نیا سیاسی اسٹال

عمران خان جلسوں کے سونامی میں سب کچھ بہا لے جانے کا عزم لیکر ملک بھر میں عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان سیاست میں سولہ سترہ سال سے ہیں۔ وہ قوم کو انصاف دلانے کا عزم لیکر گھر سے چلے تھے اور اب بھی اِس عزم پر قائم ہیں۔ نوجوانوں کے جوش اور ولولے کو بنیاد بناکر کچھ کرنے کی خواہش رکھنے والے عمران خان سے قوم نے اچھی خاصی توقعات وابستہ کرلی تھیں۔ ابتدائی دس بارہ سال تک تو وہ کچھ خاص نہ کرسکے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ پرویز مشرف کے دور میں وہ منتخب ایوان یعنی قومی اسمبلی تک پہنچے اور قوم کی رہنمائی کا عزم مزید پختہ ہوا۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ وہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے لگے یا اُنہیں یہ خواب دکھایا جانے لگا۔ بات حیرت انگیز تھی۔ جس پارٹی کی منتخب ایوان میں صرف ایک نشست ہو (اور اُس نشست پر بھی جتوائے جانے کا گمان ہو!) اور اُس پارٹی کا سربراہ وزیر اعظم بننے کا آرزو مند دکھائی دے تو حیرت ہی ہونی چاہیے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب پرویز مشرف نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی شاید یقین دہانی بھی کرادی۔ مگر پھر کسی نکتے پر اختلاف ہوا۔ شاید شاطر آمر کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ عمران خان کو کنٹرول کرنا دشوار ہو جائے گا اِس لیے بہتر ہے کہ اُنہیں وزیر اعظم ہاؤس تک نہ لے جایا جائے!

اب پھر عمران خان کے لیے آوے ای آوے کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ جو کچھ پیپلز پارٹی نے چوتھے دور اقتدار میں کیا ہے اُس کی روشنی میں عوام کا دوسری جمہوری قوتوں کی طرف دیکھنا فطری امر تھا۔ نواز لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اپنی مٹی خراب کرلی تھی۔ ق لیگ چونکہ پرویز مشرف کا ٹولہ تھی اِس لیے قوم کا دِل اُس پر نہیں ٹُھکتا تھا۔ ایسے میں لوگ عمران خان کی طرف دیکھنے لگے۔ اور یہ دیکھنا غلط نہ تھا۔ مگر قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ تحریک انصاف ذرا سی دیر میں جمپنگ کیسل کی طرح اُٹھ کر کھڑی ہوگئی ہے۔ 30 اکتوبر کے جلسے میں عمران خان نے زندہ دلان لاہور کی خاصی بڑی تعداد کو جمع کرکے تہلکہ مچادیا۔ قوم مایوسی کے اندھیروں میں ایسی گِھری ہے کہ اگر کہیں اُمید کی کرن بھی دکھائی دے تو اُسے سورج سمجھ بیٹھتی ہے۔ تحریک انصاف کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ اور جب ملک کے اندھیروں اور اجالوں پر تصرف رکھنے والی قوتوں نے دیکھا کہ ایک ایسا بندہ میسر ہے جو ابھی آزمایا نہیں گیا اور قوم اندھا اعتماد کرنے کو تیار ہے تو اُسے اپنا بنالیا۔ لاہور کے جلسے سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ کپتان کو سیاسی کرکٹ بورڈ کے ارباب بست و کشاد کا بھرپور اعتماد حاصل ہے! یہ بات جب عوام سمجھ سکتے ہیں تو سیاست کے دشت کی خاک چھاننے والے کیا نہیں سمجھیں گے؟ ظاہر سمجھنے والے سمجھ گئے اور ایسا کوئی نہیں بچا جس کے بارے میں کہا جائے کہ نا سمجھے وہ اناڑی ہے!

26 سال قبل جنرل ضیاءالحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لئے مہاجر قومی موومنٹ (موجودہ متحدہ قومی موومنٹ) کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ آج پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں کو کمزور کرنے کے لیے تحریک انصاف کی پُشت پناہی کی جارہی ہے۔ پردے کے پیچھے رہ کر کام کرنے والی مُقتدر قوتوں نے تحریک انصاف کی شکل میں ایک اسٹال لگایا ہے جس سے سیاسی ضرورت مند اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خریداری بھی کرسکتے ہیں اور کوپن پُر کرکے من چاہا انعام بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ قوم کو کچھ نیا چاہیے۔ اگر یہ کچھ نیا قوم کی اپنی مرضی اور کوشش سے ہو تو اچھا ہے۔ اگر کہیں سے ارینج کرکے دیا جائے گا تو کسی بھی طرح قوم کی مرضی کا یا اُس کے مفادات کا آئینہ دار نہیں ہوسکتا۔

کراچی میں عمران خان کا جلسہ اس اعتبار سے ایک خوش آئند امر تھا کہ جو لوگ شہر کے عمومی سیاسی کلچر سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں ایک پلیٹ فارم ملے گا۔ جو لوگ متحدہ سے ناراض ہیں وہ تحریک انصاف کی چھتری تلے جمع ہوسکیں گے۔ اِس شہر میں ایسے طبقات ہیں جو اپنا الگ پلیٹ فارم چاہتے ہیں۔

مشکل صرف یہ ہے کہ اِس بار بھی سیاسی تبدیلی یا جمہوری انقلاب کے نام پر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ محض آنکھوں کا دھوکا ہی ہے۔ مُلک تبدیلی چاہتا ہے۔ تبدیلی لانے کے لیے جو حالات تحریک اور ترغیب کا کردار ادا کرتے ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ نئی نسل بھی ہے اور اِس میں بھرپور جوش و جذبہ بھی ہے۔ ایسے میں اگر انقلاب برپا ہو تو ہر مظلوم اُس پر آمنا و صدقنا کہے گا۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ انقلاب برپا نہیں ہو رہا، منعقد کیا جارہا ہے!

عمران خان قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ وہ عمر کے ایسے مرحلے میں ہیں کہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ نظم و ضبط اُن کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ جب کسی بڑے منصب پر فائز ہوں تو معاملات کو کسی حد تک درست بھی کر جائیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ ”سرپرستی“ کا یقین ہو جانے پر جو سیاسی عناصر عمران خان کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی قربانی دینے پر رضامند ہو جائیں گے؟ تحریکِ انصاف کی اپنی بُنیاد تو مضبوط نہیں۔ پَکّی سیٹوں والے بھی عمران خان سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یہ لوگ قومی اسمبلی یا سینیٹ تک اپنے بَل پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی تحریک انصاف ملک بھر میں اپنے بل پر محض چند نشستیں جیت سکتی ہے۔ یہ سارا میلہ تو اِس لیے لگا ہوا ہے کہ دُلہن کسی وجہ سے پیا کے من بھاگئی ہے! اُوپر سے آشیرواد لیکر عمران خان اقتدار کے ایوان تک تو پہنچ جائیں گے مگر اُن سے کسی بڑی تبدیلی کی اُمید کیونکر وابستہ کی جاسکتی ہے؟ جو لوگ دوسروں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں وہ اب، اِشارے اور گرین سگنل پاکر، تحریکِ انصاف کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں۔ اِتنے سارے لوگوں کے دِل راتوں رات کِس طرح پلٹ سکتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو قومی اسمبلی یا سینیٹ تک اپنے بل پر پہنچتے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے ووٹ بینک ہیں۔ تحریکِ انصاف اِن کے لیے محض پلیٹ فارم ہے، ووٹ بینک نہیں۔

مُلک کو برپا ہونے والے، فِطری انقلاب کی ضرورت ہے۔ منعقد کیا جانے والا انقلاب سَراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ عمران خان خود بھی اِس لہر کو سونامی کہتے آ رہے ہیں۔ سونامی تو سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ قوم ایسا نہیں چاہتی۔ کچھ نہ کچھ تو باقی رہنا چاہیے۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524771 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More