قیادت

جانے کیوں ، آج وہ مغموم تھا ، بہت زیادہ مغموم ۔ رات بھی اس کی عجیب کشمکش میں گزری تھی ،کوئی کل سکوں نہیں ، اس کو اس کا بھی علم تھاکہ غم بانٹنے سے ہلکا ہوتا ہے، اپنوں سے دکھ درد شیئر کرنے سے سکون ملتا ہے، مگرجس دردِغم مبتلا تھا اسے ظاہر کرے تو کیسے، قمر جو اس کی آنکھوں کی سرخ ڈور پڑھ کر اس کی پریشانیوں کا اندازہ کرلیا کرتا تھا ، اس کے چہرے کے اتارچڑھاؤ سے اس کے اندرون کی حقیقت پڑ ھ لیتاتھا ، مگرآج وہ بھی ناکام تھا ، اسے کے لبوں کے درمیان قید بول کو سننے کے لئے بے قرار تھا ، جب بھی اس کے ہونٹوں پر جنبش ہوتی تو قمر سوچتاشاید اب اس کا دردِ غم آشکار ہوجائے گا ، اس کی پریشانیاں سامنے آجائیں گی ،وہ غم کے سمندر میں ہچکولے ہی کھائے جارہاتھا ، وہ گم صم تھا ، اس کی خود فراموشی نے حلقہ یاراں کو شکوک وشبہات میں پیچ وتاب کھانے پر مجبور کردیا تھا ، وہ اس درجہ پریشان تھا کہ مانو ہفت اقلیم کی دولت اس کے ہاتھ آئی ہو اورپھر
”امایار ! کیاہواتمہیںبتاؤ بھی تو صحیح ، مجھ سے بھی پرداداری ،چلوبتاؤ، جلدی بتاؤ کیا بات ہے ، کیاوجہ ہے خاموشی کی اورکھوئے کھوئے کیوں رہتے ہو “انتہائی لجاجت سے قمر نے خاموشی توڑنے پر اصرا ر کیا ۔
”کچھ نہیں ، بس یوں ہی “
”ہاں سنو!ادھر ادھر کی مت سناؤ، یوں ہی کیا ، اس میں ہی تو سب راز پوشیدہ ہوتے ہیں ، لکھنا نہیں آیاکہ بن گئے قوم کے مفکر ، دومضمون نہیں چھپے کہ ہوگئے دانشور “
”اچھا ایسا طنز اب تو قطعاًنہیں بتاؤں گا “
”بتاؤ گے بھی کیسے ، تمہارے پرندہ د ل نے کسی پری پیکر کے شانہ پر گھونسلا بنالیا ہے“
”اچھا چلو قمر سے پرد ہ داری ہے تو مجھے ہی بتاؤنا ، میں بھی تو تمہارا رازدارہوں ، میرا وعدہ کے تمہارا رازفاش نہیں ہوگا ، کسی سے کچھ نہیں بتاؤں گا“عفان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
”ایسی دشمنی آنجناب سے ، راز معلوم کر کے کسی کو نہیں بتاؤ گے ، یا ر اس کے راز کو اس کے بڑے بھائی سے ضروربتا نا ، ورنہ تو اس پری پیکر کو کوئی اور “ قمر نے یہ بطور مزاح کہہ کر ہنسی کا سماں باندھا۔

عاطف ذہین تھا ، فطین تھا ، مغمو م چہروں کو اپنی خوش گپیوں سے پرنور بنا دیتاتھا ، کیف وانبساط کی محفلوں کو مزید سرور آنگیں کردینے کا ہنر جانتا تھا ، وہ اپنے اسی کردار سے کالج میںمشہور تھا ، ہر ایک سے والہانہ انداز میںملتاتھا ، اس کی زودفہمی سے کالج کے اساتذہ بھی اس سے روابط رکھتے تھے ، کسی نہ کسی حدتک ہر ٹیچر کے دل میں اس کے لئے جگہ تھی، مگر وہ تھا غربت وافلاس کا شکار ، کوہِ غربت کے کسی آشیانہ میں وہ بسیرا کرتاتھا ، اس کی چرپ زبانی ، ہشاش بشا ش چہرہ اوردلنواز مسکراہٹ نے اس کی حقیقت سامنے آنے ہی نہ دی ، اس کے کردار اوررکھ رکھاؤ سے ہرایک کو احساس ہوتا تھا کہ وہ شاید بہت غربت سے پنجہ آزمائی نے بہت کچھ نہ سہی مگر اسے حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا تھا ، اس کو اس کا احساس تھا بھی ، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ آتشِ غربت نے جوانمردوں کو بھی خاکستر کردیا ، بیدار مغزوں اور شاہن صفت نوجوانوں کے کہیں ایسا نہ ہوکہ م م م

اردو کے مستقبل کے تئیں جو ناامیدی کی عام فضا تھی ، اس کی طرف بھی اس کی توجہ تھی مگر تما م افواہ اور ناامیدی کے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچائے مشن میںلگا تھا ، اردو صحافت کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا ، اس کی زلف کو سنوارنا اپنا فریضہ تصور کرلیا تھا ، گویا اب اردو صحافت سے چولی دامن کا ساتھ تھا ، اس کے قلمی ریس کا گھوڑا فتح کا قلعہ اپنے نام کرتاجارہا تھا ، اس کا شہرہ تھا ، اس کی دقیقہ سنجی کی دھوم تھی ، اس کی روشن خیالی اور بلند تخیل کا چرچہ تھا ، اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کابڑے بڑے بھی معترف تھے ، قائدوں پر بھی اس کاسکہ جمتا جارہا تھا ، وہ بھی کب ! ابھی زمانہ طالب علمی ہے۔

جی مفکر صاحب اب تو کچھ فرمائیں ، ملک وقوم کی فکر آپ کو گھلا ئے جارہی ہے یا اس پری پیکر یادیں اوراس کے کندھوں پر بنے محبت کے آشیانے کا کیا ہوا، صرف یادوں کے شیش محل میں قید رہنے سے کچھ نہیں ہونے اونے والا نہیں ، صاف صاف بتاؤ، تاکہ بات آگے بڑھائی جائے ، خدانہ کرے اسے کوئی اور“قمر نے ایک مرتبہ پھر مزاحیہ انداز میں کہا ۔
”دیکھئے قمر بھائی آ پ ایسی باتیں نہ کریں تو زیادہ بہتر ہے ، میں توآپ کو “
امتحان تو امتحان ہوتا ہے ، پڑھائی سے دل چرانے والا طالب علم بھی زمانہ امتحان میں کتابیں سرہانے رکھ کر سوتاہے ، بادل نہ خواستہ کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہے ، ہر ایک پر اس کا خوف طاری ہوتا ہے ، ہرایک کو عجیب کشمکش میں پھنسائے ہوتا ہے ، ہرایک کو امتحان کی فکر کھائے جاتی ہے ، مگر عاطف کسی اور فکر ی سمندر میں غرق تھا ، مستقبل میں تعلیم کے تئیں متفکر تھا ، وہ یہ سوچتا تھا کہ آخر آئندہ تعلیمی سلسلہ کیسے جاری رہے گا ۔

عاطف بی اے فائنل ایئر کا طالب علم تھا ، کالج کے درو دیوار کو داغِ مفارقت دے کراعلٰی تعلیم کے لئے کسی یونیورسٹی کا سفر کرنا تھا ، چونکہ نزدیک میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی ، اس لئے کہیں دور نکلنا تھا ، بہت دور ۔ بہت سے نیک مشوروں کے پروں پر سوار ہوکر دہلی پہونچنے کا قصد کرلیا کہ فائنل امتحان کے بعد وہاں ایڈمیشن لینا ہے ، مگر شہر اجنبی ، راستہ اجنبی ، کون ہوگا وہاں ، کیاکیا چاہئے اور یوں تو عاطف پہلے سے ہی ایک عجیب کشمکش میں تھا ، مزید ان مسائل کے ڈنک نے اس کی حالت اورغیر کردی تھی ۔ پھر امتحان بھی سرپر تھا ادھر معشوقہ صحافت پل بھر کے لئے بھی اسے قلم ہاتھ سے الگ کرنے کی مہلت نہیں دیتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اسی گہماگہمی کے عالم میں قلم کے بانہوں میں ہی پڑا رہا ۔

”جی جناب ! کیابتاؤ ں ، آپ کا یہ آرٹیکل مت پوچھئے، کوئی جواب نہیں اس کا ، کیا لکھا ہے آپ نے ، بہت خوب ، بہت عمدہ “ایک بڑی شخصیت نے بڑے ہی عقیدت مندانہ لہجہ میں عاطف سے فون پر بات کی ۔

ایک ایسا اسٹیج سجاتھا جس پر مذکورہ شخص کے علاوہ ملک کے دیگر دانشوران تشریف رکھتے تھے ، ہرمکتبہ فکر کے افراد موجود تھے ، بڑا عظیم الشا ن اجلاس تھا ، عاطف نے بھی اس میں شرکت کی تھی ، کیوں کہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح مدعو تھا ،اسی جلسہ میں متعدد لوگوں سے اس کی شناشائی ہوئی ، کئی ایک قائد سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ۔

گردشِ ایام کی چکی جو ں جوں گھومتی جاتی تھی اور پرندہ وقت کا قافلہ جس طرح لمحات کی فضا میں آگے بڑھتا جارہا تھا ،اسی طرح عاطف کی شہرت بوئے گل کی طرح پھیلتی ہی جارہی تھی ، ہرخاص و عام کی نظروں میں اس کا قد لمبا ہوتا جارہا تھا ۔
”آئیے جنا ب! ادھر تشریف لائیں ، میرے قریب بیٹھیں ، آپ تو “
”شکریہ جناب“
”کب سے آپ کے ہاتھوں یہ تلوار ہے “قلم کو تلوار سے تشبیہ دیتے ہوئے اسلم نے اپنے گھر پر کہا ۔
”یہی کوئی دو سال سے“
”اس کے باوجود اتنا اچھا قلم ، خداکی خاص نوازش ہے آپ پر ، ورنہ تو کہاں خدا کاشکر ہے ناچیز کے اوپر بھی ، فطرت سے اس حقیرنے بھی ادبی ذوق پایا ہے ، اگر بہت نہ سہی ،مگر کچھ پڑ ھ لکھ لیتاہوں ، گیسوئے اردو ادب کو میں نے بھی سنوارا ہے ، شکر ہے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ، میری یہ دلکش تحریر دیکھیں ، لائیے اسے ، یہ دیکھیں، کبھی کبھی تو بہت عمدہ لکھ جاتا ہے ، اللہ جھوٹ نہ بلوائے ،کوئی چار سو مضامین میری نوکِ قلم سے نکلے ہی ہوں گے ادیبوں کی دنیا میںمیرابھیچند آپ بھی رکھ لیں ، اگر پسند آئے اور ادب کی چاشنی نظر آئے تو میرے اوپر دوچارم م م“کوئی دوتین مراسلات دکھاتے ہوئے وہ یوں گویا ہوا ۔
”اسلم صاحب ، ضرور ، آپ کا حکم سرآنکھوں پر“اجازت لےتے ہوئے عاطف رخصت ہوا ۔
عاطف نے پروگرام میںحصہ کیا لیا ہرطرف سے اس کے پاس فون آنے لگے ،اس پروگرام نے اس کے بے شمار بہی خواہ اورہمدرد پیدائے کردئے ، آئے دن کسی نہ کسی بڑی ہستی سے رابطہ ہوہی جاتا تھا ، زمانہ امتحان بھی اسی کے نذر تھا ۔
”عاطف صاحب سنئے ! میں آپ کا کوئی غیر نہیں ہوں ، آپ ہمارے ہم آپ کے ہر دکھ درد کے موقع پر ہم آپ کے ساتھ ہیں، سنا ہے کہ بے اے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں آپ ، اعلی تعلیم کے لئے دہلی کے جس یونیورسٹی میں چاہیں داخلہ لیں ، میرا تعاون ہر جگہ رہے گا ، کیونکہ میں “درس وتدریس سے جڑے ایک صاحب نے عاطف کو اپنے گھر پر بلاکر اک لمبی گفتگو کی اور تعاون کا وعدہ کیا ۔
”بہت ، بہت شکریہ جناب! “عاطف نے موقع کو غنیمت جان کر اپنی پوری کہانی سنادی ، اپنے تمام مسائل سے انہیں آگاہ کیا ۔
”عاطف صاحب ، آپ آئے ، گویا بہارآئی ،ممنون ہوں میں آپ کا ، ہماری آپ کی ملاقات ہوتی رہے گی ، بلاتکلف میرے گھر آیا جایا کریں ، اچھا چلئے خدا حافظ “انہوں نے عاطف کو الوداع کہا اور مصافحہ کے درمیان دبے ہاتھوں ایک رقعہ بھی دیا ۔
عاطف کی ایسی پذیرائی ، اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا ۔ اس پر اس کو ناز ہونا چاہئے تھا ، اپنے قلم کو دل کے قریب رکھنا چاہئے تھا ، مگربدستور وہ غموں کی زنجیر میںجکڑا تھا ، اس کے چہرے پر چاربج رہے تھے ، اس ماہر تعلیم کا خط بھی اس کے دماغ میں غضب ڈھائے ہوا تھا ، اس کے چند جملے مانومیری تعلیمی خدمات میرا صحافتی کردار ادبی معیار ملی اور سماجی کارنامے آپ بھی واقف ہوں گے ان سے مگر کسی کو اس کااعتراف میرے اوپر دو چار مآپ کا فریضہ ہے اورپھر یونیور سٹی میں داخلہ میرے اوپر جلد پھر ہمارے یہاں ایک ایسا قائد جس پر عوام کا مکمل اعتماد تھا ، ان کی شخصیت ہر عیب سے دیکھئے جنابِ عاطف آپ ہمارے قریب تر ہیں، ہم آپ کو اپنا راز دار بناتے فخر محسوس کرتے ہیں ، انتہائی خوشی ہے ہمیں ، آپ کھل کر ہمارے ساتھ آپ کا بھی حصہآپ اپنے ہیں، اپنوں سے کیا پردہ داری معلوم ہے آج کا موسم بہت قریب ہے وہ شروع ہوجائیں، اپنی جولانی قلم سےآخر دکھا نا بھی تو ہے اسی کے بعد تو کچھ ہوگا ہماری خدمت ہماری پہچان ہماری رسائی فائدہ آپ کا بھی بس شروع کردیجئے ، کیا سمجھائیں آپ کو ، آپ توخود سمجھدارہیں نا ایسے قائد کا راز دار بن کر عاطف وہیں سوچ رہا تھا کہ زمین شق ہوجائے اورمیں ان کی حکم عدولی ، ارے نابابا نا ان کے اوپر لکھیں تو کذب اگر نہیں تو خ خیعنی آگے کنواں ، پیچھے کھائیعاطف نے پہلے بھی سوچاتھا، آتشِ غربت میں معشوقہ صحافت کو جلنا ہی پڑے گا ،سوجل گئی ، ماہر تعلیم کاادیب محترم کا پھر نامور قائدکابااثر شخصیت آخر کیا ہے ؟یہ سوچ کر اس نے قیادت کی قربان گاہ میں غربت کی کند چھری معشوقہ صحافت کی نازک گردن پر رکھ دی ،اوریہ کہتا ہوا ”قیادت مبارک ہو میرا قلم ، مبارک ہو بہت بہت مبارک یہ “جوتا گانٹھنے نکل گیا ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92478 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More