تحریر مسز پیرآف اوگالی
شریف
یہ ایک لونڈی تھیں ابتداء اسلام ہی میں اسلام کی حقانیت کا نورا نکے دل میں
چمک اٹھا اور یہ اسلام کے دامن میں آگئیں کفار مکہ نے ان کو ایسی ایسی
دردناک تکلیفیں دیں کہ اگر پہاڑ بھی ان کی جگہ پر ہوتا تو شاید لرز جاتا
مگر اس پیکر ایمان کے قدم نہیں ڈگمگائے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ
جب تک دامن اسلام میں نہیں آئے تھے اس لونڈی کو اتنا مارتے تھے کہ مارتے
مارتے خود تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اف نہیں کرتی
تھیں بلکہ نہایت ہی جرات واستقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر! تم جتنا
چاہو مجھ غریب کو مار لو اگر خداکے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تم
ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا ضرور تم سے انتقام لے گا ۔
تبصرہ حضرت لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اس ایمانی تقر یر کی جہا نگیری
تو دیکھو کہ ابھی حضرت لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے زخم نہیں بھرے تھے کہ
اسلام کی حقانیت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس طرح دبوچ لیا کہ وہ
بے اختیار دامن اسلام میں آگئے اور زندگی بھر اپنے کئے پر پچھتا تے رہے
اور حضرت لبینہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جیسی غریب ومظلوم لونڈیوں کے سامنے
شرم سے سر نہیں اٹھاسکتے تھے اور ان کمزوروں اور غربیوں سے معافی مانگا
کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ جن کو یہ گرم گرم جلتی
ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پروزنی پتھر رکھا ہوا دیکھ کر حقارت سے ٹھو
کر مار کر گزرتے تھے تھوڑے دن نہیں گزرے کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے اپنے
تخت شاہی پر بیٹھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ سیدنا ومولا نا بلال یعنی بلال تو
ہمارے آقا ہیں اور بلال کی صورت کو کمال ادب اور محبت کے ساتھ دیکھ کر
زبان حال سے بھرے مجمعوں میں یہ کہا کرتے تھے کہ۔
بدر اچھا ہے فلک پر نہ ہلال اچھا ہے
چشم بینا ہو تو دونوں سے بلال اچھا ہے |