ہندوؤں میں رسم ہے کہ گھر کو نظر
بد سے بچانے کے لیے دروازے پر دھاگے میں ہرچ مرچ اور لیموں پروکر لگاتے ہیں۔
اِس ٹوٹکے سے بُری نظر کا توڑ ہوتا ہے یا نہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں مگر
ہاں اِتنا ضرور ہے کہ دِل کو کچھ سُکون سا مل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی آج کل
چند ایک اقدامات محض دِل کو سُکون بخشنے کے لیے کئے جارہے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری چند دنوں کے لیے دبئی کیا گئے، یاروں نے طوفان کھڑا
کردیا۔ صدر ہر حال میں صدر ہوتا ہے۔ کیا سُنا نہیں کہ
صدر ہر جا کہ نشیند، صدر است!
شہنشاہ ہر حال میں شہنشاہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی دربار وربار کے محتاج نہیں ہوتے۔
وہ جہاں کھڑے ہو جاتے ہیں وہیں دربار لگ جاتے ہیں۔ اور جہاں دربار ہوں وہاں
درباریوں کا ہونا لازم ہے۔ بہت حد تک یہی معاملہ صدر کا بھی ہے۔ صدر جس
عمارت میں سُکونت پذیر ہوں وہی ایوان صدر ہے۔ صدر زرداری نے دبئی میں بیٹھ
کر چند ایک منصبی امور انجام دینے کی کوشش کی تو لوگوں نے ہنگامہ کھڑا
کردیا۔ اب کیا کوئی بیماری کا بہانہ بناکر اپنے منصب سے متعلق فرائض بھی
انجام نہ دے! ہماری پوری قوم ہڈ حرامی پر تُلی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر صدر
کام کرنے میں دلچسپی لیں تو ہمیں سُکون کا سانس لینے کے ساتھ ساتھ فخر بھی
محسوس کرنا چاہیے۔ میڈیا تو بس بہانے تلاش کرتا رہتا ہے بات کا بتنگڑ بنانے
کے۔ سیاسی تبصروں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جانے لگیں۔ کوئی کہتا تھا
کہ اب صدر واپس نہیں آئیں گے۔ کسی کی رائے تھی کہ صرف مُک مُکا کرنے آئے
ہیں۔ مرزا تفصیل بیگ اس صورت حال سے بہت دِل برداشتہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے
کہ اگر صدر کو واپس آنا ہے تو اُن کی مرضی، اور نہیں آنا ہے تو اُن کی مرضی۔
کیا وہ کسی سے پوچھنے اور اجازت لینے کے محتاج ہیں؟
ہم مرزا کی رائے سے متفق تو ہیں مگر کیا کریں، کالم نگاری کی بیگار پر
مامور ہیں اِس لیے عادت سے مجبور ہیں۔ چند ایک جملہ ہائے مُعترضہ بھی ذہن
کی بُھول بُھلیّوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے جب یہ کہا کہ صدر کی
شخصیت سے بہت کچھ وابستہ ہوگیا ہے، لہٰذا وہ جو کچھ بھی کریں گے اُس کے
بارے میں لوگ ضرور سوچیں گے تو مرزا بم کی طرح پھٹنے کے لیے پَر تولنے لگے۔
ہم نے بڑی مُشکل سے اُنہیں پَھٹنے سے روکا اور اپنے سے دور کیا۔ مگر اُن کی
زبان پر قابو پانا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ اُنہوں نے طلسم ہوش رُبا شروع
کی۔ ”دُنیا بھر میں صدر ہوتے ہیں اور طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ ہم نے ایوان صدر
میں ایک شخصیت کو کیا بٹھایا ہے، لوگ تو ہاتھ دھوکر پیچھے پڑگئے ہیں۔ سمجھ
میں نہیں آتا کہ لوگوں کا کیا علاج کیا جائے؟“
ہم نے عرض کیا کہ لوگ بھی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ صدر کا کیا علاج کیا جائے!
وہ چونکہ آئے دن بیمار رہتے ہیں اِس لیے لوگ اُن کا علاج کرنے کے بارے میں
سوچنے کو اپنی صحت کے بارے میں سوچنے پر ترجیح دیتے ہیں!
مرزا نے ٹریفک سگنل کی لال پیلی بتّیوں کی طرح جلتے بجھتے ہوئے کہا ”تم
جیسے لوگ ہی تو یہ ساری باتیں اپنے کالموں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ صدر
زرداری کی بیماری اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام میں بھرپور دلچسپی
لیتے ہیں۔ جب کوئی کام نہیں کرتا تو تم جیسے لوگ چیخ چیخ کر آسمان سر پر
اُٹھا لیتے ہیں کہ کام نہیں کر رہا۔ اور جب کوئی کام کرنے پر آمادہ ہو تو
تم جیسے لوگ ’بجنگ آمد‘ کے مصداق ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ جاتے ہو کہ خواہ کچھ
کرے، وہ کام نہ کرے!“
ہم نے مرزا کی شکایت اور غصہ رفع کرنے کی غرض سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔
صدر کے لیے ہمارے دل میں بھی بہت احترام ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ ہمارے احترام
سے کچھ نہیں ہوتا۔ صدر کو بُری نظر سے دیکھنے والے بھی بہت ہیں۔ ہم تو اُن
کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ
دُبئی میں صدر کے قیام پر یہاں طرح طرح کے افسانے گھڑ لئے گئے۔ اِن میں سے
بعض افسانے تو ایسے ہیں کہ ذرا سے حسن ترتیب کے ساتھ ڈائجسٹوں میں مہینوں
سلسلہ وار کہانی کے طور پر شائع کئے جاسکتے ہیں!
مرزا پھر سیخ پا ہوتے ہوئے بولے ”صدر کو تو اِن افسانوں کی کچھ فکر نہیں۔
تم جیسے کالم نگار ہی اِدھر اُدھر سے سُنی ہوئی باتوں کو کالموں میں لکھ کر
صدر کے بارے میں بے پَر کی اُڑاتے رہتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیتے ہیں کہ
صدر کی واپسی کے بارے میں طرح طرح کی غیر منطقی باتیں کی جارہی تھیں۔ اور
وہ آئے ہیں تو سب کو چُپ سی لگ گئی ہے۔ علاج کے لیے ملک سے باہر کون نہیں
جاتا؟ کیا میاں نواز شریف علاج کی غرض سے لندن یاترا نہیں کرتے رہتے؟ عمران
خان بھی آب و ہوا تبدیل کرنے لندن تک چہل قدمی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اُنہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا اور صدر اِدھر صدر نے چند دن دُبئی میں کیا
گزار لیے قیاس آرائیوں اور تبصروں کا بازار گرم کردیا گیا!“
جب ہم نے دیکھ لیا کہ مرزا کا سانس پُھول چکا ہے تو موقع غنیمت جانتے ہوئے
دِل کی بات زبان پر لانے کی اپنی سی کوشش کی! ہمارا استدلال تھا کہ صدر کو
ایک اہم مرحلے پر ملک سے باہر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ سپریم کورٹ اُن سے
چند ایک امور میں وضاحت طلب کر رہی ہے تو وہ وضاحت پیش کیوں نہیں کردیتے؟
یوں اچانک ملک سے چلے جانے پر تو لوگ باتیں ہی بنائیں گے نا!
مرزا نے بولنے کے لیے دوبارہ زبان اور کمر کَستے ہوئے کہا ”مولانا فضل
الرحمٰن مہینوں ملک سے باہر رہتے ہیں۔ اُن سے کوئی نہیں کہتا کہ جناب! اہم
مواقع پر قوم کی نَیّا کو کیوں منجدھار کے سہارے چھوڑ کر کہیں بھی چلے جاتے
ہو؟ بس ایک صدر صاحب رہ گئے ہیں جن کے جانے پر سب کو اعتراض ہے۔ اور معاف
کرنا، قوم کا کیا ہے۔ یہ تو آئے دن نازک موڑ پر کھڑی ملتی ہے۔ اِس قوم کے
لیے کوئی کب تک اپنے منصوبے ترک کرے، ارادوں پر عمل موخر کرے؟ اگر قوم کسی
رہنما کو بیرون ملک جانے سے روکنا چاہتی ہے تو اپنا چال چلن بھی درست کرے
اور اِدھر اُدھر بھٹکنے اور نازک موڑ پر پہنچنے کی روش ترک کرے۔ کوئی کب تک
اِس قوم کے مفاد پر اپنے تمام مفادات کو قربان کرتا رہے؟ قربانی دینے کی
بھی آخر ایک حد ہوتی ہے!“
ہم نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ قوم کے اعمال کے عوض ہمیں یوں مرزا کی
باتیں سُننا پڑیں گی! قریب تھا کہ ہم اپنا سا منہ لیکر رہ جاتے، اچانک ذہن
میں بجلی سی کوندی۔ یاد آیا کہ دُبئی سے واپسی پر صدر کا طیارہ کراچی ایئر
پورٹ کے بجائے مسرور ایئر بیس پر اُتارا گیا۔ جب ہم نے اِس حوالے سے اپنے
تحفظات مرزا کے گوش گزار کئے تو وہ اُنہوں نے دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیوں
اور انگوٹھے کو حتّی الوسع پھیلاتے ہوئے ایک مخصوص اشارہ کیا تو عموماً دو
معصوم پالتو جانوروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ مرزا جب کبھی کسی بات پر لاجواب
ہو جاتے ہیں تو اِسی قسم کی عوامی حرکات پر اُتر آتے ہیں۔ ہم نے بُرا ماننے
کے بجائے یہ سوچ کر فخر محسوس کیا کہ ہمارا تیر نِشانے پر لگا ہے!
مرزا صدر کے دفاع میں مزید پُرجوش ہوگئے۔ ”میاں! اگر صدر کے طیارے نے مسرور
ایئر بیس پر لینڈنگ کی تو ذرا اِس نکتے پر بھی غور کرو کہ اِس میں مسرور
نمایاں ہے! صدر اِس ملک کی سب سے با اختیار شخصیت ہیں۔ وہ جہاں چاہیں لینڈ
کرسکتے ہیں۔ من چاہے رن وے پر لینڈنگ بھی اٹل زمینی حقیقت ہے۔ جہاں بھی فوج
کا ذکر آتا ہے، تم لوگ ذہنوں میں شکوک پالتے لگتے ہو۔ بلکہ سچ تو یہ ہے فوج
کا ذکر چھڑتے ہیں تمہارے ذہن میں کالم کُلبُلانے لگتے ہیں، دِل بَلّیوں
اُچھلنے لگتا ہے! بولو، یہی بات ہے کہ نہیں؟“
ہم سوچنے لگے کہ مرزا کو کیا جواب دیں۔ صدر کی واپسی تو امر واقعہ ہے یعنی
ایسا ہوچکا ہے مگر دِل ٹُھکتا نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا خدشات کو ذہن سے
کیونکر جھٹکیں۔ دِل کے کسی کونے میں کوئی ایک خدشہ موجود ہی رہتا ہے۔ اب
صدر واپس آئے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ ایوان صدر کے مرکزی دروازے پر دو ہری
مرچیں اور ایک لیموں دھاگے میں پروکر لٹکادیں۔ سپریم کورٹ میں معاملات جس
سطح تک جاچکے ہیں اور اب جو کچھ ”منتخب“ اور ”جمہوری“ حکومت کے بارے میں
سوچا جارہا ہے اُس کے پیش نظر تو ہم جیسے بے اختیار لوگوں کے منہ سے بس یہی
نکلتا ہے کہ ”شالا نظر نہ لگے!“
صدر نے فی الحال کراچی میں قیام کر رکھا ہے۔ ہم اِسی اُدھیڑ بُن میں ہیں کہ
نظر بَٹّو یعنی مرچیں اور لیموں اسلام آباد کے حقیقی ایوان صدر میں ٹانگیں
یا پھر بلاول ہاؤس کے صدارتی کیمپ آفس میں! خدا کرے کہ بُری نظر سے بچانے
والے لیموں کا رَس اور اِس مُلک کی جیسی تیسی جمہوریت سلامت رہے، برقرار
رہے! |