علامہ اُسید الحق قادری بدایونی
دامت برکاتہم العالیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا) کی
کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔
تعارف، پہچان اور شناخت کے سلسلہ میں انسان کے نام کی بڑی اہمیت ہے- اسی کے
ذریعہ ہم ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی نام
کے دو یا اس سے زیادہ افراد ہوتے ہیں جن کو ہم نام کہاجاتا ہے، دوہم نام
افراد کے درمیان فرق کرنے کے لیے عام طور پر ناموں کے ساتھ قبیلہ، خاندان،
شہر، مسلک یا مشرب کی نسبتوں کے سابقے اور لا حقے لگادئیے جاتے ہیں، تاکہ
دونوں کی شناخت الگ الگ قائم رہے- راویان حدیث میں بعض حضرات ایسے بھی ہیں
جو نہ صرف یہ کہ ہم نام ہیں بلکہ ان کے والد اور ان کے دادا بھی ہم نام تھے-
اس قسم کے افراد کے درمیان فرق کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے- علم اسماء
الرجال کے ماہرین نے اس سلسلہ میں بہت سی علامتیں وضع کی ہیں جن کی مدد سے
ہم نام راویوں کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، مگر پھر بھی یہ ایسا نازک مقام
ہے کہ یہاں سلامتی سے گزرجانا بڑے کمال کی بات ہے- ورنہ ماہر سے ماہر عالم
اسماء الرجال بھی یہاں کبھی نہ کبھی دھوکا کھاجاتا ہے-
ہمارے اکابر علما محدثین اور مصنفین میں بے شمار ایسے حضرات ہیں جو ہم نام
ہیں، دوہم نام افراد میں سے ایک مشہور ہوں اور دوسرے کا نام پردہ گمنامی
میں چلا جائے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں، دشواری اس وقت پیش آتی ہے جب دو
افراد ہم نام ہونے کے ساتھ ساتھ نامور بھی ہوں، ایسی صورت میں اکثر مغالطہ
ہوتا ہے- کبھی ایک کی تصانیف دوسرے کی سمجھ لی جاتی ہیں اور کبھی دوسرے کی
خدمات پہلے کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں-
زیر نظر مقالہ میں ہم ایسے ہی بعض اکابر علما کے ناموں پر روشنی ڈالیں گے
جو ہم نام ہونے کے ساتھ نامور بھی ہیں، ہم نے صرف چند ان علما کا انتخاب
کیا ہے جو مشہور و معروف ہیں اور اکثر عوام تو عوام علمی حلقوں میں بھی ان
دو حضرات کو ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے-
(۱) شیخ شہاب الدین سہروردی صاحب سلسلۂ سہروردیۃ اور شیخ شہاب الدین
سہروردی صاحب حکمۃ الاشراق کو عام طور پر ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ
یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں، اول الذکر کا پورا نام ابو حفص عمر بن محمد بن
عبد اللہ شہاب الدین السہروردی ہے آپ کی ولادت سہرورد میں ۵۳۹ھ میں اور
وفات بغداد میں ۶۳۲ھ میں ہوئی- آپ کا لقب ’’ شیخ الشیوخ‘‘ ہے- ’’ عوارف
المعارف‘‘آپ کی مشہور کتاب ہے، اس کے علاوہ ’’ نغبۃ البیان فی تفسیر القرآن‘‘
اور ’’جذب القلوب الی مواصلۃ المحبوب‘‘ بھی آپ کی تصانیف سے ہیں- ثانی
الذکر سے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے آپ کے نام کے ساتھ عموماً ’’شیخ الشیوخ‘‘
لگایا جاتا ہے یا پھر اکثر اوقات صرف ’’شیخ شہاب الدین سہروردی ‘‘سے آپ ہی
کی ذات مراد ہوتی ہے، ثانی الذکر کا پورا نام ابو الفتح یحییٰ بن حبش بن
امیرک شہاب الدین السہروردی ہے- ان کی ولادت سہرورد میں ۵۴۹ھ میں ہوئی- آپ
کی بعض فلسفیانہ اور صوفیانہ آرا کی وجہ سے علما وقت نے آپ کے قتل کا فتویٰ
دیا- سلطان الظاہر غازی نے آپ کو قلعۂ حلب میں مقید کردیا اور وہیں ۵۸۷ھ
میں آپ کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا- آپ کی تصانیف میں ’’حکمۃ الاشراق‘‘
بہت مشہور ہے، اس کے علاوہ ’’ التلویحات‘‘، ’’ھیاکل النور‘‘ اور ’’ المشارع
والمطارحات‘‘ بھی آپ کی تصانیف ہیں- اول الذکر سے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے
آپ کے نام کے ساتھ ’’ صاحب حکمۃ الاشراق‘‘ لگایا جاتا ہے یا شیخ شہاب الدین
یحییٰ سہر وردی لکھا جاتا ہے-
(۲) ابن رشد صاحب ’’تہافت التہافت‘‘ اور ابن رشد صاحب ’’البیان
والتحصیل‘‘کو بھی عام طور پر ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے- حالانکہ یہ دو لوگ
ہیں اول الذکر پوتے ہیں اور ثانی الذکر دادا- مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں کی
کنیت ابو الولید ہے دونوں کا نام محمد ہے، دونوں کے والد کا نام احمد ہے
اور دونوں قرطبی ہیں-
اول الذکر کا پورا نام ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد
القرطبی ہے ان کی ولادت ۵۲۰ھ اور وفات ۵۹۵ھ میں ہوئی- فلسفہ، طب، فقہ اور
علم الکلام میں ۷۰ سے زیادہ کتب و رسائل آپ نے تصنیف فرمائے- حجۃ الاسلام
امام غزالی کی معرکۃ الآرا کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کا رد لکھنا بڑے دل
گردے کا کام تھا- اس سلسلے میں آپ نے قلم اٹھایا اور جواب میں ’’ تہافت
التہافت‘‘ تصنیف فرمائی جس میں فلاسفہ کا دفاع کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ
دراصل امام غزالی شیخ الرئیس اور الفارابی کی عبارتیں ہی نہیں سمجھ سکے،
اور بغیر سمجھے فلاسفہ پر کفر کا فتویٰ ٹھونک دیا، حالانکہ محققین کا فیصلہ
یہ ہے کہ امام غزالی کے مقابلہ میں ابن رشد کے دلائل کمزور ہیں- آپ کی
دوسری مشہور کتاب ’’بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد‘‘ ہے-
ثانی الذکر کا پورا نام ابو الولید محمد بن احمد بن رشد القرطبی ہے، ان کی
ولایت ۴۵۵ھ اور وفات ۵۲۰ھ میں ہوئی- آپ کا شمار اجلۂ فقہاے مالکیہ میں ہوتا
ہے- مشہور سیرت نگار اور محدث امام قاضی عیاض مالکی (و-۴۷۶ھ ف-۵۴۴ھ) صاحب
کتاب الشفا کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے، آپ کی تصانیف میں ’’ البیان
والتحصیل‘‘ ۲۰ جلد، ’’المقدمات والممہدات‘‘ ۳ جلد اور’’ فتاویٰ ابن رشد‘‘ ۳
جلد زیادہ مشہور ہیں- ( یہ تینوں کتب مطبوعہ ہیں اور تینوں فقہ مالکیہ میں
ہیں) ڈاکٹر محمد علی مکی نے ’’ بدایۃ المجتہد‘‘ کو غلطی سے آپ کی طرف منسوب
کردیا ہے، حالانکہ وہ اول الذکر کی ہے- جب صرف ’’ ابن رشد‘‘ لکھا جاتا ہے
تو اس سے اول الذکر مراد ہوتے ہیں اور ثانی الذکر ’’ ابن رشد الجد‘‘ لکھا
جاتا ہے-
(۳) فقہ حنبلی میں ابن قدامۃ کی ’’ المغنی‘‘ کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا
اور ساتھ ہی ابن قدامۃ کی ’’ الصارم المنکی‘‘ مشہور و معروف کتاب ہے، ان دو
کتابوں کے مصنف کو بھی غلطی سے ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ دو ابن
قدامۃ ہیں، اس مغالطہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں المقدسی ہیں اور
دونوں الحنبلی ہیں، اول الذکر کا پورا نام ابو محمد مؤفق الدین عبد اللہ بن
احمد ابن قدامۃ المقدسی الحنبلی ہے ( ولادت ۵۴۱ھ وفات ۶۲۰ھ) فقہ حنبلی میں
’’ المغنی‘‘ آپ کی مشہور کتاب ہے- ساتھ ہی اصول الفقہ میں ’’روضۃ الناظر‘‘
بھی آپ کی مشہور تصنیف ہے-ثانی الذکر کا پورا نام ابو عبد اللہ شمس الدین
محمد بن احمد بن عبد الہادی ابن قدامۃ المقدسی الحنبلی ہے ( ولادت ۷۰۵ھ
وفات ۷۴۴ھ)- آپ نے شیخ ابن تیمیہ اور امام ذہبی سے اخذ علم کیا، جب امام
السبکی نے شیخ ابن تیمیہ کا رد لکھا تو ان کے جواب میں ابن قدامۃ نے ’’
الصارم المنکی فی الرد علی بن السبکی‘‘ تحریر فرمائی- اس کے علاوہ آپ کی
دوسری مشہور کتاب ’’ العقود الدریۃ فی مناقب شیخ الاسلام احمدبن تیمیہ‘‘ ہے-
اول الذکر سے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے عام طور پر آپ کو ابن قدامۃ الصغیر
لکھا جاتا ہے-
(۴) حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ابن حجر الہتیمی میں اکثر مغالطہ ہوتا
ہے اور کبھی ابن حجر مکی اور ابن حجر الہتیمی کو دو شحص سمجھ لیا جاتا ہے-
حافظ ابن حجر عسقلانی کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں آپ کا پورا نام ابو
الفضل شہاب الدین احمد بن علی بن محمد الکنافی العسقلانی ہے، آپ کی ولادت
۷۷۳ھ اور وفات ۸۵۲ھ میں ہوئی، ’’ فتح الباری‘‘ ’’لسان المیزان‘‘ ’’ تہذیب
التہذیب‘‘ اور ’’ الاصابۃ فی تمییر الصحابۃ‘‘ آپ کی شہرۂ آفاق تصانیف ہیں،
عام طور پر اگر صرف حافظ بن حجر لکھا جاے تو آپ ہی کی ذات گرامی مراد ہوتی
ہے-
علامہ ابن حجر الہتیمی کا پورا نام ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد بن
علی ابن حجر الہتیمی اسعدی الانصاری ہے- آپ کی ولادت مصر میں ۹۰۹ھ میں اور
وفات مکہ مکرمہ میں ۹۷۴ ھ میں ہوئی- اسی وجہ سے کبھی آپ کو ابن حجر مکی بھی
لکھا جاتا ہے- ’’ الجوہر المنظم فی زیارۃ قبر النبی المکرم‘‘، الصواعق
المحرقہ‘‘ اور ’’ الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان‘‘ آپ کی مشہور
تصانیف ہیں-
(۵) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور ابن العربی صاحب ’’احکام القرآن‘‘ کے
درمیان بھی اکثر مغالطہ ہوجاتا ہے- دونوں کا نام محمد ہے، دونوں کی کنیت
ابوبکر ہے دونوں کا تعلق اشبیلیہ اور اندلس سے ہے- اول الذکر کا پورا نام
ابوبکر محمد بن علی بن محمد بن عربی الحاتمی الاندلسی ہے(ولادت ۵۶۰ھ
وفات۶۳۸ھ) آپ کا لقب محی الدین اور الشیخ الاکبر ہے، چار سو سے زیادہ کتب و
رسائل آپ نے تصنیف فرمائی- الفتوحات المکیہ، فصوص الحکم اور تفسیر اکبر آپ
کی مشہور کتب ہیں، ثانی الذکر کا پورا نام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن محمد
ابن العربی المعافری المالکی الاشبیلی ہے( ولادت ۴۶۸ھ وفات ۵۴۳ھ)’’احکام
القرآن‘‘ ’’العواصم من القواصم‘‘ اور ’’ عارضۃ الاحوذی فی شرح الترمذی‘‘ آپ
کی مشہور تصانیف ہیں، ان دونوں حضرات میں فرق کرنے کے لیے شیخ اکبر کو ابن
عربی ( بغیر الف لام کے) اور ثانی الذکر کو ابن العربی ( الف لام کے ساتھ)
لکھا جاتا ہے-
(۶) احادیث احکام کی مشہور کتاب ’’ منتقی الاخبار‘‘ کے مصنف ابن تیمیہ
الحرانی کو غلطی سے وہ ابن تیمیہ الحرانی سمجھ لیا جاتا ہے جو شیخ الاسلام
کے لقب سے مشہور ہیں- حالانکہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں اول الذکر دادا ہیں
اور ثانی الذکر پوتے، اول الذکر کا نام ابوالبرکات مجد الدین عبد السلام بن
عبد اللہ ابن تیمیہ الحرانی الحنبلی ہے( ولادت ۵۹۰ھ وفادت ۶۵۲ھ) آپ منتقی
الاخبار کے مصنف ہیں -قاضی شوکانی کی مشہور کتاب’’ نیل الاوطار‘‘ در اصل
اسی منتقی الاخبار کی شرح ہے، ثانی الذکر کا پورا نام ابو العباس تقی الدین
احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام ابن تیمیہ الحرانی ہے ( ولادت ۶۶۱ھ وفات
۷۲۸ھ) طلاق ثلاثہ، شد رحال اور وسیلہ و استعانت وغیرہ میں آپ نے اجماع امت
کے خلاف فتویٰ دیا- بعض حضرات نے متشابہات کے مسئلہ میں تجسیم اور تشبیہہ
کا عقیدہ بھی آپ سے منسوب کیا ہے مگر آپ کے موجودہ معتقدین اس کو اتہام
قرار دے کر اس سے برأت ظاہر کرتے ہیں- ۳۷؍ ضخیم جلدوں میں ’’مجموعۂ
فتاویٰ‘‘، ’’الصارم المسلول علی شا تم الرسول‘‘، ’’منہاج السنہ‘‘ اور
’’الرسائل والمسائل‘‘ آپ کی مشہور تصانیف ہیں- ان دونوں حضرات میں فرق کرنے
کے لیے اول الذکر کو ابن تیمیہ الجد لکھا جاتا ہے-
(۷) حافظ زین الدین عراقی، ابن عراق اور ابن العراقی میں بھی اکثر دھوکا
ہوجاتا ہے، یہ تینوں حضرات مشہور ہیں اور ان کی تصانیف بھی عام طور پر شائع
ہوتی ہیں-
(الف) ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن الحسین المعروف بہ حافظ عراقی
(ولادت ۷۲۵ھ وفات ۸۰۶ھ) آپ کاشمار حفاظ حدیث میں ہوتا ہے- آپ کی سب سے
مشہور کتاب ’’ المغنی عن حمل الاسفار فی الاسفار‘‘ ہے- امام غزالی کی’’
احیاء العلوم ‘‘میں وارد احادیث و آثار کی تخریج پر یہ کتاب مشتمل ہے- اور
عام طورسے ’’احیاء العلوم ‘‘کے حاشیہ پر شائع ہوتی ہے- اس کے علاوہ ’’ ذیل
علی المیزان‘‘، ’’ فتح المغیث‘‘، ’’التحریر فی اصول الفقہ‘‘، ’’تقریب
الاسانید و ترتیب المسانید‘‘ وغیرہ آپ کی مشہور و مطبوع کتب ہیں-
(ب) ابن عراق: علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمن بن عراق الکنافی ( ولادت
۹۰۷ وفات ۹۶۳ھ مدینہ منورہ میں) آپ کی معروف کتاب ’’ نزیہ الشریعۃ المرفوعۃ
عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ‘‘ ہے ،یہ دو جلدوں میں ہے اور عام طور پر
دستیاب ہے-
(ج) ابن العرافی: ولی الدین ابو زرعۃ احمد بن عبد الرحیم (ولادت ۷۶۲ ھ وفات
۸۲۶ ھ) آپ کی سب سے مشہور کتاب ’’البیان والتوضیح لمن اخرج لہ فی الصحیح
وقد مس بضرب من التجریح‘‘ ہے، اس کے علاوہ ’’ حاشیۃ الکشاف‘‘، ’’اخبار
المدلسین‘‘ اور ’’الاطراف بأوھام الاطلاف‘‘ بھی آپ کی تصانیف میں ہیں-
(۸) مشہور تفسیر ’’ البحر المحیط‘‘ کے مصنف ابوحبان اورمشہور فلسفی و صوفی
ابو حیان کو بعض وقت غلطی سے ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے- حالانکہ یہ دو لوگ
ہیں- اول الذکر کا پورا نام محمد بن یوسف الغرناطی اثیر الدین ابوحیان ہے
(ولادت ۶۵۴ھ وفات ۷۴۵ھ) -۲۰ سے زیادہ کتب کے مصنف ہیں- ’’تفسیر
البحرالمحیط‘‘ آپ کی سب سے مشہور کتاب ہے جو ۸جلدوں میں ہے اور دستیاب ہے-
جب ابوحیان الاندلسی یا ابو حبان النحوی لکھا جائے تو آپ کی ذات مراد ہوتی
ہے-
ثا نی الذکر کا پورا نام علی بن العباس ہے- آپ کی وفات لگ بھگ ۴۰۰ھ میں
ہوئی، یا قوت الحموی نے آپ کو شیخ الصوفیہ لکھا ہے جب کہ علامہ ابن الجوزی
نے زندیق لکھا ہے- اور اس امت کے تین سب سے بڑے زنادقۃ میں آپ کو بھی شمار
کیا ہے، آپ کی کتب میں ’’المقابسات‘‘، ’’الصداقۃ والصدیق‘‘، ا’’لبصائر
والذخائر‘‘، ’’الامتناع والموانسہ‘‘ اور ’’المحاضرات والمناظرات‘‘ زیادہ
مشہور ہیں- یہ ساری کتابیں فلسفیانہ اور صوفیانہ مباحث پر مشتمل ہیں- ابو
حیان التوحیدی یا ابوحیان الصوفی جب لکھا جاے تو آپ کی ذات مراد ہوتی ہے-
(۹) بعض لوگ امام ترمذی اور حکیم ترمذی کو بھی ایک ہی سمجھ لیتے ہیں،
حالانکہ یہ بھی دو شخصیات ہیں اول الذکر مشہور امام حدیث ابو عیسیٰ محمد بن
عیسیٰ السلمی الترمذی ( ولادت ۲۰۹ھ وفات ۲۷۹ھ) ہیں جو جامع الترمذی اور
الشمائل النبویہ کے جامع اور مرتب ہیں- جب کہ ثانی الذکر صوفی ہیں جو حکیم
ترمذی کے نام سے مشہور ہیں، آپ کی وفات (لگ بھگ) ۳۲۰ھ میں ہوئی، آپ کا پورا
نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن ہے، آپ کاشمار اکابر صوفیا میں ہوتا
ہے- ’’ختم الاولیا‘‘، ’’نوادر الاصول من احادیث الرسول‘‘ اور ’’ الریاضۃ و
ادب النفس‘‘ آپ کی تصانیف ہیں، آپ کی کتاب ختم الاولیا کے بعض نظریات کی
بنیاد پر علما نے آپ کی تکفیر کی اور ترمذ سے شہر بدر کروادیا- ’’ ختم
الاولیا‘‘ میں قابل اعتراض باتوں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ نے خاتم
النبیین کی تاویل کرتے ہوئے یہ تحریر فرمادیا کہ خاتم النبیین کی تاویل
بعثت کے اعتبار سے آخر النبیین کرنے میں کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ یہ
بیوقوفوں اور جاہلوں کی تاویل ہے-پھر آپ نے ختم کے معانی بیان کرتے ہوئے
اپنی رائے میں خاتم النبیین کا معنی بیا ن کیا ہے-( ختم الاولیا ص:۳۱ دار
الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۹ئ)
(۱۰) اسی طرح ابوعبد الرحمن السلمی بھی دوہیں ایک مشہور راویٔ قرأت ہیں اور
دوسرے صوفی ہیں، ابو عبد الرحمن السلمی الصوفی (و۳۲۵ھ، م۴۱۲ھ) کی مشہور کتب
میں مقدمہ فی التصوف، طبقات الصوفیہ اور حقائق التفسیر شامل ہیں-
نوٹ :-مقالہ میں ذکر کردہ علما کی سن ولادت ووفات کے سلسلہ میں خیر الدین
الزرکلی کی ’’ الاعلام‘‘ پر اعتماد کیا گیا ہے- (اسید الحق)
(جامِ نور اگست ۲۰۰۴ئ) |