امام بیہقی نے اپنی کتاب’’ شعب
الایمان‘‘ میں خالد بن معدان سے ایک مرسل حدیث پاک نقل فرمائی ہے :
اعتموا خالفوا علی الامم من قبلکم[۱]
مذکورہ حدیث کو امام سیوطی نے جامع صغیر اور متقی الہندی نے کنزالعمال میں
بھی نقل کیا ہے- اس حدیث کے پہلے لفظ ’’اعتموا‘‘میں دو احتمال ہو سکتے ہیں،(۱)یہ’’
اِعتِمام‘‘ (باب افتعال)سے مشتق ہے اس صورت میں اس کو’’اِعتَمّوا‘‘ پڑھا
جائے گا،اور اس کا ترجمہ ہوگا’’عمامہ باندھو‘‘-(۲)دوسرا احتمال یہ ہے کہ
یہ’’اِعتام‘‘(باب افعال) سے مشتق ہے اس صورت میں اس کو’’اَعتِمُوا‘‘پڑھا
جائے گا،اور اس کا معنی ہوگا’’عشاکی نما ز کو پہلی تہائی رات میں ادا کرو‘‘-
فتاویٰ رضویہ میں اس حدیث کو فضائلِ عمامہ کے باب میں ذکر کیا گیا ہے اور
اس کا ترجمہ یہ کیا ہے ’’عمامے باندھو، اگلی امتوں یعنی یہودو نصاریٰ کی
مخالفت کروکہ وہ عمامہ نہیں باندھتے‘‘[۲] حدیث کا یہ ترجمہ بالکل درست اور
حدیث کے سیاق و سباق کے عین مطابق ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ،مگر ایک
معاصر فاضل و محقق نے اس ترجمہ کو ’’حدیث کی غیر معتبر توجیہ‘‘قرار دیا ہے،
وہ تحریر فرماتے ہیں-
’’کسی معتبر ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتا کہ اس حدیث کا فضائلِ عمامہ کے باب
سے بھی کچھ تعلق ہے-دراصل ’’اعتموا‘‘کے لفظ سے وہم ہوتا ہے کہ یہ باب ’’اعتمام‘‘
سے مشتق ہے ،جو عمامہ باندھنے کے معنی میں ہے ،حالانکہ وہ باب ’’اعتام‘‘ سے
مشتق ہے اور حدیث مذکور میں عشا کی نماز کے متعلق یہ حکم جاری کیا گیاہے کہ
اسے تہائی رات کے پہلے حصے میں ادا کیا جائے‘‘- اپنے دعوے کے ثبوت میںفاضلِ
محترم نے علامہ عزیزی کی السراج المنیرشرح الجامع الصغیراور علامہ عبد
الروؤف المناوی کی فیض القدیرشرح الجا مع الصغیرکا حوالہ بھی دیا ہے ،علامہ
عزیزی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اعتموا بفتح الہمزہ وسکون العین المہملۃ وکسر المثناۃ الفوقانیۃ ای اخروا
صلاۃ العشاء الی العتمۃ[۳]
(ترجمہ:-اعتموا میں ہمزہ پر زبر ،عین ساکن ،تا پر زیر۔۔۔معنی یہ ہے کہ عشاء
کی نماز کو پہلی تہائی رات تک مؤخر کرو-)
اس کے بعد فاضل محترم نے فیض القدیر سے علامہ مناوی کی ایک طویل عبارت نقل
فرمائی ہے،اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں-
’’علامہ مناوی کی اس پوری بحث کو پڑھنے کے بعدمعلوم ہوتا ہے کہ حدیث مذکور
کا تعلق عمامہ سے نہیں ہے،بلکہ اس میں نماز عشا کی اہمیت و افضلیت کا بیان
ہے ‘‘-اس کے بعد فاضل محترم نے ابو داوؤد شریف کی ایک حدیث سے اس معنی کی
تائید پیش کی ہے ،اس کے بعد فرماتے ہیں-’’فاضل بریلوی نے حدیث کا جو ترجمہ
پیش کیا ہے وہ غالباً علامہ مناوی کی اس تحریر سے متأثر ہے وقیل ہو
اعتمواای البسوا العمائم ویؤ ید السبب الآتی علیہ ففیہ ان التعمیم من
خصائص ہٰذ ہ الامۃمگر یہ ضعیف قول چند وجوہ سے باطل ہے ‘‘-
اس کے بعد فاضلِ محترم نے اس ’’ضعیف قول‘‘کے باطل ہونے کی پانچ وجوہ ذکر کی
ہیں- فاضل محترم کی پوری بحث پڑھنے کے بعد بادیٔ النظر میں ایسا لگتا ہے کہ
واقعی یہاں صاحبِ فتاویٰ رضویہ سے ترجمہ کرنے میں تسامح ہوا ہے ،لیکن اس بے
بضاعت راقم الحروف نے جب اس حدیث کا تحقیقی مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل نتائج
بر آمد ہوئے-(۱)اس حدیث پاک کا عشا کے وقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ
عمامہ کی فضیلت ہی میں وارد ہوئی ہے -(۲)فتاویٰ رضویہ میں مذکور ترجمہ
بالکل درست ہے -(۳)جن شارحین نے اسحدیث کو عشا کی فضیلت سے متعلق کیا ہے
انہوں نے صرف حدیث کے ایک جز کو پیش نظر رکھا اور حدیث کے سیاق وسباق پر
غور نہیں فرمایا-اب ہم ان تینوں امور کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے
ہیں-یہاں یہ بھی خیال رہے کہ سرِدست ہمیں اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر کلام
نہیں کرنا ہے ،اور نہ اس کے مقبول وحجت اور قابل عمل ہونے کے سلسلہ میں ہم
کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں،یہاں ہمیں صرف اس بات سے بحث ہے کہ اس حدیث
کا تعلق فضائلِ عمامہ کے باب سے ہے-
ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ یہ حدیث شعب الایمان،جامع صغیر،اور
کنزالعمال میں موجود ہے ،کافی تلاش کے باوجود فی الحال ان تین کتابوں کے
علاوہ اور کہیںا س حدیث کی موجودگی کا علم راقم کو نہیں ہے ،جامع صغیر اور
کنزالعمال دونوں میں اس حدیث کے بعد’’ھب‘‘کا نشان بنایا گیاہے ،اہل علم
جانتے ہیں کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں اگر ’’ھب‘‘کی علامت ہو تو اس کا مطلب
یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے،گویا
اس حدیث کا اصل ماخذ ’’شعب الایمان ‘‘ہے،اب اگر عشا کے وقت سے اس حدیث کا
ذرا بھی تعلق ہوتا توامام بیہقی اس کو’’ باب مواقیت الصلاۃ‘‘یا ’’باب فضائل
العشائ‘‘وغیرہ کے تحت ذکر کرتے لیکن شاید آپ کو حیرت ہوگی کہ امام بیہقی
نے اس حدیث کو ’’باب فی الملابس والاوانی‘‘(کپڑوں اور برتنوں کا باب)میں
درج کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ اس کو اس باب میں ’’فصلٌ فی العمائم‘‘(فصل
عمامہ کے بارے میں)کے تحت رکھا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام بیہقی کے
نزدیک بھی یہ حدیث عمامہ سے متعلق ہے [۴]
اس حدیث کے فضائل عمامہ سے متعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل اس کا سیاق وسباق
ہے،اگر سیاق وسباق پر غور کر لیا جائے توپھر کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں
ہے- جامع صغیر اور کنزالعمال میں اس حدیث کا صرف ایک جز مذکور ہے (اس کی
وجہ آگے آرہی ہے )مگر اس حدیث کے اصل ماخذ ’’شعب الایمان‘‘میں یہ پوری
حدیث نقل کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیے-
خالد بن معدان قال اُتی النبی ﷺ بثیاب من الصدقۃ فقسمہابین اصحابہ فقال
اعتمواخالفوا علی الامم من قبلکم[۵]
(ترجمہ-:خالد بن معدان نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس صدقہ کے کچھ کپڑے آئے
تو آپنے ان کو اپنے صحابہ میں تقسیم فرمادیااور فرمایا اعتموا الی
آخرہ-)حدیث پاک کو اگر اس سیاق وسباق کی روشنی میںملاحظہ کریں تو اس بات
میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق عمامہ سے ہے ،حضور ﷺکا
اپنے صحابہ کو کپڑے تقسیم فرماتے ہوئے(جن میں عمامہ کا ہونا عین قرین قیاس
ہے ) ارشاد فرمانا کہ’’ اِعتَمّوا‘‘اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ لفظ
اعتموا سے عمامہ باندھنے کا حکم فرمارہے ہیں،اگر بالفرض یہاں اعتموا سے عشا
کی نماز مراد ہو تو پھر راقم الحروف حدیث کے ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان کوئی
ربط سمجھنے سے قاصر ہے، کیونکہ کپڑے تقسیم فرمانے اور عشاء کی نماز کے وقت
کی فضیلت بیان کرنے میں بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا-
امام سیوطی نے جامع صغیر میں صرف ’’احادیث قولیہ‘‘ذکرکرنے کا التزام فرمایا
ہے لہٰذا آپ نے حدیث کا پہلا جز(کپڑے تقسیم فرمانا) جس کا تعلق ’’حدیث
فعلی‘‘ سے ہے اس کو چھوڑ کر صرف وہ جز نقل فرمایا جو ’’حدیث قولی ‘‘ہے
یعنیاعتموا الخاب چونکہ جامع صغیر کی ترتیب ابواب وفصول پر نہیں ہے بلکہ
حدیث قولی کے پہلے حرف کا اعتبار کرتے ہوئے حروف معجم کی ترتیب پر احادیث
کو درج کیا گیا ہے لہٰذا اگر کسی حدیث کے کسی لفظ میں کوئی ایسا ابہام یا
احتمال ہے جس کی بنیاد پر اس حدیث کے باب یا موضوع کے تعین میںدشواری ہو تو
صرف جامع صغیر دیکھ کر حتمی طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ ا س حدیث کا
تعلق کس باب سے ہوگا،جامع صغیر کی اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے امام علی بن
حسام الدین چشتی برہان پوری المعروف با لمتقی الہندی نے کتاب ’’کنزالعمال
فی سنن الاقوال والافعال‘‘تالیف فرمائی،جس میں امام سیوطی کی تین
کتابوںجامع صغیر،جامع کبیر اور زیادۃ الجامع کی احادیث کو ابواب وفصول پر
ترتیب دیا ،ابواب وفصول کی یہ ترتیب گویا مذکورہ تین کتابوں میں موجودا
حادیث کی شرح کی منزل میں ہے ،مصر کے بلند پایہ محدث اور ازہرشریف میں
شعبۂ حدیث کے پروفیسر علامہ عبدالمہدی عبدالقادر کنزالعمال کی اس خوبی کا
ذکر کرتے ہوئی فرماتے ہیں:جمع احادیث الجامع الصغیروزوائدہ وبوبہا علی حسب
الابواب الفقہیہ،وتلک الابواب والفصول والتراجم بمنزلۃ الشرح
للاحادیث[۶](ترجمہ-:جامع صغیر کی احادیث کو جمع کیااور پھر ابواب فقہیہ کے
اعتبار سے ان کی تبویب کی ،یہ ابواب ،فصلیں اور تراجم احادیث کی شرح کی
منزل میں ہیں)اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر جامع صغیر کی کسی حدیث کے باب
کے تعین میں اختلاف ہو تو اس کے تصفیہ کے لیے کنزالعمال سے رہنمائی لی جا
سکتی ہے-اب دیکھنایہ ہے کہ جامع صغیر کی زیر بحث حدیث کو علامہ برہان پوری
نے کنزالعمال میں کس باب کے تحت درج کیا ہے؟ کنزالعمال میں تیسرا باب لباس
کے بیان میں ہے (الباب الثالث فی اللباس)اس باب میں دو فصلیں ہیں،پہلی فصل
لباس کے آداب کے بیا ن میں ہے(الفصل الاول فی آدابہ) اس فصل میں چند فروع
ہیں،ان میں ایک فرع کا عنوان ہے ’’فرع فی العمائم‘‘اس فرع میں عمامہ کے
متعلق چند احادیث درج کی گئی ہیں،جن میں پانچویں حدیث یہی زیر بحث حدیث ہے
[۷]گویا صاحب کنزالعمال کے نزدیک بھی عشا کے وقت سے اس حدیث کا کوئی تعلق
نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک بھی یہ حدیث عمامہ کے باب سے متعلق ہے -
فاضل محترم نے جامع صغیر کی دو شروح (السراج المنیرللعزیزی اورفیض القدیر
للمناوی)کا حوالہ بھی دیا ہے مذکورہ دونوںشروح اس وقت ہمارے پیش نظر ہیںاور
یہ درست ہے کہ ان میںاس لفظ کی تشریح ا س کو ’’اعتام‘‘سے مشتق مان کر کی
گئی ہے ،لیکن جامع صغیر کے ایک اور جلیل القدر شارح علامہ شہاب الدین ابو
العباس احمد بن محمدالمتبولی نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس کو عمامہ کے
متعلق ہی تسلیم کیا ہے -آپ نے ’’الاستدراک النضیر‘‘ کے نام سے جامع صغیر
کی شرح فرمائی ہے ،اس کا ایک نایاب مخطوطہ ازہر شریف کے کتب خانے میں محفوظ
ہے ،اس کے متعلقہ صفحے کی فوٹو کاپی ہمارے پیش نظر ہے ، اُس میں آپ اِس
حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے-’’قال اعتموا ای تعمموایعنی البسوا العمامۃ
قال خالفواعلی الامم الخ فیہ الامربمخالفۃمن قبلنا حیث لم یرد فی شرعنا وان
من قبلنا کانوا لایعتمون وسببہ کما فی الشعب اتی النبی ﷺ بثیاب من الصدقۃ
فقسمہابین اصحابہ وقال اعتموا خالفوافذکرہ وروی ابن عدی والبیہقی من طریق
خالد بن معدان عن عبادۃ مرفوعاً علیکم بالعمائم فانہاسیما الملائکۃوارخوا
لہا خلف ظہورکم ولو قیل متن الحدیث جید بہٰذہ الطرق لم یبعد وفیہ ندب لبس
العمائم خصوصاً عند ارادۃ الصلاۃ ونحوہا‘‘[۸]
کیا اس واضح عبارت کے بعد بھی اب اس بات میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے کہ اس
حدیث کا تعلق عمامہ سے نہیں ہے -
ان سب حوالوں سے قطع نظر اگر عربی لغت اور زبان کے محاورات کی رو سے اس
معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس حدیث
میں’’اعتموا‘‘سے عمامہ باندھنا ہی مراد ہے-اس لیے کہ ’’اَعتَمَ‘‘کا
معنیٰ’’صلیٰ العشاء فی العتمۃ‘‘(اس نے رات کے پہلے تہائی میںعشا کی نماز
پڑھی )محل نظر ہے،بلکہ ’’اعتم‘‘ کا معنیٰ ’’دخل فی العتمۃ‘‘(وہ رات کے اول
تہائی میں داخل ہوا)ہے، لغت کی معتبر کتاب مختار الصحاح میں ہے’’اَعتَمنا
من العتمۃ کاصبحنا من الصبح‘‘[۹]خود فاضل محترم نے علامہ مناوی کی جو عبارت
نقل فرمائی ہے اس میں بھی یہی ہے -’’یقال اعتم الرجل اذا دخل فی العتمۃ کما
یقال اصبح اذا دخل فی الصباح ‘‘[۱۰]لہٰذ ااگر اول تہائی شب میں عشا کی نماز
پڑھنے کا مفہوم ادا کرنا ہو تو صرف’’اعتم‘‘ کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے
بعد’’ب‘‘حرف جر کے صلے کے ساتھ لفظ ’’عشا یا لفظ’’صلاۃ‘‘وغیرہ لانا
ہوگا،مثلاً ’’اَعتَم بالعشائ‘‘یا’’اَعتَم بالصلاۃ‘‘وغیرہ-ذخیرۂ احادیث سے
اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں،مثلاً امام احمد اپنی مسند میںسیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا
’’اَعتَم رسول اللّٰہ ﷺ بالعشائ‘‘[۱۱] مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے ’’اَعتَم نبی اللّٰہ ﷺ ذات
لیلۃبالعشائ‘‘[۱۲]چونکہ عشا کی نماز کو بھی ’’العتمۃ‘‘کہا گیا ہے ،لہٰذا
صحیح ابن حبان میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھماسے روایت کے الفاظ
یہ ہیں’’اَعتَم رسول اللہ ﷺ بالعتمۃ‘‘[۱۳]دیکھا آپ نے جہاں بھی ’’عشا کی
نماز اول تہائی شب میں ادا کرنے‘‘کا مفہوم بیان کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہاں
صرف ’’اَعتَم ‘‘ کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ عشا یاصلاۃ وغیرہ بھی لانا
ضروری ہوتا ہے ، فاضل محترم نے ابو داؤد شریف کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس
میں بھی ترکیب کی یہی نوعیت ہے ’’اَعتِمُوا بھٰذہ الصلوٰۃ‘‘[۱۴]اس کے
برخلاف جہاںصرف ’’اَعتَم‘‘ہوتا ہے اس سے عشاء کی نماز نہیں بلکہ رات کے
تہائی حصے میں داخل ہونا مراد ہوتا ہے ،مثلاًامام احمد اپنی مسند میںاور
ابن خزیمہ اپنی صحیح میں سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے
فرمایا’’ان رسول اللہ ﷺ اَعتَمَ ذات لیلۃ حتیٰ ذہب عامۃ اللیل وحتیٰ نام
اہل المسجد فخرج فصلیٰ‘‘[۱۵] اس حدیث پاک میں ’’اَعتَم‘‘ بغیر صلے کے
استعمال ہوا ہے لہٰذا یہاںاس سے عشا کی نما ز نہیں بلکہ رات کے پہلے تہائی
حصے میں داخل ہونامراد ہے،اس پر قرینہ یہ ہے کہ اگر آپ اس ’’اعتم‘‘ سے
’’صلیٰ العشاء فی العتمۃ‘‘ مراد لیں تو حدیث کے آخری الفاظ ’’فخرج
فصلیٰ‘‘بے معنیٰ ہوکر رہ جائیں گے- ہمیں تلاش بسیار کے باوجود کوئی ایسی
روایت نہیں مل سکی جس میں صرف ’’اَعتَم‘‘ہواور وہاں عشا کی نماز اول تہائی
شب میں پڑھنا مراد ہو -اب اس وضاحت کی روشنی میں اگر زیر بحث حدیث پر غور
کیا جائے تواس میں بھی لفظ ’’اَعتِموا‘‘ حرف جار ’’ب‘‘اور مجرور ’’عشا‘‘ یا
’’صلاۃ‘‘ کے بغیر آیا ہے اس لیے عربی لغت اور محاورے کی رو سے یہاں
’’اَعتِموا‘‘ سے ’’صلوا العشاء فی العتمۃ‘‘ مراد لینا درست معلوم نہیں ہوتا
،لہٰذا یہاں ’’اَعتِموا‘‘ نہیں بلکہ ’’اِعتَمّوا‘‘پڑھنا درست ہونا چاہیے،
کیونکہ ’’اِعتَمّوا‘‘بغیر کسی صلے کے عمامہ باندھنے کے معنیٰ میں استعمال
ہوتا ہے -
ان تمام دلائل کے بعد بھی ہم یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے کہ ’’علامہ
مناوی اور علامہ عزیزی نے اس حدیث کی غیرمعتبر توجیہ کی ہے‘‘،کیونکہ ممکن
ہے ان حضرات کے پاس اس توجیہ کی کوئی ایسی وجہِ ترجیح ہو جس تک ہماری ناقص
نگاہ نہیں پہونچ پارہی ہے-
ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ فاضلِ محترم نے اس حدیث سے عمامہ مراد ہونے
کو پانچ وجوہ سے باطل کیا ہے،ان پانچوں وجوہ پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے ، مگر
ان جلیل القدر ائمہ فن کی تصریحات او ر لغت کی شہادت کے بعد اب ہمارے خیا ل
میں ان وجوہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی-
(جامِ نور دسمبر ۲۰۰۶ئ)
مراجع
۱- شعب الایمان:حدیث نمبر-۶۲۶۱: ج۵؍ص:۱۷۶:دارالکتب العلمیۃ بیروت
۲- فتا ویٰ رضویہ ۳؍۷۸:(قدیم)رضا اکیڈمی ممبئی
۳- السراج المنیرج:۱؍ص۲۲۵:طبع مصر ۱۳۰۴ھ
۴- شعب الایمان:ج۵؍ص:۱۷۶:دارالکتب العلمیۃ بیروت
۵- مرجع سابق
۶- طرق تخریج الحدیث:ص۱۵۶:مکتبۃ الایمان القاہرہ ۱۹۸۷ء
۷- کنز العمال ج:۱۵،ص۱۳۳(حدیث نمبر-۴۱۱۲۹)دار الکتب العلمیہ بیروت
۸- الاستدراک النضیر شرح الجامع الصغیر:ص:۶۱، مخطوطہ نمبر:م؍۵۴۲۹ مکتبۃ
الازہر القاہرہ
۹- مختار الصحاح:ج۱؍ص۱۷۳مکتبۃ لبنان بیروت ۱۹۹۵ء
۱۰- فیض القدیر شرح الجامع الصغیرج۱؍ص۷۱۰
۱۱- مسند احمد بن حنبل ج۶؍ص۳۴مؤسسۃ القرطبۃ القاہرہ
۱۲- مصنف عبد الرزاق ج۱؍ص۵۵۷،المکتب الاسلامی بیروت ۱۴۰۳ھ
۱۳- صحیح ابن حبان ج۳؍۳۷۹،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۹۹۳ء
۱۴- سنن ابی داؤد:ج۱؍ص۱۰۴،دار الفکر بیروت ۱۹۹۰ء
۱۵- صحیح ابن خزیمۃ ج۱؍ص۱۷۹،المکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۰ئ-مسند احمد بن حنبل
ج۶؍ص۱۵۰مؤسسۃالقرطبۃ القاہرہ- |