عصرِ حاضر میں مطالعۂ سیرت کی معنویت،اہمیت،اور جِہَت

علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا) کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔

سرور کائنات ﷺ کی حیات طیبہ ایک نمونۂ عمل ہے ،قرآن کریم نے اس کو مسلمانوں کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘قرار دیا ہے -یہ لفظ اپنے معنیٰ کی وسعتوں کے اعتبارسے انسانی زندگی کے ہر پہلوکااحاطہ کرتا ہے ،اسے زندگی کے کسی ایک شعبے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا -اسی طرح لفظ ’’سیرت‘‘بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے ،بعض حلقوں میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سیرت یا مطالعۂ سیرت کا صرف یہ مطلب ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کو تاریخی تسلسل اور جغرافیائی پس منظر میں سمجھ لیا جائے،آپ کی ولادت کب ہوئی،کس طرح آپ کی پرورش ہوئی ،پہلی وحی کب آئی،ابتدا میں کون کون لوگ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے،ہجرت کب ہوئی اور اس کے اسباب کیا تھے،کون سا غزوہ کس سن میں ہوا ،اور اس کا نتیجہ کیا رہا ، آپ کے بعض حسی معجزات ،آپ کی بعثت اور دعوت کے نتیجے میں دنیا میں کیا سیاسی ،جغرافیائی،اور معاشی انقلابات آئے وغیرہ وغیرہ-اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے امور بھی ’’سیرت‘‘کا حصہ ہیں مگر ’’سیرت ‘‘کے معنیٰ اور مفہوم کی حدیں صرف یہیں آکر ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ سیرت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے-سیرت قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر کا نام ہے ،اسلامی عقائد،اسلامی اعمال، اسلامی اخلاق،فرد کا نظام حیات،معاشرے کے مسائل، بین الاقوامی تعلقات و روابط، امن کے تقاضے، جنگی قوانین وغیرہ یہ سب کے سب سیرت کے موضوعات میں شامل ہیں-اور سیرت ِطیبہ کو اسی وسیع مفہوم میں ’’اسوۂ حسنہ‘‘قرار دیا گیا ہے ،اگر سیرت ِ پاک صرف واقعات کو تاریخی تسلسل سے بیا ن کرنے کانام ہو،اور اس میں انسانی ہدایت کے گوشوں پر گفتگو نہ ہو تو پھر وہ’’اسوۂ حسنہ‘‘یا بہترین نمونہ کیسے ہوگی ؟تاریخ میں اپنے اپنے میدانوں میں عظیم اور عبقری شخصیات کی سوانح اور سرور کائنات ﷺ کی سوانح کو یہی بنیادی نقطہ جدا کر دیتاہے ،تاریخ انسانی کی دیگر عظیم شخصیات کی سوانح انسان کی تاریخی معلومات میں اضافے کا سبب بنتی ہے لیکن سرور کائنات ﷺ کی مقدس زندگی کا مطالعہ انسان کو آفاقی سعادتوں سے بہرہ مند کرتا ہے -سیرت کے اس وسیع مفہوم کے تناظر میں اگر مطالعۂ سیرت کی معنویت اور اہمیت پر غور کیا جاے تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں-

سیرت طیبہ قرآن فہمی کا ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ ہے ،قرآن کریم کی بے شمار آیات ایسی ہیں جن کے حقیقی معانی تک رسائی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ان آیات سے متعلق سیرت طیبہ کے بعض گوشوں سے پردہ نہ اٹھایا جائے،قرآن کریم اور صاحب قرآن میں باہم ایسا رشتہ اور تعلق ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صاحب قرآن کے اخلاق ہی کو قرآن فرمایا ہے-قرآن فہمی کے سلسلہ میں مطالعۂ سیرت کی اہمیت اس بات سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ قرآن کی سورتوں کی تقسیم صاحب قرآن کی حیات مبارکہ کے دو مختلف ادوار کے حوالوں سے کی گئی ہے ،یعنی جو سورتیں زمانۂ قیام مکہ میں نازل ہوئی ہیں ان کو مکی کہا جا تا ہے اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں ان کو ہم مدنی کہتے ہیں-

مطالعۂ سیرت کے نتیجے میں انسان اپنے سامنے انسانیت کاملہ کی ایک ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جوزندگی کے ہر شعبے میں مکمل نظر آتی ہے،آپ انسانی زندگی کے جس پہلو اور جس گوشے کو بھی سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال آپ کو سرور کائنات ﷺکی زندگی میں نظر آئیگا،یہی وجہ ہے کہ مغرب کے مشہور اسکالر مائکل ہارٹ نے جب دنیا کے سو عظیم انسانوں پر کتاب لکھی تو عیسائی ہونے کے باوجود اس نے اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے سب سے پہلے سرور کائنات ﷺ کا ذکر کیا-

مطالعۂ سیرت کے نتیجے میں اسلام کے بنیادی عقائد،احکام،اخلاق اورہراس چیزکی معرفت ہوتی ہے جس کی ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں ضرورت ہے -یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے-

انسان کی ہدایت ورہنمائی اور ملتوں اور قوموں کی اصلاح احوال اور تربیت کے لیے ایک داعی،مبلغ،مصلح اور رہنما کو دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کے میدان میں جس جس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اس کا ایک پورا نصاب سیرت میں موجود ہے ،دعوت وتبلیغ چونکہ یہ منصب نبوت ورسالت کا حصہ ہے اس لیے اس میدا ن میں اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی جب تک دعوت وتبلیغ منہاج نبوی کے مطابق نہ ہو -لہٰذا کامیاب تبلیغ ودعوت کے لیے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے -

مطالعۂ سیرت کی معنویت اور اہمیت کے بعد اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ عصر حاضر میں مطالعۂ سیرت کی جہت کیا ہونا چاہیئے-

آج اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طو رپر دیکھا جا رہا ہے ا ور (معاذاللہ)رسول اسلام ﷺ پر دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے ،کسی نے کہا کہ اسامہ کو اس کے حالات نے دہشت گرد نہیں بنایا ہے بلکہ اس کو اس کے مذہب اور اس کے رسول کی تعلیمات نے آتنک وادی بنایا ہے-ان حالات میں مطالعۂ سیرت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے،لیکن آج مطالعۂ سیرت کی جہت ذرا مختلف ہونا چاہیئے-جہاں تک سرور کائناتﷺ پر (معاذاللہ)دہشت گردی کے الزام کا سوال ہے تو یہ ان مستشرقین کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے جن کے دلوں میں اسلام اور رسول اسلام ﷺکی طرف سے بغض وعناد بھرا ہوا تھا-مگر اس پہلو پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ خود ہم نے عملی طور پردنیا کے سامنے اپنے مذہب اور اپنے رسول کوکس طرح پیش کیا ہے ؟شاید آپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ سیرت طیبہ پر جو سب سے پہلی کتاب لکھی گئی ہے اس کا نام ’’مغازی ٔ رسول ‘‘ہے یعنی حضور کے جنگی کارنامے-ہمارے یہاں بارہ ربیع الاول کے جلوس میں دو داڑھی والے حضرات عربی لباس میں ملبوس ہاتھ میں (لکڑی)کی تلواریں لیے ہوئے جلوس کے آگے آگے چلتے ہیں ،ممکن ہے یہ منظر اور جگہ بھی دیکھنے کو ملتا ہو ،میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر پیغمبر امن وسلامتی کے جشن ولادت کے موقع پر ہم ہاتھ میں تلوار لے کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟حالانکہ اگر اعلان نبوت سے لے کر آپ کے وصال تک کی ۲۳ سالہ زندگی کو مختلف کاموںپر تقسیم کرکے دیکھا جائے تو بڑے حیرت انگیز انکشافات ہونگے-مثال کے طور پرآپ ﷺ نے جتنے غزوات میں شرکت فرمائی اگر ان سب کو جمع کرکے ان کے گھنٹے اور دن بنا لیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان ۲۳ برسوں میں صرف چھ ماہ ایسے ہیں جن میں آپ کے ہاتھ میں تلوار ہے،گویا ساڑھے بائیس سال میں آپ یا تو لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف فرمارہے ہیں،یا پھر غریبوں اور مسکینوں کو مال تقسیم فرمارہے ہیں،یا لوگوں کے درمیان مساوات قائم فرمارہے ہیں،کبھی غلاموں، مزدوروں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک فرمارہے ہیں اور اپنے صحابہ کوبھی ایسا ہی کرنے کا حکم فرمارہے ہیں،کبھی آپ عورتوں اور بیواؤں کے حقوق کے سلسلہ میں لوگوں کو متنبہ فرمارہے ہیںوغیرہ وغیرہ-اب اگر آپ ان ۶ ماہ (جن میں حضورﷺ کے ہاتھ میں تلوار ہے )سے ان ساڑھے بائیس سال کا موازنہ کریں تو ایک نئی دنیا کی سیر ہوگی ، یہاں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ ان چھ مہینوں میں بھی آپ نے لوگوں کو ظلم وزیادتی سے بچانے کے لیے اور فتنۂ وفساد رفع کرکے امن کے قیام کے لیے تلوار اٹھائی ہے-آج کے بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت ہے کہ سیرت طیبہ کے ان ساڑھے بائیس برسوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے-سیرت طیبہ سے متعلق ہمارے خطابات ہوں یا مضامین ومقالات ان میں عموماً حضور اکرم ﷺ کے معجزات یا آخرت میں آپ کی شفاعت اور اللہ کے نزدیک آپ کے مقام رفیع کا بیان ہماری توجہ کا مرکز ہوا کرتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ان امور کے بیا ن سے ہمارے ایمان بالرسول میں تازگی اور پختگی کا سامان ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ہمیں آج کے بدلتے حالات میں زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت طیبہ کے ان گوشوں پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے جن میں فرد کی اصلاح اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کی سمت سفرکا آغاز کیا جاسکے-آج مطالعۂ سیرت کی جہت کے تعین میں حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے ان گوشوں کو تحریراً،تقریراً اور عملاً سامنے لانے کی ضرورت ہے جن کا براہ راست تعلق انسان کی ہدایت ورہنمائی سے ہے ،آپ کا اخلاق،صبر ورضا،قناعت و توکل، دشمنوں سے آپکا حسن سلوک،مصیبت زدہ اور آفت رسیدہ انسانوں پر آپ کی شفقت و نوازش، غیر مسلموں کے ساتھ آپکا حسن معاملہ وغیرہ تاکہ ایک طرف تو ہم اپنی قوم کے افراد کے لیے آپ کی زندگی کو ’’اسوۂ حسنہ‘‘یا بہترین نمونے کے طور پر پیش کر سکیں جس پر عمل کرکے ہم اعلیٰ انسانی اقدار سے متصف ہوکر ابدی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں، اور دوسری طرف ہم دوسری اقوام کے سامنے اپنے رسول کا صحیح تعارف کرواسکیں جس سے اسلام کی دعوت اور غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کے راستے ہموار ہوں-آج اسلام دشمن میڈیا کی طرف سے یہ تأثر دیا جارہا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو صرف دو چیزیں دی ہیں ایک تلوار اور دوسری چار شادیوں کی اجازت،اس مکروہ پروپگنڈے کے جواب میں ہمیں مثبت طریقوں سے غیر مسلموں تک سیرت طیبہ کے اخلاقی، روحانی اور آفاقی پہلوؤں کو پہچانے کی ضرورت ہے -

جب ہم مطالعۂ سیرت کا آغاز کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہم غار حرا میں اللہ کے اولین پیغام کا ذکر کرتے ہیںاور اس کے بعد کے واقعات کو ہم سرسری طور پر پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ،مگر اسی واقعاتی تسلسل میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب آپ غار حرا سے اپنے کاشانۂ اقدس میں واپس تشریف لائے اور آپ نے اپنی شریک حیات سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پورا واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ خدیجہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے ؟اس کے جواب میں آپ کی زوجۂ محترمہ نے جن الفاظ میں آپ کو تسلی دی وہ خاص طور پر توجہ طلب ہیں آپ نے فرمایا ’’نہیں، آپ کو ڈر کس بات کا؟میں دیکھتی ہوں کہ آپ اقربا پر شفقت فرماتے ہیں،سچ بولتے ہیں،یتیموں اور بے کسوں کی دستگیری کرتے ہیں ،مہمان نوازی فرماتے ہیں ،اور مصیبت زدوں سے ہمدردی کرتے ہیں خدا آپ کو کبھی رنجیدہ نہ فرمائیگا‘‘حضرت خدیجہ کے ان کلمات پر غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ کی بیوی کو آپ کی شخصیت میں جو سب سے اہم بات نظر آئی وہ یہ نہیں تھی کہ آپ بہت طاقور،بہادر اور جنگجو ہیں لہٰذا آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کو گزشتہ ۱۵ سالہ رفاقت کے دوران حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں سب سے نمایاں انسانی ہمدردی،درد مندی اور مخلوق خدا کی دستگیری کے پہلو نظر آئے ،اورا یسا کیوں نہ ہو؟کیونکہ آپ کی ۶۳ سالہ ظاہری حیات مبارکہ کا یہی غالب پہلو ہے جس کی جلوہ نمائی ان ۶۳ برسوں میں صبح وشام نظر آتی ہے -ہم جب خوارق عادات کی بات کرتے ہیں تو سیرت کے اس پہلو کو فراموش کردیتے ہیںکہ جود وسخا کے سلسلہ میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ دن بھر میں جو کچھ بھی دنیاوی مال و متاع آپ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا اس سب کو آپ اس دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے -یہ بات چاہے معجزے کی اصطلاحی تعریف کے تحت نہ آتی ہو مگر کیا یہ کسی معجزے سے کم ہے؟

عصر حاضر میں مطالعۂ سیرت کی اسی جہت کو مد نظر رکھنا نہ صرف یہ کہ آج وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہماری اور پوری انسانیت کی ضرورت ہے ،کیونکہ ہماری اورپوری انسانیت کی کامیابی اور فلاح کی ضمانت اسی سرچشمۂ ہدایت میں مضمر ہے -
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.