حکومتیں اور ہم عوام

پرانے وقتوں کی بات ہے اک بادشاہ تھا جس کی رعایا بہت خوش تھی ۔کبھی کسی کی طرف سے کو ئی شکائیت نہیں موصول نہیں ہوتی تھی ۔بادشاہ کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی کہ کبھی کسی نے کوئی شکائیت نہیں کی ۔ایک دن بادشا ہ نے وزیر کوبلا بھیجا وزیر نے ساری بات سنی تو کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ بے فکر رہیں۔میرے ذہن میںایک تجویزہے وہ یہ کہ آپ کے محل کے نز دیک جو دریا کا پل ہے اس پرسے گزرنے والوں پر ٹیکس لگا دیتے ہیں۔تویقینا کچھ صورتحال تبدیل ہو جائے گی ۔بادشاہ کو تجویز پسند آئی اور اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ ئے۔وزیرکے مشورے پر ٹیکس اور بڑھادیا گیا لیکن عوام پھر بھی خوش دکھائی دی تو وزیرنے مشورہ دیابادشاہ سلامت ! ایسا کرتے ہیں کہ آنے جانے والے تمام لوگوں کو جوتیاں لگائی جائیں پھر یقینا عوام بلبلا اٹھے گی اور احتجاج کرے گی۔یا پھر آپ کی خدمت میں پیش ہو کر شکائیت ضرور کریگی۔

منصوبے کے مطابق تمام گزرنے والوں کو جوتیاں لگائی جانے لگیں۔کچھ دنوں بعد بادشاہ نے دیکھا کہ محل کے باہر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا ہے۔لوگ کافی بے چین دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا دیکھائی دیتاتھا جیسے سب لوگ کوئی شکائیت لے کر آئے ہوئے ہیں۔بادشاہ بہت خوش ہواکہ جیسے مطلو بہ نتائج سامنے آگئے ہوں۔ بادشاہ محل کے باہر آیا اور لوگوں سے دریافت کیا کہ آخر ماجرا کیا ہے ۔ کیوں آئے ہوئے ہیں یہ سب لوگ؟ ہجوم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور بادشاہ سے مخاطب ہوا۔جسے سن کر بادشاہ کی ساری خوشی غارت ہو گئی۔ وہ بولا بادشاہ سلامت!جب ہم پل سے گزرتے ہیں تو ہمیں جوتے کھانے پڑتے ہیں ہمیں آپ سے کوئی شکائیت نہیں ہے‘ شکوہ یہ ہے کہ جوتے لگانے والے بندے کم ہیں‘ ہمیں آدھاآدھاگھنٹہ انتظا ر کرنا پڑتا ہے پھر باری آتی ہے!

کچھ دن پہلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھاتو میں نے ایسے ہی موجودہ حالات پہ ذکر چھیڑ دیا‘ مہنگائی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے ملک کرایئسس میں ہے۔غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر‘ امیرسے امیرتر ہو رہا ہے۔خوراک کے کمی ہے۔صاف پانی کامسئلہ بھی ہے۔ لوگوں کے پاس دو ٹائم کھانے کے پیسے نہیں وہ بجلی اور گیس کے پیسے کہاں سے لائیں۔ پٹرول کی قیمتیں بڑتی ہی جا رہی ہیںسیاسی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے،جیسے ریمنڈڈیوس کامعاملہ ہوا آخر ان سب کا حل کیا ہے؟ یہ سب سن کر ایک موصوف گویا ہوئے‘ اگر نواز شریف کی حکومت آجائے تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ "نوازشریف پہلے بھی حکومت کر چکا ہے " دوسرے صاحب بولے۔"کیا کر لیا تھا اس نے؟ پیلز پارٹی بھی تیسری بار حکومت میں آئی ہے اور عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ پہلے دو بار پیلز پارٹی کی حکومت کیوں ٹوٹی" وہ صاحب تو جیسے شروع ہی ہو گئے "فوج بار بار کیوں دخل اندازی کرتی ہے ان سیاستدانوں کی حرکتوں کی وجہ سے" تب میں نے کہا کہ فوج نے جو کچھ کیا ہے وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے کسی سے۔ہم کیوں نا کسی نئے کو موقع دیں؟وہ دونوں کھلکلا کر ہنسنے لگے۔ میں نے وجہ پوچھی تو ایک صاحب بولے "ہم کسی اور کو ووٹ کیوں دیں؟میرے بڑے بھائی ‘ میرے ابواور میرے سارے رشتے دار نوازشریف کو ووٹ دیتے آئے ہیں ہم کسی تیسرے کو کیوں آزمائیں؟"اس کی بات سن کر مجھے بھی بادشاہ کی طرح تشویش ہونے لگی۔
Shahid Chaudhry
About the Author: Shahid Chaudhry Read More Articles by Shahid Chaudhry: 13 Articles with 11588 views I am journalist and columnist. .. View More