کاش 2012 ایسا ہو

سال 2011 اپنی تمامتر رعنائیوں اور بدصورتیوں سمیت جا چکا ہے، اہل اسلام اور خصوصاً پاکستانی قوم کے لئے گزرے ہوئے سال نے خوشیاں کم کم اور مصائب و پریشانیاں زیادہ دکھائی ہیں۔ ان مصائب و پریشانیوں کی اصل وجہ بھی یقینا ہم خود اور ہمارے اعمال ہیں۔ ہماری قوم کا سیاسی وژن ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہا ہے، ہمارے سیاسی رہنماﺅں، فوجی قیادت اور عدلیہ سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی نے پچھلے چونسٹھ برس میں ایسی کارکردگی کم ہی دکھائی ہے جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاسکیں۔ سال 2011 میں ہم شائد تنزلی کی وہ منزلیں بھی سر کرگئے جو پاکستان بننے سے اب تک نہیں کرپائے تھے۔ ہماری سیاسی قیادت کے ناعاقبت اندیش فیصلوں، حکومت کی جانب سے عدلیہ کے فیصلوں کو ٹشو پیپر جتنی حیثیت بھی نہ دینا اور آئے روز اس کی توہین، میڈیا کی جانب سے عریانی و فہاشی کے سیلاب کے ساتھ ایسی خبروں اور ٹاک شوز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا جن سے معاشرے میں عجیب طرح کی بے چینی پھیل جائے، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام الناس کی معاشی حالت ایسی کردینا کہ زندگی گزارنا عذاب بن جائے، بجلی کی بے تحاشہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سی این جی اور گھریلو و صنعتی صارفین کے لئے گیس کی لوڈ شیڈنگ سمیت بے شمار مسائل ایسے ہیں جن سے بحیثیت مجموعی ہم مزید نیچے کی جانب گامزن ہیں، سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس سال بھی ہم نہ تو دہشت گردی کی جعلی جنگ سے نکل سکے اور نہ عوام کو کوئی امید دے سکے، سال کے آخر پر عوام کی جانب سے کسی حد تک شعور کا مظاہرہ کیا گیا۔یہ سال تو جیسے تیسے گذر گیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر خاکم بدہن آئندہ آنے والا سال بھی ایسا ہی ہوا تو کیا ہم 2013 دیکھ سکیں گے اور کیا آنے والی نسلوں کو کسی بہتر اور اچھے پاکستان کی امید دے سکیں گے؟ کیا ہم ان پنچھیوں کو اس ملک میں روک سکیں گے جو ہر روز قطار اندر قطار اس ملک سے کوچ کرنے کی سوچوں میں غلطاں ہیں اور جان توڑ کوششیں کررہے ہیں چاہے اس کے لئے انہیں کنٹینروں میں بند ہوکر جانا پڑے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں، لانچوں پر سفر کرنا پڑے یا اپنی ماﺅں، بہنوں اور بیویوں کا زیور بیچ کر رقم کسی ایجنٹ کو تھمانی پڑے اور غیر قانونی سرحدیں پار کرنی پڑیں؟

جس طرح منظور وسان خواب دیکھا کرتے تھے اسی طرح آج یہ پوری قوم یہ خواب دیکھ رہی کہ کاش ایسا ہو کہ 2012میں سپریم کورٹ کے مزید کچھ کہنے سے پیشتر ہی اور سوئس عدالت کو کسی قسم کا خط لکھنے سے پہلے ہی صدر زرداری اس ملک سے لوٹا گیا کرپشن کا مال جو سوئس بنکوں سمیت پوری دنیا کے بنکوں میں ان کے ناموں پر یا بینامی اکاﺅنٹس میں پڑا ہے، ملک میں واپس لے آئیں۔ اپنے وزیر اعظم اور کابینہ کو بھی حکم دیں کہ جس جس نے جو جو لوٹا ہے فوری طور پر سرکاری خزانہ میں جمع کرادے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو خود ہی ان کرپٹ لوگوں کا احتساب کریں اور ان کے خلاف مقدمات درج کرواکر ظفر قریشی جیسے ایماندار افراد کو تفتیش سونپ دیں، اللہ تعالیٰ اور اس قوم سے سابقہ گناہوں اور لوٹ مار کی معافی مانگ لیں اور آئندہ ”اچھا بچہ“ بن کر رہنے کی ٹھان لیں۔کیا ہی اچھا ہو اگر میاں برادران اپنا تمام سرمایہ جو وہ اس ملک سے لیجا چکے ہیں اور جن سے وہ انگلینڈ، دبئی اور مبینہ طور پر ہندوستان میں بھی صنعتیں لگا رہے ہیں، واپس وطن میں لے آئیں، یہاں پر سرمایہ کاری کریں اور یہاں کے مزدور کو روزگار فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر چوہدری برادران بھی اپنی سپین اور دیگر ممالک والی سرمایہ کاری وطن میں واپس لے آئیں۔ اگر صرف یہ تین خاندان اپنا تمام سرمایہ واپس پاکستان میں لے آئیں، اس سرمائے پر جو ٹیکس بنتے ہیں وہ ریاست کو ادا کریں اور جو ان کی ”محنت“ کی کمائی اور بچت ہے وہ یہاں انویسٹ کریں تو دیکھیں حالات کیسے بدلتے ہیں۔ اس کا ایک مزید فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پاکستانی جو پاکستان کے حالات اور یہاں کرپشن کی وجہ سے بیرون ملک سرمایہ کاری کررہے ہیں، صنعتیں لگا رہے ہیں ان کو یہ یقین ہوجائے گا کہ اب پاکستان میں چونکہ بڑے سیاسی خاندان اپنا سرمایہ واپس لے آئے ہیں اس لئے یہاں ان کا سرمایہ بھی محفوظ ہوگا۔اگر الطاف حسین اس سال پاکستان سے بھی عہد وفا نبھائیں اور اس دھرتی کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان واپس آجائیں، برطانیہ کا پاسپورٹ شکرئے کے ساتھ انہیں واپس لوٹا دیں اور صرف یہ تہیہ کرلیں کہ انہوں نے اور ایم کیو ایم نے کراچی کے حالات کو سدھارنا ہے، وہاں بھائی چارہ پیدا کرنا ہے، کراچی میں موجود افراتفری کو ختم کرنا ہے اور وہاں کی رونقیں بحال کرنی ہیں تو رونقیں بحال ہوتے ہیں، حالات ٹھیک ہوتے ہی وہاں سرمایہ کاری کا سیلاب بھی امڈا ٓئے گا۔

اگر پاک فوج 2012 میں یہ فیصلہ کرلے کہ آئندہ سے سویلین معاملات میں دخل اندازی ترک کردی جائے گی، ایجنسیوں کو سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کی بجائے اس ملک کی حفاظت کے لئے استعمال کرنا شروع کردے، امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے نکل آئے، اپنے بھائیوں اور بیٹوں پر بمباری ختم کردی جائے، ہتھیار اٹھانے والوں سے بات چیت کی جائے اور وہ عوامل ہی جڑ سے ختم کرنے کی ٹھان لے جن کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے جاتے ہیں، بلوچستان سمیت تمام ملک کے ”مسنگ پرسنز“ اپنے اپنے گھروں میں پہنچ جائیں، فوج اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہوجائے تو اس ملک کا بچہ بچہ ان کے ساتھ مل کر ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا اور امریکہ، اسرائیل و بھارت سمیت کسی کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی، اگر ہماری فوج واقعتا ہماری بن جائے، اللہ کے سپاہیوں کی صورت میں، مجاہدوں کی صورت میں ڈھل جائے تو نہ یہاں دہشت گردی ہوگی، نہ بم دھماکے اور نہ عسکری تنظیمیں....!

اگر 2012 میں ہمارے مذہبی رہنما اور پیشوا اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کو چھوڑ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، فرقہ پرستی چھوڑ دیں، کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا نہ کہیں، مذہبی رواداری کو فروغ دیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں کو ہی ایمان بنا لیں اور اسی بات کی تلقین اپنے ماننے والوں کو بھی کریں، اللہ نے جو احکام قران مجید فرقان حمید میں دئے ہیں، اس کے سچے اور اس دنیا کے سب سے محترم نبی ﷺنے جو کچھ ہمیں سنت اور حدیث کی شکل میں دیا ہے اس کو لے لیں اور باقی خرافات کو چھوڑ دیں، اس کے صحیح احکامات پر عمل شروع کردیں، ہمارے علماءکے کردار اس طرح کے ہوجائیں کہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے، کوئی ان کا بہانہ بنا کر ہمارے مذہب کو تنقید کا نشانہ نہ بنا سکے، اگر ایسا ہوجائے تو یقین رکھیں کہ غیر مسلم ہمارے اعمال کو دیکھ کر، ہماری میانہ روی کو دیکھ کر، مسلمان ہونا شروع کردیں۔

اگر پاکستان کی عدالتیں 2012 کو پرانے مقدمات ختم کرنے کا سال قرار دیں، اگر رشوت، سفارش اور ہر قسم کی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کی ٹھان لیں اور اگر اس ملک کے وکیل حقیقی معنوں میں صرف اپنے موکلان ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف کے لئے محنت و کوشش کریں، بلا ضرورت اور اپنے موکل کی جانب سے دوسرے فریق کو تنگ کرنے کے لئے تاریخیں نہ لیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی فکر کریں اور وکالت میں اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ ایک ادن انہوں نے بھی اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کوئی حیلہ، کوئی بہانہ اور کوئی جھوٹی تاویل کام نہیں آئے گی، جہاں صرف اور صرف سچ کا اور حق کا بول بالا ہوگا۔ اگر ہمارا میڈیا 2012 کو ”[سچ کا سال“ قرار دے اور یہ پختہ عہد کرے کہ سنسنی خیزی، اپنے چینل یا اخبار کی ریٹنگ بڑھانے اور عریانی فحاشی سے پیسے کمانے کی بجائے سچ کا ساتھ دیں گے، ایسی خبروں کو بار بار نہیں چلائیں گے جن سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے بلکہ خبر کو خبر بنا کر اور ٹاک شوز کو عوام کی رہنمائی کے لئے تیار و پیش کیا جائے گا نا کہ سیاسی لیڈروں کو آپس میں باہم دست و گریبان کروانے کے لئے۔

اگر اس ملک کے عوام 2012 میں یہ عہد کریں کہ وہ بھی اپنے ذاتی مفادات کے لئے نہیں بلکہ اللہ، اس کے رسول فرمودات کی روشنی میں اور پاکستان کو ایک عظیم اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے لئے اپنا دھن، من اور تن قربان کرنے کو تیار ہیں، اگر پاکستان کے عوام اللہ کے خوف کے سوا باقی تمام قسموں کے خوف سے مبرا ہوجائیں، اللہ کی ذات کو اپنی جان کا مالک سمجھیں، اگر اٹھارہ کروڑ عوام للہ کی خاطر، اس کے رسول ﷺ کی خاطر اور اس ملک کی خاطر مرنے کا عزم کرلیں تو رب کعبہ کی قسم ہے دنیا کی کوئی طاقت انہیں ختم نہیں کرسکتی، انہیں اپنا غلام نہیں بنا سکتی، انہیں تباہ نہیں کرسکتی.... کاش 2012 ءایسا ہوجائے.... اے کاش!

قارئین کو نیا سال مبارک، اس دعا کے ساتھ کہ یہ ”کاش“ صرف کاش نہ رہے بلکہ ہم اس ”کاش“ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اپنی کوششوں سے ”حقیقت“ کا رنگ دینے میں کامیاب ہوجائیں (آمین)
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.