چالیس برس قبل ایک ملک دو ٹکڑے
ہو گیا۔ایک حساس شاعر کی طرح ڈھاکہ سے واپسی پر فیض صاحب نے لکھا تھا
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظرآئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقے کئے
بات سب باتوں کے بعد ان کہی ہی رہ گئی وہ
فیض صاحب کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 27برس بیت چکے ۔ان کی روح سے عرض ہے کہ
ہم ابھی بھی اجنبی ہیں ۔نہ یہ قوم اپنے حکمرانوں کی روش سے آشنا ہو سکی اور
نہ ملکی سلامتی کے ٹھیکے داروں کے طرز عمل کو سمجھ سکی۔کہیں پہ کوئی بے داغ
سبزے کی بہار نہیں ۔خون کے دھبے بھی باقی ہیں کبھی ڈرون حملوں کی شکل میں ،کبھی
خود کش حملوں کی صورت میں ، کبھی نیٹو کی بمباری کی صورت میں اور کبھی
ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں۔ایسی کوئی برسات ابھی نہیں برسی جس سے سارے داغ دھبے
دھل جائیں۔
قوم 64سال سے صدقہ جاں کئے جا رہی ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اقتدار کی غلام
گردشوں میں کون ملک کا تحفظ کر رہا ہے اور کون استحصال کر رہا ہے۔ملک ٹوٹا
اور حمود الرحمن کمیشن بنا ۔اس کتاب میں تو بہت کچھ ہے مگر سب کچھ جاننا
ہمارا سرے سے حق ہی نہیں ۔رپورٹ کا جو تیس فیصد حصہ ہمارے سامنے آیاوہ بھی
انڈیا میں چھپنے کی وجہ سے ہم جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔صرف تیس فیصد کو
پڑھنے کے بعدباقی کچھ بھی پڑھنے کا حوصلہ نہیں رہتا ۔ملک کو دوٹکڑے کرنے
والے سارے کردار پر لطف ، پر تعیش ، آرام دہ زندگی گزار کر کچھ دنیا سے
رخصت ہو گئے کچھ انتظار میں ہیں۔یہی کچھ ایبٹ آباد کمیشن کا بھی ہوگا۔
مشرقی پاکستان میں متعین سقوط ڈھاکہ ایک اہم کردار جنرل راﺅ فرمان علی نے
ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہو ئے کہا کہ جنرل نیازی کا
چال چلن درست نہیں تھا ۔ اس کی زبان غلیظ تھی ۔اس نے اپنے دفتر میں مشرقی
پاکستان کی ایک عورت سے بد کاری کی وہ اس طرح کے کاموں کے لئے مشہور تھے۔جب
جنرل فرمان سے پوچھا گیا کہ آپ نے عورت کے ریپ اور دوسرے واقعات کا نہ حمود
الرحمن کمیشن میں ذکر کیا اور نہ ہی اپنی کتاب میں۔راﺅ فرمان علی نے جواب
دیا کہ کیا میں ساری فوج کو مورد الزام ٹھہرا دوں ؟ مجھے باقی لوگوں کا بھی
خیال رکھنا ہے۔جہاں تک جنرل نیازی کی بات ہے چونکہ اس نے میرے خلاف اپنی
کتاب میں وہی الزام دھرائے ہیں جو حمود الرحمن کمیشن میں لگائے گئے
تھے۔اگرچہ میں ان الزامات سے بری ہو گیا مگر سچ یہ ہے کہ فوجی ہیڈ آفس
ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے بعض گروہوں اور لوگوں نے ریپ کیا ۔جبکہ جنرل (ر)
ایم ایچ انصاری اور جنرل نذر حسین شاہ کے علاقے میں ایسے واقعات نہیں
ہوئے۔جنرل نیازی کا تو یہ حال ہے کہ اس نے ڈھاکہ اترنے کے پہلے ہی دن جنرل
خادم حسین راجہ کو کہا کہ مجھے عورتوں کی فہرست دو ۔خادم حسین راجہ نے
کہاکہ سر آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ میرے پاس ایسی کوئی لسٹ نہیں۔میں نے یہ
واقعہ جنرل یحییٰ کو رپورٹ کیا اور ان سے درخواست کی کہ جنرل نیازی کو فوری
طور پر تبدیل کر دیں ورنہ یہ کسی بنگالی عورت کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا۔
اسی جنگ کے ایک اور بڑے کردار جنرل ٹکا خان کہتے ہیں کہ یحییٰ خان کیونکہ
اکثر مد ہوش رہتے تھے اور حالت سرور میں انہیں نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ
کیا حکم دے رہے ہیں۔اس لئے ان کے سیکنڈ ان کمانڈ جنرل حمید جو کہ ایک اچھے
انسان تھے کہا کرتے تھے آپ کو جو حکم ”صاحب“ کی طرف سے رات کو ملتا ہے صبح
اس کودوبارہ چیک کر لیا کریں۔
سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار جنرل نیاز ی کا اپنے باس اور ملک کے اس وقت کے
صدر یحییٰ خان کے بارے میں کہنا تھا کہ یحییٰ خان شراب کو نہیں چھوڑ سکتا
تھا اور عورتوں کو چھیڑنا اس کی عادت تھی۔ایک بار اس نے شیخ مجیب الرحمن سے
اس وعدے پر کٹھ جوڑ کر لیا کہ تم اگر جیت جاﺅ تو مجھے صدر کے عہدے پر
برقرار رکھو گے۔یحییٰ اقتداراور اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔مجیب
الرحمن مشرقی پاکستان میں جیت گیا اور اس نے یحییٰ خان کو صدر تسلیم کرنے
سے انکار کر دیا۔اور یحییٰ خان بگڑ گیا۔بھٹو بھی مجیب کے پاس گیا اور اسے
کہا تھا مجھے اپنا نائب بنا لو ۔مجیب نے کہا نہیں ۔بھٹو نے کہا وزارت خارجہ
دے دو ۔ اس نے انکار کر دیا۔پھر کہا سپیکر بنا دو اس پر بھی وہ نہیں
مانا۔تو پھر بھٹو نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دے دی۔جنرل
نیازی مزید کہتے ہیںجنرل یحییٰ نے بھٹو کے سامنے مجیب الرحمن کی ”بد عہدی
“کا ذکر کیا ۔کہ مجیب الرحمن نے وعدے کے باوجود مجھے صدارت نہیں دی ۔بھٹو
نے کہاکہ دفعہ کرو ۔ میں بناﺅں گا تمہیں صدر ۔تم صدر پاکستان اور میں
وزیراعظم ۔ پھر ان دونوں نے ملک توڑنے کا فیصلہ کرلیا۔جنرل نیازی وہ صاحب
ہیں جنہوں نے 93ہزارمسلح فوجیوں کے ساتھ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی
سرنڈر کیا تھا۔
جنرل کے ایم عارف نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ ایک ایسا خاردار
سفر ہے جو سیاسی نااہلیوں ،عسکری مہم جوہیوں ، بیوروکریسی کی ہٹ دھرمیوں ،
آئینی ناکامیوں ،جاگیرادارانہ من مانیوں اور جمہوری خطا کارویوں کا ایک
مرقعہ ہے۔اس منظر نامے میں آپ کو انتظامیہ کی چیرہ دستیوں ،عدلیہ کی
فرمانبرداریوں ، مقننہ کی نا توانائیوں اور میڈیا کی کمزوریوں کے مناظر جا
بجا بکھرے نظر آئیں گے۔اسی کتاب میں جنرل کے ایم عارف نے سقوط ڈھاکہ کے
حوالے سے بتایا کہ میں بہت رویا ہوں لیکن دن کے اجالے میں کم رویا، راتوں
کے اندھیرے میں زیادہ رویا ہوں، خاص کر عبادت کے وقت ۔ سب سے زیادہ اس وقت
رویا ہوں جب مشرقی پاکستان ٹوٹا گیا۔ 1971ء میں بہت سے حادثات تھے، بہت سے
واقعات تھے۔ بہت سی کوتاہیاں تھیں۔سقوط ڈھاکہ کے وقت میں فرسٹ آرمڈ میں
کرنل اسٹاف تھا۔ میں اس وقت ملتا ن میں تھا لیکن فوج اس وقت چھاﺅنی سے باہر
تھی۔ میں کسی بارڈر ایریا پر تھا لیکن مشرقی پاکستان ٹوٹنے کا جو فزیکل عمل
ہے وہ تو 1971ءمیں مشرقی پاکستان میں ہوا لیکن اس کا عمل جو شروع ہونا تھا
وہ 1948ءمیں شروع ہو چکا تھا اور بتدریج بہت سے ایسے حالات آئے جن میں بہت
سے لوگوں کا ہاتھ ہے۔
کاش !یہ سارے ذمہ داران سیاسی جماعتیں ، عسکری قیادت ، بیوروکریسی اور
عدلیہ تاریخ سے سبق سیکھتے اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ۔مگر ایسا
نہیں ہوا۔ملک کے مقتدر ادارے آج بھی ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں
۔ایک دفعہ پھر ملکی سلامتی ہے ”سازشیں “ہیں۔قوم کو کوئی خبر نہیں کہ کیا ہو
رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔آنے والے دنوں میں سیا سی منظرمیں کیا بڑی
تبدیلیاں رونماہوں گی۔ کون کون مستعفی ہوگا؟ کس کس کی چھٹی ہوگی؟مگر کم سے
کم یہ نتیجہ اخذ کرنے کوئی مشکل نہیں رہی کہ ہمارے ان قومی سلامتی اور عوام
کے ٹھیکے داروں کے پاس عوام کے مسائل کے حل کےلئے نہ کوئی وقت ، نہ منصوبہ
اور نہ ہی ارادہ ہے۔ |