مرزاغالب کا 214واں یوم پیدائش
آیا اور گزر بھی گیا۔ منگل کے روز چاندنی چوک میں واقع دہلی شہر کے اولین
میونسپل صدر دفاتر ٹاؤن ہال سے شروع ہوکر غالب کی حویلی تک شمع بردار جلوس
نکال کرمعروف بالی ووڈ شاعر اور ہدایت کار گلزار نے قدیم شہر کی گنجان
آبادی میں اردوداں طبقہ کو ایک مرتبہ پھر بیدار ہونے پر مجبور کردیا۔مدتوں
تقریبات کی آماجگاہ بنی رہی غالب کی حویلی آج کسی میوزیم سے کم نظر نہیں
آرہی تھی لیکن اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس سے اردو زبان اور اردو سے وابستہ
مسائل کا کیا حل نکلا تو یقینا آپ یہ کہنے پہ مجبور ہونگے کہ’کوئی بتلائے
کہ ہم بتلائیں کیا؟‘گلزار چاندنی چوک کی تاریخی گلیوں کے درمیان واقع
مرزاغالب کی حویلی میں ان کی پیدائش کے موقع پر ہرسال آتے ہیں۔انہوں نے
بتایاکہ ان جگہوں میں جاری چہل پہل اور قدیمی رونق انہیں اردو کے مایہ ناز
شاعر کی قربت نصیب کرتی ہے۔ گلزار نے کہاکہ غالب کی عظمت کے بارے میں اظہار
خیال کیلئے میرے پاس الفاظ کاذخیرہ میسر نہیں ہے۔اردو کے اس عدیم المثال
شاعر کے 214 ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقد پروگرام جسکا آغاز انڈیا
اسلامک کلچرل سینٹر میں پیر کے روز ہوا اور بدھ کے روز مزاحیہ’ غالب نئی
دہلی میں‘ پر ختم ہوا۔متعدد فلموں کے ہدایتکار نے اظہار خیال کرتے ہوئے
کہاکہ میں ہرسال یہاں آتاہوں اور مجھے اس مقام سے لگاؤ ہے۔ سب سے بڑی بات
یہ ہے کہ یہاں پر کچھ بھی نہیں بدلاہے۔ہربرس میں کسی نہ کسی طرح غالب کی
حویلی تک پہنچ ہی جاتاہوں۔
|
|
انہوں نے کہاکہ اس پروگرام سے مجھے ایک گرمجوشی اور تازگی نصیب ہوتی ہے اور
اپنے لوگوں کے درمیان میں خود کو غالب کے نزدیک سمجھنے لگتاہوں۔وہ ایک عظیم
شاعر تھے۔واضح رہے کہ امسال غالب کی حویلی میں جشن کے اہتمام میں واضح
تبدیلی دیکھنے میں آئی۔انڈین کونسل فار کلچرل ریلشنز نے ایک نمائش منعقد کی
جس میں غالب کی زندگی کے اہم کاموں کو پیش کیا گیاہے۔منگل کی شام کو اس
نمائش کا افتتاح دہلی کی وزیراعلی شیلادکشت نے کیا۔ چاندنی چوک کی گلی قاسم
جان میں واقع دوکمروں پر مشتمل مرزا غالب کی حویلی اسداللہ بیگ خان کے صحن
میں روایتی شمع روشن کرکے ماضی کی یادوں کو تازہ کیا گیا۔یہ حویلی مدتوں
نظر انداز کی جاتی رہی۔ حتی کہ تقریبات کے اہتمام کیلئے اس جگہ کو کرائے پر
بھی دیاگیا لیکن گزشتہ 2 برسوں سے انڈین کونسل برائے ثقافتی روابط، حکومت
دہلی، فلمساز گلزار اور کتھک رقاصہ اماشرما کی کوششوں کی بدولت ’غالب
میموریل موومینٹ‘ نے اسے آج میوزم کی سی حیثیت بخش دی ہے۔یوں دہلی کے بستی
حضرت نظام الدین میں واقع ’غالب اکیڈمی‘ میں مرزا غالب سے متعلق نوادرات کا
بیش قیمت خزانہ ہے لیکن حفاظتی نقظہءنظر سے انہیں غالب کی حویلی میں مجتمع
نہیں کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گلزار کا کہناہے کہ ہم ہرسال دھکم پیل کرکے
یہاں پہنچ جاتے ہیں اس امید میں کہ وہ دن ضرور آئے گا جب اس ملک کے لوگ اس
ثقافتی ورثے کی اہمیت کوسمجھیں گے اور اس کی بقاءکیلئے حکومت آگے آئے
گی۔چند برس قبل تک اس حویلی میں لکڑی کے محض چند ستون تھے لیکن آج غالب سے
منسوب کپڑے، برتن، خطوط، نظمیں، غزلیں، نوادرات اور نثری خدمات وغیرہ کا
ایک ذخیرہ موجود ہے۔آئی سی سی آرکے ڈائریکٹر سریش کے گوئل کے مطابق سیاحتی
نقطہ سے حویلی کے فروغ کا کام جاری ہے۔ |