ایک اور کیری پیکر سرکس

پاکستان کی سیاسی بساط پر ایک بار پھر وہی کھیل کھیلا جارہا ہے جس نے ہمیشہ صرف مسائل کو جنم دیا ہے۔ دس سال بعد بحال ہونے والی جمہوریت اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ”منتخب“ اداروں نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق پانچ سال مکمل کئے تھے۔ اب کے بساط چار سال پورے ہونے سے پہلے ہی لپیٹے جانے کے آثار ہیں۔

مرزا تفصیل بیگ بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ اُنہیں جمہوریت کی اُتنی فکر نہیں جتنی اپنے خدشات کے درست ہونے کی ہے۔ کئی ہفتوں سے وہ ڈرائنگ روم کے ٹاک شوز کو طرح طرح کے خدشات سے دہلاتے آئے ہیں۔ مرزا کو تو بس پریشان ہونے کا بہانہ ہونے کا۔ کہیں سے کوئی بیان آیا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اور پھر جب وہ اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں تو سُننے والے سر تھام لیتے ہیں!

مرزا جوان تو نہیں مگر پھر بھی اُنہیں عمران خان سے عقیدت آمیز محبت ہے۔ کپتان صاحب جب بھی خطاب کرتے ہیں، مرزا چاچا کرکٹ کے سے والہانہ انداز سے ہاتھ ہلاتے اور داد دیتے ہیں۔ مگر کچھ دنوں سے مرزا کی ذہنی حالت خطرناک ہوگئی ہے۔ وہ عمران خان کو ٹی وی پر دیکھ کر بھی اپنی جگہ سے ہلتے نہیں، بس گم سم سے بیٹھے رہتے ہیں۔ گھر والے جب بھی اُنہیں پسندیدہ شخصیت سے بے رُخی برتتے دیکھتے ہیں، سہم جاتے ہیں!

عمران خان اور اُن کی پارٹی پاکستانی سیاست میں اِس وقت سُنامی بن کر سب کچھ بہا لے جانے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ دُنیا تو خیر بعد میں حیران ہوگی، خود اہل وطن کی حیرت ہے کہ ختم تو ختم، کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اقتدار کا ایسا تھال سجایا جا رہا ہے جس میں طرح طرح کے حلوے ہیں، اہل سیاست کے جلوے ہیں۔ مگر اندر ہی اندر بلوے ہیں! جن کے بارے میں چینلز ہرزہ سرائیاں کرتے نہ تھکتے تھے وہی اب نور نظر ہیں۔ جن میں کہیں سے کوئی اچھائی دکھائی نہ دیتی تھی وہ اب تمام بُرائیوں سے پاک، مُبرّا اور مُستثنٰی قرار پائے ہیں۔
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا!

صورت حال کے تناظر میں اِس مصرع میں ”بتدریج“ بے محل دکھائی دیتا ہے۔ اب تو سب کچھ پلک جھپکتے میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جسے جو بھی سرٹیفکیٹ ملنا ہے، آن کی آن میں ملنا ہے!

تحریکِ انصاف نے جب انصاف کا غَلغَلہ بلند کیا تھا تب قوم کے جوانوں کی آنکھوں میں اُمید کی چمک پیدا ہوئی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں شاندار قیادت کی تھی۔ توقع تھی کہ سیاست کے میدان میں بھی شاندار قیادت کریں گے اور قوم کی کشتی کو پار لگائیں گے۔

عمران خان نے ایک کینسر ہسپتال شاندار انداز سے چلاکر دکھایا ہے۔ یہ تو واقعی قابل تحسین بات ہے۔ مگر مُلک چلانا اور بات ہے۔ اور ملک بھی وہ جس میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو۔ عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں وہ کرپشن کا بازار بھی گرم کرتے ہیں۔ مگر خیر، اِس کرپشن کے خلاف رائے دینا عوام ہی کا حق ہے۔ کوئی کھڑا ہوکر یہ کہنے کا حقدار نہیں کہ مُلک اُس کے ہاتھ میں دے دیا جائے، وہ سب کچھ درست کردے گا! اور پھر مُلک اُس کے حوالے کرنے کے آثار بھی ہویدا ہوتے جائیں! یہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے ہی کی دوسری شکل ہے۔

دو ڈھائی ماہ کے دوران عمران خان تمام صداقت ناموں اور یقین دہانیوں سے لَیس ہوکر میدان میں اُترے ہیں۔ جو لوگ پاکستانی سیاست میں اسکرپٹنگ کا رونا روتے ہیں وہ کچھ غلط نہیں کرتے۔ تحریکِ انصاف میں بڑوں کی شمولیت کوئی راتوں رات رُونما ہو جانے والی تبدیلی نہیں۔ سب کچھ چار چھ ماہ قبل طے ہوچکا ہوگا اور اب سیاسی اداکار اسکرپٹ کے مطابق اپنے اپنے حصے کی اداکاری کر رہے ہیں۔ اور بے چارے عوام ایک بار پھر تماشائی ہی کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ انقلاب کی آمد تو نہیں، انعقاد ضرور ہے۔ انقلاب ہدایات پر عمل کرنے سے نہیں، صرف جوش اور جذبے پر عمل کرنے سے آتا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور اُن کے رُفقاءسے نجات پانے کی کوششیں ملک میں جمہوریت ہی کی بساط لپیٹ نہ دیں۔ جن سیاسی جماعتوں کی، جیسے تیسے، ایک بنیاد اور پوزیشن ہے اُنہی کو اگر اقتدار ملے تو بات ہے۔ یہاں تو بندوبست ہو رہا ہے۔ جس طرح ملک میں بندوبستی علاقے ہیں اُسی طرح اب بندوبستی سیاست کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے!

کاندھوں پر سوار ہوکر آنے کی روایت پاکستان میں نئی نہیں۔ مگر جو لوگ کاندھوں پر سوار ہوتے تھے اُن کی بہر حال ایک حیثیت تو ہوتی تھی۔ اب جس روشن انداز سے تحریکِ انصاف کا چراغ روشن کیا جارہا ہے وہ لوگوں کو شُکوک و شبہات کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ شُکوک و شبہات کی منزل پیچھے رہ گئی ہے۔ اب لوگ یقین کے نزدیک ہیں۔ روزانہ پرائم ٹائم میں سیاسی ٹاک شو دیکھنے والا عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی ورلڈ الیون تیار کی جارہی ہے۔ اپنی ٹیم بنانے میں اور اِدھر اُدھر سے کھلاڑی جمع کرکے ٹیم پیش کرنے میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق، ظاہر ہے، عمران خان بھی سمجھتے ہی ہوں گے۔ جس کیری پیکر کے لیے عمران نے کبھی کرکٹ کھیلی تھی اُسی کا انداز اختیار کرکے وہ اب سیاسی میدان کے کیری پیکر بن گئے ہیں۔ ملک کی مختلف سیاسی ٹیموں کے اہم کھلاڑی کسی نہ کسی طرح توڑ تو لئے گئے ہیں مگر اِس سے سیاست میں جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ اظہر من الشمس ہیں۔ جب عمران نے ظہیر عباس، مشتاق محمد، ماجد خان اور آصف اقبال کے ساتھ مل کر کیری پیکر سرکس میں شمولیت اختیار کی تھی تب پاکستانی ٹیم کا جو بھی حشر ہوا تھا اُس کے ذمہ دار یہ پانچوں کرکٹرز بھی تو تھے! اب اگر سیاسی کیری پیکر سرکس منعقد کیا جارہا ہے تو جوتوں میں دال بٹنے کی روایت کے مستحکم تر ہونے اور اقتدار کے لیے زیادہ ہوس کا مظاہرہ کئے جانے کا الزام کس کے سر جائے گا؟

جن لوگوں پر اقتدار پرست ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے یا جو کرپٹ کہلانے والے ٹولے کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اُنہی میں سے بہتوں کو تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جارہا ہے۔ یہ بھی کم عجیب بات نہیں۔ جو پارٹی کرپشن ختم کرنے کا عزم لیکر میدان میں اُتری تھی اُسی کو اِدھر اُدھر کے بظاہر پرست عناصر کا گڑھ بنایا جارہا ہے۔ دوست بنانے کے بجائے دُشمن کے دُشمن کو دوست اور اتحادی بناکر اپنے ساتھ ملانا کچھ نہ کچھ گل تو کِھلاکر ہی دم لے گا!

تحریکِ انصاف کو جمپنگ کیسل کی طرح تیار کرکے سیاسی میدان میں اتارا جارہا ہے۔ جب تک ہَوا ہے تب تک کیسل برقرار ہے۔ جو لوگ کودنے کے لئے پَر تول رہے ہیں اُن کا بوجھ یہ جمپنگ کیسل کب تک برداشت کر پائے گا؟

مرزا تفصیل بیگ عمران کے فین رہے ہیں۔ اب بھی ہیں مگر اب اُن کے پرستانہ جوش و جذبے میں کچھ ڈینٹ سا پڑگیا ہے۔ سیاسی کبوتر جس تیزی سے آ آکر عمران کے چَھجّے پر بیٹھ رہے ہیں وہ مرزا کے لیے استعجاب اور استفہام کو مُرقّع ہے! اب اگر سیاسی بحث کی دعوت دیجیے تو مرزا قدرے غیر دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں عمران خان کا ذکر شامل کرکے اُن کی ستائش کو فرض سے زیادہ حق سمجھتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور بحث کا رُخ بدل کر اُس عمران خان کے تذکرے سے دور لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے دو ایک مرتبہ کہا کہ مرزا! جب گنگا صحیح معنوں میں بہنے پر آئی ہے اور یار لوگ اس میں اشنان کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں تب آپ اِس سے دور ہوتے جارہے ہیں! اِس پر مرزا کچھ کہہ تو نہ سکے، ہاں اُن کی آنکھیں تَر ہوتے ہوتے رہ گئیں! آنکھی تو اُن کی بھی تَر ہیں جو تحریکِ انصاف کی ٹرین میں سوار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر خیر، یہ خوشی کے آنسو ہیں!

مرزا تفصیل بیگ عمران اور تحریکِ انصاف سے بدگمان ہونے والے تنہا پرستار نہیں۔ پندرہ سال تک ساتھ نبھانے والے کئی جاں نثار قسم کے مرزا تحریکِ انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان کو اُن کی چنداں پروا نہیں۔ لیڈر اِسی طرح آگے بڑھا کرتے ہیں۔ راستے کی ہرچیز اِس قابل نہیں ہوتی کہ اُسے دیکھا جائے، توجہ دی جائے!

مرزا تو خواہ مخواہ بد دل اور بد گمان ہو رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ کون سی نئی بات ہے؟ ہمارے ہاں کب ایسا نہیں ہوا؟ جنہیں عوام نے التفات کے قابل نہیں سمجھا اُنہیں مینڈیٹ دلانے کا اہتمام کب نہیں کیا گیا؟ جنہیں عوام نے اپنے اعتماد سے نوازنے کی زحمت گوارا نہ کی ہو اُنہیں بھرپور تیاری کے ساتھ اقتدار کی مسند تک کب نہیں پہنچایا گیا؟ یہ سب ہونا ہے اور ہوتے رہنا ہے۔ ہم عوام تو بس حیرت زدہ رہ جانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ اور وہ وقت اب شاید زیادہ دور نہیں جب کسی بات پر حیرت میں مبتلا ہونے کی روش متروک کہلائے گی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524767 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More