علامہ اُسید الحق قادری بدایونی
دامت برکاتہم العالیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا) کی
کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔
انسان جس کو ’’اشرف المخلوقات‘‘ کہا گیا ہے، اس کی پیدائش کا مقصد یہ بتایا
گیا تھا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرے (القرآن : ۵۱،۵۶)- دنیا کے
آغاز کے ابتدائی زمانے میں انسان اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرتا رہا، لیکن
پھر رفتہ رفتہ اس کا رشتہ اپنے خالق سے کمزور ہوتا چلا گیا، انسان نے اپنے
اصل خالق اور معبود کو چھوڑ کر اپنے دل سے بہت سے معبود بنا لیے اور انھیں
معبودوں کی عبادت میں الجھ کر انسان اپنے اصل معبود کو بھول گیا، انسان کی
اس غلطی کی اصلاح کے لیے اس کے اصل خالق نے رسولوں کی بعثت کا سلسلہ شروع
کیا، تاکہ بھٹکے ہوئے انسان کو دوبارہ اس کے رب کے راستے کی طرف لایا جائے،
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے (ترمذی)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے راستے پر چلنا یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے،
تاریخ کے جس دور میں بھی انسان نے خدا کے راستے کو چھوڑا ہے تو گویا اس نے
اپنی فطرت کے خلاف قدم اٹھایا ہے، اپنے فطری تقاضوں سے انحراف کرکے انسان
اس حد تک چلا گیا کہ اس نے اپنے خالق کا ہی انکار کر دیا، ایک مشہور
کمیونسٹ رہنما نے کہا کہ ’’خدا نے انسان کو نہیں بنایا ہے بلکہ انسان نے
خدا کوپیدا کیا ہے‘‘، گویا یہ اپنی فطرت سے بغاوت کی انتہا تھی-
آج کے ترقی یافتہ انسان کی سب سے بڑی پرابلم اس کی اپنی فطرت سے جنگ ہے، یہ
اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ مادی طور پر تاریخ انسانی کا سب سے ترقی یافتہ اور
طاقت ور انسان بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار ہے، اپنی اس بے اطمینانی کو
دور کرنے کے لیے نت نئی ایجادات کا سہارا لے رہا ہے مگر چونکہ یہ تمام
سہارے بھی غیر فطری ہیں اس لیے انسان کے مرض میں دن بدن اضافہ ہی کر رہے
ہیں، تازہ سروے کے مطابق مغرب میں ہر ساتواں آدمی رات میں سونے کے لیے نیند
کی گولی استعمال کرتا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اندر سے کتنا بے
سکون ہے، اس کی یہی بے سکونی اور بے اطمینانی اس کو سونے نہیں دیتی، سروے
رپورٹ بتاتی ہے کہ مغرب میں خودکشی کرنے کا رجحان تیزی سے زور پکڑتا جا رہا
ہے، وہاں باقاعدہ ایسے ادارے وجود میں آ چکے ہیں جو کسی بھی آدمی کو خودکشی
کرنے میں مدد کرتے ہیں، اگر کوئی انسان زندگی جیسی قیمتی چیز ختم کرنے پر
آمادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مایوسی، بے سکونی اور بے اطمینانی کی
انتہائی منزل تک پہنچ گیا ہے- خالق کے انکار سے لے کر آج تک انسان نے اپنی
بے سکونی کو دور کرنے کی جتنی جد و جہد کی اتنا ہی وہ اندر سے بے سکون ہوتا
چلا گیا، اب جا کر انسان کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کی بے اطمینانی کا
علاج ان مادی وسائل میں نہیں ہے، بلکہ وہ کوئی اور نسخۂ کیمیا ہے جو اس کو
حقیقی سکون و اطمینان سے آشنا کر سکتا ہے، یہ سوچ اب مغرب میں تیزی کے ساتھ
عام ہو رہی ہے اور انسان حقیقی سکون و اطمینان کی تلاش میں ہے، روحانیت کو
ترک کر کے مادیت کے جس راستے پر انسان نے گزشتہ دو صدیوں میں برق رفتاری سے
سفر کیا ہے، اب مادی منزل مقصود تک پہنچ کر انسان کو اچانک یہ احساس ہوا کہ
یہ اس کی حقیقی منزل نہیں تھی، اس نے غلط راستے کا انتخاب کر لیا تھا، اس
خیال نے انسان کو اس بات پر مجبور کیا کہ اب وہ اسی تیزی کے ساتھ واپسی کا
سفر طے کرے، جس طرح اس نے روحانیت سے مادیت کی طرف سفر کیاتھا، اس لیے
انسان اب ایک بار پھر پلٹ کر مادیت سے روحانیت کی طرف سفر کرنے کے لیے
راستہ تلاش کر رہا ہے-
دنیا میں پیتل کو سونا کہہ کر بیچنے والوں کی کمی نہیں، مغرب میں سوامی
رجنیش اور ان جیسے دوسرے ’’روحانی رہنما‘‘ بڑی آسانی کے ساتھ انسان کو
حقیقی روحانی سکون کا خواب دکھا کر متاثر کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں،
اس قسم کے روحانی رہنماؤں کی صحبت سے انسان کو حقیقی سکون ملا یا نہیں یہ
ایک الگ مسئلہ ہے مگر مغرب میں ان لوگوں کی مقبولیت اور ان کی طرف لوگوں کے
میلان کو اس بات کی دلیل تو بنایا ہی جا سکتا ہے کہ انسان واقعی حقیقی سکون
و اطمینان کا کس قدر پیاسا ہے-
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں
خود فراموش بنادیا‘‘ (القرآن : ۵۶۱۹) یعنی اللہ کو بھولنے کی سزا ان کو یہ
دی گئی کہ وہ خود کو بھول گئے، جب انسان خود کو پہچان لے گا تو اپنے رب کو
بھی پہچان لے گا اور جب اپنے رب کو پہچان لے گا تو اس کی عبادت کی طرف
آمادہ ہوگا اور جب انسان اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرے گا تو وہ اس حقیقی
سکون و اطمینان کو پالے گا جو اس نے غیر فطری طریقوں کو اختیار کرنے کے
نتیجے میں کھو دیا تھا- سورج مکھی (Sun Flower) اسی وقت تک شاداب رہتا ہے
جب تک اس کا رخ سورج کی طرف ہوتا ہے، گویا یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس
کا رخ سورج کی طرف رہے اور جب اس کا رخ سورج کی طرف سے ہٹتا ہے تو اس کے
چہرے کی شادابی بھی ختم ہو جاتی ہے، گویا سورج سے انحراف اس کے فطری تقاضے
سے انحراف ہے اورفطری تقاضوں سے انحراف ہی کی وجہ سے وہ اپنی شادابی کھو
دیتا ہے-
مادیت پر مبنی الحادی نظریات کی شکست ہو چکی ہے اور آج کا انسان ایک بار
پھر اپنے انہیں فطری تقاضوں کا سرا تلاش کر رہا ہے اور تیزی کے ساتھ واپس
اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ رہا ہے- جو لوگ اسلام کے دامن سے وابستہ ہو رہے
ہیں ان کے بارے میں کسی نے کہا یہ لوگ کسی نئے مذہب کو اختیار نہیں کر رہے
ہیں بلکہ یہ لوٹ کر واپس اپنے مذہب میں آ رہے ہیں، گویا یہ ’’دخول‘‘ نہیں
ہے بلکہ ’’رجوع‘‘ ہے، یہ اپنی پیدائش کے وقت فطری طور پر اسی مذہب پر تھے،
پھر اپنی فطرت سے بغاوت کر کے اپنے اصلی گھر کو چھوڑ کرچلے گئے تھے آج پھر
یہ اپنے گھر میں واپس آ گئے-
(نیو ایج ویژن، مئی ۲۰۰۹ئ) |