توفیق نصیب ہوتی رہے ۔

امجد اسلام امجد’جناب نسیمِ سحر اور اقبال اعجاز بیگ صاحب کے آپ کی شاعری کے حوالے سے ایک تاثر نے ہمیں کچھ زیادہ ہی متاثر کیاکہ آپ نے بہت طویل سفر کرنا ہے فاضل تجزیہ نگاروں نے آپ کو طویل سفر کی بشارت دی ہے ،ہمیں یہ تو اندازہ نہیں ہو سکا کہ طویل سفر سے فاضل تجزیہ نگاروں کی کیا مراد ہے کیا آپ کو ابھی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے یا آپ نے اردو ادب سے آگے کہیں جانا ہے اور یہ جو لمبے سفر والی بات ہمیں اچھی لگی تو اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے نکتہ نظر کے مطابق سفر سیکھنے کے معاملے میں نہایت مفید ہے خواہ سفر انگریزی والا ہو یا اردو والا۔

نوشہرہ ایبٹ آباد سے ماہر امور ِ حیوانات ڈاکٹرکامران جدون کا خیال ہے:
آپ کی جناتی قسم کی شاعری پڑھ کر ہماری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا خصوصا ِجنوں کے بارے میں آپ صاحب ِ اسرار معلوم ہوتے ہیں یوں تو دیگر حیوانوں ‘پرندوں مثلا فاختہ ‘شاہین وغیرہ کا بھی آپ کے ہاں ذکر ملتا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے کیونکہ اردو ادب والوں نے ہمیشہ اپنے دائیں بائیں کو نظر انداز کیا ہے اور وہ ناک کی سیدھ میں چلنے کے عادی ہیں بہرحال اس باب میں ِجنوں سے آپ کی قلبی وابستگی گہری معلوم ہوتی ہے۔

گھروندے ریت کے تعمیر کرنا
جنوں کامشغلہ کب تک رہے گا (صفحہ نمبر۶۸)

کتنی معلوماتی شاعری ہے جنوں کی ریت کے گھروندے تعمیر کرنے کی تاریخ کا آئندہ زیادہ تفصیل سے تذکرہ ہو جائے تو مناسب ہوگا ویسے بھی آپ نے ِجنوں سے ربط و ضبط کا اعتراف کیاہے اور جِنوں سے ہمہ جہت کام لینے کا ذکرکیا ہے مثلا:
ہماری عقل کا اعجاز دیکھو
جنوں سے استفادہ کر لیا ہے (صفحہ نمبر ۴۶)

گرا کر گھر بنانے پر بضد ہے
جنوں کا جذبہ تعمیر دیکھو (صفحہ نمبر۷۶)

خرد کے پیچ و خم کھلتے نہیں ہیں
جنوں کو آزمانا چاہتا ہوں (صفحہ نمبر۱۲۰)

میرپور سے نامور محقق نعمان اختر یوسفی رقم طراز ہیں:
آپ نے آس احساس یاس وغیرہ الفاظ متعدد بار استعمال کیے ہیں لیکن اگر ایسے ہی کسی قافیے کے ذیل میں ساس کا بھی ذکرِ خیر ہو جاتا تو کتاب کی سنجیدگی کو مزید انفرادیت کی سند مل سکتی تھی یوں بھی آپ رشتوں کی اہمیت کی بات کرتے ہیں اور اہمیت دینے کی ضرورت کی حد تک تو ہمیں ساس سے زیادہ اہم کوئی اور حقیقت بشمول رشتہ نظر نہیں آتی ۔

آپ ہم سے اصلاح بھی لے سکتے ہیں ہم خاندانی استاد قسم کے لوگ ہیں اور آپ کے بہت قریب ہی شاد و آباد ہیں پتہ نہیں یہ آج کل کے ادیب ہم سے کیوں کنی کترا تے ہیں حالانکہ ہم تو منصف مزاج اور جدید و قدیم حسین امتزاج نوع کے ناقد ہیں ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری قدر ضرور کریں گے اور ہاں ہم آپ کو منفرد ترین شاعر قرار دینے کے لیے اپنی تمام تر تنقیدی صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لانے کے لیے تیا ر ہیں کیونکہ یہ آپ کا حق ہے بس آپ کو بھی ذرا اپنافرض یاد رکھناہو گا اورہماری تنقید نگاری عوام و خواص تک پہنچانے میں اپنا آفاقی کردار ادا کرنا ہو گا لیکن خدشہ یہ ہے کے کہیں ہمارا”ستارہ ایک سا “نہ ہو۔

ملتان سے نعیم قریشی تذلل املائی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کی پروف ریڈنگ کسی شاعر یا پروفیسر نے کی ہے تیسری غزل کا ایک شعر بطور حوالہ امجد اسلام امجد صاحب سے منسوب فلیپ میں درج ہے جس میں نکتے کو نقطہ تحریر کیا گیاہے جو کہ ریاضی میں ڈاٹ کہلاتا ہے اب بھلا ڈاٹ /نقطے کا فلسفے اورشاعری میں کیا کام , درست لفظ غالبا وہی ہے جو اندرونی صفحے میں درج ہے شعر دوبارہ ملاحظہ فرما لیں اور آئندہ کسی ادیب ونیم ادیب سے مفت میں پروف کروانے کے بجائے کسی پیشہ ور ماہر سے کچھ لے دے کر کے یہ کام کروایا کریں تو بہتر ہے‘ کیاہی اچھا شعر تھا مگر اس خوبصورت اور معنی خیز شعرکاپروف ریڈرنگ کے سہونے کیا حشر نشرکر دیا ہے: چلو کہیں تو کو نکتہ مشترک نکلا
ترے عروج سے میرا زوال ملتا ہے۔

مختصر تعارف ِ کتاب
نام کتاب: ستارہ ایک سا ہے
شاعر : لطیف آفاقی بقلمِ خود
ناشر: دیپک آرٹس اکیڈمی پاکستان۔جرمنی
سن اشاعت : ۲۰۰۸م
قیمت: ۱۲۰روپے۱۰ریال۵ڈالر
Latif Afaqi
About the Author: Latif Afaqi Read More Articles by Latif Afaqi: 3 Articles with 2079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.