نام نہاد تہذیب وتمدن کے
علمبردار یوروپ میں‘ بالخصوص لندن کے لوگوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ
بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ متوسط گھروں میں ایک دو بلیاں ضرور پائی جاتی
ہیں۔ لندن کے کسی بازار میں اگر بدقسمتی سے کوئی بلی کسی گاڑی کے نیچے آ
جائے اور خدانخواستہ وہ بلی مر جائے تو اخبارات میں طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
اخبارات میں یہ خبرگردش کرنے لگتی ہے کہ بلی کیسے مری ، ڈرائیور کو پکڑا
گیا یا نہیں ، زخمی بلی کو علاج کون سے اسپتال لے جایا گیا اور وہاں بلی کی
خاص چوٹ کا خصوصی علاج کرنے کی سہولتیں میسر تھیں یا نہیں۔اگر نہیں تھیں تو
کیوں نہیں تھیں بلکہ جو لوگ بلی کی موت کیلئے ذمہ دار تھے ، انہیں کوئی سزا
ہوئی ہے یا نہیں ، وغیرہ وغیرہ‘ بہت دنوں تک اخبارات ان تذکروں سے بھرے
رہتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں عرب کا ایک اور امریکی مخالف حکمران ناٹو کی گولیوں کا شکار
ہوا۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے کہیں یہ خبر نہیں شائع کی کہ ناٹو کے حملے
میں نہ صرف قذافی بلکہ ان کا ایک بیٹا اور تین پوتے بھی جاں بحق ہو
گئے۔البتہ پہلی خبر جو الیکٹرانک میڈیا نے دکھائی وہ یہ تھی کہ ان کی لاش
کو جوتوں سے پیٹا گیا ، ان کے بال کھینچے گئے ، ان کے جسم کو کمر تک برہنہ
کیا گیا اور اسے مسروتا کی گلیوں میں گھمایا گیا۔ ایک رپورٹ یہ بھی شائع
ہوئی کہ ان کے مردہ جسم کو ایک ایسے چلتے پھرتے ریفریجریٹر میں رکھ کر
گھمایا گیا جس میں آر پار سب دکھائی دیتا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے کھانے کو
پردہ سے رکھنے کے حکم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیک پیسٹری کو شفاف
کاؤنٹروں میں سجا کر گاہکوں کو منہ میں پانی بھرنے کیلئے مجبور کردیا
جاتاہے۔ان سب خبروں کا مقصد دنیا کو یہ باورکروانا تھا کہ وہ اسی قابل تھا
اور اسی لئے اس کا یہ حشر کرنا لیبیاکے باشندوں کیلئے’ انتہائی ضروری‘ تھا۔
عام طور پر تمام بین الاقوامی اخبارات ، ’گارجین‘ سے لے کر ’ڈیلی ٹیلی
گراف‘ تک اخبارات نے 21 اکتوبر کے اپنے ایڈیشن میں قذافی کے قتل کے ایک دن
بعدبھی مسرت کا اظہار کیا۔ کچھ خبریں ایک نظر میں اس طرح تھیں’گندے سیور
میں قذافی کو گولیوں سے بھونا گیا ‘ چوہوں کو مزیدار کھانے ملا ،بے رحم
ڈکٹیٹر پر کوئی رحم نہیں‘ وغیرہ۔
یہ سب ایک دن میں ہی نہیں ہوگیا بلکہ مدتوں ذہن سازی کی گئی کہ قذافی کئی
دیگر ڈکٹیٹروں کی طرح محض ایک’ ڈکٹیٹر‘ تھا جبکہ وہ اپنے قبیلے کامقبول
لیڈر تھا۔ قبیلوں میں عام طور پر باہمی لڑائی تو ہوتی ہی ہے۔ لیبیا کے
طرابلس علاقے میں کرنل قذافی کے قبیلے کا نام ہی ’قذافی قبیلہ‘ تھا۔ تاریخی
طور پر تیل اور قدرتی گیس پر جس قبیلے کا حق ہو جاتا تھا ، وہی لیبیا کی
گدی پر بیٹھتا تھا۔ انتظامیہ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو عام طور پر ترجیح
دی جاتی تھی۔ چار دہائیوں تک قذافی کی ایک پیڑھی کی حکمرانی رہی۔
’فائنانشیل ٹائمز‘ نے ‘جو عام طور پر مدلل خبروں کیلئے اپنی منفرد شناخت کا
حامل ہے ،قذافی کے بارے میں لکھا کہ’ ا یک ایسا مطلق العنان جس نے اپنے
عوام کو غریب بنایا‘کہا جارہا ہے لیکن یہ کہنا سراسردروغ گوئی پر مبنی ہے۔
جہاں تک نظریہ کا سوال ہے توقذافی مصر کے صدر جمال عبدالناصر اور ان کی عرب
قوم سے متاثر رہے۔ 1977 میںقذافی نے اپنے سیاسی پروگرام کا اعلان کیا تھا
اور اس کا نام رکھاتھا’جمہوریہ‘ ، جسے ’عوام کی ریاست یا ایک خاص قسم کا
’عرب سوشلزم‘ قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی انسانی فروغ کی
رپورٹ نے قبول کیا ہے کہ پورے افریقہ میں لیبیا میں لوگوں کا معیارزندگی سب
سے اچھا ہے۔ وہاں خواندگی کی شرح پچانوے فیصد ہے ، اوسط زندگی توقع یا
ممکنہ عمر ستر سال سے زائد ہے اور فی کس خام ملکی پیداوار 16500 ڈالر
سالانہ ہے۔ہر لیبیائی باشندے کیلئے تعلیم ، رہائش اور صحت کی خدمات مفت
دستیاب ہیں۔ ہر لیبیائی شہری کو شادی کے وقت نئی زندگی شروع کرنے کیلئے
پچاس ہزار ڈالر کے مساوی رقم دی جاتی ہے۔ جو آمدنی لیبیا متحدہ کو تیل سے
حاصل ہوتی ہے ، اس میں سے ہر سال پانچ ہزار ڈالر ہر لیبیائی باشندے کے
اکاؤنٹ میں جمع کر دئے جاتے ہیں۔
قذافی کے دور حکومت کے یہ تمام اعدادوشمارمحض اقوام متحدہ کی موٹی موٹی
ضخیم رپورٹوں میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں جنہیں کوئی نہیں پڑھتالیکن ’دی سن‘
جسے لندن میں پچاس لاکھ لوگ پڑھتے ہیں‘اسی’دی سن‘ نے قذافی کو 'دنیا کا سب
سے بے رحم اور سخت دل دہشت گرد ،’لیبیا کا پاگل کتا‘ تک کہہ ڈالا اور اس کی
موت کیلئے برطانیہ کے ’بہادر سپاہیوں‘کی تعریف کی ہے جو ناٹو حملے میں شامل
تھے۔ بعینہ اسی طرح جیسے جلیان والے باغ میں فائرنگ کرنے والوں کی عز ت
افزائی کی گئی تھی۔کسی اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ لیبیا پر حملے میں محض
قذافی ہی نہیں بلکہ پچاس ہزار سے زیادہ شہری بھی مارے گئے۔
کیااس تناظر میں ان سپاہیوں کو’بہادر‘ کہنا نہایت عجیب و غریب نہیں لگتا ؟
جو سپاہی زمین سے کئی میل اوپر ، ایک محفوظ جہازکے ذریعے بے قصور شہریوں پر
بمباری کرتے ہیں اور جنہیں شہریوں کی طرف سے کسی بھی جوابی حملہ کی کوئی
خدشہ نہیں ہوتا ، بلکہ بغیر پائلٹ والے ڈرون حملوں کو تو کسی ویڈیو گیم کی
طرح کسی ائیر کنڈیشنڈ مقام سے کنٹرول کیا جاتا ہے ‘انہیں’بہادر‘ کہنا کہاں
تک مناسب ہے؟ آپ انہیں’پیشہ ور قاتل‘ ضرور کہہ سکتے ہیں جو کہ درحقیقت وہ
ہیں بھی ،لیکن اس کیلئے انہیں عزت تو نہیں بخشی جا سکتی۔ اگر ایسی بمباری
کرنا بہادری ہے تو ہر کمپیوٹر گیمز یا ویڈیو گیمز کھیلنے والا سات آٹھ سال
کا بچہ بھی اتنا ہی بہادر ہے۔ کمپیوٹر کی طرف سے مقرر اور چلتے ہوئے بموں
کی برسات سے بم گرانے کیا ’بہادری‘ ہے!
پہلی جنگ عظیم کے وقت 100افراد اگر مارے جاتے تھے تو ان میں95 فوجی جبکہ5
عام شہری ہوتے تھے لیکن آج10 فوجی مارے جاتے ہیں جبکہ 90 شہری ہوتے ہیں۔کسی
کو شک ہوتو انٹر نیٹ پر میسر اعدادوشمار کے ذریعے خود نتائج مجتمع کرلے۔
سفاکی کا یہ عالم ہے کہ آج کے شہریوں کیساتھ ساتھ ہسپتالوں ، بجلی گھروں ،
ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کو بھی خاک کر دیا جاتا ہے۔ جو شہری زندہ بچ
جاتے ہیں ، انہیں بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے مہینوں تک محروم رہنا
پڑتا ہے۔سوال یہ ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی حالات میں’مطلق العنان‘ کسے کہا
جائے؟ امریکہ نے کئی ڈکٹیٹروں کی حمایت کی ہے ، وہ ایران کا شاہ رہا ہو یا
پاکستان کے تمام فوجی حکمران رہے ہوں‘ یعنی کوئی ڈکٹیٹر اس وقت تک ڈکٹیٹر
نہیں ہے جب تک وہ امریکہ کی طرف سے مقرر شرائط کو ماننے سے انکار نہیں
کرتا۔ گیارہ ستمبر کے ’حملے‘ کواگر واقعی ’حملہ‘ تسلیم کرلیا جائے اور آزاد
ذرائع کی تمام رپورٹوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے‘ تو بھی اس سانحہ میں جو
اٹھارہ یا انیس افراد شامل تھے ، ان میں سے پندرہ سعودی عرب سے تھے اور
تمام بے حد امیر خاندانوں سے متعلق تھے لیکن امریکہ نے سعودی عرب کا بال
بھی بانکا نہیں کیا۔
صدام حسین امریکہ کے اس وقت کے وزیر دفاع رمسفےلڈ اور ڈک چینی کا قریبی
دوست تھا ، لیکن وہ خمینی کے خلاف تھا ، اس لئے امریکہ نے کچھ عرصہ ’دوستی‘
کا حق ادا کیا۔ جب وہ زمانہ گذر گیا تو بدلی ہوئی صورتحال میں اسے عین عید
الاضحی کے روز پھانسی پر لٹکاکر قربانی کے بکرے کا تصور تازہ کیا گیا۔
لیبیا میں امریکہ نے تمام دہشت گرد گروہوں اور سابق شاہ کے سیاسی حریفوں کی
مدد کی ، محض اس لئے کہ وہ قذافی کے خلاف تھے۔ جو لوگ وائٹ ہاؤس یا10 ،
ڈاؤننگ اسٹریٹ میں بیٹھ کر طے کرتے ہیں کہ حملے کیلئے کس ملک کا نمبر کب
لگنا چاہئے ، کیا وہ لوگ مطلق العنان نہیں ہیں؟ انہیں کیا ڈکٹیٹر نہیں کہیں
گے جنہوں نے اپنی ویب سائٹ پر کھلے عام اعلان کر رکھا ہے کہ کوئی بھی ایسا
ملک پنپنے نہیں دیا جائے گا جو امریکہ کو سوویت یونین جیسی ٹکر دے سکے۔’آپ
یا تو ہمارے دوست ہیں یا دشمن ہیں‘ یہ رویہ کیا تانا شاہی بھرانہیں ہے؟
آج وہ یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اب شام سے پہلے نپٹیں یا ایران سے۔ ایران کے
بارے میں جھوٹی مہم تقریبا پورے طور پر منظم طریقے سے چل رہی ہے۔ آئی اے ای
اے کی رپورٹ شائع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بین الاقوامی میڈیا نے ’بے نام
مغربی ذرائع‘ کے حوالے سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ نئے’
پرتجسس حقائق‘ شائع کر دئے جس نے صدام کی نام نہاد ’فوجی تیاری‘ کی
یاددلادی۔ اس قسم کی رپورٹوں سے ہوتا یہ ہے کہ جب ’حقیقت ‘میں رپورٹ چھپ کر
سامنے آتی ہے تو کوئی شخص یہ زحمت نہیں اٹھاتا کہ اس کی باریکیوں کو جانچے
یا پرکھے۔ پہلے شائع ہوچکا پروپیگنڈا گویا وحی کی طرح ذہن میںنقش ہوچکاہوتا
ہے۔ 2008 سے جتنی بھی آئی اے ای اے کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ، ان سب کالب
لباب ایک ہی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میںمصروف ہے۔جبکہ متحدہ عرب
امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد نے سی این این کے ساتھ گفتگو میں کہا
ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں اور مغربی ممالک اس سلسلے میں
جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ایٹم
بم بنا کر کیا کرے گا؟ کیا ایران اپنا ایٹم بم اسرائیل کے خلاف استعمال
کرےگا؟ جبکہ واضح ہے کہ اس صورت میں خود ایران کو بھی زبردست نقصان ہوگا
جبکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس کے پاس ٹھوس
ثبوت موجود ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر کام کر رہا ہے جو باعث
تشویش ہے لیکن ایران نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیرمتوازن
ہے جو سیاسی بنیادوں پر تیار کی گئی۔
بہر کیف‘اس مرتبہ کی رپورٹ میں نیاشوشہ یہ شامل کیا گیا ہے کہ سیٹلائٹ کے
ذریعے تہران کے نزدیک پارچن میں ایک بس کے سائز کے بڑے سے کنٹینر کی تصاویر
موصول ہوئی ہیں جن کا استعمال ، ان کے مطابق ، دھماکوں کے ٹیسٹ میں کیا جا
سکتا ہے۔ زیر زمین تجربہ کی تمام سہولیات کے میسرہونے کے باوجودآخرایران کو
کیا پڑی تھی کہ وہ زمین کے اوپر پڑے ہوئے کنٹےنر کا استعمال کرے ؟ یہ تصور
سے پرے کی بات نہیں تو اور کیا ہے؟ اصل میں سوال یہاں یہ ہے کہ اس رپورٹ کی
معتبریت کچھ بھی ہو ، امریکہ اگر طے کر لے کہ حملہ کرنا ہے تو وہ کسی نہ
کسی بہانے سے کرے گاہی‘ کہ وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا!
شام اور وہاں کی قیادت ، بالخصوص بشار الاسد بھی امریکہ کے نشانے پر ہیں۔
وہاں بھی سیٹلائٹ کے ذریعے کھینچی گئی تصویر کی بنیاد پر آئی اے ای اے نے
بے نام مغربی حوالوں سے نتیجہ نکالاہے کہ شام میں الہسکاہ ٹیکسٹال فیکٹری
کا استعمال یورینیم افزودگی یا پروسیسنگ کیلئے ہو رہا ہے۔ یہ خبر جب بڑے
معروف اخباروں کے صفحہ اول پر شائع ہوئی تو جرمن صحافی پالانتون کروگر کو
لکھنا پڑا کہ یہ ٹیکسٹال فیکٹری ہی تھی ، اور آج بھی ہے ، اور ساتھ میں یہ
بھی بتایا کہ 1980 کی دہائی کے شروع میں اسے کس جرمن انجینئر نے اسے بنایا
تھا۔ یہ تردید اخبارات کے اندر کہیں کونے میں دب کر رہ گئی۔آج یہ اہم مسئلہ
زیر بحث آنا چاہئے کہ کیا چالیس کروڑ کی آبادی والے مشرق وسطی علاقے میں
محض ساٹھ لاکھ کی آبادی والے ملک اسرائیل کے پاس ہی نیوکلیائی اجارہ داری
ہونی چاہئے ، محض اس لئے کہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں یہی چاہتی ہیں؟
حیرت کی بات و یہ ہے کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے
تو زیادہ تر افراد کا خون کھولنے لگتا ہے ، لیکن جب ایک قوم دوسری قوم کو
پاؤں کی جوتی سمجھتی ہے تو معمولی بھنبھناہٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس دنیا
میں وہ تمام لوگ جو اپنے اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور اپنا مستقبل اپنے
ہاتھوں سے بنانے پر یقین رکھتے ہیں ، انہیں معمرقذافی کی وصیت کے ان
اقتباسات کو غور سے پڑھنا چاہئے۔ یہ وصیت ’منتھلی ریویو‘ کے تازہ شمارے
میںشائع ہوئی ہے۔ اس میںتحریر ہے کہ’ غیر ملکی قابضین کے خلاف آج ، کل اور
ہمیشہ لڑیں تاکہ ہم دنیا کے آزاد لوگوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ ہم ذاتی
مفاد اور مستحکم زندگی کے بدلے سودا کر سکتے تھے اور اپنے مقصدکو فروخت کر
سکتے تھے۔ہمیں اس حوالے سے کئی پیشکشیں کی گئیں تاہم ہم نے اپنے فرض اور
قومی وقار کو مقدم رکھا اور مزاحمت کا راستہ اپنایا حتی کہ اگر ہم فوری
کامیاب نہ ہوسکے لیکن ہم اپنی مستقبل کی نسلوں کو ایک پیغام دیں گے کہ قوم
کے تحفظ کا انتخاب کرنا قابل فخر ہے اور دوسروں کی طرف سے آپ کو کچھ اور
بنا کر پیش کرنے کے باوجود تاریخ آپ کو یاد رکھے گی۔بھلے ہی دوسرے لوگ اس
کی کوئی دوسری ہی کہانی گڑھتے اور سناتے رہیں۔ ‘ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جھوٹ
کے پہاڑ کھڑے کرنے سے سچ کو کچھ دیر تک چھپایا جا سکتا ہے لیکن دنیا کے
عوام اور خود امریکہ میں محنت کش لوگ سامراج کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے
جس کا تماشہ آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ |