یوروپی خواتین کی حالت زار پرہیلری کلنٹن کو دھکا کیوں پہنچتا ؟

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کونہ تواپنے ہی ملک میں ہر پانچویں خاتون جنسی تشدد کی شکار نظر آتی ہے‘نہ میکسیکوکے قیدخانوںمیں بند خواتین قیدیوں کی عصمت لٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی انھیں جرمنی کے شہربون میں خواتین کیلئے نصب جسم فروشی کے میٹروں پر کوئی افسوس ہوتا ہے جبکہ مصر میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے برتاؤ ‘مشرق وسطی کے جمہوری عمل میں خواتین کی شمولیت اور سعودی خواتین کے ’بنیادی حقوق ‘کیلئے وہ رات دن گھلی جارہی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ان کے دل میں مشرقی وسطیٰ میں’ طویل عرصے‘ سے’ حکمران سیاستدانوں‘ کے خلاف ایسا بغض بھرا ہوا ہے کہ وہ مصر، تیونس اور خلیج کی عرب ریاستوں میں ہونے والے مظاہروں میںخواتین کی شرکت کی حمایت میں اس قدر مصروف ہیں کہ امریکہ سمیت متعدد یوروپی ممالک میں خواتین کے ساتھ جاری ناروا سلوک پران کی پیشانی عرق آلود نہیں ہوتی؟

واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے برتاؤ کو ’شرمناک‘ اور ’دھچکے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ان کا یہ بیان ان ویڈیوز اور تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد سامنے آیا ہے جن میں سکیورٹی فورسز کو خواتین مظاہرین کے کپڑے پھاڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ عموما اس انداز کا سخت رویہ اختیار نہ کرنے والی ہلیری کلنٹن نے کہا کہ مصر میں انقلاب اور حسنی مبارک کے اقتدار سے علیحدہ ہو جانے کے بعد وہاں حکومت خواتین کو’ سیاسی نمائندگی‘ دینے میں ناکام ہو گئی ہے اور سڑکوں پر خواتین کی تذلیل کی جا رہی ہے۔جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے موصوفہ کا کہنا تھاکہ’ایک مربوط انداز سے خواتین کو بے عزت کرنا، ریاست اور اس کے یونیفارم کی ذلت ہوتی ہے۔ یہ عظیم لوگوں کا خاصا ہر گز نہیں ہوتا۔‘ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب پر نظر آنے والی ایک ویڈیو میں ہیلمٹ پہنے ایک سرکاری فوجی ایک خاتون کو بری طرح پیٹ رہا تھا جبکہ اس مار پیٹ کے دوران اس خاتون کے کپڑے ہی نہیں پھٹ گئے تھے بلکہ وہ نیم برہنہ بھی ہو چکی تھی۔ سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹوں پر نظر آنے والی تصاویر میں ایک فوجی بڑی عمر کی ایک روتی ہوئی خاتون کو پیٹ رہا تھا۔کلنٹن نے کہا کہ مصر میں حالیہ واقعات کسی دھچکے سے کم نہیں۔ ’خواتین انہی سڑکوں پر پیٹی اور بے عزت کی جا رہی ہیں جن سڑکوں پر چند ماہ قبل انہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر انقلاب کیلئے آواز اٹھائی تھی۔‘انہوں نے ملکی فیصلہ سازی میں عورتوں کو درست نمائندگی نہ دینے پر مصر کی فوجی انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’اب ان خواتین کو انتہاپسندوں اور سکیورٹی فورسز دونوں کا سامنا ہے۔ خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل مارچ کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ اس بارے میں اپنا دباؤ جاری رکھے گا کہ عرب ملکوں میں جمہوری تبدیلی کے عمل میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔ہلیری کلنٹن نے کہا کہ آئندہ مہینوں اور برسوں میں مصر، تیونس اور دوسرے عرب ملکوں میں خواتین کو بھی حقیقی معنوں میں وہی حقوق حاصل ہونے چاہیں جو مردوں کو ہیں۔ عرب ریاستوں میں تبدیلی کے عمل میں اور وہاں نئی حکومت کے قیام کے عمل میں خواتین کے بھر پور کردار کو یقینی بنانا چاہئے۔ واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی تقریب میں ہلیری کلنٹن نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مشرق وسطی میں خواتین کیلئے’ مساوی حقوق ‘کی تحریک کی حمایت جاری رکھے گا۔ امریکہ کا یہ پختہ ارادہ ہے کہ تبدیلی کسی بھی قسم کی ہو آگے بڑھنے کے عمل میں خواتین برابر کی شریک ہونی چاہئیں۔ دنیا میں کوئی ایسی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی جو اپنے اہم فیصلوں میں اپنی آبادی کے ’نصف حصے‘ کو شامل نہ کرے۔ ہلیری کلنٹن کے بقول مصر میں جن خواتین نے قاہرہ میں عوامی مظاہروں میں حصہ لیا ان کی وجہ سے بھی حسنی مبارک گزشتہ مہینے استعفی پر مجبور ہو ئے تھے۔ کلنٹن کے مطابق ان خواتین کا واضح پروگرام یہ تھا کہ وہ توقع کرتی ہیں کہ مستقبل میں ان کی آواز اور ووٹ کو بھی برابر اہمیت دی جائے۔امریکی وزیر خارجہ نے اس بارے میں سوال اٹھایا کہ مصر میں مبارک دور کے بعد نئے آئین کی تیاری کیلئے قائم کردہ کمیٹی میں کوئی ایک بھی مصری خاتون آئینی ماہر شامل نہیں کی گئی۔مشرقی وسطیٰ میں طویل عرصے سے حکمران سیاستدانوں کے خلاف عوامی تحریکوں میں عورتیں بھی مرد شہریوں سے پیچھے نہیں رہیں۔ مصر، تیونس اور خلیج کی عرب ریاستوں میں ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت سے انکار کوئی نہیں کر سکتا۔اس حوالے سے ہلیری کلنٹن کا مشرق وسطیٰ کی خواتین سے متعلق بیان وہاں جمہوری عمل میں اپنی بہتر شرکت کیلئے عرب خواتین کی مسلسل کوششوں کی تائید میں دیا گیا ۔

اس سے پہلے انھوں نے سعودی عرب کی خواتین کے حق میں آواز بلند کی جو ان کے بقول، باہمت سعودی خواتین ہیںجنھیں گاڑی چلانے کی خواہش ہے‘ انہی ’سرگرم سعودی خواتین‘ نے ایسے بیان کیلئے اپیل کی تھی جِس نے خلیج فارس کے اِس کلیدی اتحادی ملک کے موروثی حکمرانون اور ہلری کلنٹن کے مابین مشکلات پیدا کردیں۔سعودی حمکران عبدالوہاب نجدی کے پیروکار سلفیوں سے 19ویں صدی عیسویں میں کئے گئے معاہدے کی پابندی کی بناءپر سعودی خواتین کو اِن کے بنیادی حقوق نہیں دے سکتے ۔واشنگٹن کے عہدے داروں نے کہا کہ ہلری کلنٹن نے خواتین کے حقوق کا معاملہ نجی طور پر سعودی عہدے داروں کے ساتھ اٹھایا تھا تاہم امریکہ جاپان وزارتی مذاکرات مکمل ہونے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران،ان کی طرف سے اِس معاملے پردیا جانے والا یہ پہلا پبلک بیان ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے سعودی خواتین کو انسانی حقوق دینے کیلئے آوازبلند کی تھی جسکا اسلام بھی تقاضہ کرتا ہے۔حالیہ ہفتوں کے دوران اس احتجاجی تحریک میں تیزی آئی ہے جِس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں سرگرم کارکنوں نے ’ڈرائیو اِن‘ کے نام سے فیملی کاروں کو چلانا شروع کیا جِس کامقصد ملک میں خواتین ڈرائیوروں پر لگی ہوئی پابندی کو ختم کرانا ہے۔اِس معاملے پرایک سوال کے جواب میں ہلری کلنٹن نے کہا کہ انھیں سعودی خواتین کو حقوق نہ دئے جانے پرافسوس ہے اور وہ احتجاج کرنے والی سعودی خواتین کی حمایت کرتی ہیں جو ان کے بقول’باہمت‘ اور’ درست سمت‘ میں پیشرفت کررہی ہیں۔

جبکہ امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔امریکہ میں بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام سے متعلق ایک حکومت کی ایجنسی کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی مطابق زیادتی کا شکار نصف خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے موجودہ یا سابق ساتھی یا شوہر نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔امریکہ میں جنسی زیادتی سے مراد نشے کی حالت میں یا جبراً جنسی تعلق قائم کرنے کو قرار دیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہر سات میں سے ایک مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جسمانی تشدد کا شکار ہوا۔یہ رپورٹ 2010 کے دوران امریکہ کے18 ہزار سے زائد مرد اور خواتین سے حاصل کردہ اعداوشمار سے تیار کی گئی جس کے مطابق امریکہ میں ہر منٹ کے دوران25 افراد جنسی زیادتی، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں۔اس سروے کے نتائج کے مطابق بارہ ماہ کے عرصے کے دوران10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے،60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ20ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کئے جانے کی شکایت کی۔امریکہ ٹیشنل سنٹر فار انجری پریوینشن اینڈ کنّرول نامی ادادرے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لنڈا ڈیگٹس کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ جنسی تشدد، تعاقب یا اپنے ہی ساتھی کی جانب سے تشدد کا سامنا کرتے ہیں ان کی تمام زندگی پر اس کے اثرات ہی نہیں رہتے بلکہ اعدادوشمار کے نتائج کے باعث تشدد کا شکار لوگوں میں تحفظ کے حوالے سے خدشات اور ذہنی دباؤ میں اضافے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔ایسی خواتین جو جنسی زیادتی کا نشانہ بنی ہوں یا ان پر ایسا حملہ کیا گیا ہو ان میں دمہ، عدم برداشت، ذیابیطس، مسلسل سر درد، نہ ختم ہونے والی تکالیف، اور سونے میں دوشواری جیسے طبی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اسی پر بس نہیں بلکہ میکسیکو کی ایک جیل میں اچانک معائنے کے دوران6 قیدی خواتین، مرد قیدیوں کے وارڈ میں روتی ہوئی پائی گئیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اکاپلکو جیل میں یہ انکشاف اس وقت ہوا جب مقامی پولیس جیل سے قیدیوں کو زیادہ محفوظ جیلوں میں منتقل کرنے پہنچی تومعائنے کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ 6 قیدی خواتین، مرد قیدیوں کے وارڈ میں رہ رہی ہیں۔یہاں19 جسم فروش خواتین، 100 پلازما ٹیلیویژن، میری جوانا کے دو تھیلے اور دیگر اشیاءبرآمد ہوئیں ۔میکسیکو کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، ان میں بدعنوانی عام ہے اور ان جیلوں میں گروہی تصادم کے واقعات بھی معمول ہیں۔ میکسیکو میں کسی جیل سے پرتعیش اشیاءیا اسلحہ برآمد ہوا ہو۔رواں برس جولائی کے مہینے میں ریاست سونارا کی ایک جیل میں قیدی لاٹری چلا رہے تھے جبکہ ایک وارڈ کو انہوں نے ریفریجریٹر، ائرکنڈشنرز اور ڈی وی ڈی پلیئر سے مزین کیا ہوا تھا۔انسانی حقوق کے دفاع کے ریاستی کمیشن کے ایک انسپکٹر ہیپولیٹو لوگو کورٹیس نے حال ہی میں ریاست گوئیریرو میں پانچ جیلوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا جن میں اکاپلکو کی جیل بھی شامل ہے۔ان کے بقول ان جیلوں میں قیدی اپنی خواہشات اور روایات کے تحت معاملات چلا رہے ہیں جہاں جیل کے حکام کا برائے نام یا بالکل بھی کنٹرول نہیں ہے۔

تیسری مثال جرمنی کے شہر بون کی ہے جہاں حکام نے میٹر نصب کئے تاکہ 6 یوروز فی رات کے حساب سے ٹیکس ان جسم فروش خواتین سے وصول کیا جا سکے جو سڑکوں پر گاہک ڈھونڈتی ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جب پہلی بار اس میٹر میں سے رقم نکالی گئی تو اس میں 264 یورو تھے۔حکام کا کہنا ہے کہ جو جسم فروش خواتین اس میٹر میں رقم نہیں ڈالیں گی ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا یا پھر پابندی عائد کر دی جائے گی۔بون حکومت کی ترجمان نے کہا کہ جرمنی کے مختلف شہروں میں جسم فروشوں پر پہلے ہی سے ٹیکس لاگو ہے لیکن بون پہلا شہر ہے جہاں ٹیکس میٹر کے ذریعے لیا جا رہا ہے۔تاہم جسم فروشوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دوہرا ٹیکس ہے۔ جسم فروشوں کو ایک جتنا ہی ٹیکس دینا پڑ رہا ہے چاہے ان کی کمائی ہوئی ہو یا نہیں۔بون شہر کی ترجمان کا کہنا ہے کہ بون حکومت کو توقع ہے کہ میٹر سے سالانہ دو لاکھ یورو اکٹھے ہوں گے۔’وہ خواتین جو اڈوں پر کام کرتی ہیں پہلے ہی ٹیکس دیتی ہیں لیکن ابھی تک سڑکوں پر سے ’گاہک اٹھانے والی خواتین‘ سے’ ٹیکس‘ وصول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ایک اندازے کے مطابق بون میں 200 جسم فروش ہیں۔دراصل جمہوریت کی آڑ میں امریکہ کی مسلم معاشرے میں نقب زنی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہے۔مسلم ممالک کے عوام کے خلاف فوجی آپریشنوں میںبے شمار افراد کی شہادت جن میں مرد و خواتین ، بوڑھے اور معصوم بچے شامل ہیں امریکی ’ہمدردی‘ اور’جمہوریت پسندی‘ کے گواہ ہیں جبکہ نہ جانے کتنوں کو ہجرت پر مجبورکرکے ان کے گھر بار کو بھی بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ان سب کی بھیڑ میں اگر بیواؤں اور مرد سرپرستوں سے محروم کردی گئی خواتین کے اعداداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126163 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More