لوک پال کا جمع خرچ

لوک پال بل جدیدہندوستان کی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب ہے اس لئے اگرآج انشاء جی زندہ ہوتے تو اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف اردو کی آخری کتاب میں اس کا تذکرہ ضرورکرتے ۔ اردو کی پہلی کتاب تو بہت سوں نے لکھی لیکن آخری کتاب لکھنے کا شرف ابن انشاء کے حصے میں آیا ۔ غزل کے مقطع میں اپنا تخلص تو سبھی استعمال کرتے ہیں لیکن مطلع کے اندر تخلص کو موتی طرح پرونے کا کمال غالباً انشاء جی نے پہلی اور آخری بار کیا اور انکی غزل‘‘ انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ’’ اردو ادب کا شاہکار کہلائی۔اس شہرہ آفاق غزل کو کہنے کے بعد سناہے انشاء جی اٹھتے ہیں اوردارفانی سے کوچ کرجاتے ہیں ۔ راوی تو یہی لکھتا ہے کہ اس غزل کے بعد انشا ء جی نے اس جگ سے زیادہ دن دل نہ لگایااور ۵۱ سال کی نوعمری میں اپنے شیدائیوںٰ کو داغِ مفارقت دے گئے۔ اس واقعہ کو آپ اتفاق کے خانے میں ڈال سکتے ہیں لیکن سنا ہے استاد امانت علی نے جب اس غزل کو اپنی طلسمی آواز سے زندہ کیا تو ان کی بھی واپسی کا وقت آگیا اور وہ ۵۲ سال کی عمر میں وہ اس جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے ۔ اسے بھی اتفاق کہہ لیجئے لیکن اس کا کیا کریں گے کہ امانت علی کے بیٹے استاد امجد علی نے کئی سال بعد ڈرتے ڈرتے اس غزل کو گانے کی جرأت کی تو ان کا بھی ۴۹ سال کی عمر میں چل چلاؤ ہو گیا اب لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اتنے سارے اتفاقات یکے بعد دیگرے نہیں ہو سکتے اس غزل میں ضرور کوئی خاص بات ہے جو اچھے اچھوں کو ہڑپ کر جاتی ہے ۔غزل میں کیا خاص ہے کوئی نہیں جانتا لیکن لوک پال بل کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ اسے گزشتہ ۴۲ سالوں میں نوبار پیش کیا جاتا ہے اور ہر بار اژدھا صفت سیاستدان اسے نگل جاتے ہیں اور ایک تماشہ رچاکر اپنے اپنے بل میں لوٹ جاتے اتفاقات ایک دو تین بات تو ہوسکتے ہیں لیکن نو بار لگاتار ناممکن ہے گویا مسئلہ کوشش کا نہیں نیت کا ہے۔

نام نہاد آزاد ہندوستان میں اب تک تین خاندانوں نے حکومت کی ہے ۔ نہرو خاندان ، جنتا پریوار اور سنگھ پریوار اور ان تینوں نے موقع بموقع اس بل کے حوالے سے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کیا لیکن کسی نے اسے پاس کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ماہرین ِ سیاسیات کیلئے یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے کہ قوم کے خزانے سے کروڑوں کروڑ روپئے ڈکار جانے والے آدم خور سیاستدان اس بےضرر رسی سے اس قدر خوف کیوں کھاتے ہیں ؟ اس کا نام آتے ہی ان کی سٹی پٹی کیوں گم ہوجاتی ہے اور وہ آئیں بائیں شائیں کس لئے بکنے لگتے ہیں ؟لوک پال بل کو سب سے زیادہ چار مرتبہ کانگریس پارٹی نے پیش کیا اس لئے کہ اسے سب زیادہ مدت تک حکومت کرنے کا موقع میسر آیا ۔ ماں، بیٹے ، بہو اور نواسے سب نے اس بہتی گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے پاپ دھوئے یہاں تک رام جی کی یہ گنگا میلی ہوگئی ۔ اس پر زور آزمائی کرنے والوں کی فہرست میں دوسرا نمبر جنتا پریوار کا ہے ۔مرارجی دیسائی سے لیکر دیوے گوڑہ تک بشمول وی پی سنگھ نے اس آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں ۔ ایسے میں سنگھ پریوار کیونکر پیچھے رہتا اس نے بھی دوبار اپنی سی کو شش کی اور ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن بل کو پاس نہ ہونا تھا سو نہ ہوا۔ہر بار اس کے مقدر میں ناکامی ہی آئی ۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس کے چلتے وزیراعظم اندرا گاندھی کو راج نارائن نے پارلیمان کے بجائے الہ باد ہائی کورٹ میں ہرایا ۔ وہ کارنامہ بھی شانتی بھوشن کے سر جاتا ہے جن کا فرزند ارجمند پر شانت بھوشن فی الحال لوک پال کے مہا یدھ میں نہا دھو کر اترا ہواے ہیں ۔ مرارجی نے اس بل کو اپنے وزیر داخلہ چرن سنگھ سے پیش کروایا لیکن چرن سنگھ نے کانگریس کی مدد سے بل پاس کروانے کے بجائے مرارجی کو فیل کر دیا اور خود وزیر اعظم بن بیٹھے ۔ اٹل جی کی کوشش کو جئے للیتا مار گئی اور دوسری کوشش قبل ازوقت انتخاب کروا کر دوبارہ اقتدار سنبھالنے کی نذر ہوگئی ۔ وی پی کی پیٹھ میں بل کے پاس ہونے سے پہلے چندر شیکھر نے چھرا گھونپ دیا تو دیوے گوڑا کو گجرال صاحب اقتدار سے بے دخل کر کے بل کو لے ڈوبے ۔ گویا جو کوئی اس بل کو لاتا تھا وہ خود چلا جاتا تھا ، ہوسکتا ہے اس بار منموہن بلی چڑھ جائیں اور راہل بابا ان کی جگہ سنبھال لیں کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ اس لئے کہ اس بل کو دستوری درجہ دلانا انہیں کا خواب ہے جسے وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد چکنا چور کریں گے ۔ ماضی کی روایت تو یہی رہی ہے ۔

ابن انشاء نے اپنی اردو کی آخری کتاب میں مختلف مایہ ناز ہستیوں کے ہمراہ مغل بادشاہ سلیم جہانگیر کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن بدقسمتی سے انشاء جی کو شورش کاشمیری کا ڈرامہ انارکلی اور کے آصف کی فلم مغلِ اعظم دیکھنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی اس لئے انہوں نے غلطی سے جہانگیر کی بیوی کا نام انارکلی کے بجائے نورجہاں لکھ دیا ۔ اب اس کا فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ان تینوں تاریخ ساز ہستیوں میں صحیح کون تھا؟ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کے سب غلطی پرہوں ۔ اس کنفیوژن کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں نورجہاں کے کئی نام ملتے ہیں ممکن ہے ایک نام انارکلی بھی رہاہو جسے مورخ قصداً یا سہواً رقم کرنا بھول گیاہو ۔گمان غالب ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی طرح جو موقع بموقع اپنی پارٹی کا نام بدلتے رہتے ہیں نورجہاں بھی مختلف سیاسی مجبوریوں کے تحت مختلف نا م رکھ لیا کرتی تھی۔ سیاست کی دنیا میں نام چاہے جتنے بدلے جائیں کام نہیں بدلتا ۔اندراکانگریس اپنا نام بدل کر انڈین نیشنل کانگریس رکھ لے تب بھی اس کی آمرانہ فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اگر جن سنگھ اپنا چولہ بدل کر بی جے کا روپ دھارن کرلے تب اس میں وہی پرانی فسطائی روح کارفرما رہتی ہے ۔ جنتا پریوار چاہے جس قدر بھیس بدلے اس پر موقع پرستی کا بھوت ہر صورت سوار رہتا ہے ۔ہندوستانی سیاست میں جنتا پریوار نے جتنے رنگ بدلے ہیں اس کا شمار کرکے تو شاید گرگٹ بھی شرما جائے اگر ان تمام رنگوں کا ذکر مع اسباب کیا جائے تو یہ مضمون سیاست کی آخری کتاب بن جائے گا ۔

تاریخ کے صفحات میں نورجہاں کی بڑی تعریف و توصیف ملتی ہےاس کے حسن و جمال کے چرچے تو امراؤجان سے زیادہ ہیں۔ ویسے بھی مغلیہ عہدِ سلطنت میں جبکہ ہندوستان سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا کس مؤرخ کے اندر یہ جرأت تھی ملکہ کو بدصورت کہتا؟ جس طرح ہمارے صحافی حضرات آج کل گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اصحاب اقتدار کے گن گاتے ہیں یا خوف کھاتے ہیں اسی طرح کی آزادی و حریت کا ماحول مغلیہ دور میں بھی تھا اسی لئے راوی بہر صورت چین لکھتا تھا ۔ ویسے تاریخی شواہد سے علی الرغم اگر علمِ قیاس سے بھی مدد لی جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا نورجہاں بے حد خوبصورت تھی ورنہ سلیم جہانگیر اپنے گورنرشیر افگن کا قتل کرواکر اس کی ۳۴ سالہ بیوہ سے نکاح کرنے کی غلطی کیوں کرتا؟

بے چاری انارکلی کی طرح نورجہاں رقاصہ نہیں بلکہ ما ہر شکاری تھی ۔ سنا ہے اندرا گاندھی کی مانند اس کا نشانہ کبھی بھی خطا نہ ہوتا تھا ۔ اس کا پہلا شکار تو شیر افگن تھا جس نے شیر کے جبڑے میں ہاتھ ڈال کرڈان کے بچن کی طرح اسےپھاڑ دیا تھا ۔شیر افگن کی اس دلیری سے متاثر ہوکر شہنشاہ اکبر نے اسے اپنی ایک ریاست کا گورنر بنا دیا ۔ اسکی بہادری کا یہ عالم تھا کہ جب جہانگیر نے دھوکے سے اسے اپنے سوتیلے بھائی قطب الدین کے ذریعہ بلوا بھیجا اور اپنے وفادار فوجیوں سے گھیر لیا تو وہ جاتے جاتے بھی قطب الدین کو اپنے ساتھ ملکِ عدم لے گیا۔مگر تاریخ کے صفحات پر یہ بھی درج ہے کہ شیر دل شیر افگن اپنی زوجہ محترمہ نورجہاں جو اس وقت مہرالنساء کہلاتی تھی کے آگے بھیگی بلی بنا رہتا تھا اور کیوں نہ بنتا وہ اس کے دل کی ملکہ جو تھی ۔ خیر شیر افگن کی مہرالنسا ءنے جب جہانگیر کے محل کومنور کیا تو جہانگیر نے اسکو نورمحل کے خطاب سےنوازہ لیکن جب نورمحل کو پتہ چلا کہ اس کےشوہرِ نامدار کا لقب جہانگیر ہے تو اس نے بھی اپنے نام میں محل کوجہاں سے بدل دیا اور نور جہاں کہلانے لگی ۔ نور جہاں کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے آخری ایام میں اپنے نام کا سکہ تک جاری کر دیا تھا۔

نور جہاں کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے ایک مرتبہ چار گولیوں سے چھے عدد شیر ڈھیر کر دیئے ۔ یہ بھلا کیونکر ممکن ہے ؟ حکمرانوں کے بابت اس طرح کا حمقانہ سوال نہ اُس وقت کیا جاتا تھا اور نہ اب کیا جاتا ہے ۔ان شیر وں میں سے ایک شیرسنگھ نام کا دھوبی بھی تھا جو اپنے کتے کے ساتھ عامر خان کی آئندہ فلم دھوبی گھاٹ کے سیٹ پر ایکسٹرا کا رول کرنے کیلئے جارہا تھا جیسا کہ لوگ انا ہزارے کی بھوک ہڑتال میں وندے ماترم کا نعرہ لگانے کیلئے آجاتے ہیں ۔ نورجہاں کا کوئی ارادہ دھوبی کو ہلاک کرنے نہیں تھا بلکہ اس نے غلطی سےدھوبی کے کتے کو بھی دور سے شیر سمجھ لیا تھا اور اس کی گولی جب کئی شیروں کے اندر سے گھستی نکلتی کتے کی جانب بڑھی تو کتے نے بڑی صفائی سے اسے جھانسہ دے دیا ۔ دراصل دھوبی کا کتا کرکٹ کا شوقین تھا اسے پتہ تھا کہ جب راولپنڈی ایکسپریس شعیب ملک باؤنسر پھینکتا ہے تو لٹل ماسٹر سچن تنڈولکر کس طرح اسے ڈک کر دیتا ہے ۔ کتے نے سر جھکا کر گولی کو ڈک کیا اور گولی ٹھک سے دھوبی کے بھیجے میں گھس گئی ۔ اس حادثے میں دھوبی کے علاوہ سارے لوگ بے قصور تھے۔ دھوبی کا قصور یہ تھا وہ عوام کی طرح غافل تھا ۔بے چاری نورجہاں کو تو نہ یہ پتہ تھا کہ وہ شیر نہیں بلکہ کتا ہے جس پر وہ نشانہ سادھ رہی ہے اور ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کتابلاکی پھرتی سے اروند کیجرویوال کی مانندخودبچ کر نکل جائیگا اور دھوبی کو انا ہزارے کی طرح پونہ کے ہسپتال میں پہچاد دے گا۔

انا جی تو خیر خوش قسمت تھے جو وہ کیجریوال کی چالبازی کے باوجود بچ نکلے لیکن بیچارہ دھوبی سیٹ کے بجائے پرلوک سدھار گیا تاکہ لوک پال کے سامنے اپنی شکایت درج کرائے ۔عامر خان نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دھوبی کے سوگ میں شوٹنگ کو منسوخ کر کے ٹی وی والوں کو بلوا بھیجا ۔کس چینل والے کی مجال تھی کہ عامر خان کی دعوت کو ٹھکراتا سب کے سب اس کے سیٹ پر تام جھام کے ساتھ جاپہنچے تو کیا دیکھتے ہیں عامر خان قیامت سے قیامت تک مگر مچھ کے آنسو بہارہا ہے۔ ایک طرف پارلیمان کے اندر لوک پال بل کا انتم سنسکار ہورہا تھا سیاستدان اپنے اپنے انداز میں اسکی لاش پرٹسوے بہا رہے تھے دوسری طرف دھوبی گھاٹ کے سیٹ پر دھوبی کی موت کا ماتم ہورہا تھا۔ ٹی وی والے دونوں مناظر بدل بدل کر دکھلا رہے تھے اور ناظرین اپنے ٹی وی سے فیویکول لگا کر چپکے ہوئے تھے ۔ مارنے والی نورجہاں اور بچنے والا کتا دونوں پردے کے پیچھے مسکرا رہے تھے ۔ سیاستدانوں کے ساتھ عامر خان کی فلم کےسپر ڈپر ہونے کا راستہ بھی ہموار ہو رہا تھا ۔

یہ سارا ناٹک پہلے سے تیارشدہ منظرنامے کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک زور زور سے گھنٹی کی آوازگونجنے لگی ۔ نورجہاں نے چونک کر پوچھا ارے یہ کیا ؟ یہ کون لوک پال تک پہنچ گیا ۔ ہمارے وہ سارے پہرے دار کہاں مر گئے جن کو اس خوبصورت انصاف کی گھنٹی کے آس پاس اس غرض سے تعینات کیا گیا تھا کہ وہاں کوئی انسان تو کجا پرندہ بھی پر نہ مار سکے ۔اس سنگین معاملے کو فوراً تحقیقات کی غرض سے پارلیمان کی سیلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا گیا اور اس نے تفتیش کر کے بتلایا کہ دھوبی کی بیوی کتے سے بھی زیادہ چالاک نکلی ۔وہ فریادی کے بجائے انارکلی کی بہن چمپا چمیلی کا بھیس بدل کر محل کے اس حصے میں پہنچ گئی جہاں گھنٹی نصب تھی اور ’’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘‘کی تال پر رقص کرنے لگی ۔ محافظوں کو اس پر ذرہ برابر شک نہ ہوا وہ بھی اس کے ساتھ جھوم جھوم کر ناچنے گانے لگے جیسا کہ سلمان خان کی فلموں میں ہوتا ہے پھر کیا تھا وہ جھومتے ناچتے گھنٹی کے قریب آگئی اوراچانک رقص چھوڑ کر زور زور سے گھنٹی بجانے لگی جس کا شور ٹیلی ویژن کے توسط سے ہر گھر میں پہنچ گیا ۔ اس ناگہانی صورتحال میں نور جہاں کو لامحالا انصاف کا ترازو نکالنے کا حکم دینا پڑا ۔ بڑی کھوج بین کے بعد اسے تلاش کیا گیا خوب محنت و مشقت سے اس پر لگے زنگ کو صاف کر کے چمکایا گیا اور بالآخر گھنٹی کی جگہ اس چمچماتے ہوئے ترازو کو لٹکا دیا گیا ۔

اس کیف آگیں منظر کو دیکھ کر مرحوم سہراب مودی کے نام پر نریندر مودی نے رتن ٹاٹا کی مدد سے پکار۲ بنا نے کا اعلان کردیا ۔ اس نے سوچامسلمانوں کو لبھانے کا یہ نادر موقع ہے ۔اسکے چمچوں نے چاپلوسی میں یہ دلیل پیش کی کہ اگر ڈان ۲ بن سکتی ہے تو عدلِ جہانگیری پر منحصر پکار ۲ کیوں نہیں بن سکتی۔ ویسے بھی اب لوگ رجنی کانت چھاپ اچھل کود سے بور ہونے لگے ہیں ورنہ شاہ رخ کی راون فلاپ کیوں ہوتی؟ پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے رام لیلا میدان پر ایک اور سیٹ لگ گیا لیکن اس بار چونکہ دہلی میں سردی بہت زیادہ تھی اور حکومت کی جانب سے بھی کافی سردمہری کا مظاہرہ ہو رہا تھا اس لئے مغلِ اعظم ا نا ہزارے نے ممبئی کی مایا نگری کا رخ کیا ۔ انہیں امید تھی کہ ممبئی کی عوام اس کالو بالو کے بہورنگی تماشے کو دیکھنے کیلئے جوق در جوق فلمستان اسٹوڈیو کے قریب ایم ایم آر ڈی اے کے میدان میں پہنچ جائیگی لیکن اسی موقع پرسونیا گاندھی نے کنگ خان کو دھمکی دے کر ڈان ۲ ریلزس کروا دی ۔ عوام کے لئے دھرم سنکٹ کھڑا ہو گیا لیکن اساپر عوام نے انا ہزارے پر شاہ رخ خان کو ترجیح دےدی ۔ اس میں عوام کا بھی کیا قصور وہ بیچارے انا جی کی ایک سی تقریر سن سن کر اوب چکے تھے سچ تو یہ ہے پبلک کو انا کے بھاشن یاد ہو گئے تھے۔ سال کے آخر میں اپنی زبان کا ذائقہ بدلنے کی خاطر لوگ جاوید اختر کے مکالمے سننے کی خاطر ڈان کی جانب چل پڑے اور ایوان میں انصاف کا ترازو ہچکولے کھا نے لگا۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس بار کون سا پلہ بھاری ہو گا ؟ایکطرف ڈان ۲دوسری طرف پارلیمان ۹۔

پارلیمان کا پردہ جیسے ہی اٹھا نورجہاں کے لباس میں سونیا پر کیمرہ جاکر رک گیا ویسے جہانگیر کی طرح بیمار و لاغر منموہن بھی وہاں موجود تھے لیکن میڈیا کو اس بار نہ ہی ان میں اور نہ اناجی میں کو ئی خاص دلچسپی تھی ۔ جب کیمرہ گھوم کر ترازو پر پہنچا تو وہاں سشما جی دھوبن کا لبا س پہن کربراجمان تھیں اور انصاف کی دہائی دے رہی تھیں ، سونیا نے اپنے شاہانہ انداز میں انصاف کا یقین دلایا اور بحث کا آغاز ہو گیا ۔ خوب شور شرابے کے بعد آخر میں جب رائے شماری کا وقت آیا تو نورجہاں نے لاغر و مسکین جہانگیر کی جانب اشارہ کرکے کہا مظلوم دھوبن تمہارے ساتھ انصاف ہوگا ۔ تمہارے خاوند کو اس بادشاہ کی ملکہ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے اس لئے انصاف کا تفاضہ ہے کہ تم بھی اسی بندوق سے جس سے کہ دھوبی ہلاک ہوا ہے اس ملکہ کے مالک سلیم جہانگیرکو بھون دو انصاف کی دیوی کے آگے راجہ اور رنک برابر ہیں۔نورجہاں کا یہ عدلِ جہانگیری دیکھ کر ملک بھر کے رائے دہندگان فرطِ مسرت سے جھوم اٹھے اور ’’سونیا گاندھی زندہ باد ۔راہل گاندی آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘کے نعرے لگانے لگے۔

نورجہاں کے اس دھوبی پچھاڑ نے عامر خان کو بھی ششدر کر دیا اس نے اپنی فلم کا نام دھوبی گھاٹ سے بدل کر دھوبی پچھاڑ رکھ دیا ۔نورجہاں کے تیور دیکھ کر ڈان نے سوچا کاش کہ اس کی فلم میں بھی کوئی ایسا ٹووسٹ ہوتا ۔منموہن تو تھر تھر کانپ رہے تھے ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا ۔ سشما کیلئے نیا دھرم سنکٹ کھڑا ہو گیا تھا اس نے سوچا اگر اس موقع پر منموہن کی بلی چڑھ جائے تو راہل بابا ان کی ارتھی پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک کراقتدار پر قابض جائیگا اور اپنے باپ سے زیادہ نشستیں پائے گا پھر اسے ہٹانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے سشما جی نے پینترا بدلہ اوراپنے دھوبی کاخون بہا لے کر لوک سبھا میں لوک پال کا قانون توپاس کرو ادیا لیکن اسے دستوری درجہ سے محروم ہی رکھا اور ایوانِ بالا میں اس کا قلع قمع کرنے کی منصوبہ بندی میں لگ گئیں ۔ ایوانِ زیریں میں جیسے ہی لوک پال کا قانون بنا انصاف کا ترازو ہٹا دیا گیااور اسکی جگہ دوبارہ گھنٹی نصب کر دی گئی جس پر جلی حروف میں لوک پال لکھا ہوا تھا۔ اس گھنٹی کے اطراف سخت پہرے کے علاوہ کیمرے بھی نصب کردئیے گئے تھے تاکہ دوبارہ کسی فریادی کی فریاد رس گھنٹی تک رسائی ممکن نہ ہوسکے ۔ سیاست کی میزان پر یہ الٹ پھیر کیسے ہوجاتا ہے یہ جاننے کیلئے آپ کو تاریخ کی نہیں حساب کی کتاب پڑھنی ہوگی جس کا پہلا سبق خود انشا جی سے پڑھئے ماسٹر جی فرماتے ہیں ؎
حساب کے چار بڑے قاعدے ہيں
جمع، تفريق، ضرب، تقسيم
پہلا قاعدہ : جمع
جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہيں
خصوصا مہنگائي کے دنوں میں سب کچھ خرچ ہوجاتا ہے
کچھ جمع نہيں ہوپاتا
جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کيلئے مختلف ہے
عام لوگوں کيلئے ١+١ = ۱
کيونکہ ۲/۱ (یعنی آدھا) انکم ٹيکس والے لے جاتے ہيں
تجارت کے قاعدے سے جمع کرائيں تو ۱+۱ کا مطلب ہے گيارہ
رشوت کے قاعدے سے حاصلِ جمع اور زيادہ ہوجاتا ہے
قاعدہ وہي اچھا جس ميں حاصلِ جمع زيادہ آئے بشرطيکہ پوليس مانع نہ ہو
ايک قاعدہ زباني جمع خرچ کا ہوتا ہے
يہ ملک کے مسائل حل کرنے کا کام آتا ہے
آزمودہ ہے

(نوٹ: لوک پال بل کی طرح اس مضمون کو بھی قارئین کی تفریحِ طبع کیلئےلکھا گیا ہے ۔اس کے سارے واقعات و کردار فرضی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450679 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.