اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی؟

امانت اور دیانت سے محروم ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں عالمی سطح پرزیر بحث 10اہم ترین موضوعات میں بابری مسجد سانحہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف مہم نے بھلے ہی پہلا مقام حاصل کرلیا ہولیکن یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہلایا جاسکتا کہ گذشہ تمام فوری اور دوررس اہمیت کے مسائل کو پیچھے دھکیل دے۔درحقیقت عنوانی کا مسئلہ کوئی نیانہیں ہے لیکن ووٹوں کی سیاست کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کے فراق میں زعفرانی ٹولے نے میڈیا کے راستے سے پرانی شراب کو نئی بوتل میں ضرور پیش کردیا ہے۔سردار پٹیل کے سرپرست جواہر لال نہرو کے دور میں بھی‘ جسے’ خود مختار‘ ہندوستان کا ’سب سے اچھا دور‘ سمجھا جاتا ہے ‘یہی مسئلہ بڑے زور دار اندازسے اٹھایا گیا تھا۔ اصل میں مرکزی نگرانی یا ویجی لینس کمیشن کا قیام انہی دنوں ہوا تھا۔ اسی کے تحت تمام سرکاری دفتروں میں نگرانی کمیٹی بنی تھیں جو آج بھی ہوں گی ہی۔ بحث یہی ہوئی تھی کہ نظام حکومت کو قابل اعتماد ‘ معتبر اور دیانتدار ’اومبیوڈسمینOmbudsman یا موجودہ لوک پال کی طرح کیسے مضبوط بنایا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میںلوک سبھا میںاس موضوع پر 21دسمبر 1963 کوضابطہ193 کے تحت طویل بحث ہوئی تھی۔ ڈاکٹر را م منوہر لوہیا کی تقریر کی وجہ سے یہ بحث آج تازہ ہوگئی ہے۔ چونکہ موجودہ لوک پال بل مستقل کمیٹی کی طرف سے منظور ہوکر پارلیمنٹ کے سامنے غور کیلئے آنے والا ہے اس لئے تقریبا پچاس سال پرانی اس بحث کا جائزہ لینا حوصلہ بخش ہوگا۔ خاص طور پر ان اراکین پارلیمنٹ کیلئے جو اس بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔تقریر شروع کرتے ہی ڈاکٹر لوہیا نے کہا کہ جو بحث حکومت کو خود کروانی چاہئے وہ حزب مخالف کو کروانی پڑ رہی ہے ، یہ بھی ایک نمونہ ہے پارلیمانی جنسی استحصال کا۔ جنسی استحصال لفظ پر ہنگامہ ہوا اور ایک رکن نے کہا کہ یہ لفظ غیر پارلیمانی ہے۔ اس کے جواب میں لوہیا کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے دائرے میں اگر صرف رشوت خوری کو لیا جائے گا تو قوانین کی خلاف ورزی ، جانبداری ، کام چوری یا نکما پن اور غلط بیانی وغیرہ کیلئے ’جنسی استحصال‘ لفظ کا ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کی تعریف میں یہ سب چیزیں آنی چاہئیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ بدعنوانی ہے کیا؟

بدعنوانی کا مسئلہ کے پیچھے محض دیانتداری کی کمی نہیں ہے بلکہ سمجھ کی کمی بھی ہے۔ جب تک ہم سمجھ نہیں سدھاریں گے یعنی یہ نہیں جانیں گے کہ بدعنوانی کیا ہے ، اس کا اصل مآخذ اور منبع کہاں ہے ، اس کی حیثیت کیا ہے ، اس وقت تک ہم بدعنوانی کو دور نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی نگرانی یا ویجی لینس کمیشن میں بدعنوانی کو روکنے کی قوت نہیں ہے بلکہ اس میں تومحض علاج کی استعداد ہے۔ صرف علاج کے نقطہ نظر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب کبھی بڑا آدمی پکڑا جائے گا وہ تو چھٹ جائے گا اور معمولی اور چھوٹے آدمی کو سزا ملے گی جبکہ بڑا آدمی اپنی جگہ کسی غریب شخص کو جیل بھجوا کر خود بچ جائے گا۔ اسے لوہیا نے’عوضی سزا‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی اقتصادیات کی طرف سے وضع کیا گیا یہ اصول غلط ہے کہ ترقی پذیر معیشت میں جہاں پیداوار کم ہوتی ہے‘ بدعنوانی لازمی چیز ہے۔ اس اصول کے ضمن میں انہوں نے روس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ روس نے ترقی پذیر حالت میں کھپت یاصرفConsuption پر زور نہ دے کر پیداوار پر زور دیا اور اس طرح بدعنوانی پر قابو رکھا۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کا ایک بڑا سبب ،عہدے اور تجارت کا تعلق ہے جو سرمایہ داری نظام کی خاصیت ہے۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب ہے کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی اولادوں بیٹے‘ بیٹیوں اور رشتہ داروں کا سرکاری ا مداد سے اپنے صنعتی دھندے چلانا۔ اسی کی ایک صورت یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے سرکاری افسروں کا بڑی کمپنیوں کی ملازمت کرناتاکہ کمپنیاں ان کے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ کسی بزنس میں جہاں وزیر کو کوٹہ پرمٹ وغیرہ دینا پڑتا ہے ، اس میںمتعلقہ وزیر کی دو پشتوں تک کے رشتہ داروں کو بالکل نہیں آنا چاہئے۔ بدعنوانی کے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملک کاکئی ہزاروں ذاتوں میںمنقسم ہونا‘ کیونکہ قدیم تہذیب کے مطابق ہر آدمی سوچتا ہے کہ اپنی ذات برادری ، اپنے بیٹوں وغیرہ کیلئے کچھ ’اچھا‘کیاجائے تو اس میں کیا برائی ہے؟ جبکہ قدیم روایات سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے آپ کو ذات برادری سے اوپر کہنے والے رہنماؤں کا عالم یہ ہے کہ جس ذات کا فرد وزیر اعظم بنتا ہے اس کی ذات کے افسر سب سے قابل بن جاتے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں کوہتھیا لیتے ہیں۔ کشمیری وزیر اعظم ہو تو کشمیری افسر سب سے قابل ، انگریز زیر اعظم ہو تو انگریز افسر سب سے قابل تسلیم کئے جانے لگتے ہیں۔

لوہیا نے اپنے دورکی 44 کروڑ کی آبادی میں سے 43.5 کروڑ کی انتہائی غربت اور50 لاکھ لوگوں کی امریکہ‘ یوروپ کی نقل سے مسلسل اپنی زندگی کی سطح بلند کرنے کی ہوس کو بھی بدعنوانی کاایک بڑا سبب بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ غریب تو دو پیسے‘ چار پیسے کیلئے بے ایمان ہوتے ہیں لیکن50 لاکھ بڑے لوگ لاکھوں کروڑوں کے بے ایمان ہوتے ہیں۔ ہمارے منصوبے نچلی سطح کے 99 فیصد لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے نہیں بنتے بلکہ نصف فیصد لوگوں کو یوروپ اور امریکہ کی معیار زندگی پر لانے کیلئے بنتے ہیں ، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یوروپ اور امریکہ نے اپنا معیار زندگی تین سو سال میں مسلسل محنت کرکے بلند کیا ہے اور ہم بغیر پیداوار بڑھائے فوری طور وہ سطح محض چند چنے لوگوں کیلئے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بدعنوانی کی ایک اور وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ حکومت کی جانب سے سچائی کا منہ طلائی تالے سے مقفل کرکے رکھنا یعنی سادھو ، سنت ، مصلح ، تعلیمی شعبے کے لوگوں کا منہ بند رکھنے کیلئے انہیں بڑی بڑی تنخواہوں اور عطیات سے خوش رکھنا۔ وزرائے اعلٰی اور وزراءکے خصوصی اختیارات کو بھی انھوں نے بدعنوانی کا ایک ذریعہ بتایا۔ ان کیلئے ہمارے قواعد ہونے چاہئیں کیونکہ قوانین کے بغیر یہ من مانی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم فنڈ کی مثال دی جس سے پیسہ خرچ کرنے کیلئے کوئی ضابطہ نہیں ہے اس لئے محض ان کی یعنی وزیراعظم کی’ آزادی‘ یا صواب دید کارفرما ہوتی ہے۔وزیر اعظم کاخاندانی ٹرسٹ اورمفادعامہ فنڈ کی بھی انہوں نے مثال دی جس میں کئی مشتبہ کردار والے افراد نے پیسہ جمع کیا اور اس کے بدلے میں انھوں نے مفاد حاصل کیا۔ اس تقریر کے آخر میں لوہیا نے بدعنوانی پر روک لگانے کیلئے ایک قیمتی مشورہ دیا جو آج کے تناظر میں بھی قابل غور ہے۔ ان کے الفاظ ہیں اگر سچ مچ کوئی مرکزی نگرانی کمیشن یاسچا کمیشن بنایا جائے جس کو یہ حق حاصل کہ وہ دو انتباہات کے بعد اسی قسم کے بدعنوانی کے معاملے میں کسی کو بھی گرفتار کر سکے‘ چاہے وہ وزیر اعلٰی ہو یا وزیر اعظم یا کوئی دیگر، نیز اسے یہ حق حاصل ہو کہ وہ ہندوستان کے اقتصادی نظام کو بدل سکے جو عدم مساوات اس ملک کو کھائے جا رہا ہے اس کو ختم کر سکے ، کھپت کے اوپر توجہ نہ دے کر پیداوار پر توجہ دی جائے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ دو برس کے اندر تو کیا ، مانیہ مہاویر تیاگی جی بھی ہندوستان سے بدعنوانی کو ختم کر سکتے ہیں لیکن مسٹرگلزاری لال نندا کبھی بھی نہیں ختم کر سکیں گے ، یہ قطعی طے شدہ بات ہے۔

اس وقت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندا کی طرح آج کے وزیر داخلہ بھی بدعنوانی ختم نہیں کر سکتے کیونکہ جو قانون بننے جا رہا ہے اس میں بدعنوانی کی وجوہات تلاش کرنے اور انہیں دور کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوگا ۔ڈنڈے کے زور پر نظام کو بہتر بنانے کی محض کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ البتہ ایک خطرناک ’پولیس راج‘ کے قیام کا ذریعہ ضرور بن سکتی ہے۔لیکن اگردیانتدار افراد ،انصاف پسند جماعتیں وغیرہ طے کر لیں کہ بدعنوان افراد کی مخالفت کریں گے تو کافی حد تک اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے لیکن ان تنظیموں میں معاشرے کے تمام طبقوں کی نمائندگی ہونی چاہئے۔اس کام کو منصفانہ مزاج کی حامل سیاسی پارٹیاں اپنے سطح پر شروع کرکے نہ صرف اپنی سرگرمیوں میں نئی جان ڈال سکتی ہیں بلکہ نوجوان نسل کیلئے سیاسی تربیت کے مواقع فراہم کروا کے نوجوانوں میں پھیلتے ہوئے منفی رجحانات پر روک بھی لگا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس لوک پال قانون ، بھلے ہی وہ غیر معمولی قوتوں سے لیس ہو ، ایک بھاری بھرکم نوکرشاہی ڈھانچے کا بوجھ عوام پر لادنے کے سوا کچھ کر نہیں کر سکے گا۔

بدعنوانی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے پہلے سے ہی ہمارے یہاں عظیم نوکرشاہی ڈھانچہ کھڑا ہے جس کی وجہ سے بدعنوانی کم ہونے کی بجائے اس میں مسلسل اضافہ اب انتہائی حد پر پہنچ چکا ہے۔ اگر انا کی مانگ کے مطابق تمام سرکاری ملازمین کو لوک پال کے دائرے میں لایا جائے گا تو اس کیلئے کم سے کم چار لاکھ ملازمین کی ضرورت پڑے گی۔ محض سزا‘ قانون سازی پر مبنی پامال اور پٹے پٹائے اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔بدعنوانی ایک اخلاقی مسئلہ ہے اور اس لئے اس کا حل اخلاقی شعور جگا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس شعور کو جگانے کا بہترراستہ ہے۔اعلٰی اخلاقی قدریںسماج اور سیاست کی تمام برائیوں سے لڑنے کی تربیت دیتی ہیں۔ اس راستے سے نہ صرف ملک بدعنوانی کی برائی سے کافی حد تک آزاد ہو سکتا ہے بلکہ بڑی شخصیتوں کی دہشت سے بھی سیاست کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔

بدعنوانی کے خلاف احتجاج میں چل رہی موجودہ تحریک میں دبے کچلے طبقے شامل نہیں ہیں۔ اس لئے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے آل انڈیا تنظیم نے انڈین جسٹس پارٹی کے زیر اہتمام انا ہزارے کی تحریک کے خلاف شروع سے ہی کارکردگی کا مظاہرہ کئے۔ اس نے جن لو ک پال بل کے مساوی بہوجن لوک پال بل کا مسودا بھی تیار کیا اور اسے پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی کے پاس غور و خوص کیلئے بھیجا۔ بہوجن لوک پال بل میں مطالبہ کیا گیا کہ لوک پال کے نظام میں درج فہرست ذاتوں ، درج فہرست قبائل ، پسماندہ طبقات اور پسماندہ اقلیتوں کیلئے ریزرویشن ہونا چاہئے۔ سماج کے ان محروم طبقوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ لوک پال کے انتظام کو عدلیہ اور فوج کی طرح ریزرویشن کوآزاد بنایا جا سکتا ہے۔درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے اراکین پارلیمنٹ نے اسی خدشہ کے حوالے سے پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کئے ہیں۔ انہوں نے بھی لوک پال کی نظام میں ریزرویشن کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر انا ہزارے نے متنبہ کیا ہے کہ اسی سیشن میں لوک پال بل منظور نہیں ہوا تو وہ ’جیل بھرو‘ تحریک شروع کریں گے۔ اگر حکومت نے دباؤ میں آکر جلد بازی میں لوک پال کے سلسلے میں کوئی قانون بنا لیا تو وہ راجیو گاندھی کے دور میں بنے ’دل بدلو مخالف قانون‘ کی طرح ہی متعدد مسائل اور تنازعات کا پٹارا بن سکتا ہے۔ جبکہ نوبل انعام یافتہ امرتہ سین نے بھی انا گروپ کی اس ضد پر سخت نکتہ چینی کی ہے جبکہ دیانت اور امانت انسانی اخلاق کی بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعث سے قبل امانت آ پ کا طرہ امتیاز تھا۔ حتٰی کہ اپنے ہم وطنوں میں آپ الامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور عرب میں آپ کی ذات ہی الصادق اور الامین کہلائی جاتی تھی۔ آپ کی یہ خوبی ایسی تھی کہ غیر مسلموں پر بھی اس کا خصوصی اثر ہے۔ چنانچہ مسز اینی بیسنٹ جو ہندوستان میں تھیوسافیکل کی پیشوا اورمعروف یوروپی خاتون ہیں تسلیم کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین کا خطاب دلوایا۔ کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کیلئے قابل اتباع نہیں۔ ایک ذات جو مجسم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہو سکتاہے۔ ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو۔آنحضرتکے فیض صحبت نے جہاں صحابہ کرام ؓمیں اور بے شمار خوبیاں پیدا کر دی تھیں وہاں دیانت و امانت میں بھی ان لوگوں کا پایہ بہت بلند کردیا تھا۔ چنانچہ سخت ابتلا کے مواقع پر بھی انکے پائے دیانت نے کبھی لغزش نہیں کھائی۔ (آزاد فیچرس)
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126146 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More