تعزیرات ہند کو اردو کا قالب پہنانے پر ملی تھی طلائی گھڑی

علم و فن کے گہوارہ میں شمس العلما ڈاکٹر نذیر احمد کے ورثاءکے پاس آج بھی ہے محفوظ

علم و فن کے گہوارہ اورانگریزوں کے ہاتھوں بسی دہلی کو100 سال پورے ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ کیسا رہا دہلی اور ملک کیلئے ان سو سال کا سفر؟تو زیادہ تر لوگوں کیلئے دہلی دور کی کوڑی ہی ثابت ہوئی جبکہ چند کیلئے یہ اقتدار ، شہرت اور طاقت کا مترادف بن گئی۔مادہ پرستی کے دور میں روحانیت اور علم و کمال کا تذکرہ اجنبی اور بیگانہ سالگتا ہے۔ لیکن ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کا جیسا خاکہ مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی‘ کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘ میں رقم کی ہے‘ اسے بغور پڑھا جائے تو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ علم و داب کے ایسے ورثاءسے دہلی آج تشنہ ہے۔ لال کوٹ ، مہرولی ، سری ، تغلق آباد ، فیروز آباد ، دین پناہ اور شاہجہان آبادد نام کے سات شہروں کے بعد اسے نیا نام دیا گیا ؛دہلی۔ یعنی سات شہروں کو کھڈیڑنے پر بسی ہوئی ہے آج کی دہلی۔

اپنی قریب تین ہزار سال کی تاریخ میں یہ نگری آٹھ بار اجڑی اور بسی۔ اس دوران سو سے زیادہ حکمرانوں نے اس پر راج کیا۔ ان میں شمس الدین التتمش ، رضیہ سلطان ، علادین خلجی ، محمد بن تغلق ، سکندر لودھی ، ظہیرالدین محمد بابر ، نصیر الدین محمد ہمایوں ، شیر شاہ سوری سوری ، جلال الدین محمد اکبر ، نورالدین محمد جہانگیر ، شاہجہاں ، اورنگزیب اوربہادرشاہ ظفر کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

1856 کے بعد یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا جو 24 انگریز گورنروں کی حکومت کے بعد 1947 میں ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ یہ بات الگ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آخری وائسرائے کے طور پر 21 جون 1948 کووائسرائے ہاؤس سے الوداعی لی۔ رخصتی کے بعد 26 جنوری 1950 کو ڈاکٹر راجندر پرساد نے ملک کے پہلے صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ دہلی کے ساتھ ہزاروں سال سے بے جا خواہشوں ، طاقت اور حکومت کے نشے کا سلسلہ وبستہ رہا ہے۔

جنگی ادوار کا خاتمہ بھلے ہی ہوگیا تھا لیکن اقتدار کی چاہت ختم نہیں ہوئی۔ یہاں اقتدار کے تخت کو انسانی خون سے دھویا جاتا رہا ہے۔ جو دہلی کبھی نظام الدین اولیاءکے شاگرد اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت مانے جانے والے شاعر ابوالحسن امیر خسرو کے صوفیانہ کلام اور ان کی پہےلیوں اور دوہوں سے پہچانی جاتی تھی اور جس کے مزاج میں اسداللہ خان عرف مرزا غالب کی شاعری گھلی رہتی تھی ، وہی دہلی آج قطب مینار اور لال قلعہ سے لے کر جنتر منتر اور تہاڑ کیلئے پہچانی جا رہی ہے۔ عام آدمی سے دور ہوتی ہوئی دہلی چند لوگوں کیلئے کاروبار زندگی کا خزانہ ثابت ہو رہی ہے۔

اقتدار کی ہوس ‘ دولت کی چاہت ب‘ نام و نمود کی طلب اورعیش پرستی کے غلبہ کے باوجودبعض حقائق یاد رکھنے کے ہیں۔ بات ان ان دنوں کی ہے جب حضرت امیرخسرو ؒغیاث الدین تغلق کے دہلی دربار سے وابستہ تھے۔کہا جاتا ہے کہ تغلق چاہتا تھاتو خسرو کو لیکن حضرت نظام الدین کے نام تک سے چڑتا تھا۔خسرو کو تغلق کی یہی بات ناگوار گزرتی تھی۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے۔ مسئلہ بادشاہ کے مزاج کاتھا۔ بادشاہ ایک بار کہیں باہر سے واپس لوٹ رہا تھا۔ اس نے حضرت امیرخسرو سے کہا کہ حضرت نظام الدین کو پہلے ہی جا کر بتا دو کہ بادشاہ کے دہلی پہنچنے سے پہلے ہی وہ دہلی سے چلے جائیں۔

حضرت سرو نے آنکھوں میں آنسو لئے اپنے حضرت کو یہ پیغام سنایا اور پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟تو جواب ملا کہ کچھ نہیں‘خسرو! گھبراؤ مت۔ہنوز دلی دوراست یعنی ابھی دلی دور ہے۔ اور یہی ہوا۔ بادشاہ کیلئے دہلی ایسی دور ثابت ہوئی کہ راستے میں پڑاؤ کے وقت شدید طوفان میں تنبو کے گر جانے سے اس کی موت ہو گئی۔ وہ تو خیر بادشاہ تھا لیکن وہ دن تھا اور آج کا دن ہے ’دلی دور ہے‘ کی کہاوت ملک کے عام آدمی کیلئے بدستور صحیح ثابت ہو رہی ہے۔

علم کی انہی روایات کی امین دہلی میں تعزیرات ہند یاانڈین پینل کوڈ کا اردو میں ترجمہ کرنے پر تحفہ میں ملی سونے کی جیبی گھڑی کو آج بھی ڈپٹی کلکٹر شمس العلما ڈاکٹر نذیر احمد کا خاندان سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ این سی ای آر ٹی کی دسویں کے اردو کے نصاب میں ڈپٹی نذیر احمد کے بارے میں آج بھی پڑھایا جاتا ہے۔ غربت کے بعد شان و شوکت کی زندگی جینے والے ڈپٹی پر ان کا خاندان فخر کرتا ہے۔

پرانی دہلی میں واقع لال کنویں کے قریب کوچہ نواب مرزا میں رہنے والے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی پڑھائی دہلی کالج سے پوری کی تھی۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے ماہر تھے۔ انگریزی انھیں گذارے لائق ہی آتی تھی۔ اس کے بعد بھی اپنی خدادا اور بے مثال ذہانت کی بدولت انہوں نے انگریزی کی لغت کی مدد سے تعزیرات ہند کو اردو میں ایسا ترجمہ کیا کہ آج ا ن قانونی اصطلاحات کا متبادل میسر نہیں ہے۔ اردلی ‘جامہ تلاشی اور روزنامچہ جیسے لفظ سیکھنے پر آج کا ہندی داں طبقہ بھی مجبور ہی نہیں بلکہ اردو کے ان لفظوں کو قانون کے ماہرین استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے پوتے مسلم احمد نظانی کی بیوی سردار جہاں بیگم نے بتایا کہ ان کے دادا سسر کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ یوپی کے بجنور کے ریہڑ میں تنگی حالی میں جی رہے ان کے والد نے مجبوری میں اپنے دل کے ٹکڑے کو یہاں پرانی دہلی اسٹیشن کے قریب پنجابیوں کی مسجد میں بے سہارا چھوڑ دیا تھا۔ سڑک کے چراغ کی روشنی میں پڑھ کر لکھ کر انگریزوں کے دور میں ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تعزیرات ہند کا اردو میں ترجمہ کرنے پر انگریز حکمرانوں نے ڈپٹی نذیر کو سونے سے بنی ہوئی جیبی گھڑی دی تھی۔ اس پر وائسرائے اور ڈپٹی نذیر احمد کا نام اور سال تک لکھا ہواہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی نذیراحمد کو پڑھنے لکھنے کا جتنا شوق تھا اتنا ہی ان کے بیٹے مولانا بشیر احمد کو بھی پڑھائی سے لگاؤ تھا۔ اسی شوق کی بدولت وہ بھی ڈپٹی کلکٹر بنے تھے۔

اپنے موروثی پڑھنے لکھنے کے شوق کو انہوں نے بھی جاری رکھا اور پڑوس کے بچوں کو پڑھانے میں وقت گزارا۔ رام جس کالج کے ریٹائرڈ لیکچرر سید اقبال حسن نے بتایا کہ ڈپٹی نذیر احمد بچپن میں پیٹ بھرنے کیلئے گھر گھر جاکر روٹی کا انتظام کرتے تھے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ان کے پاس بے شمار دولت ہو گئی۔ اپنے مہمانوں کو قیمتی ٹی سیٹ میں چائے پلایا کرتے تھے جو آج بھی اہل خانہ کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1912 میں ڈپٹی نذیر صاحب کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی اور بیٹے مولانا بشیر الدین احمد کی قبر خواجہ باقی باللہ قبرستان آج بھی ہے۔ افتخار بلگرامی نے’حیات نذیر‘ نام سے ڈپٹی نذیر پر کتاب تحریر کی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126210 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More