یہ مضمون علامہ اُسید الحق قادری
بدایونی کی کتاب تحقیق وتفہیم سے پیش خدمت ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے،یہ مصری عالم ہیں اور اس
وقت قطر میں قیام پذیر ہیں،پچاس سے زیادہ کتب کے مصنف ہیں ان کی اکثر
کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں اور ان کے دروس
وخطابات کی ویڈیو اور آڈیو سی۔ڈیز کی تعداد ۵۰۰ سے زیادہ بتائی جاتی ہے،
ان کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ اور
امریکہ تک پھیلا ہوا ہے ، ا ن کے چاہنے والے ان کو مجتہد،مجدد اور مفکر
جیسے بھاری بھرکم القابات وخطابات سے یاد کرتے ہیں جدت پسندی،اور روشن
خیالی ان کا خاص وصف ہے ،اپنے ’’اجتہادی فتوؤں‘‘ کی وجہ سے عالم اسلام میں
اکثر تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں،مسلکی اعتبار سے ٹھیک اسی فکر و عقیدہ
کے حامل ہیں جس کو ہمارے یہاں ’’وہابیت‘‘کہا جاتا ہے،بر صغیر ہند وپاک میں
جماعت اسلامی اور جماعت اہل حدیث دونوں میں علامہ القرضاوی کی یکساں
پذیرائی ہوتی ہے،ان کی بعض کتابوں کے اردو ترجمے جماعت اسلامی ہند کے زیر
اہتمام اور بعض کے ترجمے حلقۂ غیر مقلدین کی جانب سے شائع ہوچکے ہیں،تقلید
کے قائل نہیں ہیں البتہ شیخ ابن تیمیہ اور شیح ابن قیم کے خاص معتقد
ہیں،چونکہ وہ خود غیر مقلد ہیں اس لیے غیر مقلدین کے بارے میں ان کی رائے
زیادہ قابل اعتماد مانی جائیگی،ہم یہاں ان کی بعض کتابوں سے موجودہ
سلفیوں(غیر مقلدین)کے بارے میں ان کی رائے ذکر کرنا چاہتے ہیں،اپنی ایک
کتاب میں علامہ یوسف القرضاوی غیر مقلدین کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے
لکھتے ہیں-
والعجیب من امر ہٰؤلاء انہم ینہون عن التقلید،وہم فی الواقع مقلدون رفضوا
تقلید الأئمۃ القدامی،وقلدوا بعض المعاصرین،وأنہم ینکرون المذاہب وقد
جعلوامن آرائہم مذہباً خامساًیقاتلون دونہ،وینکرون علیٰ من خالفہ،وانھم
ینکرون علم الکلام القدیم وما فیہ من جدلیات وتزیدات وقد
أنشؤوابأقاویلہم علم کلام جدیداً۔(۱)
’’ان کا (غیر مقلدین کا)معاملہ بھی بڑاعجیب وغریب ہے،یہ تقلید سے روکتے ہیں
اور خود درحقیقت مقلد ہیں ،قدیم ائمہ کی تقلید سے انکار کرتے ہیں ،اور خود
بعض موجودہ علما کی تقلید کرتے ہیں،مسالک (اربعہ)کا انکار کرتے ہیں اور خود
اپنی آراء سے ایک پانچواں مسلک بنا لیا ہے،قدیم علم کلام کا انکار کرتے
ہیں مگر اپنے اقوال سے ایک نیا علم کلام بنا لیا ہے‘‘-
پھر تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ یہ لوگ کسی اختلافی مسئلہ میںکسی حدیث پاک
کو پالیتے ہیں تو یہ سمجہتے ہیںکہ اب انہوںنے اختلاف کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے
اور اب اس مسئلہ میں ان کی رائے کا مخالف دراصل حدیث کا مخالف اور سنت کا
معارض ہے۔حالانکہ وہ اس معاملہ میں غلطی پر ہے ،جس کے چند اسباب ہیں،یہ لوگ
جب کسی حدیث کی تصحیح پر اعتماد کرتے ہیں تو یا تو وہ اس میں علماے سابقین
کے مقلد ہوتے ہیںیا پھر معاصرین میںسے کسی کی تقلید کرتے ہیں،اور ممکن ہے
کہ(رائے میں ان کا مخالف)اس حدیث کی صحت کو تسلیم نہ کرتا ہو،اس لیے کہ یہ
معاملہ تو قدیم علماے امت اور فقہاء سلف میں چلا آرہا ہیں،کہ کوئی امام
کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے تو دوسرا اس کو ضعیف مانتا ہے،اس لیے کہ
ممکن ہے کہ ایک امام کے نزدیک حدیث کے ثبوت کی شرائط دوسری ہوںاور دوسرے
امام کے نزدیک دوسری،اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی امام نے تعدد طرق کی
بنیاد کسی حدیث کی تقویت کو قبول کیا ہو مگر دوسرے امام کے نزدیک یہ تقویت
قابل قبول نہ ہو،‘‘(۲ )
اپنی ایک اور کتاب میںلکھتے ہیں:
وجدنا الذین یعملون علیٰ محو المذاہب لم یزیدو علیٰ ان کانوامذہباً خامساً(۳)
جو لوگ مسالک فقہیہ کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیںانہوں نے اس سے زیادہ کچھ
نہیں کیا کہ ایک پانچویںمسلک کا اضافہ کر دیا ہے-
علامہ یوسف القرضاوی نے ایک جگہ موجودہ سلفیوں(غیر مقلدین)کی اقسام بیان کی
ہیں،لکھتے ہیں:
سلفیوںکی ایک قسم ’’البانیہ ‘‘ہے ،یہ لوگ شیخ ناصر الدین البانی کے طریقہ
پر گامزن ہیں،یہ تقلید اور مسالک فقہیہ کے سخت مخالف ہیں،مگر اس کے باوجود
یہ لوگ شیخ ناصر الدین البانی کی ہرہر معاملہ میں تقلید کرتے ہیں،اور اب ان
کا ایک پانچواں مسلک بن چکا ہے،ان سلفیوں کی ایک قسم ’’الجامیہ‘‘ہے ،اور ان
کے سرخیل شیخ ربیع المدخلی ہیں اور ان کا سوائے اس کے اور کوئی کام نہیں ہے
کہ دوسروں پر طعن وتشنیع کی جائے،وہ علما ء اور دعاۃ جو ان کی رائے سے
اختلاف رکھتے ہوںان پر حملے کیے جائیں،ان کی طعن وتشنیع سے متقدمین اور
معاصرین میں کوئی نہیں بچا ہے،حتی کہ امام النووی،اور حافظ ابن حجر عسقلانی
بھی نہیں کیونکہ یہ دونوں اشعری ہیں(۴)
پھر آگے لکھتے ہیں:
سلفیوں (غیر مقلدین)میں سے کچھ شیخ عبد الرحمٰن عبد الخالق کے پیروکار
ہیں،کچھ لوگ شیخ ابن باز کی اتباع وتقلید کرتے ہیں،اور کچھ شیخ ابن عثیمین
کی(۵)
ہمارے یہاں بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ عربی اور علوم اسلامیہ سے یکسر نابلد
غیر مقلد نوجوان چند احادیث یاد کرلیتے ہیںاور پھر خود کو محدث اور مجتہد
گمان کرتے ہیںاور ائمہ مجتہدین کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں، ایسے لوگوں
کے بارے میں علامہ القرضاوی لکھتے ہیں:
بہت سے وہ (غیر مقلد) نوجوان جو بعض کتب کا مطالعہ کر لیتے ہیں خاص کر علم
حدیث کی تو وہ خود کو ’’رئوسا فی العلم‘‘ تصورکرنے لگتے ہیں،حالانکہ وہ
میدان علم کی بالکل ابتدائی منزل میں ہوتے ہیں،ان کو دین میں اجتہاد کا
دعویٰ ہوتا ہے حالانکہ وہ علوم عربیہ اور عربی نحو وصرف میں ذرا بھی درک
نہیں رکھتے،اگر آپ ان سے کسی جملے کا اعراب پوچھ لیں توشاید صحیح طرح نہ
بتا سکیں،ا ن نوجوانوں نے علم اصول فقہ نہیں پڑھا ہے نہ اس کی گہرائی
وگیرائی سے واقف ہیں،نہ علم فقہ سے ان کو کچھ زیادہ ممارست ہے ، اور نہ
انہیں اس دریا کی گہرائی کا اندازہ ہے،پھر فہم اور حسن ادراک انہیں کیسے
نصیب ہوگا،امام ذہبی کے بقول یہ ا یسے لوگ ہیں جو اڑنے کی کوشش کر رہے ہیں
حالانکہ ان کے ابھی پر بھی نہیں نکلے ہیں،طاقت ور پہاڑی بکرے سے ٹکرلینے
کوتیار ہیں جب کہ ابھی ان کے سینگھ بھی نہیں نکلے ہیں،ائمہ کبار بلکہ صحابہ
ٔ کرام کے بارے میں یہ بڑی جرأت سے کہہ دیتے ہیںکہ ’’ہم بھی انسان ہیں اور
وہ بھی انسان تھے‘‘۔حالانکہ یہ ابھی’’پرورش وپرداخت‘‘ کی عمر میںہیں،اور
اگر ان میں سے کچھ بڑے ہو گئے ہیں تو انہوں نے بھی ابھی ’’سن مراہقت‘‘کو
پار نہیں کیا ہے،ان کو یہ کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے کہ بڑوں پر حملہ
کریں جب کہ ابھی ان کی ہڈیاں بھی مضبوط نہیں ہوئی ہیں- (۶)
اپنی ایک کتاب الصحوۃ الاسلامیۃ بین الا ختلاف المشروع والتفرق
المذموم‘‘میں ڈاکٹر قرضاوی نے امت اسلامیہ کے اندر پیدا شدہ تعصب کو مذموم
قرار دیا ہے، اس تعصب کی انہوں نے کئی اقسام کی ہیں، جہاں انہوں نے مسالک
فقہیہ کے لیے تعصب اور غلو کو غلط قرار دیا ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ وہ مسالک
ققہیہ اور ائمہ مجتہدین کے خلاف تعصب و تنگ نظری کو بھی غلط قرار دیتے ہیں-
اس سلسلہ میں انہوں نے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے ’’ التعصب ضد المذاہب
والائمہ‘‘(یعنی مسالک فقہیہ اور ائمہ کے خلاف تعصب) اس عنوان کے تحت ڈاکٹر
یوسف القرضاوی لکھتے ہیں :
’’اگر مسالک فقہیہ اور اقوال ائمہ کے لیے تعصب بر تنا مذموم ہے تو اسی طرح
یا اس سے بھی زیادہ مذموم وہ تعصب ہے جو مسالک فقیہہ اور ائمۃ کے خلاف برتا
جا رہے، اور ان پر حدیث کی مخالفت کا الزام لگا کر نقد و نظر اور طعن و
تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ اسی دور کی
پیدا وار ہے کیونکہ اس سے پہلے کے علماء اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی،
سوائے ابن حزم کی شدت کے ،(جو انہوں نے ائمہ اور مقلدین کے بارے میں
برتی)حالانکہ ابن حزم کے بعد ہر منصف مزاج نے ان کے اس طرز عمل کو معیوب
قرار دیا، مگر اس کے باوجود آج یہ لوگ ابن حزم پر بھی فوقیت لے گئے ، رہے
شیخ الاسلام ابن تیمیہ جن کے دامن میں یہ لوگ پناہ لیتے ہیں تو اس سلسلہ
میں ان کا موقف بہت واضح ہے‘‘-
اس کے بعد ڈاکٹر قرضاوی نے شیخ ابن تیمیہ کی کتاب ’’ رفع الملام عن ائمۃ
الاعلام‘‘کے بعض اقتباسات نقل کئے ہیں، اس کے بعد ڈاکٹر قرضاوی لکھتے ہیں :
’’ یہ کہنا کہ ہر شخص کے لیے تقلید حرام ہے اور ہر شخص پراجتہاد واجب
ہے،یہاں تک کہ عوام پر بھی، یہ قول تمام لوگوں کے نزدیک غیر مقبول ہے، آخر
کیسے یہ بات درست ہو سکتی ہے حالانکہ اجتہاد کی کچھ شرائط میں جن پر تمام
اصولیین کااجماع ہے؟ وہ شرائط بے شمار اہل علم میں نہیں پائی جاتیں چہ جائے
کہ ان کا پایا جانا ایک عام آدمی میں تصور ہو، ہم ایک عام آدمی سے کیسے
یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ حکم اور اس کی دلیل جاننے کے لیے اپنے اجتہاد
سے کام لے، حالانہ وہ عامی اجتہاد کے ضروری وسائل اور اس کی صلاحیتوں سے
عاری ہے ، اگر ہم اس سے اجتہاد کا مطالبہ کرتے ہیں تو گو یا ہم اس سے ایک
ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اس کی وسعت و طاقت سے باہر ہے ،حالانکہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ لا یکلف اللہ نفسا الا ؤسعہا‘‘یہ کہنا کہ
مسالک فقہیہ نے مسلمانوں میں افتراق و تفریق پیدا کر دی ہے یہ قول مردود ہے
، اس لیے کہ فروعیات میں اختلاف و حدت و اتحاد کے لیے نقصاندہ نہیں ہے، خود
صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ کے درمیان فروعیات میں اختلاف رہااور
اختلاف نے ان کی وحدت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا‘‘
غیر مقلد حلقوں سے اکثر یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ جب صحیح حدیث موجود ہے
پھر اختلاف کی کیا وجہ ہے؟ سب لوگ اس حدیث کو قبول کر لیں اور ایک رائے پر
متفق ہو جائیں، اس کے جواب میں ڈاکٹر قرضاوی لکھتے ہیں :
’’ یہ گمان کرنا کہ نص قرآنی یا حدیث نبوی کا کسی مسئلہ میںپایا جانا
اختلاف کو ختم کرنے اور تمام لوگوں کو ایک رائے پر جمع کرنے کے لیے کافی
ہے، جیسا کہ آج کل اثری (سلفی) مکتبہ ٔفکر کے لوگ گمان کرتے ہیں، یہ گمان
درست نہیں ہے، اور اس گمان کے درست نہ ہونے کو میں کئی مقامات پر واضح کر
چکا ہوں‘‘
پھر اپنی ایک دوسری کتاب’’ الصحوۃ الاسلامیۃ بین الجمود والتطرف‘‘کاایک
طویل اقتباس نقل کر کے قرضاوی صاحب نے اس گمان کے درست نہ ہونے کی وجہ
بتائی ہے ، لکھتے ہیں :
’’آج ہمارے زمانے میں بعض لوگ یہ گمان کر تے ہیں کہ وہ اس پر قادر ہیں کہ
وہ تمام لوگوں کو ایک قالب میں ڈھال دیں گے، وہ قالب جو انہوں نے لوگوں کے
لیے بنایا ہے ، اور وہ تمام لوگوں کو ایک رائے پر جمع کردیں گے، اور لوگ اس
میں ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے، جس طرح کہ ان لوگوں نے نصوص شرعیہ کو سمجھا
ہے حالانکہ وہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کا فہم نص اس سے زیادہ کچھ
نہیں ہے کہ وہ خطا اور صواب دونوں کا احتمال رکھتا ہے،اس لیے کہ کسی بھی
عالم کے لیے اس کے اجتہاد میں’’ عصمت‘‘ کی ضمانت نہیں ہے، اگر تمام شروط
اجتہاد جمع بھی ہو جائیں تو صرف اس بات کی ضمانت ہے کہ مجتہد کو اس کے
اجتہاد پر اجر ملے گا، خواہ وہ خطا پر ہو یا صواب پر ، لہذا ان لوگوں نے
سوائے اس کے اور کچھ نہیں کیا کہ مذاہب مدونہ میں ایک نئے مسلک و مذہب کا
اضافہ کر دیا، ایک عجیب وغریب بات یہ ہے کہ یہ لوگ ائمہ کی تقلید کرنے کی
وجہ سے مقلدین پر اعتراض و انکار کر تے ہیں اور پھر تمام لوگوں سے یہ
مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی تقلید و اتباع کریں-کوئی یہ گمان نہ کرے کہ
میں ان کی اس دعوت کا انکار کر رہا ہوں کہ نصوص کی اتباع کی جائے ، یا میں
ان کے فہم نص کا انکار کر رہا ہوں، ہرگز نہیں، کیونکہ یہ ہر اس مسلمان کا
حق ہے جس کے پاس اجتہاد کے شرائط و ادوات موجود ہیں، جس دروازے کو خود اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھولا ہو اس کو بھلا کون بند کر سکتا ہے،
ہاں اگر مجھے انکار و اعتراض ہے تو علماء امت کے مناہج پر، ان ( سلفیوں) کی
جرأت پر، اعتراض ہے تو فقہ کے سلسلہ میں ان کے تحقیر آمیز رویہ پر، اور
اعتراض ہے تو ان کے اس دعوے پر کہ صرف وہی اکیلے حق پر ہیں، ان کے علاوہ
تمام لوگ یا تو غلطی پر ہیں یا پھر گمراہی میں، مجھے انکار ہے تو ان کے اس
وہم پر کہ وہ تمام فروعی اختلافات ختم کر کے سب لوگوںکو ایک رائے پر جمع کر
دیں گے، یعنی جو ان کی اپنی رائے ہوگی-اسی مکتبۂ فکر سے متعلق ایک مخلص
طالب علم نے ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا کہ تمام لوگ اس رائے پر جمع کیوں نہیں
ہو جاتے جس رائے کے ساتھ نص ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ایسا کرنے کے لیے ضروری
ہے کہ وہ نص تمام علماء کے نزدیک مسلّم اور صحیح ہو، یہ بھی ضروری ہے کہ وہ
نص معنی مراد پر صریح الدلالہ ہو، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس نص کے
بالمقابل کوئی دوسری نص اس کے معارض یا اس سے قوی نہ ہو، اس لیے کہ ایسا ہو
سکتا ہے کہ ایک نص ایک امام کے نزدیک صحیح ہو اور وہی نص دوسرے امام کے
نزدیک ضعیف ہو ، یا پھر دوسرے کے نزدیک بھی صحیح ہو مگر معنیٔ مراد پر
دلالت اس کو تسلیم نہ ہو، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی نص ایک امام کے
نزدیک عام ہوتی ہے تو وہی دوسرے امام کے نزدیک خاص ہوتی ہے، یا ایک امام کے
نزدیک مطلق ہو تو دوسرے امام کے نزدیک مقید ہو، کبھی ایک نص ایک امام کے
نزدیک وجوب یا حرمت پر دلالت کرتی ہے جبکہ وہی نص دوسرے امام کے نزدیک
استحباب یا کراہیت پر دال ہوتی ہے، کبھی ایک نص کسی امام کے نزدیک محکم
ہوتی ہے تو وہی نص دوسرے امام کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے-‘‘
تقلید اور ترک تقلید کے سلسلہ میں شیخ حسن البنا کی رائے کو ڈاکٹر قرضاوی
نے بڑی منصفانہ رائے قرار دیا ہے، لکھتے ہیں :
’’ تقلید اور تمذہب کے سلسلہ میں جو کچھ کہا گیا ہے شاید اس میں سب سے
زیادہ منصفانہ وہ قول ہے جو شیخ حسن النباء نے اپنے ۲۰ نکاتی فارمولے میں
لکھا ہے، حسن البنا لکھتے ہیں کہ ہر وہ مسلمان جو ادلۂ احکام میں درجۂ
نظر و فکر تک نہ پہنچا ہو اس کو چاہیے کہ وہ ائمہ دین میں سے کسی امام کی
اتباع کرے اور اس کے ساتھ اس کے لیے بہتر ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے امام
کے دلائل جاننے کی کوشش کرے‘‘(۷)
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ڈاکٹر قرضاوی نے اس صفحہ پر دو
جگہ شیخ حسن البناء کو ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھاہے، اس کے علاوہ بھی اس کتاب
میں متعدد جگہ شیخ ابن تیمیہ سمیت کئی علماء و ائمہ کو ’’ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ‘‘ لکھا گیا ، جبکہ جماعت سلفیہ کی جانب سے آج تک تو ہم نے یہی سنا ہے
کہ صحابہ کرام کے علاوہ امت میں کسی اور کورضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا درست
نہیں ہے-
(جامِ نور فروری ۲۰۰۶ئ)
(جامِ نور جون ۲۰۰۶ئ)
مراجع
۱- الصحوۃ الاسلامیہ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم۔ص:۷۷،دار الشروق
القاہرہ ۲۰۰۱ئ-
۲- مرجع سابق ص:۸۰
۳- کیف نتعامل مع التراث والتمذہب والاختلاف ص:۱۴۸،مکتبہ وہبہ القاہرہ۲۰۰۱ء
۴- الصحوۃالاسلامیہ من المراہقۃ الی الرشد ص:۲۰۴،دار الشروق القاہرہ۲۰۰۲ء
۵- مرجع سابق
۶- مرجع سابق ص ۲۰۵۔
(۷) ملخصا ترجمہ از: الصحوۃ الاسلامیہ بین الاختلاف المشروع والتفرق
المذموم از صفحہ: ۱۳۷ ؍تا ۱۴۲، دارالشروق ،قاہرہ-
|