ہندوستان میں انگریزوں کے ذریعے 1905کے
دوران جس تقسیم کے بیج کو بویا تھا وہ ہندوستانی سیاستدانوں کو بہت راس آیا
ہے۔ انتظامی وجوہات کی بناءبنگال کو مشرقی و مغربی بنگال میں تقسیم کر
دیاگیا تھا جس سے تقسیم وطن کی ایسی راہ کھلی کہ ہندومسلم اتحاد کو پارہ
پارہ کرتے ہوئے دو قومی نظریہ نے خون کے دریا بہا دئے‘ہزاروں عصمتیں لٹیں
اور بے شمار گھر ویران ہوئے۔اتر پردیش کو4حصوں میں بانٹنے کا فارمولہ
پرسوشل انجینئرنگ کی ماہر وزیر اعلی مایاوتی کے سیاسی داؤ کے جواب میں
مرکزی حکومت نے اس مسئلے کی گیند بی ایس پی سربراہ کے پالے میں ہی ڈال کر
جغرافیائی تقسیم کا سوالنامہ حل کرنے کیلئے دے دیا ہے۔تمہی نے درد دیا ہے
تمہی دوا دینا کی طرز اختیار کرتے ہوئے اتر پردیش اسمبلی سے اس ضمن میں
موصولہ تجویز پر مرکز نے مایاوتی سے ہی اس کاتفصیلی منصوبہ بھیجنے کو
کہاگیا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومت کو دو ٹوک کہا ہے کہ اسمبلی
میں حکومت کو پوروانچل ، مغربی پردیش ، اودھ پردیش اور بندیل کھنڈ میں
تقسیم کرنے والی تجویز کا مضمون بھیج دینا ہی کافی نہیں بلکہ مجوزہ نئی
ریاستوں کا خاکہ سمیت ان منصوبوں کی مکمل تفصیل مطلوب ہے۔
وزارت کے ذرائع کی مانیں تو اتر پردیش کی حکومت سے مجوزہ ریاستوں کے حد
بندی ، ان کی راجدھانی ، آمدنی کی شراکت کا منصوبہ سے متعلق تفصیلی معلومات
طلب کی گئی ہے۔ مرکز کے اس قدم کو ریاست کی تقسیم کی تجویز سے سیاسی فائدہ
اٹھانے کی مایاوتی حکومت کی کوشش پر بریک لگانے کے داؤ کے طور پر جائزہ لیا
جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریاستی حکومت کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ موجودہ
قرض کا بٹوارا مجوزہ چاروں ریاست مل کر کیسے کریں گے۔ ساتھ ہی سول سروسز
حکام کے کےڈرونر کا بٹوارا کس بنیاد پر ہوگا۔ ماہرین کے مطابق مرکز کے
سوالوں کی فہرست کا جواب دینے کیلئے مایاوتی کی حکومت کو چاروں صوبوں کا
باقاعدہ بلو پرنٹ تیار کرنا ہوگا۔
مایاوتی نے تقسیم کا تیر چلا کر اتر پردیش میں سیاسی زمین کی تلاش رہی
کانگریس اور اقتدار میں واپسی کی کوشش میں مصروف سماج وادی پارٹی کے ووٹ
بینک پر نشانہ قائم کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے کافی محنت کے
بعد اس سیاسی گیند کو پیچھے مایاوتی حکومت کو لوٹانے کا یہ راستہ نکالا ہے۔
مرکز نے تفصیلات مانگ کر مایاوتی حکومت کو کچھ دنوں کے لئے الجھا تو ضرور
دیا ہے۔21 نومبر کو ریاست اتر پردیش اسمبلی نے ریاست کو چار چھوٹی ریاستوں
میں تقسیم کرنے کی تجویز آنا فانا میں صوتی ووٹ سے پاس کر دیا تھا۔ تجویز
کو اسمبلی میں لانے سے قبل وزیر اعلٰی مایاوتی نے سیاسی پلیٹ فارم سے
ریاستی کی تقسیم کا اعلان کر سب کو چونکا دیا تھا۔ اپنے اس سیاسی داؤ کی
دلیل میں انہوں نے کہا کہ وہ اس کی مانگ 2007 سے ہی کر رہی ہیں لیکن مرکزی
اس پر توجہ نہیں دے رہا۔کانگریس کا کہنا ہے کہ مرکز کے اتر پردیش کی تقسیم
کی تجویز مایاوتی حکومت کو لوٹانے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ پارٹی نے کہا
کہ سیاسی فائدے کیلئے چلے گئے ریاست کی تقسیم کے اس داؤ پر تو ایسا ہونا ہی
چاہئے تھا۔ کانگریس کے ترجمان ابھیشیک سنگھوی نے پیر کو کہا کہ’ بغیر تیاری‘
کے بھیجی گئی اس تجویز کے ساتھ تو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ
بی ایس پی حکومت نے یہ قدم ریاست میں دوبارہ تشکیل دیے جانے والے کمیشن کی
بغیر کسی سفارش کے اور تمام پارٹیوں سے مشورہ لئے بغیر ہی اٹھایا تھا۔
اسلئے اس تجویز کے کچھ مسائل پر مرکز کی جانب سے تفصیلات طلب کر لیا جانا
ایک عام بات ہی ہے۔ معلوم ہو کہ ریاست اتر پردیش کے 4حصوں میں تقسیم کرنے
کی تجویز پیش مایاوتی حکومت کو لوٹاتے ہوئے مرکزی وزارت داخلہ نے اس سے کئی
سوالات پر مفصل تفصیلات طلب کرکے مایا کی جغرافیائی انجینئرنگ میں نقب زنی
کردی ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ مجوزہ ریاستوں کی دارالحکومت کیا ہوگی؟ دوسرے
مجوزہ ریاستوں کی سرحدیں کیا ہوں؟یوپی کے قرض کی ان کے درمیان کیسے تقسیم
ہوگی؟ تیسرے ریاست میں تعینات اے آئی سروسزکے افسروں کا بٹوارا کیسے ہوگا؟
چوتھے پنشن کا بوجھ کس طرح بانٹا جائے گا؟ پانچویں آمدنی کا اشتراک کس طرح
ہوگا؟پانچویںپرانتظامی اکائیوں کا بٹوارا کیسے ہوگا؟
حالات کو سمجھنے کیلئے ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا کہ آخرمایاوتی حکومت کی
تجویز کیا ہے؟دراصل اتر پردیش کو4 ریاستوں اودھ پردیش ، پوروانچل ، بندیل
کھنڈ اور مغربی پردیش میں بانٹا جائے۔جبکہ ریاست بھاری قرض کے بوجھ میں دبی
ہوئی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش پر قرض 2011-12 میں بڑھ کر 2 لاکھ
کروڑ روپے سے اوپر پہنچ سکتا ہے جبکہ 2010-11 میں یہ بوجھ 1.80 لاکھ کروڑ
روپے تھا۔اس طرح کانگریس نے اتر پردیش کی تقسیم کی تجویز ریاستی حکومت کو
واپس لوٹا کر مایا کو متعدد سوالوں کے جواب مانگے ہیں۔
مایا اوتی جی کی کابینہ نے اتر پردیش کو4 حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پاس
کرواکے سمجھا تھا کہ اس نے مرکزی حکومت کوآزمائش میں ڈال دیا ہے جبکہ
مایاوتی جی ایک منجھی ہوئی سیاستدان ہیں جو نسلی جنگ کی آگ میں گھس کر
بہوجن سماج کی بنیاد پختہ کرنے کے بعد اب مسلسل اپنی قومی قیادت کا نصاب
تیار کر رہی ہیں جبکہ مرکز میں تلنگانہ‘ گورکھا لینڈ جیسی نہ جانے کتنی
تقسیمیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ایک سے زیادہ ب مرتبہ سماجوادیوں کی طرف سے
سیاسی بن باس کو بھیجی جانے کے بعد بھی نہ ان کی جارحانہ توانائی گھٹی ہے
اور نہ ہی ان کی دلت عوامی مقبولیت۔ اتر پردیش کی سیاست میں ہر بار وہ جب
وزیر اعلی بن کرصاحب اقتدار ہوئیں تو انہوں نے نئے نسلی مساوات گڑھنے کے
کئی چونکانےوالے طریقے استعمال کامیابی سے استعمال کئے۔ ادھر ان کی دلچسپی
نئی طرح کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے۔
مایاوتی جی 2007 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی کہہ چکی ہیں کہ 20 کروڑ
کی آبادی والے ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کا اقتدار ایک ہی جگہ سے چلانا
ناممکن ہے۔ امبیڈکر نے بھی 1955 میں اپنی کتاب تھاٹس آن لنگوسٹک
انڈیاThoughts On Linguistic India میں لکھ دیا تھا کہ ’سچار راج کاج‘
چلانے اور جنوبی ریاستوں پر ہندی پٹی کی سیاست حاوی ہونے سے روکنے کو بہار
، مدھیہ پردیش کے2 اور اتر پردیش کے4 ٹکڑے کر دینے چاہئے۔ 2000 تک ان میں
سے2 ریاستوں کا تو بٹوار ہو چکا ہے پھر بھی مذکورہ بالا تھیسس کے مطابق نئے
بٹوارے کی گنجائش ہے۔ لہذا اس کے ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر اسے مغربی
پردیش ، اودھ ، بندیل کھنڈ اور پوروانچل میں تقسیم کرنے کی تجویز منظور کر
دیا ۔نتائج سے بے بہرہ عوام بھی ماننے لگے ہیں کہ آئین کے مطابق ملک ایک ہے
،محض کہتے رہنے سے ہندوستان کو ایک نہیں مانا جا سکتا۔ ریاستوں کی زبان ،
تہذیب و ثقافت ، یکساں ترقی وغیرہ کی بنیاد پر بٹوار کا مطالبہ یہاں مسلسل
زور مارتارہا ہے۔ اسی لئے پوتت رامال سے لے کر ماسٹر تارا سنگھ تک کئی
جنونی شہیدوں نے 1947 کے بعد ایک کے بعد ایک کیرالہ ، تامل ناڈو ، کرناٹک
اور شمال مشرقی کی سات ریاستوں سے لے کر ہریانہ ، پنجاب ، چھتیس گڑھ ،
جھارکھنڈ ، اتراکھنڈ جےسے چھوٹے صوبوں کو بڑی ریاستوں کو کاٹ کر بنایا۔
لیکن یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اتر پردیش میں اس مطالبے کا ذریعہ ریاست کے کچھ
خاص حصوں کے زیادہ ترقی پسند علاقوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ کانگریس ، بی
جے پی کے برعکس بی ایس پی کی مسلسل طاقتور ہوتی غیرمتنازع سربراہ اب اپنی
اہمیت کے تناسب میں دہلی کے اقتدار میں اپنا ’واجب‘مقام چاہتی ہیں۔ پھر بھی
آج کی تاریخ میں دہلی کے تخت کی راہ بڑے قومی جماعتوں کی موجودگی میں آسان
نہیں ہے۔اس تجویز سے متاثرہ جماعتوں کیلئے سوال یہ نہیں کہ وہ اسے مایا کا
دھوبی پاٹھ داؤ مانیں یا محض ایک شوشہ؟ اصل سوال اب یہ ہے کہ خود مایاوتی
جی جب 4حصوں میں منقسم اتر پردیش سے الگ ہوکر دہلی چلی جائیں گی تو کیا
ضمانت ہے کہ نئی ریاستوں کے ووٹر بی ایس پی کے تقریبا ’صفرشخصیت‘ کے رکھے
گئے منصب داروں کو حکومت سونپ دیں گے؟ فرض کیجئے کہ بی ایس پی کو اکثریت مل
بھی گئی توان کے پیچھے کوئی کشواہا نہ پیدا ہوگا یا بی ایس پی کا حشر بھی
لالوکے راشٹریہ جنتا دل جیسا نہ ہو گا ؟ قومی پارٹیوں کو آل انڈیا عوامی
مقبولیت بنانے اور اسے متوازن رکھنے کی صلاحیت دینے والا اور مختلف ثقافتوں
، مذاہب اور بولیوں کی گنگا جمنی زمین رہ چکی اتر پردیش ریاست کو اگر
علاقائی بنیاد پر بانٹا گیا تو بی ایس پی تو شاید ہی قومی ٹیم بنے ،علاقائی
عصبیت اور فرقہ پرستی ہر جگہ بڑھے گی تو شاید مغربی پردیش میں جاٹ بمقابلہ
دلت اختلافات ابھریں گے اور دیوبند جیسے مسلم اکثریت والے علاقے کوٹہ
ریزرویشن مانگیں گے۔پوروانچل اور بندیل کھنڈ میں بھی دلت بمقابلہ اونچی ذات
نیز جرائم پیشہ گروہوں کے انتخابی سیاست میں رسوخ کی طویل ترین تاریخ تو ہے
ہی۔ یہ بھی ناممکن نہیں کہ وہاں آج کی بی ایس پی یا ایس پی کے ہی دو گروپوں
کے درمیان انتخابی تقسیم ہونے لگے اور جس دھڑے کو اکثریت نہ ملے وہ کانگریس
یا بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی سوچے جبکہ یہ ریاست ایک ثقافتی کھچڑی ہے جس
میں علاقائی عصبیت ، ذات برادری ، گروپ بندی کے بے شمار عناصر ہیں۔
اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقے میدانی لوگوں کے بڑھتے تسلط سے تلملا رہے ہیں۔سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جیسے بے شمار مسائل ملک کو کس سمت میں لے کر جائیں
گے؟ |