گورے اور کالے نیا سال کیسے مناتے ہیں؟

ہیپی نیو ائیر۔ جی ہاں اس کا مطلب ہے کہ انگریزوں کا نیا سال مبار ک ہو۔ جیسے ہی سال کے 365 یا 366 دن ختم ہو کر اگلے سال کی شروعات ہونے لگتی ہے تو نسلی گورے لوگ ان دنوں پٹھی سدھی تقریبات کا اہتمام بڑ ی دھوم دھام سے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر چہ انکے ہاں ہمارے ہاں کی طرح، بینڈ باجا گاجا، یا ڈھول شول نہیں ہوتا، مگر اس کمی کو یہ لوگ پی پلا کر اور ہلا گلا کر کے پورا کر دیتے ہیں۔ اس رات یہ لوگ ایسے ندیدوں کی طرح مختلف ممنوعہ مشروب پیتے ہیں کہ جیسے پہلے کبھی پیا یا تو کیا دیکھا ہی نہیں۔ اِن دنوں پینے پلانے کی وجہ سے وہاں سب سے زیادہ شکایت الٹی اور متلی کی ہوتی ہے (جب کہ ہمارے ہاں الٹی اور متلی سے کچھ اور مطلب لیا جاتا ہے؟) ۔ کچھ سیانے قسم کے گورے حضرات الٹا سیدھا کھا پی کر قے یعنی الٹی کی ادویات بھی ساتھ ہی استعمال کر لیتے ہیں، جس سے کہ کچھ بچت رہتی ہے۔ مگر زیادہ تر گورے بیچارے صبح دم، بوجوہِ اوور استعمال آف ممنوعہ مشروبات یونہی اوندھے موندھے دنیا و مافیہا سے بے خبر، کپڑے لیس پڑے نظر آتے ہیں جس سے انکی غربت اور بیچارگی بھی صاف عیاں ہوتی ہے۔ ویسے تو یہ گورے لوگ کپڑوں کے معاملے میں ہوتے ہی بہت ماٹھے ہیں مگر اس رات شدید سردی ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی تنگ دستی چھپا نہیں پاتے۔ یعنی ہمارے ہاں سات میٹر میں اگر ایک بندہ کپڑے سلواتا ہے تو انکے ہاں اس سات میٹر میں سات بندے نمٹ جاتے ہیں۔ کچھ گورے بیچارے کھا پی کر اپنے آپ سے اتنے بیگانے ہو جاتے ہیں کہ رات میں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنے گھرمیں ہیں یا ساتھ والے ہمسا ئے کے۔ بعض د فعہ تودوچار روز بعد انہیں پولیس دروازہ توڑ کر گھروں سے نکا ل کر بتاتی ہے کہ آپ کے گھر کون کون سے ہیں اور تمام گوری بیگمات کو قابو کر کے انکے متعلقہ میاﺅں اور گھروں تک بھی بحفاظت پہنچاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خوش باش افراد زیادہ عمر پاتے ہیں جبکہ پریشان حال افراد جلد لڑھک جاتے ہیں۔ اسلیے یہ گورے حضرات پی پلا کر خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔جبکہ کنوارہ اور رنڈوا چونکہ جلد تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اسلیے انکے ہاں کنوارے اور رنڈوے خواتین اور حضرات کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔؟؟

ہمارے ہاں یعنی کالوں کے ہاں لوگ ایک دوسرے کو گلے لگ کر مبارکباد دیتے ہیں جبکہ گورے لوگ اپنے اپنے مشروبات کے گلا س ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر یا پا ش پاش کر کے وِش کرتے ہیں۔ پینے پلانے کے بعد انکے ہاں ڈانس پارٹی کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے تاکہ کھایا پیا تھلے ہوسکے۔ اس ڈانس پارٹی میں یہ قید نہیں ہوتی کہ آپ کا ہاتھ کس خاتون کے ہاتھ میں ہے، اپنی کہ پرائی۔ پھر جب لائٹیں بند کرکے دوبارہ کھولی جاتی ہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ غرضیکہ نیو ائیر پر یہ لوگ ایسی ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں کہ پھر ہفتہ دس روز کسی کو منہ دکھانے کے قابِل نہیں رہتے ، اسی لیے انکی سرکار پورا یورپ اور امریکہ آٹھ دس روز کی چھٹی دیکر پکہ ہی بند کر دیتی ہے۔ ٹین ایجرز کی موج مستی بھی ان دنوں عروج پر ہوتی ہے وہ بھی گھر سے چھٹی لیکر اِدھر ادھر یاروں دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکل پڑتے ہیں، اور پھر آٹھ دس روز بعد انہیں یاد آتا ہے کہ انکے موم اور ڈیڈ بھی ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پاکستانیوں کی عادت ہے کہ ہم گوروں کا ہر اچھا کام چھوڑ کر برا کام ا مستعار تے ہیں۔ ہیپی نیو ائیربھی انمیں سے ایک ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق ہم بھی گوروں کی نقالی میں ہرا ، نیلا ، پیلا پانی پی کر گھر یا ہسپتال کی بجائے سیدھے ساتویں آسمان پر سدھار جاتے ہیں اور گھر والے بیچارے شر مندگی سے بچنے کو فوتگی کا اعلان تک نہیں کراتے یونہی داب آتے ہیں ۔اتفاق سے اگر کوئی پوچھ بھی لے تو یہی کہہ دیتے ہیں کہ کھنگ والا شربت زیادہ پی لیا تھا۔ اللہ معاف کرے ایک بار تو نیو ایئر نائٹ سے پہلے ہی ملتان میں پچاسیوں بندے اس ممنوعہ مشروب کمبخت کے پینے سے لڑھک گئے تھے اور تقریبا ہر سال ہی اس کام کی وجہ سے آبادی میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے۔ ویسے سرکار کو چاہیے کہ یہ مشروب عام ہی کردے تاکہ بے روزگاری، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ اور بلوں سے تنگ عوام کو بغیر ٹکٹ اوپر جانے میں آسانی رہے!

ہمارے کالوں کے ہاں اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجے گاڑی سڑک پر لاکر ہارن کی پوں پوں سے پورا شہر سر پر اٹھا لینا بھی منچلوں کی معمول کی بات ہے ۔ کئی شوقین حضرات تو اس رات نئے ڈیزائن کے ہارن بڑے شوق سے گاڑی میں لگواتے ہیں تاکہ دو سرے لوگوں کے کانوں کی صفائی ہوسکے ۔ کچھ بیچارے نوجوان جنہیں لال پیلا پانی نہ ملے، کوکا کولا کی بوتل ہاتھ میں پکڑے گاڑی کی چھت پر چڑھے ایسے ڈانس کرنے لگتے ہیں جیسے کہ مائیکل جیکسن مر گئے پیچھے انکو چھوڑ گئے۔ اس رات گاڑیوں کے ڈیک بھی بلخصوص ٹھیک کرا لیے جاتے ہیں تاکہ گانے شانے سن کر انجمن ، نرگس اور دیدار والے کام کرنے میں آسانی رہے۔

ون ویلنگ کے شوقین نوجوان موٹر سائیکل کے سلینسر نکال کر ،سنگل شرٹ میں، دسمبر آخری یخ بستہ رات، ایک منڈا موٹر سائیکل پر پیچھے بٹھا، مائکل شو ماکربنے فیراری ریس کی طرح ایسے ریسیں لگار رہے ہوتے ہیں کہ پولیس پیچھے اور وہ آگے آگے ہوتے ہیں ۔پکڑے گئے تو جیل ، پھسل گئے تو ہسپتال یا اللہ سے میل۔ یہ ہیں ہمارے نیو ائیر نائٹ کے افسانے۔ جن کا انجام ہر سال سیکڑوں اموات کی صورت میں نکلتا ہے۔نیو ائیر پر کچھ منچلے پکڑے بھی جاتے ہیں اور پھر ان پر بغیر کاغذات گاڑی، تیز رفتاری، شراب کا نشہ، جیب سے چرس بر آمد، غیر ملکی کرنسی، موبائل چوری وغیرہ وغیرہ ، تمام جر م سر ڈال دیے جاتے ہیں اور پھر کچھ دے دلا کر ہی جان چھوٹ پاتی ہے۔البتہ گوروں کے دیس میں دے دلا کر جان نہیں چھوٹتی کہ ایک بار ایک امریکی سینٹر کی بیٹی پر شراب پی کر گاڑی چلانے پر جرمانہ ہو گیا تھا، پورا ادا کرنا پڑا۔ بہرحال! کچھ چلتر قسم کے منڈے پولیس کو چکمہ دیکر بچ بچا کر گلیوں سے موٹر سائیکل گزار کر، ضروری کاموں میں مصروف لوگوں کو ڈسٹرب کر کے ساحلِ سمندر ، اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ وہاں انہوں نے کر نا کرانا کچھ نہیں ہوتا بس یونہی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار کر، بیہودہ سی آوازیں نکال کر، اگر کچھ کھانے پینے کو ہے تو کھا پی کر، یا کوئی لونڈی لپاڑی مل گئی تو اسے لائن شائن مار کر واپس گھر ، ہسپتال ، تھانے، یا اوپر اللہ میاں کے پاس۔ صبح ابا تمام رشتہ داروں کے ہاں فون کھڑکاکر پپو کی موجودگی کے بارے میں پوچھ رہے ہوتے ہیں اور ہر جگہ سے یہی جواب ملتا ہے ہمار ا اپنا بچہ بھی کل سے غائب ہے ، ملنے پر مطلع کریں ۔ جن شہروں میں سمندر کی سہولت میسر نہیں وہ بیچار ے ند ی ، نہر یا نالے پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔

نیو ایئر کی رات ناچنے اور گانے والے اور والیوں کی بھی بڑی موجاں ہوتی ہیں اور انکے ریٹ بھی سونا کے ریٹ اور ہمارے کچھ وی آئی پیز کی طرح آسمانوں سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ اداکارائیں، سوری ناچنے والی اداکارائیں اس را ت بڑی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ،، تو نوٹ وخا میرا موڈ بنے،، کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے وہ سیٹھوں کے نوٹوں کی ویلیں دیکھ دیکھ کر ایسے ایسے موڈ اور ایکشن میں ڈانس کرتی ہیں کہ اسمیں پہلوانوں کی کشتی اور کبڈی کی سی حرکتیں، باڈی بلڈرز کی طرح کے پوز ، جوڈو کراٹے کے سے ایکشن ، اور یوگا کے آسن کا سا مکسچر بن جاتا ہے ۔ کچھ ڈانسرز اتنے ذوق و شوق اور تن من دھن سے ڈانس پیش کرتی ہیں کہ آپے سے باہر ہوجاتی ہیں اورکپڑوں تک کا ہوش نہیں ہوتا اور اتنا زور زور سے پاﺅں اسٹیج پر مارتی ہیں کہ ڈائریکٹر اسٹیج ٹوٹنے کے ڈر، یا زمین سے پانی نکلنے کا خدشے کے پیشِ نظر پردے کے پیچھے سے آواز لگار ہا ہوتا ہے کہ بے بی ہتھ ہولا رکھ۔ ہمسایہ ملک میں تو ایک مشہور اداکارہ نے فائیو سٹار ہوٹل کی نیو ائیر نائٹ میں پر فارم کرنے کے دو کروڑ روپے لیے۔ جس سے ا نکی اور اس رات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ہمارے ہاں بھی کچھ بڑے لوگ اس موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے ہوٹلوں ، بڑی بڑی کوٹھیوں یا بڑے بڑے محلوں میں بڑی پارٹیاں ارینج کر کے ، بڑے بڑے کھانے پکواکر، بڑے بڑے برانڈ کے مشروبات پر بڑے بڑے لوگوں کو بلا کر، بڑے بڑے گلوکاروں اور بڑی بڑی اداکاراﺅں گوا اور نچواکر، بڑے بڑے کام نکلواتے ہیں۔اس موقع پر علاقائی رکھوالے ان سیٹھوں کا تن من دھن سے بھر پور انداز میں ساتھ دیتے ہیں۔ تاہم اگر کسی جماعت کی ڈنڈا بردار فوج کے حملے کا خدشہ ہو تو یہ پارٹیاں اندرونِ گھر تہہ خانے میں بھی رکھ لی جاتی ہیں۔ بعض ہوٹل مالکان ڈنڈا برداروں کے خوف سے پہلے ہی اخبارات میں اشتہار چھپوا دیتے ہیں کہ ہمارا ہوٹل فلاں تاریخ کو بند رہے گا۔ مگر ڈنڈا بردار پھر بھی ایک آدھ شیشہ توڑ کر اپنے دِل کی بھڑاس نکال کر اپنی موجودگی ضرور ظاہر کرتے ہیں۔ تاکہ سند رہے۔ اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

غر ضیکہ نیو ایئر منانے کے شوقین حضرات اگلے کئی روز تک اس نیو ایئر نائٹ کی مستی میں ٹن رہتے ہیں۔ مگر ان بیچاروں کو کیا پتہ کہ ہم مسلمانوں کا نیو ائیر تو یکم محرم ا لحرام کو شروع ہوتا ہے، تو کیوں نہ مسلمانوں کا نیا سال ابتدائے ربِ ذوا لجلال کے با برکت نام سے یکم محرم الحرام کو ہی شروع کریں تا کہ:
انگریزی سال کو بھول کر اسلامی سال میں گم ہوجا
نہ رہے شراب، نہ کباب، نہ حرام، نہ کوئی گناہ باقی
کیا خیال ہے آپکا؟؟
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247524 views self motivated, self made persons.. View More