پاور پلانٹ کِس کام کے لیے ہوتے
ہیں؟ آپ سوچیں گے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، ظاہر ہے کہ بجلی پیدا کرنے
کے لیے۔ ہمارے ہاں پاور پلانٹس اب بجلی کم اور تنازعات زیادہ پیدا کر رہے
ہیں! اِن سے نکلنے والے ہائی ٹینشن تاروں میں بجلی تو بس رینگتی رہتی ہے،
تنازعات البتہ برق رفتاری سے رواں رہتے ہیں! ”تو چل، میں آیا“ کے مصداق
تنازعات میں دوڑ لگتی رہتی ہے! بس نام کو پیدا ہونے والی معمولی سی بجلی کی
بہتر ڈسٹری بیوشن ہو نہ ہو، برقی تنازعات خوب پھیل اور پنپ رہے ہیں! یہ
طُرفہ تماشا نہیں تو کیا ہے کہ پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والی بجلی میں کم
اور اِن پلانٹس کے نام پر ہونے والی بندر بانٹ، کھانچے بازی اور سیاست میں
زیادہ جھٹکے ہیں! بجلی سے جُڑی ہر چیز، ہر بات، ہر معاملے میں جھٹکا ہے۔
ہائے ری حِرماں نصیبی! نصیبوں جلی قوم تو قُربان ہونے کی سعادت سے بھی گئی۔
اب، انداز بدل بدل کر، اُس بے چاری کا جھٹکا کیا جارہا ہے!
ایک زمانہ تھا جب گلوکارہ ریشماں کی آواز میں لپک تھی، لشکارا تھا۔ جب وہ
گاتی تھی تو لوگ اُسی طرح سانس لینا بھول جاتے تھے جس طرح اب بجلی کا بل
دیکھ کر ”ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم“ کی تصویر بن جاتے ہیں! اب بے چاری
ریشماں تو گاکر جادو جگانے کے قابل رہی نہیں مگر ہاں اُس کا ہم نام پاور
پلانٹ جادو جگا رہا ہے، خوب لشکارے مار رہا ہے! ریشما پاور پلانٹ کا ڈنکا
سپریم کورٹ میں بھی بَجا اور ایسا بَجا کہ میڈیا والوں کے مَن کی مُراد
پوری ہوئی یعنی جھٹکے دار اور چٹ پٹی خبریں ملیں۔ سماعت کے دوران سُپریم
کورٹ نے بھی کئی مواقع پر حیرت کے جھٹکے کئے۔ بے چاری ریشماں کا ذکر تو
کبھی لاکھوں میں بھی نہیں آیا مگر ریشما پاور پلانٹ کو سپریم کورٹ نے ساڑھے
چار ارب روپے کی ادائیگی کا حکم دیا!
پاکستان واحد ملک ہے جس میں بجلی دھانسو قسم کا سیاسی اِشو ہے۔ غریبوں کے
گھروں میں جگمگاہٹ پیدا کرنے والے قُمقُمے روشن کرنے والی بجلی تو خال خال
ملتی ہے، ہاں اِس بجلی کا نام سُن کر اہل سیاست کی آنکھوں میں کمیشن کی چمک
خوب پیدا ہوتی ہے! اگر تھوڑی محنت کی جائے یعنی ٹیکنالوجی تیار کرنے پر
توجہ دی جائے تو بجلی کے نام پر ہونے والی سیاست کے جھٹکوں کو چینلائز کرکے
توانائی کا بُحران بہت حد تک حل کیا جاسکتا ہے! پاور پلانٹس میں فرنیس آئل
کی جگہ پاور پالیٹکس سے متعلق بیانات اور تحقیقات کی دستاویزات استعمال کی
جائیں تو زیادہ اور قوی تر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے! ہمیں تو اب وہ وقت
زیادہ دُور نہیں لگتا جب بجلی تو رہے گی نہیں، اُس کے نام پر سیاست،
تحقیقات اور عدالتی کارروائی رہ جائے گی! اور کون جانے کل کو اِن باتوں کا
بل بھی قوم کو ادا کرنا پڑے!
ہم ہر معاملے میں کرائے دار کی سی سوچ رکھتے ہیں۔ دُنیا بھر سی چیزیں
”تھوڑی دیر کے لیے“ یا پھر کرائے پر حاصل کرنے کی تگ و دَو کرتے رہتے ہیں
اس لیے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس بھی کرائے پر حاصل کرنے کی سُوجھی۔ رینٹل
پاور کا ایسا ہنگامہ برپا کیا گیا کہ لوگوں کا مینٹل پاور ٹِھکانے لگ گیا!
جنہیں ہم نے ووٹ دیکر قوم کی خدمت پر مامور کیا ہے وہ بے چارے قوم کے غم
میں ایسے بیمار پڑ جاتے ہیں کہ علاج کے لیے باہر جانا پڑتا ہے! یہ غریب رات
دن بہبودِ عامہ کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ قوم کے غم میں گھلنے والے
اسلام آباد کے چند بالا نشینوں کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ جس طرح مُلک
میں بننے والی اشیاءغیر معیاری ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح مُلک میں پیدا ہونے
والی بجلی بھی غیر معیاری ہوتی ہے، زیادہ جَھٹکے نہیں دیتی! یعنی حکومت کی
بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے میں تجویز پیش کی گئی کہ کیوں نہ بدیسی
بجلی کا اہتمام کیا جائے؟ اپنے مُلک میں پیدا ہونے والی بجلی کے معیار سے
سبھی ناخوش تھے۔ عوام کی آنکھوں میں بھی اُمید کی چمک پیدا ہوئی کہ بدیسی
بجلی شاید اعلیٰ معیار کی ہوگی، ٹی وی زیادہ پاور فُل انداز سے نشریات پیش
کیا کریں گے اور چھت کے پنکھے زیادہ تازہ دم ہوکر گرم ہوا کو ٹھنڈی کرکے
پھینکا کریں گے! مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ قوم کے ارمان ایک بار پھر
آنسوؤں میں بہہ گئے! اور ووٹ ڈالنے والے وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے!
”مُقدّر کا سِکندر“ میں امتیابھ بچن (سِکندر) نے ”اپنے آپ سے خود کلامی“
کرتے ہوئے کہا تھا ”نہ موت آتی ہے، نہ تم آتی ہو۔ مگر زُہرہ بائی تم بہت
اچھا گاتی ہو!“ زُہرہ بائی کی اداؤں اور ٹُھمکوں کے ہم کبھی شیدائی نہیں
رہے۔ وہ سِکندر ہی کو مبارک ہوں مگر ہاں ”نہ موت آتی ہے، نہ تم آتی ہو“
شاید ہمارے اور بجلی کے تعلق کے حوالے سے کہا گیا تھا! حال یہ ہے کہ لوگ
رات رات بھر ہاتھ کا پنکھا جَھلتے اور اپنی ہی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ شاید
علامہ اقبال نے ایسی ہی کسی کیفیت کے حوالے سے کہا تھا
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام!
ترکی سے منگایا جانے والا پاور پلانٹ کراچی کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا
اور قومی خزانے کا ایک معقول حصہ اپنے اندر ڈبوتا رہا۔ بجلی تو کیا پیدا
ہونی تھی، قضیہ پیدا ہوگیا اور پھر اِس قضیے میں قوم کی محنت کی کمائی کا
ایک معقول حصہ ڈوب گیا۔ جو چیز پانی میں تھی وہ ہماری کمائی کو بھی پانی
میں لے گئی۔ پی پی پی کی باکمال حکومت نے ایک نئی روایت کو جنم دیا۔ جس
پلانٹ سے کوئی پروڈکشن ہوئی ہی نہیں اُس کی بھرپور ادائیگی کی جاتی رہی! یہ
تو ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی ریسٹورنٹ میں داخل ہوں اور کچھ کھائے پئے بغیر
صرف بل ہی ادا نہ کریں بلکہ ٹِپ بھی دیکر باہر آئیں! یا پھر کچھ ٹوٹ پھوٹ
جائے اور ہرجانہ ادا کرنا پڑ جائے۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا
بارہ آنے!
آپ سوچیں گے ایسا بے وقوف کون ہے کہ کچھ حاصل نہ ہونے پر بھی کچھ ادا کرے؟
آپ کی سوچ درست ہے۔ اگر اپنی جیب سے کچھ ادا کرنا ہو تو کون مائی کا لعل ہے
جو ایسی ”ریسٹورانہ سخاوت“ کرکے دِکھائے! مگر صاحب! جب معاملہ قومی خزانے
سے ادائیگی کا ہو تو کوئی کیوں پیچھے رہ جائے! فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا
ہے
پیو کہ مُفت لگا دی ہے خون دل کی کشید!
قوم کے غریبوں، مُفلِسوں، لاچاروں اور ناداروں کے دِلوں سے خون نچوڑ کر اہل
اختیار کے لیے مشروب طرب تیار جائے گا تو نشہ سَر چڑھ کر کیوں نہ بولے گا؟
اگر غریبوں کے خون دِل کی کشید مخمور نہ کرے گی تو بے چاروں کا خون رائیگاں
جائے گا!
فیض احمد فیض تو بہت وضع دار انسان تھے، بُری بات کو بھی سلیقے سے کہنے کا
ہُنر جانتے تھے۔ ہم اِن نزاکتوں کے قائل نہیں۔ قوم کا مال ہڑپ کرنے والوں
پر ہم ”حلوائی کی دُکان پر نانا جی کی فاتحہ“ والی کہاوت چسپاں کرنا پسند
کریں گے!
قوم کے بعض بہی خواہ کہتے ہیں کہ مُلک میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی
گنجائش ہے، حکومت چاہے تو توانائی کا بحران تیزی سے حل ہوسکتا ہے۔ ہم اِس
تجویز کی حمایت کرنا حماقت سمجھتے ہیں۔ یار لوگ دودھ پھینٹ کر مکھن وغیرہ
نکال لیتے ہیں اور بچے کھچے سفید پانی میں کیمیکل والا پاؤڈر ملاکر ہمیں
دودھ کے نام پر پلاتے ہیں۔ تھوڑا سا غیر معیاری ہی سہی، اچھا ہے کہ ہمیں جو
پانی مل رہا ہے وہ پانی ہی ہے۔ اگر پانی سے بجلی نکالنے کا سلسلہ چل نکلا
تو ہم خالص پانی سے بھی محروم ہو جائیں گے! آپ کو پسند ہو تو ہو، ہمیں تو
بجلی نکالا ہوا پانی بالکل پسند نہیں! اگر بجلی نکالے بغیر پانی فراہم کیا
جاتا رہا تو ہم یہ سوچ کر ہی دِل کو بہلاتے رہیں گے کہ پانی کے ہر گھونٹ کے
ساتھ ہم حلق سے تھوڑی سی بجلی بھی بدن میں اُتار رہے ہیں! اچھا ہے کہ حکومت
کو یہ معلوم نہیں ورنہ پانی کے بل میں power intake charges بھی وصول کرنا
شروع کردے گی!
رب سے دُعا کیجیے کہ بجلی کے نام پر سیاست جلد از جلد ختم ہو اور ہمیں خالص
غیر سیاسی بجلی میسر ہو۔ سیاسی بجلی میں توانائی کم اور جَھٹکے زیادہ ہیں
جن سے برقی آلات تو خیر کم متاثر ہوتے ہیں، ذہن فلکچوئیشن کا زیادہ شِکار
رہتا ہے۔ یہ جَھٹکے جس تیزی سے قوم کا جَھٹکا کر رہے ہیں وہ دل و دماغ کو
ہلانے اور دَہلانے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے اختیار میں تو بس یہ دُعا رہ گئی
ہے کہ قوم کا جَھٹکا کرنے والوں کا جلد از جلد جَھٹکا ہو تاکہ مایوس ذہن
کسی تار اور پلگ کے بغیر بھی تھوڑی سی توانائی پائیں! کبھی کبھی دِل میں یہ
دُعا مانگنے کا خیال بھی آتا ہے کہ بجلی رہے نہ رہے، اُس کے نام پر رچایا
جانے والا سیاسی ڈراما تو ختم ہو تاکہ دِل کو کچھ سُکون میسر ہو! |