علامہ اُسید الحق قادری بدایونی
دامت برکاتہم العالیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا) کی
کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔
کسی بھی زبان کا منظوم ادب ہو یا نثری اسالیب، محاورہ ادب کی ان دونوں
شاخوں میں بڑی اہمیت رکھتا ہے- لسانیات اور ادبیات کے باب میں محاورہ کی
ہمہ گیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی زبان سے اس کے
محاورات الگ کرلیے جائیں تو جو کچھ باقی بچے گا وہ شاید ایک بے روح جسم کے
علاوہ اور کچھ نہ ہو- محاورہ اپنی ہیئت ترکیبی اور معنوی گہرائی کے اعتبار
سے زبان کی ایک خوبصورت فنی پیداوار ہوتا ہے- عام طور پر محاورہ تشبیہ،
استعارہ اور کنایہ جیسی اصناف بلاغت کے حسین امتزاج سے تشکیل پاتا ہے اور
عوام و خواص کا بے تکلف اور برجستہ استعمال اس کی فصاحت، بلاغت، ہمہ گیریت
اور مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کردیتا ہے-
ڈاکٹر یونس اگا سکو کے بقول اردو میں محاورہ ’’ الفاظ کے ایسے مجموعہ کو
کہتے ہیں جس سے لغوی معنی کی بجائے ایک قرار یافتہ معنی نکلتے ہوں- محاورہ
میں عموماً علامت مصدر ’’ نا‘‘ لگتی ہے جیسے آب آب ہونا، دل ٹوٹنا، خوشی سے
پھولے نہ سمانا- محاورہ جب جملے میں استعمال ہوتا ہے تو علامت مصدر ’’ نا‘‘
کی بجائے فعل کی وہ صورت آتی ہے جو گرامر کے اعتبار سے موزوں ہوتی ہے جیسے
دل ٹوٹ گیا- دل ٹوٹ جاتے ہیں، دل ٹوٹ جائے گا وغیرہ‘‘ ( اردو کہاوتیں اور
ان کے سماجی و لسانی پہلو ص:۴۵)
جدید عربی میں محاورہ کو ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘(Idiomatic Expression)
کہتے ہیں-اس کے علاوہ بعض لوگوں نے اس کے لیے’’التعبیر الأدبی‘‘ یا ’’
العبارۃ الماثورہ‘‘ یا ’’ القول السائر‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں-
عربی میں ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘ کا مفہوم اردو میں محاورہ کے مفہوم سے
تھوڑا وسیع ہے- اردو میں ہم محاورہ، روز مرہ اور اصطلاح تین قسمیں کرتے ہیں
اور ان تینوں کے درمیان لفظی و معنوی اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے مگر عربی
میں التعبیر الاصطلاحی اپنے وسیع تر مفہوم میں ان تینوں کو شامل ہے مثلاً،
’’مگر مچھ کے آنسو‘‘ اردو میں محاورہ نہیں بلکہ اصطلاح کے تحت درج کیا جائے
گا، مگر عربی میں ’’ دموع التمساح‘‘ التعبیر الاصطلاحی کہلائے گا-
یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر محاورہ اور
کہاوت یا التعبیر الاصطلاحی اور ضرب المثل کے درمیان خلط ملط کردیا جاتا
ہے- یہ غلطی ایسی ’’ عامۃ الورود‘‘ ہے کہ عوام تو عوام بہت سے خواص بھی اس
کا شکار ہوگئے ہیں- مثال کے طورپر پروفیسر محمد حسن کی کتاب ’’ ہندوستانی
محاورے‘‘ میں آدھے سے زیادہ ضرب الامثال یا با لفاظ دیگر کہاوتیں درج کردی
گئی ہیں- اسی طرح منشی چرنجی لال دہلوی نے ’’ مخزن المحاورات‘‘ کے نام سے
جو ذخیرہ جمع کیا ہے اس میں کثرت سے امثال روز مرہ اور اصلاحات کو شامل
کرلیا ہے- منیر لکھنوی کی مشہور لغت ’’ محاورات نسواں‘‘ میں ایک بھی محاورہ
نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے ضرب الامثال اور کہاوتوں کا مجموعہ ہے-
پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی نے اپنی مشہور کتاب ’’ کیفیہ‘‘ میں دسواں باب
محاورہ کے لیے خاص کیا ہے مگر اس میں بھی ۳۰؍ سے زائد کہاوتیں درج کردی
ہیں- در اصل یہ خلط مبحث محاورہ اور مثل کی متفقہ جامع و مانع تعریف وضع نہ
کیے جانے کا شاخسانہ ہے- مثال کے طور پر ’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ کے مصنف نے
اصطلاح کی جو تعریف کی ہے اس کو کسی حد تک محاورہ کی تعریف تو کہا جاسکتا
ہے مگر ان کی بیان کردہ محاورہ کی تعریف در اصل نہ محاورہ پر صادق آتی ہے
نہ ضرب المثل پر- محاورہ کی تعریف میں انہوں نے یہ جملہ لکھ کر مسئلہ کو
اور پیچیدہ کردیا کہ ’’عین مستورات کی زبان کو محاورہ کہتے ہیں‘‘ دلچسپ بات
یہ ہے کہ محاورہ کی مثال میں مصنف نے میر کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اس میں غالباً ’’زلفوں کا اسیر ہونا‘‘ کو تو محاورہ کہا جاسکتا ہے مگر یہ
مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ یہ’’ عین مستورات کی زبان‘‘ کیونکر قرار پایا-
محاورہ اور ضرب المثل کی متضاد تعریفوں اور غیر متعین حدود اربعہ ہی کا
نتیجہ ہے کہ جن مخصوص تراکیب کو فیروز اللغات میں محاورہ قرار دیا گیا ہے
ان تراکیب کو فرہنگ آصفیہ میں صرف ’’ مصدر‘‘ کہا گیا ہے- اور صاحب فرہنگ نے
جن تراکیب کو محاورہ لکھا ہے وہ فیروز اللغات میں ضرب المثل کے تحت درج
ہیں-
اسی قسم کا خلط مبحث عربی میں نظر آتا ہے- مثلاً ابن عمر السدوسی کا رسالہ
’’ کتاب الا مثال‘‘ در اصل محاورات یا بالفاظ دیگر التعبیر الاصطلاحی کا
مجموعہ ہے- ابن سلمہ نے ’’ الفاخر‘‘ میں محاورات اور امثال کو آپس میں گڈ
مڈ کردیا ہے- البتہ الشعابی نے ’’ فقہ اللغۃ‘‘ میں محاورات کو امثال سے الگ
رکھتے ہوئے ان کو ’’ فصل فی الا ستعارہ‘‘ کے تحت درج کیا ہے- ان متقدمین کا
دفاع کرتے ہوئے ڈاکٹر کریم حسام الدین نے لکھا ہے کہ در اصل اس وقت زبان
اور اس کے قواعد و ضوابط اپنے ارتقائی مراحل میں تھے- اور اصطلاحات کی
تعریفات یا ان کے مفاہیم کے حدود اربعہ متعین نہیں ہوئے تھے اس لیے اس وقت
مثل اپنے وسیع مفہوم کے تحت محاورات کو بھی شامل تھی- یہ دفاعی دلیل کسی حد
تک قابل قبول ہے مگر آخر ان متاخرین یا معاصرین کے بارے میں کیا تاویل کی
جائے گی جو مثل اور محاورہ میں اصطلاحی طور پر فرق متعین ہونے کے باوجود
دونوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کیے ہوئے ہیں- مثلاً سلیمان فیاض کی ’’
معجم الماثورات اللغویہ والتعابیر الادبیۃ‘‘ میں ۹۰؍ فیصد امثال ہیں اور ’’
التعابیر الادبیۃ‘‘ براے نام ہی ہیں- دور حاضر کے ممتاز ادیب و ناقد اور
ماہر ادبیات ڈاکٹر شوقی ضیف نے اپنی کتاب ’’ الفن ومذاھبہ فی النثر
العربی‘‘ میں محاورات یا بلفظ دیگر ’’التعبیر الاصطلاحی‘‘ کو’’ مثل‘‘ ہی کے
تحت رکھا ہے، مزید الجھاؤ اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے مات حتف انفہ اور
حمی الوطیس جیسے محاوروں کو کل الصید فی جوف الفرا جیسی مثل کی صف میں کھڑا
کردیا (ص:۷۵)
المنجد میں بھی بے شمار محاورات کو مثل کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے-دراصل
محاورہ اور مثل میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مثل ہمیشہ جوں کی توں استعمال
کی جاتی ہے اس میںکسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی- مثلاً اردو کی کہاوت
ہے ’’ کھسیانا بلی کھمبا نوچے‘‘ اب ایسا نہیں ہے کہ آپ اس کو مرد کے لیے
استعمال کریں تو ’’کھسیا نا بلا‘‘ کردیں- اسی طرح عربی کی مثل ہے’’ بلغ
السیل الزبیٰ‘‘،یہ ہمیشہ اسی طرح استعمال ہوگی، اس میں تبدیلی کر کے لم
یبلغ یا سوف یبلغ وغیرہ نہیں کیا جاسکتا- اس کے بر خلاف محاورے میں تذکیر و
تانیت واحد و جمع اور ماضی و حال و مستقبل کے اعتبار سے حسب ضرورت اور حسب
موقع صیغہ میں تبدیلی کی جاتی ہے، مثلاً شرم سے پانی پانی ہوگیا، ہوگئے،
ہوگئی، ہوجاؤگے وغیرہ، اسی طرح عربی میں بھی شمر عن ساعد الجد شمرت، شمروا،
لم یشمر وغیرہ-
ایک فرق یہ بھی ہے کہ محاورہ عبارت کا جزبن کر اس میں جذب ہوجاتا ہے مگر
مثل یا کہاوت عبارت میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے- مثلاً ناچ نہ جانے آنگن
ٹیڑھا یا پھر ’’لا عطر بعد العروس‘‘یہ عبارت میں الگ سے پہچان لیے جائیں
گے-
اردو یا عربی امثال کا ایک بڑا ذخیرہ وہ ہے جس کو ہم ’’ شعری ضرب الامثال‘‘
کہتے ہیں- امثال کی یہ قسم یا تو کسی شعر کا ایک مصرعہ ہوتی ہے جو اپنی
برجستگی اور کثرت استعمال کے سبب مثل کے درجہ کو پہونچ جاتی ہے- یا پھر
اتفاقیہ طور پر کوئی مثل کسی عروضی وزن پر ہوتی ہے- اردو کی مثل ہے…ع …
’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘، اسی طرح عربی کی مثل ہے ’’ ما ھٰکذا
یا سعد تورد الابل‘‘ مگر محاورہ ابتدائً فاعلاتن فاعلن کی بھول بھولیوں میں
کبھی قید نہیں ہوتا بلکہ اس کو حسب ضرورت شعر میں استعمال کیا جاتا ہے-
محاورہ خواہ کسی زبان کا ہو اس سے ہمیشہ حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی
مراد ہوتا ہے، اہل زبان تو اپنے محاورات کے مجازی معنی خوب سمجھتے ہیں، مگر
غیر زبان والے کو ان کا معنی سمجھنا دشوار ہوتا ہے، یہ معنی تو کبھی سیاق و
سباق سے سمجھ میں آجاتا ہے اور بعض وقت سیاق و سباق بھی اس مجازی معنی کے
فہم میں غیر معاون ثابت ہوتا ہے- اردو کے محاورے میں ہم کہتے ہیں ’’ اس کا
دل باغ باغ ہوگیا‘‘ اس کا معنی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فرحت و انبساط میں
مبالغہ کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی ’’ وہ بہت خوش ہوا‘‘ اگر آپ اس کا عربی
میں لفظی ترجمہ کردیں تو یہ ہوگا کہ’’ اصبح قلبہ حدیقۃً حدیقۃً‘‘ ظاہر ہے
کہ عربی کا بڑے سے بڑا ادیب بھی اس کا معنی سمجھنے سے قاصر رہے گا- اسی طرح
عربی کا محاورہ ہے ’’ مات حتف انفہ‘‘ اہل زبان اس کا مجازی معنی سمجھتے
ہیں، یعنی ’’ بغیر کسی ظاہری سبب یا مرض کے اس کا انتقال ہوگیا‘‘ لیکن اگر
اس کا لفظی ترجمہ کردیں تو یہ ہوگا کہ ’’ وہ اپنی ناک کی موت مرگیا‘‘ ،یہ
اردو میں بالکل بے معنی ہے-
ہاں کچھ محاورے ایسے ہیں جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں- ایسے محاوروں کو
سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی- کسی ایسے عربی محاورہ کا لفظی ترجمہ اگر ہم لغت
میں دیکھیں تو فوراً ہمارا ذہن اس کے مجازی معنی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے-
کیونکہ بعینہ انہی الفاظ میں وہ مخصوص مجازی معنی ہماری زبان میں موجود ہے-
مثلاً عربی کا محاورہ ہے ’’اقتلعہ من جذورہ‘‘ اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ ’’ اس
کو جڑسے اکھاڑ پھینکا‘‘ بالکل یہی اردو کا محاورہ بھی ہے، لہٰذا ہم فوراً
سمجھ جاتے ہیں کہ عربی کے اس محاورہ کا مجازی معنی یہ ہوا کہ ’’اس کا صفایا
کردیا‘‘، اسی طرح اردو کا ایک محاورہ ہے ’’ ہاتھ مانگنا‘‘ اس کا مجازی معنی
ہے کہ کسی سے رشتہ کی بات کرنا یا شادی کا پیغام دینا- اس کا لفظی ترجمہ
اگر عربی میں کردیا جایا تو یہ ہوگا ’’أن یطلب یدھا‘‘یہ عربی کا محاورہ بھی
ہے اور اسی معنی میں مستعمل ہے جس میں اردو میں مستعمل ہے لہٰذا کسی عربی
کو اس کا معنی سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی-
کچھ محاورے ایسے ہیں جو بعینہٖ تو نہیں لیکن تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ
دونوں زبانوں میں ہیں- مثال کے طور پر اردو کا محاورہ ہے ’’الٹی چھری سے
حلال کردیا‘‘ اس کا مطلب ہے بہت اذیت اور تکلیف پہنچای- اسی معنی میں عربی
کا محاورہ ہے ’’ ذبحہ بغیر سکین‘‘ یعنی بغیر چھری کے ذبح کردیا- اسی طرح
اردو کا محاورہ ہے ’’ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا‘‘ اس کا مطلب ہے کسی کی
کمزوری پکڑلی یا معاملہ کے سب سے اہم پہلو کی گرفت کی- اسی معنی میں عربی
کا محاورہ ہے ’’وضع اصبعہ علی الجرح ‘‘یعنی زخم پر انگلی رکھ دی-
کچھ محاورے ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی تاریخی پس منظر ہوتا- یہ محاورے کسی
واقعہ یا حادثے کے بطن سے جنم لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اصل واقعہ فراموش
ہوجاتا ہے مگر محاورہ سکہ راج الوقت کی طرح باز ار ادب میں چلتا ہے- ہم میں
سے کون نہیں کہتا کہ ’’میں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے‘‘ یعنی اس کو کرنے
کا پختہ ارادہ اور عزم کرلیا ہے یا اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے، مگر
کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ در اصل اس محاورہ کے پس منظر میں ایک راجپوتانہ
رسم ہے- جب کسی سردار یا راجہ کو کوئی اہم کام یا مہم درپیش ہوتی تھی تو وہ
دربار میں ایک تخت پر ایک تلوار، شربت کا پیالہ اور ایک پان کا بیڑا
رکھوادیا کرتا تھا اور پھر مصاحبین اور خواص سے اس اہم کام کا ذکر کرتا
تھا- ان میں سے کوئی سورما آگے بڑھ کر تلوار کمر سے باندھتا تھا، شربت پیتا
تھا اور پان کا بیڑا اٹھاکر منھ میں رکھ لیا کرتا تھا- گویا اس مہم کو سر
کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے چنانچہ یہ محاورہ بن گیا، اسی طرح عربی
کے بہت سے محاورے اپنے پیچھے کوئی تاریخی واقعہ یا تہذیبی و سماجی پس منظر
رکھتے ہیں، مثلاً ایک محاورہ ہے ’’ رفع عقیرتہ‘‘ اس کا پس منظر یہ ہے کہ
عرب کے ایک شخص کی ٹانگ کٹ گئی- اس نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ اٹھاکر چیخنا
چلانا شروع کردیا چونکہ کٹے ہوئے عضو کو ’’عقیر ۃ‘‘ کہتے ہیں لہٰذا چیخنے
چلانے اور شور مچانے کے لیے یہ محاورہ بن گیا- (لسان العرب مادۃ عقر)
رفع عقیرتہ یعنی اس نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ اٹھالی بالفاظ دیگر اس نے شور
مچایا اب مجاز در مجاز کی چوٹ کھاتا ہوا یہ محاورہ جدید عربی میں اس طرح
استعمال ہوتا ہے ’’ رفع عقیرتہ ضد فلان‘‘ یعنی فلاں کے خلاف آواز اٹھائی-
جب تک کسی زبان کے محاورات پر گہری نظر نہ ہو اس وقت تک اس زبان میں اچھی
انشا پردازی نہیں کی جاسکتی- اور اگر آپ ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں
کررہے ہیں تو محاوروں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے- ایسی صورت میں ضروری ہے کہ
آپ دونوں زبانوں کے محاورات سے بخوبی واقف ہوں تاکہ محاورہ کا ترجمہ محاورہ
میں کیا جاے- اسی کو ’’ با محاورہ ترجمہ‘‘ کہتے ہیں، اگر آپ محاورہ کا لفظی
ترجمہ کردیں گے تو یا تو وہ بے معنی ہوجائے گا یا کم ازکم غیر فصیح ہوگا-
سواے ان محاورات کے جو لفظ و معنی میں یکسانیت کے ساتھ دونوں زبانوں میں
ہیں مگر ایسے محاورے کم ہی ہیں - یہ ایسا نازک مقام ہے کہ یہاں اچھے اچھوں
کی قابلیت غوطہ کھا جاتی ہے- ہمارے یہاں آج بھی ’’ ذھب ابو حنیفۃ الی کذا‘‘
کا ترجمہ ’’ ابو حنیفہ اس طرف گئے ہیں‘‘ کیا جاتا ہے- یہ ترجمہ نہ صرف یہ
کہ غیر فصیح ہے بلکہ اردو محاورہ کے اعتبار سے بھی غلط ہے دراصل سلیس اور
با محاورہ ترجمہ کرنا بھی ایک فن ہے جو محض زبان کے قواعد رٹ لینے اور
مفردات کو حفظ کرلینے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے ذوق سلیم اور ادبی شعور
بھی ضروری ہے- شاید اسی ذوق سلیم اور ادبی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ
ہمارے یہاں اگر ’’ فقد قال زید‘‘ کا ترجمہ ’’ پس تحقیق کہ کہا زید نے‘‘ نہ
کیا جائے تو بعض ’’کافیہ بردوش‘‘ قسم کے علامہ چیں بجبیں ہوجاتے ہیں - اس
قسم کے ترجمے اگر نحو و صرف کی کتابوں میں دی گئی مثالوں تک محدود رہیں تو
ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسی قسم کے نحوی و صرفی
ترجمے عام مذہبی، ادبی اور تاریخی کتابوں میں روا رکھے جاتے ہیں، ان کو
دیکھ کر سواے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’ شعر مرا بمدرسہ کہ برد‘‘
یہ تو عربی سے اردو ترجمہ کی بات تھی اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
اردو سے عربی ترجمے اپنے جلو میں کیسے کیسے ادبی جواہر پارے اور محاوراتی
شاہکار رکھتے ہوں گے-
ایک بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ عام طور پر عربی سے اردو یا اردو سے عربی لغات
میں محاورات بہت کم شامل کیے گئے ہیں، اورجو ہیں بھی ان کے یا تو لفظی معنی
درج کردئیے گئے ہیں یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تعبیر گڑھ دی گئی ہے جس
سے اہل زبان نا آشنا ہیں-
اب تک کوئی ایسی کتاب بھی دیکھنے میں نہیں آئی جس میں عربی محاورات کو یکجا
کر کے اردو میں ان کا متبادل محاورہ دیا گیا ہو- پاکستان سے شائع شدہ ایک
دو کتابیں ضرور نظر سے گذریں مگر ان میں یا تو محاورات کے نام پر ضرب
الامثال جمع کردی گئی ہیں یا پھر تعبیرات کے نام پر عرب کے مستند ادبا کی
کتابوں سے شگفتہ اور عمدہ جملے یکجا کردئیے گئے ہیں-
جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا کہ با محاورہ ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ
کو دونوں زبانوں کے محاورات سے واقفیت ہو، مثال کے طور پر اگر عربی میں یہ
ہو کہ ’’ضرب عصفورین بحجر‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے ایک پتھر
سے دو چڑیا ں ماریں بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے- اسی طرح
اگر یہ ہو کہ ’’جعل الحبۃ قبۃ‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے دانے
کا گنبد بنادیا بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے رائی کا پہاڑ بنادیا- اسی طرح اگر
اردو میں یہ ہو کہ اس نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی تو اس کا ترجمہ عربی
میں یہ نہیں ہوگا کہ ’’ضرب علی رجلہ بالفأس‘‘ بلکہ یہ ہوگا کہ ’’ حفر قبرہ
بیدہ‘‘ یعنی اس نے اپنے ہاتھ اپنی قبر کھود دی-
راقم الحروف نے اس موضوع کی اہمیت اور طلبہ کو اس کی اشد ضرورت کے پیش نظر
اپنی کم علمی کے باوجود تقریباً ایک ہزار عربی محاورے یکجا کر کے ان کا
ترجمہ اردو محاورے میں کرنے کی کوشش کی ہے-
اس کتاب سے عربی زبان و ادب میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو نہ صرف ترجمہ
کرنے میں بلکہ عربی انشا پردازی میں بھی کافی مدد ملے گی- اس پر ایک تفصیلی
مقدمہ بھی ہے جس میں عربی اور اردو محاورات کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے ان
کے لسانی، تاریخی، سماجی، اور ترکیبی پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے- ساتھ ہی
مقدمہ میں عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمہ کرنے کے لیے مثالوں کے ساتھ
کچھ ایسے رہنما اصول بھی درج کیے گئے ہیں جن کی رعایت کر کے ان لسانی
غلطیوں سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے جو ہمارے ’’ادباے روزگار‘‘ کی عربی یا
عربی سے اردو ترجمہ کا خاص وصف ہیں- انشاء اللہ جلد ہی یہ کتاب منظر عام پر
آکر اہل ذوق کے ہاتھوں میں ہوں گی-
(جامِ نور جولائی ۲۰۰۴ئ) |