مجردگاہ ‘ جو اب بہت دنوں سے
بیچلرس کوارٹرس کہلاتی ہے ‘وہ بڑی تاریخی یادیں ‘ اپنے میں ‘ سمائے ہوئے ہے۔
سٹی امپرومنٹ بورڈ ( سی آئی بی ) کی 1942ءتعمیر کردہ یہ عمارت ‘ ایک طرح سے
صرف ایک عمارت نہیں ‘ بلکہ ریاست کی شعر و ادب‘ تہذیب و ثقافت‘ رقص و
موسیقی‘ سرکاری ملازمین کی جدوجہد‘ اُردو تحریک‘ تشہیر کی۔ پوری تاریخ اپنے
میں سموئے ہوئے ہے۔ اس عمارت کی نچلی منزل ( گراؤنڈ فلور “ پر برازیل
آپٹیکلس “ تھی ‘ جس کے مالک اعجاز صدیقی تھے ‘ جو خود بھی شاعر تھے اور شعر
و ادب کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے۔ جگر مراد آبادی جناب اعجاز صدیقی کے خاص
دوستوں میں تھے ‘ جو شاعری کے علاوہ ‘ عینک سازی کے پیشہ سے بھی وابستہ تھے۔
وہ سال چھ ماہ میں حیدرآباد ‘ ضرور آتے اور اعجاز صدیقی کے پاس ہی ٹھہرتے
تھے۔
پہلی منزل پر کمرہ نمبر 17 تھا ‘ جو عوامی مصنفین (ترقی پسند مصنفین) کا
دفتر تھا‘ جس کے آندھراپردیش کے سکریٹری ‘ سلیمان اریب تھے۔ اسی کمرہ نمبر
17 میں ‘ شیخ صاحب کا اردو خبر رساں ایجنسی ”بھارت نیوز سرویس“ کا بھی دفتر
تھا۔ کمرہ نمبر 17 سے ‘ ترقی پسند مصنفین کا ترجمان ”صبا “ ماہنامہ شائع
ہوتا تھا ‘ جس کے مدیر سلیمان اریب تھے جو اپنی نظریاتی وابستگی کے با وصف
بہت اچھے مدیر تھے اور ایک مدیر کی حیثیت سے ‘ انھوں نے ادبی معیار کے
معاملہ میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
شیخ صاحب نے ڈائرکٹر اطلاعات بن جانے کے بعد ”بھارت نیوز سرویس“ کی باگ ڈور
اعجاز قریشی کے حوالہ کردی ‘ جو زاید از نصف صدی سے ‘ اس ایجنسی کو چلا رہے
ہیں اور اس ایجنسی سے وابستگی کے بعد جن صحافیوں نے ‘ نام کمایا ‘ ان کی
فہرست بہت طویل ہے۔ اس میں عارف الدین سلیم‘ ایوب علی خاں ‘ شوکت علی خان‘
عزیز احمد‘ ایم اے ماجد ‘ زین العابدین وغیرہ شامل ہیں۔ اردو تحریک کی ایسی
اور اہم ترین شخصیت چندرا سریواستو ‘ اعجازقریشی کے قریبی دوستوں میں تھے
اور ہر روز کمرہ نمبر۔17 میں شام گزارتے تھے۔ علحٰدہ تلنگانہ کی تحریک اور
پھر اردو کے حقوق کی تحریک انھوں نے اسی کمرہ نمبر 17 سے چلائی۔ وہ بے مثال
او ر بے باک صحافی‘ شعلہ بیان مقرر اور اردو کو اپنا ایمان ثانی سمجھنے
والے ‘ اردو کے اہم ترین مجاہد ہیں۔ تلنگانہ این جی اوز کا دفتر اسی پہلی
منزل پر تھا لیکن تلنگانہ این جی اورینٹل گریجویٹ کے ایڈیٹر ‘ نظیر احمد جو
اردو اساتذہ کے کاز سے زندگی بھر وابستہ رہے۔ چندر صاحب سے ملنے کمرہ نمبر
17 آتے تھے۔ شاعر محمد نامہ ” محمد علی افسر ‘ حفیظ قیصر ‘ مظہر الدین ‘
شیو پرشاد ‘ شیولال ‘ جی۔نرنجن ‘ ہردے ناتھ ٹھاکر ‘ جگدیش پرشاد جیسوال‘
عارف الدین ‘ نصرت محی الدین ‘ حمید الظفر‘ رفیع الزماں ‘ ایس کے افضل
الدین ‘ رضا حسین آزاد ‘ علی رضا اور بے شمار نام ہیں۔ جن کی مجردگاہ کو
آمد محض چندر سریواستو کی پرکشش شخصیت کی وجہ سے تھی۔ ان میں مصطفےٰ کمال
اور ڈاکٹر داؤد اشرف بھی شامل تھے۔
اسی پہلی منزل پر بیرسٹر سردار علی خاں کا بھی دفتر تھا‘ دوسری منزل کمرہ
نمبر27‘ فائن آرٹس اکیڈمی کا دفتر تھا۔ جس کے روح رواں محمد حمایت اللہ تھے۔
ان کے علاوہ اقبال قریشی ‘ وٹھل راؤ ‘ ممتاز اور دوسرے بہت سے فن کاروں
‘سازندوں ‘گلوکاروں ‘ مزاح کاروں ‘ رقص کے ماہرین کی موجودگی اور ان کے
ریاض کے سبب ‘ مجردگاہ کے دوسری منزل سے ‘ راگ ‘ راگنیوں ‘ سازوں اور تال و
طبلے کی آوازیں پوری فضاءکو ‘ خوشگوار بنا دیتی تھیں۔ کمرہ نمبر 27 میں
فائن آرٹس اکیڈمی کا دفتر آج بھی موجود ہے۔ اس دوران ‘ یعنی (20) ‘ (25)
سال کے دوران یہاں زندہ دلان حیدرآباد ‘ ماہنامہ” شگوفہ“ اور ہفتہ وار ”
گواہ “ کے دفاتر قائم ہوئے ہیں لیکن اب مجردگاہ کے کسی بھی کمرہ کسی بھی
کمرہ میں ‘ وہ پہلا سا ”ہرروز ‘ روزعید تھا ہر شب شب برات کا ساماحول نہیں
رہا۔
کمرہ نمبر ۔17 کا ” صبا “ کا دفتر (10) یا (11 ) بجے کے لگ بھگ کھل جاتا
تھا اور ایک آدھ گھنٹے میں ‘ رنگ محفل اپنے عروج پر ہوتا تھا‘ خود سلیمان
اریب کی شخصیت باغ و بہار نوعیت کی تھی ‘پھر وہاں ‘ شاہد صدیقی‘ عزیز قیسی‘
وحید اختر‘ انور معظم‘ شاذ تمکنت‘ حمید الماس‘ راشد آزر، س۔ا۔عشرت، امان
ارشد، سری نواس لاہوٹی، کنول پرشاد کنول ‘ تاج مہجور ‘ شمس الدین تاباں ‘
وقار خلیل ‘ خیرات ندیم ‘ ابن احمد تاب وغیرہ کی آمد سے شعر و سخن کی محفل
صف آرا ہوجاتی بعض شخصیتوں کے لطیفے بھی چلتے رہتے، پیروڈیاں بھی فی
البدیہہ کہی جاتیں اور اس طرح یہ قہقہہ نواز محفل (۲) ‘ (ڈھائی) بجے تک
چلتی۔ ادبی موضوعات ‘ خصوصاً نئے تجربات کے تعلق سے ‘ اگر بات چھڑ جاتی تو
وحید اختر اور سلیمان اریب کے علاوہ صفیہ بھابھی بھی زور و شور سے حصہ
لیتیں۔ عزیز قیسی کا اور وحید اختر کا لب و لہجہ بہت ہی جارحانہ ہوتا تھا۔
دو چار دن میں جب مخدوم صاحب وہاں چلے آتے ‘ تو کمرہ نمبر 17 ‘ شعری ماحول
اور قہقہوں سے لبریز ہوجاتی تھی۔ مخدوم صاحب‘ بعض اوقات آتے ہی یہ اعلان کر
دیتے کہ ہمارے پاس نظم ہوئی ہے اور وہ سب کی فرمائش پر اپنے مخصوص ترنم میں
نظم سناتے ‘ اس وقت ‘ وہ اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے ہوتے اورایسا لگتا تھا کہ
انھیں وہاں کسی کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہے۔ ان کی آنکھوں سے یا چہرے
کے تاثرات سے ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ سننے والوں کی داد و ستائش کے
منتظر ہیں۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ جب بھی کوئی تخلیق ہوتی تو وہ گھر سے نکل
کر سب سے پہلے تو اورینٹ ہوٹل جاتے ‘ اگر دوپہر کا وقت ہوتا۔ وہاں خورشید
احمد جامی کی بیٹھک رہتی تھی اور ان کے اطراف کئی لوگ جمع رہتے تھے۔ جامی
صاحب لپک کر مخدوم صاحب کا استقبال کرتے ”آتے آتے قاید اعظم“ اور مخدوم
صاحب کے کرسی سنبھالنے تک ‘ جامی صاحب کہتے ” فرانسس ‘ فوری چائے لاؤ ود
کریم “ ........ اس کے بعد مخدوم صاحب اپنا کلام سناتے جسے بار بار سنا
جاتا۔ پھر وہ اخبار سیاست کے دفتر جاتے ‘جہاں جگر صاحب ‘ انتہائی فراخ دلی
سے ان کا خیر مقدم کرتے اور ” ادھر آؤ “ کہہ کر ‘ اسٹاف کے لوگوں کو
بلالیتے۔ عابد علی خاں صاحب ‘ بھی اپنے کمرے سے نکل کر آجاتے اور پھر مخدوم
صاحب ‘ اپنی نئی نظم سناتے ‘ جسے بار بار سنا جاتا اور جگر صاحب فوری کاغذ
آگے بڑھا دیتے کہ مخدوم صاحب ‘ یہ نظم لکھ دیجئے۔ مخدوم صاحب نظم لکھ کر دے
دیتے اس کے بعد مخدوم صاحب ”صبا“ کے دفتر جاتے اور وہاں بھی یہی سلسلہ چلتا
اور اریب صاحب بھی ان سے ”صبا“ کے لئے وہ نظم لکھوالیتے ۔
اسی لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجردگاہ ( بیچلرس کوارٹرس ) صرف ایک عمارت
نہیں ‘ بلکہ گزشتہ زاید از ایک صدی کی علم و ادب ‘ صحافت ‘ تہذیب و ثقافت
کا نام ہے اور اس میں سلیمان اریب کی اعجاز صدیقی کی محمد حمایت اللہ اور
چندر سریواستو کی شخصیتیں مرکزی نوعیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ہر شخصیت کی
خدمات اور کارناموں کو گنایا جائے تو اس کے لئے الگ الگ ایک ایک کتاب بھی
ناکافی ہوگی۔ میں اس وقت سلیمان اریب کے مختصر ذکر پر اکتفا کرنا چاہتا
ہوں۔
میں وہ رات کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ جب شعیب میموریل لائبریری۔ملک پیٹ کے
سالانہ کھیل‘ کود ‘ تحریر و تقریر کے مقابلوں‘ بیت سازی کے مقابلے کے بعد
تقریب انعامات منعقد ہوتی تھی۔شعیب اللہ خان حیدرآباد کے ایک صحافی تھے اور
اپنے اخبار میں ‘ سیکولرازم اور کانگریس کی حمایت کرتے تھے۔ کسی جذباتی شخص
نے ان کی آواز روک دینے کے لئے انھیں شہید کردیا تھا۔ ہندوستان میں پہلے
شہید ہونے والے اردو کے صحافی مولانا محمد حسین آزاد کے والد‘ محمد باقر
تھے ‘ تو حیدرآباد میں ‘ تحریک آزادی کی راہ میں شہید ہونے والے پہلے صحافی
شعیب اللہ خاں تھے۔ ہندوستان کی آزادی اور حیدرآباد کے ہندوستان میں انضمام
کے بعد کانگریس قاید راجہ صاحب اور رام دیو نے ملک پیٹ میںشعیب میموریل
سوسائٹی قائم کی ‘ ایک کمیونٹی ہال بنایا اور نوجوانوں میں تعلیم ‘مسابقت ‘
علم و ادب کے شوق کو فروغ دینے کے لئے سالانہ تقاریب کے انعقاد کا سلسلہ
شروع کیا جو آج بھی مسعود علی خان کی سرپرستی میں جاری ہے۔
بہر حال اس رات ‘ تقریب انعامات اور ان تقاریب کے اختتام پر مشاعرہ منعقد
ہوا تھا۔ میرا تعلق پڑوسی محلہ اعظم پورہ سے تھا اور روف خلش ‘ ملک پیٹ ہی
کے تھے۔ مسعود علی خان نے ان تقاریب میں ہم دونوں کو شامل کیا تھا اور
تحریری و تقریری مقابلوں و بیت بازی میں ججس مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ
مشاعرہ میں بھی شامل کیا تھا۔ مشاعرہ کی صدارت مخدوم محی الدین کررہے تھے
اور مشاعرہ میں سعید شہیدی‘ منوہر لال شارب‘ خیرات ندیم‘ ابن احمد تاب‘ شمس
الدین تاباں‘ وقار خلیل‘ شاذ تمکنت‘ تاج مہجور‘ کیف رضوانی اور سلیمان اریب
نے کلام سنایا تھا۔ روف خلش اور میں نے اس میں نظمیں سنائی تھیں۔ جن کی
اچھی پذیرائی ہوئی تھی لیکن ہم دونوں کے لئے یہ بات بہت زیادہ اہم تھی‘
مخدوم صاحب اور سلیمان اریب نے‘ ہماری نظمیں پسند کیں۔ مشاعرہ کے اختتام پر
مخدوم صاحب نے ہم دونوں کو بلایا اور سلیمان اریب صاحب سے کہا کہ اریب ان
کی نظمیں ” صبا“ میں چھپنی چاہئیں۔ اریب صاحب نے ‘ صبا کے دفتر کا پتہ
بتایا اور ہم دونوں سے کہا کہ مجھے یہ نظمیں دفتر پر لاکر دے دو ‘ مگر (۲)
بجے کے بعد نہیں آنا ‘ ہم گھر چلے جاتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی دن
لاکر دے سکتے ہو ‘ تا ہم جلدی لے آؤ تو ‘ نیا شمارہ آخری مراحل میں ہے ‘ اس
میں شامل کرلی جاسکتی ہیں ۔اریب صاحب نے ‘ یوں تو کسی بھی دن اور ذرا جلدی
کہا ‘ لیکن میرے اور روف خلش کے لئے ‘ وہ رات گزارنا مشکل ہوگئی کہ کب اگلا
دن ہو اور ہم اپنی نظمیں اریب صاحب کو پہنچادیں ۔
خدا خدا کر کے ‘ دوسرا دن آیا اور میں تیار ہو کر ‘ روف خلش کے گھر جانے کی
سوچ ہی رہا تھا کہ ‘ خود روف خلش ‘ اپنی سائیکل پر میرے گھر پہنچ گیا اور
لگا غصہ کرنے کہ اریب صاحب کے پاس جانا ہے اور تم ابھی گھر میں بیٹھے ہو‘
میں نے کہا کہ میں تیار ہوں‘ چلو چلتے ہیں۔ پھر ہم روف کی سائیکل ہی پر ڈبل
سواری‘ پولیس والوں سے چھپتے چھپاتے مجردگاہ کمرہ نمبر ۔17 پر پہنچ گئے
۔ابھی اریب صاحب نہیں آئے تھے وہاں ان کے معاون شاہ نوری بیٹھے ہوئے تھے۔
ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اریب صاحب اب آتے ہی ہوں گے۔ اس کے بعد
انہوں نے ہماری آمد کا مقصد پوچھا تھا۔ جب ہم نے بتایا کہ ہم ”صبا“ کے لئے
اپنی نظمیں دینے آئے ہیں تو شاہ نوری نے زبردست قہقہہ لگایا پھر کہا کہ
”صبا“ کوئی بچوں کا رسالہ نہیں ہے کہ اس میں آپ لوگوں کا کلام شائع کیا
جائے۔ اس پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اس جملہ پر مایوسی بھی
محسوس کی لیکن بیٹھے رہے۔ کچھ دیر میں اریب صاحب آگئے۔ پھر ہماری نظمیں لے
لیں اور انھیں پڑھا۔ میں اپنی نظم سے مطمئن نہیں تھا اور ایک اور نظم بھی
ساتھ میں تھی۔ اریب صاحب نے رؤف خلش کی نظم رکھ لی اور مجھ سے کہا کہ دیکھو
حسن فرخ تم پہلی بار چھپنے والے ہو ‘ وہ بھی ”صبا “ میں لیکن اس نظم کا
معیار صبا کے قابل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے خود بھی ‘ اس نظم کے تعلق
سے بے اطمینانی تھی ‘ اسی لئے دوسری نظم بھی لایا ہوں ‘ اسے دیکھ
لیجئے۔انھوں نے ‘ دوسری نظم پڑھی اور کہا کہ ہاں یہ نظم ” صبا “ میں شائع
ہوگی اور تم دونوں بہت جلد اور بھی اچھی نظمیں‘کہنے لگوگے ‘لیکن خدارا۔
مشاعروں میں زیادہ شرکت کے چکر میں نہ پڑو۔اس کے کچھ ہی دیر میں تاج مہجور
‘ کیف رضوانی اور س۔ا۔عشرت آگئے ۔شاہ نوری نے اریب صاحب کو ‘ اپنا تبصرہ
سنادیا تھا ‘جسے سن کر اریب صاحب بہت ہنسے تھے ۔اب جو جو بھی آتا گیا ۔اریب
صاحب ان سے ہمارا تعارف کرتے ہوئے انھیں یہ بھی بتاتے رہے کہ ‘ شاہ نوری نے
‘ ان دونوں کو بچہ سمجھ کر یہاں سے بھگا ہی دیا تھا۔ اگر ان دونوں نے صبر
سے کام نہ لیا ہوتا۔بہر حال ہم اس دن (۳) بجے تک دفتر صبا پر رہے ‘ اس
دوران صفیہ بھابھی آگئی تھیں ۔اریب صاحب نے ان کو بھی یہ لطیفہ سنایا کہ شا
ہ نوری نے ان دونوں کو بچہ سمجھ لیا تھا ۔
ہم نے ‘ اس دن دفتر ” صبا “ کو جس حال میں دیکھا ‘ شاہ نوری اور مظہر بھائی
( خوش نویس ) سے جس طرح ہماری ملاقات ہوئی ‘ پھر س۔ا۔ عشرت تاباں صاحب ‘
تاج مہجور ‘ کیف رضوانی صفیہ بھابھی سے جس طرح کی ہمت افزائی ملی اور ہم سے
ہماری تخلیقات جس طرح سنی گئیں، ان باتوں کو یاد بھی کیا جاسکتا اور دہرایا
بھی جاسکتا ہے ‘ لیکن ان سے ہمارے حوصلوں میں جو برق پیدا ہوئی ۔اور ہماری
شخصیت میں ‘ جو اعتماد اپنی شاعری اور صلاحیت کے بارے میں پیدا ہوا ‘ وہ
ایک ایسا انمول جوہر ہے کہ ‘ وہ ہمیشہ ‘ ہمارے ذہن و شعور کو جلا دیتا رہا
۔
اس دن جوہم وہاں گئے تو ‘ بس وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔دفتر صبا کی یہ محفل ‘
روزانہ دس یا گیارہ بجے سے شروع ہو کر ‘ (۲) یا ڈھائی بجے تک چلتی تھی جب
صفیہ بھابھی کالج سے آجاتی تھیں ۔اس کے بعد ‘ وہ دونوں گھر چلے جایا کرتے
اور ہم اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ میں اور روف خلش عامرہ گیریج،
دفتر ”پیکر “ پہنچ جاتے اور وہیں شام ہوجاتی ۔اریب صاحب اور صفیہ بھابھی
میں ‘ ایک دوسرے کے لئے بھی اور سبھی دوستوں اور ملنے والوں کے لئے بھی ‘
غیر معمولی محبت تھی۔ سلیمان اریب کو ہم ہمہ رخی شخصیت کہہ سکتے ہیں ۔وہ
شاعر اور ایڈیٹر تو تھے ہی ‘ لیکن خود اپنی جگہ ایک تحریک بھی تھے اور ایک
انجمن بھی تھے۔ بہ حیثیت ایڈیٹر ‘ ان کا معیار انتخاب بہت کڑا تھا۔
وہ سلیمان اریب کی شخصیت ہی تھی ‘ جس نے کمرہ نمبر ۔17 کو حیدرآباد کے ادبی
و شعری مرکز میں بدل دیا تھا ۔یہ کمرہ نمبر ۔17 پر روز کوئی نہ کوئی محفل
جمی رہتی تھی‘ کبھی ترقی پسندی اور جدیدیت پر دھواں دھار مباحثہ چلتا رہتا
‘ کبھی شاعری کا دور چلتا رہتا تھا۔ اورنگ آباد سے اگر قاضی سلیم یا بشر
نواز آجاتے ‘ تو پھر کئی دن تک شاعری اور مباحثے جاری رہتے تھے۔ ان دنوں ‘
زیادہ تر‘ محمود ایاز کے سوغات کے جدید نظم نمبر پر بات چیت ہوتی یا پھر
”صبا “ میں چھپے ہوئے وحید اختر کے “ تشکیک کے مسئلہ“ پر بحث ہوتی۔ اریب
صاحب ‘ عزیزقیسی اور وحید اختر ‘ جدیدیت کو ‘ ترقی پسندی کی توسیع کہتے تھے
لیکن بشر نواز اس سے اختلاف کرتے تھے۔ ان دنوں ‘ احمد ہمیش کی حیدرآباد میں
آمد سے ‘ ترقی پسندی اور جدیدیت کی بحثوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی ‘احمد
ہمیش کے آنے اور پھر شب خون کی اشاعت کے ساتھ ‘ جدیدیت کی تائید و حمایت
میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ۔خود اریب صاحب اور صفیہ بھابھی ‘ کی شاعری میں
‘ جدیدیت کا رجحان شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا تھا ۔کمرہ نمبر ۔17 پر ‘
کبھی شاعری کا دور چلتا رہتا ‘ تنقید و تحقیق ‘ فلسفہ اور سماجیات ‘ قواعد
و عروض کے سائل زیر بحث رہتے ۔سرور ڈنڈا ‘ حمایت بھائی ‘ سلیمان خطیب ‘ شاذ
تمکنت ‘ تاج مہجور ‘ وقار خلیل سے لے کر ‘ مرزا شکور بیگ ‘ حکیم یوسف حسین
خان ‘ عزیز قیسی ‘ غیاث صدیقی ‘ کوئی نہ کوئی کمرہ نمبر ۔17 میں موجود رہتا
۔وحید اختر ‘ عزیز قیسی ‘ قاضی سلیم ‘ بشر نواز ‘ زبیر رضوی ‘ حمید الماس ‘
شحنہ صاحب اور محمود ایاز جب بھی حیدرآباد آتے ‘ کہیں بھی ٹھہرتے ‘ لیکن
دوپہر کمرہ نمبر ۔17پر اریب صاحب کے ساتھ ضرور گزرتی ۔
میں نے حیدرآباد کے ‘ دہلی اور ممبئی کے دیگر مقامات کے بہت سے نامور
شاعروں ‘ ادیبوں اور صحافیوں سے کمرہ نمبر۔17 ہی پر سب سے پہلے ملاقات کی
‘ان میں چندر سریواستو ‘ اعجاز قریشی ‘ مصطفےٰ کمال وغیرہ ‘ سبھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر سید عبدالمنان سے بھی ‘ اریب صاحب کے ساتھ ہی کنگ کو ٹھی کے کلینک پر
پہلی مرتبہ ملاقات کی۔ ڈاکٹر منان ‘ غیر معمولی شخصیت کے حامل او ر بہت
اچھے فزیشن ہیں۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں غیر معمولی شفا بھی دی ہے۔ ان کے
بہت سے مریضوں کو ان سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ مریض کی بات نہیں سنتے اور
وہ کچھ کہتا ہی رہتا ہے کہ منان صاحب ‘ نسخہ لکھ کر اسے تھما دیتے ہیں۔
چھٹی دہائی میں بھی اور اس کے بعد بھی وہ مریض سے صرف چار آنے فیس لیتے
تھے۔ تاہم روزانہ آنے والے کم از کم پچاس فیصد مریضوں سے فیس بھی نہیں لیتے
تھے۔ دس پندرا فیصد کو وہ دوائیں بھی دے دیتے تھے ‘ حالانکہ وہ حیدرآباد کے
نامور ڈاکٹروں میں ہیں اور ایف آرسی ایس ہیں۔ اریب صاحب کے مجھے ملانے کے
بعد منان صاحب مجھ سے بھی فیس نہیں لیتے تھے۔ میں ان سے ذرا بے تکلف ہوگیا
تھا ‘ اسی لیے جب ایک بار ‘ کچھ طبیعت خراب تھی تو میں منان صاحب کے پاس
گیا اور انھوں نے میری نبض دیکھی اور نسخہ لکھ دیا۔ جب میں اس کے بعد بھی
بیٹھا رہا تو انہوں نے پوچھا اب کیا ہے؟ میں نے کہا دوا تو آپ نے لکھ دی،
خریدوں کیسے؟ منان صاحب میری بات سمجھ کر مسکرادیئے اس کے بعد یہی معمول
رہا کہ اگر میں ان کے پاس گیانسخہ لکھوانے پر بھی خاموش کھڑا رہا تو وہ
فوری (10) روپے کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیتے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا کہ
آپ کے بہت سے مریضوں کو یہ شکایت ہے کہ آپ ان کی تکلیف اور کیفیت نہیں سنتے
اور نسخہ لکھ دیتے ہیں۔ اس پر منان صاحب اپنے خاص انداز سے مسکرادیئے اور
کہا کہ دیکھو میں مرض کا علاج کرتا ہوں، مریض کا نہیں۔ میں نے شعر کے سے
انداز میں داد دی اور کہا کہ بڑا ہی ادبی انداز کا آپ نے جواب دیا ہے مگر
بات میری سمجھ میں نہیں آئی تو انہوں نے کہا کہ سنو کوئی مریض بخار محسوس
کرکے، میرے پاس آتا ہے۔ ان دنوں بہت سے لوگ انفلونزا میں مبتلا رہتے ہیں
۔وہ آتے ہی مجھ سے کہتا ہے ڈاکٹر صاحب مجھے فلو ہوگیا ہے اور اپنی کیفیت
سنانے لگتا ہے ۔مگر میں جب تشخیص کرتا ہوں یعنی نبض دیکھتا اور مریض کی
زبان دیکھتا ہوں تو ‘ اسے دراصل ‘ کوئی اور ہی بخار رہتا ہے ۔میں اس کی دوا
لکھ دیتا ہوں ۔اگر میں مریض کی بات سن کر اسے فلو کی دوا دے دوں ‘ تو ظاہر
ہے کہ اس کا درجہ حرارت کم نہیں ہوگا ۔اس طرح میں مرض کا علاج کرتا ہوں ۔
کمر ہ نمبر ۔17 کے خصوصی کرداروں میں امان ارشد ‘ شمس الدین تاباں ‘
پروفیسر حامد قادری‘ اظہر خورشید وغیرہ شامل تھے ۔ امان ارشد ‘ نظامیہ طبی
دواخانہ میں ‘ سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز تھے ‘ ان کے بارے میں ان کے ‘ بے
تکلف دوستوں کا یہ کہنا تھا کہ ‘ وہ اپنی بیوی سے بہت ڈرتے ہیں ۔چنانچہ ایک
دن امان ارشد کمرہ نمبر ۔17 پر نہیں تھے ‘ تو میں نے اریب صاحب سے پوچھا کہ
کیا واقعی امان ارشد بیوی سے ڈرتے ہیں تو ‘ اریب صاحب قہقہہ مار کر دیر تک
ہنستے رہے اور پھر کہا یہ رباعی سن لو ‘
یہ کس نے کہا ہی ہے امان ارشد
خود اپنی جگہ شی ہے امان ارشد
بیوی نہیں کہتی اسے شوہر اپنا
بیوی کی بھی بیوی ہے امان ارشد!
میں اور رؤف خلش بھی ہنس پڑے اور اس رباعی سے بے حد محفوظ ہوئے۔ رؤف نے
پوچھا اریب صاحب ‘ اس رباعی کا مزاج تو آپ کی رباعیوں کے مزاج جیسا ہے۔
اریب صاحب نے کہا کہ نہیں یہ حضرت شاہد صدیقی کی رباعی ہے۔
ا س کے بعد ‘ تاباں صاحب نے اصرار کیا کہ شاہد بھائی کے وہ شعر بارکس سے
آتی ہے ‘ بھی ان دونوں کو سنائیے نا ........ اریب صاحب نے تھوڑا تامل کیا
اور پھر سنایا کہ ایک بار ‘ ان کے پاس غزل کے کچھ شعر ہوئے تھے ‘ جس کا
قافیہ ‘ جرس ‘ ہوس وغیرہ تھا اور ردیف سے آتی ہے ‘ تھا اس کا مطلع نہیں ہوا
تھا ‘ میں نے تازہ تازہ وہ غزل یہیں سنائی تھی ‘ جس پر سبھی نے داد دی اور
بعض اشعار کو دوبارا ‘ سہ باراسنا ۔لیکن شاہد صدیقی صاحب ‘ کچھ گُم سم سے
تھے ۔میں نے پوچھا کہ شاہد بھائی کیا ہوا ‘ تو انھوں نے کہا اریب‘ تم نے اس
کا مطلع بھی کہا تھا اور ایک شعر بھی تھا ‘ جنھیں میں یاد کر رہا تھا ۔اریب
صاحب نے کہا نہیں ‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مطلع نہیں ہوا تھا ‘ تو شاہد
صاحب نے کہا کہ دیکھو مجھے یاد ہے میں سناتا ہوں ۔ان اشعار کو سننے سے پہلے
یہ یاد کرلینا ضروری ہے کہ ان دنوں اریب ثاحب کا ‘ صفیہ بھابھی سے رومانس
زوروں پر تھا اور وہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں اور ان کی آمد و رفت کے لئے
‘ ان کے والد نے انھیں کار دی تھی ۔شاہد صاحب نے سنایا ۔دیکھو یہ مقطع ہے ‘
جسے تم بھول رہے ہو
میرے پاس اک لڑکی دو برس سے آتی ہے
ا سکے پاس موٹر ہے ‘ پھر بھی بس سے آتی ہے
پھر شاہد صاحب نے محفل کے قہقہوں کی گونج میں سنایا کہ دوسرا شعر یوں ہے
منزلوں سے بے گانہ ‘ راستوں سے نا واقف
شاہ گنج میں گھر ہے ‘ بارکس سے آتی ہے
ان دنوں اریب صاحب بارکس میں اور صفیہ بھابھی شاہ گنج میں رہتی تھیں۔ ایک
دن ‘ ایسی ہی محفل جمی ہوئی تھی ‘ ڈاکیہ رجسٹری لایا ‘ اریب صاحب نے اسے
وصول کر کے پیکٹ کھولا۔ سکندر علی وجد کا تازہ مجموعہ تھا۔ اریب صاحب نے
پیکٹ کھولا اور ورق گردانی کرنے لگے ۔پھر کچھ پڑھ کر زور دار قہقہہ لگایا
اور سامنے بیٹھے ہوئے تاج مہجور سے ہاتھ ملایا ۔شرکائے محفل ان کی طرف دیکھ
رہے تھے۔ اریب صاحب نے تحیر و تجس کو توڑ تے ہوئے کہا کہ بھئی وجد صاحب نے
‘ اس کتاب کا مقدمہ نہیں لکھا بلکہ فیصلہ لکھ دیا ہے ۔سبھی جانتے تھے مگر
اریب صاحب نے یاد دلایا کہ سکندر علی وجد صاحب ” جج “ ہیں ۔سب کے اشتیاق پر
انھوں نے پڑھ کر سنایا ‘ اس مقدمہ کا اختتام اس طرح ہوا تھا کہ وجد صاحب نے
لکھا تھا کہ اس مجموعہ میں انھوں نے اپنی پوری شاعری کا انتخاب کر دیا ہے
اور اس کے سوا ان کی جو بھی شاعری ہے وہ اس سے قطع تعلق کرتے ہیں ۔ان کے
الفاظ کچھ ا سطرح تھے کہ اس کے علاوہ ان کا جو بھی کلام ہے ‘ اسے میں منسوخ
کرتا ہوں ۔ا سکے بعد انھوں نے اپنی دستخط ثبت کردی تھی اریب صاحب نے ‘ پڑھ
کر سنانے کے بعد ‘ پھر ایک قہقہہ لگایا جس میں سب شامل ہوگئے ۔اس کے بعد
انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ باقی جو کلام ہے انشاءاللہ اسے زمانہ
منسوخ کر دے گا ۔
اریب صاحب کی شخصیت پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے ‘ مگر ان کے فن پر ‘ شاعری پر
اور ‘ ان کی ادارت کی غیر معمولی صلاحیت پر بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔
اریب صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ایسے ہیں ‘ جن پر بہت کچھ لکھا جانا چاہئے
‘ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنے جونیرس کی صلاحیتوں کی غیر معمولی اور
دل کھول کر ہمت افزائی کرتے تھے ۔انھوں نے رو ¿ف خلش کی اور میری ‘ غیاث
متین اور مسعود عابد ‘ علی الدین نوید ‘ انور رشید ‘ ساجد اعظم ‘ اعظم راہی
اور اس سے قبل تاج مہجور اور کیف رضوانی کی غیر معمولی ہمت افزائی کی تھی
۔ان کی ہمت افزائی کا انداز کچھ اس طرح کا تھا کہ وہ بجائے خود ‘ یہ محسوس
کروا دیتا تھا کہ ‘ وہ اگر کسی کو اہمیت دے کر پیش کر رہے ہیں تو وہ محض
رسمی نوعیت کی تعریف نہیں ہے ۔اس کے علاوہ ‘ اریب صاحب مبالغہ سے بھی کام
نہیں لیتے تھے ۔
1966 ءکی بات ہے کہ ‘ حیدرآباد میں جشن مخدوم کی تیاری چل رہی تھی۔ جس میں
یوں لگتا تھا کہ پورے حیدرآباد کی اور اردو دنیا ‘ تن و من دھن سے اس میں
مصروف ہے ۔اس تقریب کے اصل محرک تو ‘ جناب عابد علی خاں ایڈیٹر ” سیاست “
اور جناب محبوب حسین جگر ‘ جوائنٹ ایڈیٹر “ سیاست “ تھے ‘ جشن کی تیاریوں
کے لئے مخدوم کمیٹی بھی تھی ‘ جس کا روزانہ دو تین گھنٹے دفتر ” سیاست “
میں اجلاس ہوتا تھا ۔ان اجلاسوں میں تقریباً سارے ادیب و شاعر ‘ مصروف تھے
۔حتیٰ کہ عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب نے مجھے اور روف خلش کو بھی
روزانہ میٹنگ میں رہنے کی تاکید کی تھی۔ کمیٹی نے ‘سونیر نکالنے کا بھی
فیصلہ کیا تھا ‘ لیکن اریب صاحب نے ”صبا“ کا ضخیم ” مخدوم نمبر “ نکالنے کی
پیش کش کی تھی ۔اس طرح ایک طرف دفتر سیاست میں ‘ ادبی اجلاس ‘ افتتاحی
اجلاس ‘ دوسرے اجلاسوں اور مشاعرہ کے لئے تیاریاں چل رہی تھیں ‘ تو دفتر
”صبا “ پر مخدوم نمبر کے لئے ‘ مصامین ‘ نظموں وغیرہ کے انتخاب کا کام چل
رہا تھا ۔روف خلش کے اور میرے لئے ‘ یہ کام بہت زیادہ دلچسپی اور اہمیت
رکھتا تھا ۔ چنانچہ ہم مختلف لائبرریوں ‘ کتب خانوں کے چکر کاٹ کر ‘ مخدوم
صاحب پر جو بھی کام تھا جمع کرتے رہے اور دوسری طرف ‘ مخدوم صاحب کے حالات
زندگی ‘ کو تزئین و ترتیب دیتے رہے ۔ا س سلسلہ میں ڈاکٹر داؤد اشرف کا ایم
اے کا ڈسرٹیشن۔ ”مخدوم .... ایک مطالعہ “سے ہمیں بہت مدد ملی اور ہم نے
مخدوم صاحب کی شخصیت او ران کی زندگی کے بارے میں سارا مواد ‘ اسی مقالے سے
حاصل و جمع کیا ۔او راس کی نئے گیٹ اپ کے ساتھ ہر صفحہ پر درمیان میں ایک ”
باکس “ رکھا ‘ جو کسی اہم واقعہ کی نشان دہی کرتا تھا۔ اریب صاحب اور صفیہ
بھابھی دونوں کو یہ گیٹ اپ پسند آیا ۔میری اور روف خلش کی اس محنت کو ‘ جس
میں غیاث متین اور مسعود عابد نے ہمارا بھر پور ساتھ دیا تھا کی ہمیں یہ
داد ملی کہ ایک تو ” جشن مخدوم “ کے مشاعرہ میں ہمیں شرکت کا موقع ملا ‘
بلکہ جب ” صبا “ کا یہ نمبر تیار ہوا ‘اس کے اداریہ میں اریب صاحب نے میرا
اور روف خلش کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا تھا۔ ہمارے علاوہ اریب صاحب نے غیاث
متین اور مسعود عابد کا بھی ذکر کیا تھا ‘ یہ بھی اریب صاحب کی اعلیٰ ظرفی
اور نئی نسل کے لئے ان کے جذبات ِ خلوص و ہمت افزائی ہی کا ایک پہلو تھا ۔
اریب صاحب کی زندگی میں ‘ کمرہ نمبر ۔17 کو ‘ صرف حیدرآباد ہی نہیں پوری
اردو دنیا میں ‘ ادب و شعر کے ایک مرکزی مقام کی اہمیت حاصل تھی ‘ ویسے
اورینٹ ہوٹل ‘ مدینہ ہوٹل اور مینار کیفے بھی ادبی مراکز کی حیثیت رکھتے
تھے ‘ اور ا سکے بعد حیدرآباد میں ‘ایسی ادبی سرگرمی اور اس کا مرکز نہیں
رہا‘ تاہم ادبی سرگرمیاں جاری ہیں‘ رسایل و جراید کی اشاعت عمل میں آرہی ہے
‘ ہر سال اچھی خاصی تعداد میں شاعری ‘ فکشن‘ تنقید‘ تخلیق اور طنز و مزاح
کی کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں اور ان کی رسم اجراءیا رونمائی کے جلسے بھی
منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔مگر مرکزی اہمیت کی ادبی شخصیت ‘ چاہئے وہ سلیمان
اریب ہوں ‘ عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب ہوں ‘ جامی صاحب ہوں یا طالب
رزاقی اور اوج یعقوبی ‘ ان سبھوں کے غیاب میں ‘ یہ محفلیں آراستہ تو ہوتی
ہیں ‘ مگر ان میں کچھ کمی پائی جاتی ہے ۔حیدرآباد ‘ نے اب تک ‘ نہ تو مخدوم
کے بغیر ‘ جینا سیکھا ہے اور نہ ہی ان ادبی شخصیتوں کے چلے جانے سے ‘ جو
خلا ءپیدا ہوئی ہے ‘ اسے ہی پر کرنے کا ‘ ان میں حوصلہ ہے بقول فراق
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں |