انتظار ویزے کا اور ہمارا اونچی اونچی چھوڑنا

تھائی لینڈ کے ویزے کیلئے درخواست تو دی تھی اور اب دل میں یہ ڈر تھا کہ کہیں میرا ویزہ درخواست مسترد نہ ہو جائے لیکن پھر بھی دوستوں کو یہ ظاہر کررہا تھا کہ بھائی جی میں اب جانے والا ہوں گھر میں بیگم کے سامنے بڑا اترا اترا کر کہہ رہا تھا کہ بس ویزہ لگنے کی دیر ہے اور میں جانے والا ہوں حالانکہ سچی بات تو یہ تھی کہ ویزہ پروسیس میں تھا اور ابھی اس کا جواب بھی نہیں آیا تھا- بیگم اور والدہ کیساتھ بڑی اونچی اونچی چھوڑتا تھا کہ بس جارہا ہوں - ایک دن بیگم غصے میں آگئی اور کہنے لگی کہ " اب کس لئے جارہے ہو اپنے بچوں کی مستقبل کا سوچو اپنے آپ سے بچہ بنایا ہوا ہے " غصہ تو بہت آیا لیکن چونکہ شریف آدمی ہو اس لئے کچھ کہا تو نہیں لیکن ماتھے پر دو تین دن بارہ بجائے تاکہ بیگم کو پتہ چل سکے کہ میری بھی کوئی اوقات ہے -

جس وقت میں ویزے کیلئے فارم جمع کررہا تھا اس وقت ایک دوست جس کے سالے کی ٹریول ایجنسی ہے وہاں سے بکنگ کی تھی اور اس نے ایسے ٹکٹ دیا تھا جیسے میں نے ٹکٹ خریدا ہو اس وقت میں نے اس سے کہا تھا کہ ویزہ لگ گیا تو آپ ہی سے ٹکٹ لینا ہے - میں انتظار کررہا تھا کہ ویزے کا جواب آجائے گا جس صحافی دوست کو پاسپورٹ واپس لینے کیلئے رسید دی تھی اس نے مقررہ وقت گزرنے کے بعد مجھے فون کیا کہ بھائی جی مجھ سے رسیدیں گم گئی ہیں اس لئے کچھ کرو " غصہ تو بہت آیا کہ لاپرواہی کی انتہا ہوتی ہے پہلی مرتبہ اس کو کام کا کہاتھا اور اس صاحب نے یہ حال کردیا شکر ہے کہ میں نے رسید اس کو دیتے ہوئے اس کی نقل نکال لی تھی میں نے تو اپنی رسید اس کو پہنچا دی لیکن اس صاحب نے اپنی رسید بھی کہیں گم کردی تھی میں نے اس سے کہا کہ جیسا بھی کرنا ہے تمھارا کام ہے لیکن مجھے پاسپورٹ واپس کرنا ہے اور وہ ہنستے ہوئے رسید لیکر چلا گیا کہ پروا مت کرو سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا-

ٹریول ایجنسی والے دوست کے پاس ٹکٹ لینے کیلئے جس دن جانا تھا اسی دن پشاور کے علاقہ شگئی ہندکیان میں نامعلوم دہشت گردوں نے ٹرانسفارمر کے نیچے بم رکھا تھا جو سکول سے واپس آنیوالی سوزوکی گاڑی سے ٹکرا گیا اور اس میںدو خواتین بہنیں جو اساتذہ تھیں جا ں بحق ہوگئیں میں کوریج کیلئے وہاں پر چلا گیا اور یہ ہماری قسمت کہ دوران کوریج ایک کے بعد دوسرا دھماکہ ہوگیا تقریبا چار فٹ ہماری ٹیم کے دھماکہ ہوا اور اس دھماکے نے میرا وہ حال کردیا کہ جیسے جان نکل گئی ہوں اللہ تعالٰی نے بچانا تھا سو بچ گیالیکن تین دن تک دماغ اپنی جگہ پر نہیں تھا سو ان حالات میں ٹکٹ کی کنفرمیشن کرنا بھول گیا اور ٹریول ایجنسی بھی نہیں گیا مزے کی بات یہ ہے کہ میرے دوست کا سالا یہ سمجھا کہ میں ٹکٹ نہیں لے رہا اس نے میری کنفرمیشن نہیں کروائی اورٹکٹ کا مقررہ وقت بھی گزر گیا-

رشتہ داروں کو میرے دھماکے میں بچ جانے کی اطلاع ملی تو لوگوں نے خیریت کیلئے گھر کے چکر لگانا شروع کردئیے کہ شکر ہے کہ تم بچ گئے ہواور اسی چکر میں ٹکٹ لینابھول گیا انہی دنوں میں میرا پاسپورٹ بھی واپس مل گیا جب پہلی مرتبہ تھائی لینڈ کا ویزہ اپنے صاف ستھر ے اور نئے نکور پاسپورٹ پر دیکھا تو دل بہت خوش ہوا کہ چلو پاسپورٹ تو گندہ ہوگیا لیکن کسی غیر ملک کی سٹمپ تو لگ گئی -مجھے یاد ہے کہ جب بھی میں کسی شخص کا پاسپورٹ جس پر متعدد ممالک کے ویزے لگے ہو بڑی حسرت سے دیکھا کرتا تھا اور پاسپورٹ ملنے کے بعد میں خوش ہوگیا کہ چلو جی آج سے آغاز ہوگیا اور بہت جلد انشاء اللہ میرا پاسپورٹ بھی ویزوں سے بھر جائیگا اور ہمیں بھی کوئی حسرت سے دیکھے گا- تھائی لینڈ کا ویزہ لگنے کے بعد دو تین صحافی دوستوں کو فخریہ انداز میں پاسپورٹ دکھایا اور ان کی آنکھوں میں حسرت دیکھ کر اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے لگا جیسے میں نے بڑا تیر مارا ہو- جب پاسپورٹ مل گیا تو یاد آیا کہ ٹکٹ لینا ہے جب اس دوست کے پاس چلا گیا کہ ٹکٹ تو اس نے وہ سنائی کہ تم انتہائی لاپروا آدمی ہو ایسے تو کوئی کام نہیں ہوتا یعنی میری خوب کلاس لی - لیکن مجھے بھی پاسپورٹ پر ویزہ مل گیا تھا میں نے ایک کان سے سن لیا اوردوسرے کان سے نکال لیا اور میں نے اس سے کہاکہ بھائی جیسا بھی ہو ٹکٹ کا بندوبست اب تم نے ہی کرنا ہے - اس نے دیگر ائیر لائنز میں چیک کیا تو پتہ چلا کہ ٹکٹ تو موجود ہے لیکن ٹکٹ کے چارجز زیادہ ہونگے اور جو وہ کہہ رہا تھا کہ وہ میرے مجوزہ چارجز سے دس ہزار زیادہ تھے - صحافی کا تنخواہ میں چکر لگانا بڑی بات ہے اور دس ہزار لوگوں کیلئے اتنی بڑی رقم نہیں لیکن میرے جیسے بند ے کیلئے بہت بڑی رقم تھی اور ہے بھی - اسی وجہ سے خود آن لائن ائیر لائن کی ویب سائٹ چیک کرنا شروع کردی کہ پتہ تو چل جائیگا اور تھائی ائیر لائنز کی ویب سائٹ پر چیکنگ کے دوران پتہ چلا کہ دو روز قبل ٹکٹ موجود ہے اور ٹکٹ چارجز بھی مناسب ہے سو انٹرنیٹ پر آن لائن کنفرم کرنے کے بعدٹریول ایجنسی کے دوست کو فون کیا کہ اسی دن میں میری کنفرمیشن کروا لے میں آکر ٹکٹ لیتا ہوں جلدی سے بینک کا چکر لگایا وہاں سے پیسے نکالے اور ٹریول ایجنسی چلا گیا کہ ٹکٹ کنفرم کروا لوں-

ٹریول ایجنسی میں ایک ایسا سادہ بندہ ملا جو میری طرح پہلی مرتبہ دوبئی جا رہا تھا اور اس کا ٹکٹ لینے آیا تھا اس کو دیکھ کر اپنے آپ سے دل خوش ہوا کہ ایسے ساد ہ لوگ جاسکتے ہیں تو ہم تو پھر بھی " سادہ لوگوں میں کچھ رنگین ہے " کے مصداق کچھ سمجھ بوجھ تو رکھتے ہیں -ٹکٹ کنفرم ہوگیا اور وہیں سے گھر والوں کو فون کیا کہ میرے سارے پرانے جینز دھو لو کیونکہ دو دن بعد فلائٹ ہے ساتھ ہی متعلقہ ادارے کو بھی ای میل کردیا کہ میں آپ کے مجوزہ تاریخ سے دو دو قبل بنکاک پہنچ رہا ہو اس لئے کسی کو بنکاک ائیرپورٹ بھیج دو کیونکہ مجھے معلومات حاصل نہیں جواب میں انہوں نے رپلائی کیا کہ آنا ہے تو بسم اللہ آجائے لیکن دو دن قبل آنے سے آپ نے اپنا خرچہ کرنا ہوگا ہم آپ کے ذمہ دار نہیں ہونگے - یہ سن کر تو اور بھی حالت پتلی ہوگئی لیکن پھر شکر ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے گیسٹ ہائوسز چیک کرنا شروع کردئیے کہ کہاں پر سستے گیسٹ ہائوسز ہونگے یہ اللہ کا شکر ہے کہ دس ڈالر میں ایک روز میں کمرے کی سہولت دینے والے گیسٹ ہائوسز کا پتہ چلا جس سے دل بہت خوش ہوا سارے ایڈریسز پرنٹ نکال کر رکھ لئے کہ وہاں پر سہولت ہوگئی ساتھ ہی بنکاک کے موسم کے بارے میں انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کی کہ آنے والا ہفتہ کیسے ہوگا -

ایک صحافی دوست کو فون کیا کہ مجھے کل تک اس کا کیمرہ چاہئیے کیونکہ میں نے اپنے ساتھ کیمرہ لیکر جانا ہے اور پھر فلائٹ کی تیاریوں میں مصروف عمل ہوگیا--
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498810 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More