ائمۂ مجتہدین پر ترک حدیث کا الزام

یہ مضمون علامہ اُسید الحق قادری بدایونی کی کتاب تحقیق وتفہیم سے پیش خدمت ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں سے عالم اسلام میں ایک ایسا طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو ’’عمل بالحدیث‘‘کا دعویدار ہے ،اس طبقہ کے افراد اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں کو ’’تارک حدیث‘‘ قرار دیتے ہیں،برصغیر ہند وپاک میں چونکہ احناف کی اکثریت ہے اس لیے اس طبقہ کے ’’مجتہدین‘‘مصنفین اور واعظین کی کرم فرمائیاں مقلدین احناف ،فقہاء احناف اور ائمہ ٔ احناف پر زیادہ ہوتی ہیں،اس طبقہ کا ہر خاص وعام آپ کو یہ کہتا ہوا نظر آئیگا کہ امام ابو حنیفہ نے فلاں فلاں مسائل میںحدیث نبوی کی مخالفت کی ہے،احناف کی طرف سے ہر چند ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ امام اعظم نے اگر اس مسئلہ میں فلاں حدیث کو ترک کیا ہے تو اس کے فلاں فلاں اسباب ہیںمگر یہ طبقہ کسی طور مطمئن ہونے کو تیار نہیں ہے

اس طبقہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یوں تو یہ کسی بھی امام یا فقیہ کی تقلید کو حرام یا شرک قرار دیتا ہے مگر (اقراراً نہ سہی)عملاً بے شمار مسائل میں شیخ ابن تیمیہ الحرانی کی اندھی تقلید کرتا ہوا نظر آتا ہے ،یہاں میں یہ وضاحت کر دوں کہ شیخ ابن تیمیہ کی بعض خلاف جمہور آراء کی وجہ سے ہمارے اسلاف نے ان کو ’’اہل سنت‘‘میں شمار نہیں کیا ہے ،شیح ابن تیمیہ نے بہت سی کتب تصنیف کی ہیں ،اس وقت ان کا ایک مختصر رسالہ ’’رفع الملام عن الأئمۃ الاعلام‘‘میرے پیش نظر ہے(۱) اس رسالہ میں شیخ موصوف نے ائمہ پر ترک حدیث کے الزام کا تحقیقی جائزہ لیا ہے ،میں یہاں اس رسالہ سے بعض اہم نکات ہدیۂ قارئین کرنا چاہتا ہوں (۲) اس گزارش کے ساتھ کہ ائمہ پر ترک حدیث کا الزام لگانے والے حنفیوں کی نہ مانیں نہ سہی مگر کم ازکم اپنے ’’امام اور شیخ الاسلام والمسلمین ‘‘کی تو مانیں،شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیںکہ’’اللہ اور رسول کی محبت کے بعد ہر مسلمان پر مؤمنین اور خاص کر علما کی محبت واجب ہے اس لیے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں،ان کو اللہ تعالیٰ نے نجوم ہدایت بنایا ہے کہ ان سے تاریکیوں میں نور حاصل کیا جاتا ہے،ان علما کے ہدایت یافتہ اور صاحب درایت ہونے پرمسلمانوں کا اجماع ہے،حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل ہر امت کے علما ’’شرار الامۃ‘‘ہوا کرتے تھے لیکن امت محمدیہ کے علما اس امت کے بہترین لوگ ہیںاس لیے کہ وہ امت میں اللہ کے رسول ﷺ کے خلفاء ہیںاور آپکی سنت کو زندہ کرنے والے ہیں،جان لو کہ وہ ائمہ جن کو امت میں قبول عام حاصل ہے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو قصداً اور عمداً رسول گرامی ﷺ کی سنت کی مخالفت کرے اس لیے کہ ان سب کا اتفاق ہے کہ رسول خدا ﷺ کی اتباع ہر حال میں واجب ہے،اور ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سوا ہر انسان کے قول میں اخذ وترک کا اختیار ہے ،لیکن اگر ان ائمہ میں سے کسی امام کا کوئی قول ایسا ملے جس کے خلاف حدیث صحیح موجود ہو تو یقیناً اس حدیث کو ترک کرنے کا کوئی نہ کوئی عذر اور سبب ان کے پاس ضرور ہوگا،ترک حدیث کے بنیادی اعذار اور اسباب تین ہیں (۱) وہ امام اس کو حدیث رسول تسلیم نہیں کرتے(۲)وہ تسلیم نہیں کرتے کہ حضور نے اس قول سے یہ مسئلہ مراد لیا ہے(۳) وہ امام اس حدیث کو منسوخ مانتے ہیں۔ا ن تین اعذار سے متعدد اسباب متفرع ہوتے ہیں۔‘‘(۳)
اس کے بعد شیخ ابن تیمیہ نے دس اسباب کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد پر کوئی امام و مجتہد حدیث کو ترک کرتا ہے، ان دسوں اسباب کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
پہلا سبب:- ’’اس امام تک وہ حدیث پہونچی ہی نہ ہو،اور جس کے پاس حدیث پہونچی ہی نہیںوہ اس کے حکم کو جاننے کا مکلف ہی نہیں ہے،جب اس تک حدیث نہیں پہونچی تو اب وہ اس مسئلہ میں اپنی رائے کی بنیاد یا تو قرآن کریم کے ظاہر پر رکھے گایا کسی دوسری حدیث کے مطابق،یا پھر قیاس واستصحاب پر ،تو ظاہر ہے کہ اس کی رائے کبھی اس (پہلی)حدیث کے مطابق ہوگی اور کبھی مخالف،ائمہ سلف کے جو اقوال بعض احادیث کے خلاف پائے جاتے ہیںان میںغالب اور اکثری سبب یہی ہے۔‘‘(۴)
اس کے بعد شیخ نے سلف کے چند واقعات نقل کیے ہیں جن میں بعض صحابہ یا تابعین تک حدیث نہیں پہونچی تھی اور انہوں نے مسئلہ کی بنیاد کسی دوسری دلیل پر رکھی تھی، حضرت شاہ ولی اللہ محدـث دہلوی نے بھی ’’الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ‘‘میں اسباب اختلاف کے ذیل میں اس سبب کاذکر کیا ہے،اس پر مجھے چند باتیں عرض کرنا ہے ۔اولاً تو یہ کہ اس سبب کو ’’اکثری سبب‘‘ قرار دینا ہمیں تسلیم نہیں ہے،بعض عجلت پسند لوگ جب بھی کسی امام کا کوئی قول کسی ظاہر حدیث کے خلاف دیکھتے ہیں تو ترک حدیث کے باقی نو اسباب فراموش کر کے فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ان کو فلاں حدیث نہیں پہونچی،دوسرا یہ کہ یہ عذر ان مسائل میں تو تسلیم کیا جاسکتا ہے جن کا وقوع شاذونادر ہو، شیخ نے اس سلسلہ میں مثالاً جو واقعات نقل کیے ہیں ان میں سے اکثر اسی قبیل کے ہیں مگر جو مسائل روز مرہ وقوع پذیر ہوتے ہیںان میں یہ عذر درست نہیں ہے مثال کے طور پر رکوع سے قبل اور رکوع کے بعد رفع یدین کیا جائیگا یا نہیں؟آمین زور سے پڑھی جائے یا ہلکی آواز میں؟ مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنا چاہیٔے یا نہیں؟اذان واقامت کے کلمات کتنے ہیں؟وغیرہ وغیرہ یہ سارے مسائل ایسے نہیں ہیں جو عمر میں ایک یا دو مرتبہ پیش آتے ہوں اور یہ فرض کر لیا جائے کہ بعض صحابہ یا تابعین یا مجتہدین کو اس سلسلہ میں حدیث نہیں پہونچی ہوگی بلکہ یہ تو ان مسائل میں سے ہیں جن سے ہر مسلمان کا سابقہ دن و رات میں کئی کئی مرتبہ پڑتا ہے ،لہٰذا یہ بات بعید ازقیاس اور عقلاً ناقابل قبول ہے کہ ان مسائل میں بعض صحابہ یا تابعین یا بعض ائمہ کو سنت نبوی کی خبر نہ ہوسکی ،مثلاً کوئی یہ کہے کہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کی جو روایت سیدنا ابن عمر سے مروی ہے وہ امام اعظم ابو حنیفہ تک نہیں پہونچی اس لیے آپ نے عدم رفع کو اختیار فرمایایہ بات نہایت سطحی ہے،کیونکہ نماز میں رفع یدین کرنا کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو عمر بھر میں صرف ایک دو بار کی جاتی یا رات کی تاریکی میں کی جاتی بلکہ یہ تو ایسی چیز ہے جو ہر مسلمان علیٰ رؤوس الاشہاد دن میں متعدد مرتبہ کرتا ہے،لہٰذا یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اس سلسلہ کی روایت امام اعظم تک نہ پہونچی ہو،یقیناوہ روایت آپ تک پہونچی مگر اس کے باوجود آپ نے اس پر عمل نہیں کیا ،اس کو ترک کرنے کا سبب آگے آرہا ہے ۔اسی طرح وہ مسائل جو خود صحابہ کرام کے درمیان مختلف فیہ تھے اور جن کا تعلق روز مرہ کے اعمال سے ہے ان میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ایک فریق کو اس سلسلہ میں حدیث نہیں پہونچی ہو ۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بالفرض اگر کسی امام کے پا س واقعی حدیث نہیں پہونچی اور انہوں نے مسئلہ کی بنیاد کسی اور دلیل پر رکھی مگر جیسے ہی ان کے تلامذہ اور مقلدین کو یہ یقین قطعی ہوا کہ اس مسئلہ میں فلاں حدیث صحیح موجود ہے تو انہوں نے اپنے امام کے قول کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی مثال کے طور پر امام اعظم نے شوال کے چھ روزوں کو مکروہ فرمایا ہے مگر جب صحیح حدیث سے ان روزوں کا رکھنا ثابت ہوگیا تو بعد کے فقہاء احناف نے ان روزوں کو سنت اور مستحب تسلیم کرلیا،امام اعظم نے مزارعت کو ناجائز فرمایا ہے مگر جب صاحبین اور بعد کے فقہاء کو مزارعت کے جواز کی صریح اورصحیح حدیث پہونچی تو انہوں نے امام اعظم کے قول کو ترک کرکے حدیث پر عمل کیا،امام اعظم نے عقیقہ کو محض مباح فرمایا تھا مگر جب صحیح حدیث سے اس کا سنت ہونا ثابت ہوگیا تو فقہاء احناف نے حدیث پاک کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔(۵) خلاصہ یہ کہ حدیث نہ پہونچنے کا عذر اولاً تو بہت کم ہے اس کو ’’اکثری سبب‘‘نہیں کہا جاسکتا،اور اگر کہیں ہے بھی تو صرف ان مسائل میں جن کا وقوع شاذونادر ہے -

دوسرا سبب:- ترک حدیث کا دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیںکہ’’کسی امام کے پاس حدیث تو پہونچی مگر وہ حدیث ان کے نزدیک ثابت نہیں تھی،یعنی اس حدیث کی اسناد میں کوئی راوی ان امام کے نزدیک مجہول تھا یا متہم بالکذب تھا یا سئی الحفظ تھا۔‘‘ (۶) اس سبب کی مزید تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ’’یہ سبب بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے‘‘

تیسرا سبب:-امام نے اپنے اجتہاد سے کسی حدیث کو ضعیف سمجھا،اور دوسرے نے اس میں اس سے اختلاف کیا،اس سے قطع نظر کہ اس حدیث کا کوئی دوسرا بھی طریقہ ٔ روایت تھا،اب چاہے پہلے والا صواب پر ہو یا دوسرا والا،یا پھر دونوں صواب پر ہوں۔‘‘ (۷) اس کے بعد شیخ ابن تیمیہ نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ کسی حدیث کی تصحیح اور تضعیف میں اختلاف کیوں ہوتا ہے-

چوتھا سبب:- ترک حدیث کا چوتھا سبب یہ ہے کہ ’’ایک امام کسی عادل اور حافظ کی روایت کردہ خبر واحد کے قبول کے لیے ایسی شرطوں کی رعایت کرتا ہو جن کی رعایت دوسرے امام کے نزدیک ضروری نہ ہو،مثلاً بعض ائمہ نے شرط لگائی کہ خبر واحد کو پہلے کتاب وسنت پر پیش کیا جائیگا ،یا جیسے بعض نے یہ شرط لگائی کہ جب حدیث دیگر اصول کے مخالف ہو تو راوی کا فقیہ ہونا ضروری ہے،یاپھر جیسے بعض ائمہ کا یہ شرط لگانا کہ جب حدیث کسی ایسے معاملہ سے متعلق ہو جس میں عموم بلویٰ ہو توحدیث کی شہرت اور ظہور ضروری ہے‘‘(۸)

ترک حدیث کا دوسرا ،تیسرا او رچوتھا سبب اصولی طور پر ایک ہی قسم کے ہیں،لہٰذا میں ایک ساتھ ان پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔یہاں ایک اہم بات یہ ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں محدثین نے احادیث کو جانچنے اور رجال حدیث کی جرح وتعدیل کے جو اصول وقوانین مقرر فرمائے ان کی روشنی میں بہت سی وہ احادیث جو ائمہ متقدمین کے نزدیک ثابت اور صحیح تھیں وہ متاخرین کے یہاں غیر ثابت اور ضعیف ہوگئیں،اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ائمہ متقدمین کے پاس جو روایت ہوا کرتی تھی اس میں صحابی تک صرف ایک ،دویا تین واسطے ہوا کرتے تھے ،صحابی کی عدالت اور ثقاہت شکوک وشبہات سے بالا تر ہے ،اور آخری راوی سے خود وہ امام روایت سنا کرتا تھا لہٰذا اس راوی کی ثقاہت بھی اس امام کے نزدیک مسلم ہوا کرتی تھی اب صرف درمیان کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو راویوں کے بارے میں تحقیق درکار ہوتی تھی،ا س کے بر خلاف متاخرمحدثین تک روایت آتے آتے اس کی سند میں چار ،پانچ، چھ اور بسا اوقات آٹھ آٹھ راوی ہو جایا کرتے تھے،ظاہر ہے کہ اتنے بہت سے راویوں کی تحقیق و تفتیش ایک مشکل مسئلہ تھا ،اسی لیے بے شمار روایات متقدمین کے یہاں صحیح ہیں جب کہ متاخرین تک آتے آتے وہ روایات ضعیف یا ناقابل احتجاج ہوگئیں،اسی طرح متاخرین نے ارسال وانقطاع کی وجہ سے بے شمار احادیث رد کر دیں جب کہ متقدمین مراسیل ومنقطع کو عموماًحجت سمجھتے تھے،اس سلسلہ میں امام مالک اورامام محمد کی تصریحات موجود ہیں ،اس وضاحت سے اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ’’احناف نے فلاں فلاں ضعیف احادیث کو اختیار کیا ہے ‘‘،جواب واضح ہے کہ یہ احادیث متاخرین کے نزدیک ضعیف ہیںلیکن جس وقت امام اعظم ابو حنیفہ یا آپ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی نے اس حدیث پر مسئلہ کی بنیاد رکھی تھی تو یہ حدیث ان کے نزدیک ثابت اور صحیح تھی۔شیخ ابن تیمیہ کے بیان کردہ تیسرے سبب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف ایک اجتہادی امر ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ ایک حدیث کسی امام کے نزدیک صحیح ہو اور وہی حدیث کسی دوسرے امام کے نزدیک ضعیف ہو،جب یہ ایک اجتہادی چیز ہے تو ظاہر ہے کہ ایک مجتہد کا اجتہاد دوسرے کے لیے حجت نہیں ہوگا،بخاری اور مسلم کے بے شمار رجال ایسے ہیں جن کی ثقاہت وعدالت پر دوسرے ائمہ نے کلام کیا ہے،مگر دوسرے ائمہ کا یہ کلام امام بخاری اور امام مسلم پر حجت نہیں ہے کیوں کہ ان دونوں جلیل القدر اماموں نے انہیں راویوں سے روایت لی ہے جو ان کے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہیں،اب وہ راوی اگر کسی دوسرے امام کے نزدیک غیر ثقہ ہیں تو ہوا کریں اس سے بخاری ومسلم پر کچھ فرق نہیں پڑیگا،دوسری بات یہ کہ اگر بخاری ومسلم نے کسی روایت سے استدلال کیا ہے یا اس کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے تو یہ ان کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے،اب اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ اگر ہمارے ائمہ یعنی امام اعظم ابوحنیفہ ،امام محمد یا امام ابو یوسف نے کسی روایت سے استدلال وتمسک کیا ہے تو اولاً تو وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح اور قابل احتجاج ہوگی، کیوں کہ ان حضرات کا اس حدیث سے تمسک کرنا ہی ان کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے، دوسری بات یہ کہ اب بعد کے ائمہ کے اجتہاد کے مطابق خواہ وہ حدیث ضعیف یا ناقابل احتجاج ہی کیوں نہ ہو ان کا یہ اجتہاد امام اعظم یا امام محمد کے اجتہاد پر اثر انداز نہیں ہوگا،اور نہ ان متاخرین کا اجتہاد متقدمین پر حجت ہوگا-

پانچواں سبب:- شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ ترک حدیث کا پانچواں سبب یہ ہے کہ ’’امام کو حدیث پہونچی ہو اور وہ ان کے نزدیک ثابت بھی ہو ،مگر وہ اس کو بھول گئے ہوں‘‘ (۹) اس کے بعد شیخ ابن تیمیہ نے حضرت عمر فاروق کے دو اور حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہما کے بھولنے کا ایک واقعہ مثالاً نقل کیا ہے،اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’سلف و خلف میں ترک حدیث کا یہ سبب بھی کثرت سے پایا جاتا ہے‘‘۔اس پر عرض ہے کہ کسی موقع پر وقتی طور سے کسی بات کا ذہن سے نکل جانا کوئی بعید نہیں ہے ،ویسے بھی خطا ونسیان انسان کا خاصہ ہے ،ہاں البتہ یہ بات ضرور بعید از قیاس ہے کہ کوئی مجتہد اجتہاد کے وقت کوئی حدیث بھول جائے اور اس حدیـث کے خلاف فتویٰ دیدے،عوام اس کے اس اجتہاد پر عمل کرنا شروع کر دیں اور خود وہ مجتہد بھی اسی رائے پر عمل کرے ،اس کے باوجود ساری زندگی اس کو وہ حدیث یاد نہ آئے،عقل سلیم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ یہ بھول بھی ان مسائل میں ہوسکتی ہے جو شاذونادر واقع ہوں ،لیکن وہ مسائل جو روز مرہ کے معمولات سے ہوں ان میں مجتہد کے نسیان کا دعویٰ کرنا نہ صرف یہ کہ بلادلیل ہے بلکہ عقلاً بھی ناقابل قبول ہے -

چھٹا سبب:- امام کو دلالت حدیث کی معرفت ہی نہ ہوسکے،یا تو اس لیے کہ جو لفظ حدیث میں وارد ہوا ہے وہ اس امام کے نزدیک غریب اور اجنبی ہے ‘‘(اس کی کچھ مثالیں دینے کے بعد لکھتے ہے)’’اور کبھی اس لیے کہ اس امام کی لغت وعرف میں اس لفظ کے جو معنی تھے وہ حضور اکرم ﷺکی لغت کے خلاف تھے امام نے اس کو اپنی لغت وعرف پر محمول کیا ‘‘(اس کی ایک مثال دیکر آگے لکھتے ہیں)اور کبھی اس لیے کہ حدیث کا لفظ مشترک یا مجمل یا حقیقت ومجاز دونوں کامحتمل تھا،پس امام نے اس لفظ کو ایسے معنیٰ پر محمول کرلیا جو اس کے ذہن کے قریب ترین تھاحالانکہ وہاںحدیث کے لفظ سے دوسرا معنی مراد تھا‘‘(۱۰)

الفاظ حدیث کے معانی اور مفاہیم کے تعین اور ان کی تشریح وتفسیر میں ائمہ مجتہدین اور علما کے درمیان اختلاف رائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہاں البتہ اگر حیرت ہے تو اس بات پر کہ بقول شیخ ابن تیمیہ ’’مجتہد کو دلالت حدیث کی معرفت ہی نہ ہو‘‘۔میری حیرت کی وجہ یہ کہ لغت وعرف اور دلالات الفاظ کی معرفت مجتہد ہونے کے شرائط میں سب سے اہم شرط ہے،جو شخص لغت،کلام عرب اور دلالات الفاظ ہی سے واقف نہ ہو وہ مجتہد ہی کیونکرہوگا ؟

ساتواں سبب:- مجتہد یہ سمجھے کہ اس حدیث میں اس مسئلہ کی دلالت نہیں ہے،اس سبب اور اس سے پہلے والے سبب میں فرق یہ ہے کہ پہلے والے سبب میں وہ یہی نہیں جانتا کہ یہ لفظ اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے یا نہیں؟لیکن اس ساتویں سبب میں دلالت لفظ کی جہت سے تو واقف ہے مگر اس دلالت کو وہ درست نہیں سمجھتا،کیوں کہ اس کے پاس جو اصول ہیں وہ اس دلالت کو رد کر رہے ہیں-‘‘(۱۱)

آٹھواں سبب:- امام لفظ حدیث کی دلالت سے تو واقف ہو مگر اس کے پاس ایسی دلیل موجود ہو جو اس دلالت کے معارض ہو اور یہ ثابت کر رہی ہو کہ یہ دلالت مراد نہیں ہے‘‘۔پھر آگے

چل کر لکھتے ہیں کہ ’’یہ بھی بہت وسیع باب ہے اس لیے کہ اقوال والفاظ کی دلالتوں کا تعارض اور ان میں بعض کو بعض پر ترجیح یہ ایک بحر نا پیدا کنار ہے‘‘۔(۱۲)

نواں سبب:- حدیث ترک کرنے کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ’’امام یہ اعتقاد کرے کہ حدیث کے معارض ایسی دلیل موجود ہے جو اس حدیث کے ضعف یا نسخ اور اگر قابل تاویل ہو تو تاویل پر دلالت کر رہی ہے،لیکن وہ دلیل ایسی ہو جو بالاتفاق اس حدیث کا معارض بننے کی صلاحیت رکھتی ہو مثلاً کوئی آیت ہو یا حدیث ہو یا پھر اجماع ہو‘‘ ۔(۱۳)

دسواں سبب:- کسی امام کے حدیث ترک کرنے کا دسواں اور آخری سبب یہ ہے کہ’’حدیث کے معارض کوئی ایسی چیزہو جواس حدیث کے ضعیف ہونے یا منسوخ ہونے یا مؤول ہونے پر دلالت کر رہی ہو ،لیکن وہ چیز یا اس کی جنس دوسرے امام کے نزدیک معارض نہ ہویا پھر درحقیقت وہ معارض راجح نہ ہو‘‘۔(۱۴)

ترک حدیث کے یہ دس اسباب بیان کر نے کے بعد شیخ ابن تیمیہ نے جو حقیقت پسندانہ ،اور بصیرت افروز سطور لکھی ہیں وہ ان تمام لوگوں کو چشم عبرت سے بغور پڑھنا چاہئیے جو اٹھتے بیٹھتے اپنی نادانی اور کم علمی کے باعث ائمہ مجتہدین پر ترک حدیث اور مخالفت سنت کا الزام لگاتے ہیں ، شیخ لکھتے ہیں کہ ’’یہ دس اسباب تو بالکل ظاہر ہیں،اور ممکن ہے کہ بہت سی احادیث کو ترک کرنے میں عالم (مجتہد)کے پاس کوئی ایسی دلیل اور حجت ہو جس پر ہم مطلع نہ ہو سکے ہوں،اس لیے کہ علم کے مدارک بہت وسیع ہیں،اور علما کے باطن میں جو کچھ ہے ہم اس سب پر مطلع نہیں ہیں،اور عالم (مجتہد) کبھی اپنی دلیل ظاہر کرتا ہے ،کبھی ظاہر نہیں کرتا،اور اگر وہ اپنی دلیل ظاہر کرتا ہے تو وہ دلیل کبھی ہم تک پہونچتی ہے اور کبھی نہیں پہونچتی،اور اگر اس کی دلیل ہم تک پہونچ جائے تو کبھی ہم اس کے موضع احتجاج اور وجہ استدلال کو جان لیتے ہیں ،کبھی نہیں جان پاتے-(۱۵)
(جامِ نور اپریل ۲۰۰۶ئمراجع:
۱- یہ رسالہ ۲۷ صفحات پر مشتمل ہے ،میرے پیش نظر جو نسخہ ہے وہ محمد بدرالدین ابو فراس الحلبی کی تحقیق وتصحیح کے ساتھ المطبعۃ الحسینیہ المصریہ القاہرہ سے ۱۳۲۳ھ میں شائع ہوا ہے ،اس کے علاوہ یہ رسالہ مجموعۂ فتاویٰ ابن تیمیہ کی جلد ۲۰ میں بھی شامل ہے،یہ مجموعۂ فتاویٰ مکتبہ ابن تیمیہ ریاض سے عبدالرحمان محمد بن قاسم النجدی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے،

۲- یہ ترجمہ لفظی اور حرفی نہیں ہے بلکہ سلیس اور آزاد ترجمہ ہے،لہٰذا متن کے ہر ہر لفظ کا ترجمہ میں پایا جاناضروری نہیں ہے
۳- رفع الملام ،صفحہ۲
۴- رفع الملام صفحہ ۲،۳
۵- شرح صحیح مسلم ،علامہ غلام رسول سعیدی،جلد ۳ صفحہ ۳۳۳،ناشر مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات، ۱۴۲۳ھ
۶- رفع الملام صفحہ،۵-
۷- رفع الملام صفحہ،۶
۸- مرجع سابق ص ۷
۹- مرجع سابق ص ۷
۱۰- مرجع سابق ص ۷،۸
۱۱- مرجع سابق ص۸،
۱۲- سابق ص ۸،۹
۱۳- سابق ص ۹
۱۴- سابق ص ۱۰
۱۵- سابق ص۱۰
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440441 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.