ان دنوں سائبیریا کی کٹیلی
زمستانی ہواؤں نے براستہ کوئٹہ، کراچی کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ مگر
صاحب، شاعر تو یہ بھی کہتا ہے:
چل اے ہوائے زمستاں، چل اور زور سے چل
تو سرد مہری احباب سے زیادہ نہیں
علی الصبح گھر سے نکلتے ہی مزاج پوچھا اور خوب پوچھا۔ کراچی کی نہ گرمی
اپنی، نہ سردی، مستعار لیے ہوئے دونوں موسموں کا انحصار بھی بیرونی ‘حملہ
آوروں‘ پر ہی ہے۔
مسافر چلا اپنی منزل کی جانب اور رستے میں مزار قائد پر گہما گہمی سی دیکھ
کر یاد آیا کہ آج تو صحافی ہارون رشید کے "کپتان" کا جلسہ ہے۔ گزشتہ کل ہی
سے موبائل فون پر پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ موبائل فون پر
پیغامات کا رواج بھی اثر رکھتا ہے، ، کہتے ہیں کہ ایک عرب ملک میں حال ہی
آنے والے انقلاب میں ان کا بڑا عمل دخل ہے جب پارلیمنٹ کے باہر ایک پولیس
والی نے ایک سبزی فروش کو طمانچہ دے مارا, وہ غریب اپنی توہین برداشت نہ
کرتے ہوئے خود سوزی کر بیٹھا۔۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کے موبائل
فونز پر ایک دوسرے کو بھیجے جانے والے پیغامات نے حکومتی بساط الٹ دی۔
کپتان کا معاملہ دوسرا ہے۔ کل موبائل فون پر پیغام آیا کہ اہلیان کراچی کو
نوید ہو کہ اگر مفت کی مضبوط پلاسٹک کی کرسی درکار ہو تو 25 دسمبر کو عمران
خان کے جلسے میں جائیے اور واپسی پر کرسی ہمراہ لیتے آئیے۔
چار سال کی بات ہے کہ حلقہ احباب میں عمران خان کی کامیابی کی بات چل نکلی،
خاکسار نے ایک تاریخی فقرہ کہا (یہاں خاکسار کا اپنی ذاتی طور پر مرتب کردہ
تاریخ کی جانب اشارہ ہے ) کہ خاں صاحب صرف اور صرف ایک صورت میں ملک کی
حالت بدلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی کلوننگ کروالیں اور کم از کم
5 ہزار اپنے جیسے ایماندار اور نیک نیت عمران خان بنوالیں، بصورت دیگر ذرا
مشکل ہی نظر آتا ہے!
کتابوں کے بازار میں کتابوں کا سمندر اور اس میں جال ڈال کر مطلوبہ گوہر
نکالتے مشتاقان کتب، لیکن ان گوہر نایاب کی قیمت لینے والے بھی تو گھاگ ہیں:
آدمی پہچان لیتے ہیں قیافہ دیکھ کر
آج ملنے والی پہلی کتاب نے اداس کردیا، جی ہاں، بات ہی کچھ ایسی ہے، عنوان
دیکھ کر ذہن میں ایک جھپاکا سا ہوا:
اختر-تجھ سا اور کہاں سے لاؤں
مرتب: ابن انشاء
سن شاعت: 1958
یہ اختر کون ہیں؟ ایک جست لگا کر ذہن کئی برس پیچھے چلا گیا۔ ابن
انشائ-احوال و آثار کی طرف جو ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کا پی ایچ ڈی کا مقالہ
تھا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اسے 1988 میں شائع کیا تھا۔ یاد آیا کہ اس
مقالے میں ابن انشاءنے اپنے عزیز جواں مرگ دوست کا ذکر کیا تھا۔ صفحہ 173
تا 177 ، ڈاکٹر ریاض نے یہ احوال قلم بند کیا ہے۔
|
|
محمد اختر کراچی میں ابن انشاء کے جگری دوست بن گئے تھے، پیشے سے انگریزی
زبان کے صحافی تھے، کھیلوں کے نامہ نگار۔ محمد اختر نے 1948 میں الہ آباد
یونیورسٹی سے ایم اے کیا، ان کی گھریلوں ذمہ داریاں بھی ابن انشاءسے ملتی
جلتی تھیں، حتی کہ ماں کی محبت میں بھی وہ ابن انشاء ہی کی طرح خوش قسمت
تھے۔ والدہ، والد،پانچ بہنوں اور تین بھائیوں کا گھر، محمد اختر سب سے بڑے
تھے۔ ان کی بڑی بہن بیان کرتی تھیں کہ "نہ جانے وہ کون سی صفات تھیں جن کی
بنا پر والدہ کی بھائی ( اختر) محبت عشق کے انتہائی درجے پر پہنچی ہوئی تھی،
ان کے معمولی اور ادنی کاموں میں بھی وہ تاخیر نہ برتیں، اکثر جس دن بھائی
جلدی گھر آجاتے، منہ ہاتھ دھو کر اماں کے پاس لیٹ جاتے اور پھر دنیا جہان
کی باتیں کرتے رہتے۔ خاندان کے ایک ایک فرد کے متعلق باتیں کرتے!". .
ابن انشاءکے ساتھ محمد اختر کے صبح و شام گزرنے لگے۔
کون جانتا تھا کہ انشا جی زندگی میں جو واحد کتاب (زیر موضوع) مرتب کریں وہ
ان کے اپنے دوست کے متعلق ہوگی۔
پھر وہ گھڑی آ پہنچی جو اہل خانہ کے لیے قیامت کی گھڑی تھی، 20 نومبر 1958
کی ایک طوفانی صبح محمد اختر حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے، اس وقت ان
کی عمر صرف 32 برس تھی۔ انشاء جی نے ان کا دلسوز مرثیہ لکھا اور متذکرہ
کتاب میں مختلف اہل قلم سے ان پر مضامین لکھوائے جن یں فیض، طفیل جمالی،
میجر ابن الحسن، فخر ماتری، مختار زمن، حمید اختر، میجر اسحاق جیسے نابغہ
روزگار شامل ہیں۔ محمد اختر کی رحلت کے مہینوں بعد تک انشاء جی کو ان کے
گھر جانے کی ہمت نہ ہوئی۔
اے دور نگر کے بنجارے، کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے
یہ بارش، کیچڑ، سرد ہوا اور راہ کھٹن انجانی ہے
آ محفل چپ چاپ بیٹھی ہے، آ محفل کا دل شاد کریں
وہ لوگ کہ تیرے عاشق ہیں، کے روز سے تجھ کو یاد کریں
اے دور نگر کے بنجارے، گر چھوڑ کے ایسے جانا تھا
کیوں چاہ کی راہ دکھائی تھی، کیوں پیار کا ہاتھ بڑھانا تھا
اور محمد اختر کی اماں
پی ایچ ڈی کا مقالہ اس بارے میں خاموش ہے لیکن کیا کہوں کہ زیر موضوع کتاب
میں مشاہیر ادب کے علاوہ انشاء جی خدا جانے کیسے اس دکھی ماں سے بھی ایک
مضمون لکھوانے میں کامیاب ہوگئے۔ عنوان دیکھ کر کلیجہ شق ہوا، "میرا لاڈلا"
۔۔۔۔۔ ماں نے جو لکھا سو لکھا، لیکن ابتدا ہی میں آخری چند سطریں پڑھ کر
مضمون پڑھنے کا حوصلہ جاتا رہا:
" مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا بچہ مجھے آواز دے گا ‘اماں‘۔ ہر وقت مجھے اس
کے قدموں کی آواز کا انتظار رہتا ہے۔ ہر وقت یہ یقین رہتا ہے کہ میرا بچہ
جلد سے جلد آجائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بے موت رخصت ہوگیا۔ میرا بچہ اس
وقت عالم بالا میں پہنچ چکا لیکن میں ہر سکینڈ اس کے انتظار میں بیٹھی رہتی
ہوں۔ ہر وقت وہی میرے ذہن میں بسا رہتا ہے۔ اب میرے لیے دنیا ایک دوزخ سے
کم نہیں ہے۔ میرے دل کی تڑپ کا اندازہ شاید کوئی نہیں کرسکتا۔ اتنے بڑے
جوان کو دے کر میرے لیے یہ زندگی اجیرن ہے۔ ہر وقت خدا سے یہ دعا ہے کہ وہ
مجھے اپنے پاس جلد سے جلد بلا لے۔""
اللہ بس باقی ہوس!
|
|
بقیہ کتابوں کا تعارف یہ ہے:
2-ادیبوں کے لطیفے
مرتبہ: کے ایل نارنگ ساقی
الحمد پبلیکیشنز، لاہور
سن اشاعت: 1993
3-اپنی کہانی
خودنوشت
راجندر پرساد
مترجم: گوپی ناتھ امن
صفحات: گیارہ سو
ساہیتہ اکیڈمی نئی دلی کی جانب سے شمع بک ڈپو نئی دہلی نے مئی 1961 میں
شائع کی
4-اردو میں خودنوشت سوانح حیات
ڈاکٹر صبیحہ انور (اس مقالے پر صبیحہ انور کو لکھنو یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی
کی ڈگری تفویض کی تھی)
فخر الدین میموریل کمیٹی کے مالی اشتراک سے شائع ہوئی
سن اشاعت: اگست 1982
صفحات: 400
ناشر: نامی پریس، لکھنو
5-یادش بخیر
آمنہ ابو الحسن
موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
سن اشاعت: 1995 |