١٥ سالہ کی انتھک جدوجہد کے بعد پاکستان کے
سیاسی افق پر آب و تاب کے ساتھ چمکنے والا ستارہ آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے
۔ جہاں نہ صرف اس مخالفین و ناقدین نے عمران خان کی سیاسی قوت کو تسلیم کیا
بلکہ اس کو نفسیاتی طور پر ملک آئندہ وزیراعظم بھی مان لیا ہے ۔
لاہور کا جلسہ ہو یا فیصل آباد یا پھر کراچی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر
چاہے وہ عمران خان کی طلسماتی شخصیت کے سحر سے متاثر ہو کر جمع ہو یا
اسٹبلشمنٹ کے مرہون منت اس بات کا عندیہ دینے کے لیے کافی ہے کہ عوام اب
تبدیلی چاہتے ہیں ۔ موروثی و خاندانی سیاست ، وڈیرے و جاگیر داری اور فرد
واحد کی بادشاہت کا مکمل خاتمہ چاہتےہیں ۔ ١٩٨٨ ء کی دہائی سے چلنے والی
جمہوریت و آمریت کے کھیل تماشے کو ہمیشہ کے لیے سمندر برد کرنا چاہتے ہیں ۔
بزرگ و نوجوان نسل پاکستان کو مستقبل میں معاشی طور پر مستحکم ، کرپشن سے
پاک، میرٹ پر تقرریاں اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے عمران خان سے کافی
امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
عمران خان کے ایک بعد ایک کامیاب جلسے آئندہ انتخابات میں کسی بھی بڑی مثبت
تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ جہاں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی
مقبولیت کے تناظر میں جوق درجوق نئے لوگ پارٹی میں شامل ہورہے ہیں ۔ وہاں
پرانے لوگوں کو نظرانداز کیے جانے حوالے سے ان میں تشویش کی لہر بھی پائی
جاتی ہے ۔ جس کا برملا اعتراف تحریک انصاف کے نائب صدر وائس ایڈمرل (ر)
جاوید اقبال نے کیا کہ پرانے لوگوں کو نظر انداز کرکے نئے لوگوں کو عہدے
تقسیم کیے جارہے ۔ اس حوالے عمران خان کا کہنا ہے کہ جو پرانے ساتھی نظریات
پر قائم ہیں وہ خوش ہیں اور انہیں کوئی اختلاف نہیں لیکن جو ذاتی مفادات کے
لیے تحریک انصاف میں شامل ہیں ان کے اور ہمارے راستے جدا ہیں ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نظریات کی بنیاد پر تحریک انصاف شامل
ہوئے یہ پھر کسی بارگیننگ کے نیتجے میں ؟
خان صاحب کیا آپ نے ان کی شمولیت قبل انہیں وائس چئیرمین کے عہدے کی پیشکش
نہیں کی تھی ؟
شاید آپ بھول گئے تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل سید زادے نوازشریف سے بھی
ون ٹو ون ملاقات کرچکے تھے ۔ لیکن نثار چوہدری، اسحاق ڈار ، خواجہ سعد رفیق
اور دیگر لیگی رہمناؤں کی (ن) لیگ میں موجودگی کے باعث انہیں پارٹی میں ان
کی حیثیت کے مطابق عہدہ نہ ملنے کی توقع تھی ۔ لہذا انہوں نے نون لیگ میں
شامل ہونے سے معذرت اختیار کی تھی ۔ پیپلزپارٹی سے بنیادی اختلاف قریشی کا
صاحب یہ تھا کہ وزارت خارجہ کا قلمدان لینے کے بعد انہیں ان کی حیثیت کے
مطابق وزارت کی پیشکش نہیں کی گئی تھی جس کے وہ حقدار تھے ۔
جہاں تک خورشید قصوری ، اویس لغاری اور جہانگیر ترین کی کا تحریک انصاف میں
شمولیت اختیار کرنے کی بات ہے وہ کسی نظریہ کے تحت نہیں بلکہ اپنے مفادات
کی خاطر ایسا پلیٹ فارم اختیار کرنا تھا ۔ جہاں گنگا سے اشنان کرنے کے بعد
بقول چوہدری شجاعت ڈرائی کلین ہوناتھا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آمریت کے دور میں
آم کے مزے لوٹتے رہے اور جمہوری دور میں اپنے مفادات کی خاطر سیاسی
وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ۔ مسلم لیگ ن میں شمولیت سے وہ مقام ان لغاری
برادران ، قصوری اور ترین کو مل نہیں سکتا تھا جبکہ پیپلزپارٹی سے عوام
لاکھوں گز دور ہو چکی ہے ۔ لہذا تحریک انصاف میں آنا ان حضرات کا اپنی
ضرورت کے تحت تھا کسی نظریہ کے تحت نہیں ۔
بلاشبہ تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی کی شمولیت سے جہاں نون لیگ کو ناقبل
تلافی نقصان پہنچا ہے وہاں تحریک انصاف میں ان کی آمد خوش آئند امر ہے جس
پارٹی کو یقیناً تقویت ملے گی ۔ یہ وہ مرد مجاہد ہے جس کے چالیس سالہ سیاسی
کیرئیر بدعنوانی و لوٹ کھوسٹ کے داغ دھبوں سے پاک ہے ۔ اگر ماضی میں آمرکا
ساتھ دینے سے جو غلطی سرزرد ہوئی تھی ۔ تو یہ واحد سیاست دان ہے جس نے نا
صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ پوری قوم سے بھی معافی مانگی ۔ اس شخص کی
حب الوطنی کا ثبوت تحریک انصاف میں شمولیت قبل خان صاحب نے سید زادے کی طرح
انہیں بھی پارٹی عہدے کی پیشکش کی ۔ لیکن ہاشمی صاحب نے ملک بچانے ،
خاندانی سیاست و کرپشن کے خاتمے کے لیے عمران کا خان کا ساتھ دینے کے لیے
بغیر کسی عہدے کے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔
خان صاحب اور ان کی منتخب ابتدائی ٹیم نے پندرہ سالہ سیاسی ٹیسٹ اننگز میں
شاندار کارکردگی کے باعث عوام کے دل جینتے میں کامیاب ضرور ہوئی لیکن اب
مقابلہ سیاسی ون ڈے میچ کا ہے اور تحریک انصاف کے مد مقابل دو بڑی ٹیمیں
موجود ہیں ۔ جن کے متخب کھلاڑی کافی تجربہ کار ہیں ۔ خاں صاحب سیاسی ون ڈے
میچ کے لیے ٹیم منتخب کرتے ہوئے میرٹ اور اپنے نظریہ کو ضرور یاد رکھیئے گا
۔ کیونکہ غلط کھلاڑی کی سلیکشن سے آپ کا نظریہ سیاسی قبرستان میں ہمشہ کے
لیے دفن ہوسکتا ہے ۔ |