عمران خان کی فاش غلطیاں !!!

2011 کے آخر میں پاکستان کے سیاسی افق پر عمران خان کا نام جس آب و تاب سے چمکا وہ بہت سے سیاسی نجومیوں کے لیے حیران کن تھا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے توخان صاحب کا شمار تیسرے یا چوتھے درجے کے سیاست دانوں میں کیا جاتا تھا۔ انہیں پارلیمنٹ میں کبھی کوئی ایسا مقام حاصل نہیں ہو سکا جو قابل ذکر ہو ۔یہ ضرور ہے کہ خان صاحب ماضی میں وزارت عظمی کے امید وار رہے ہیں اور ان کے مخالفوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی حمایت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ خان صاحب کسی اعلی عہدے کے خواہش مند تھے لیکن جب بازی چودھری برادران کے حق میں چلی گئی تو خان صاحب نے پرویز مشرف کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے لیکن فی الحال خان صاحب کے پرویز مشرف سے اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔ رواں سال جب خان صاحب پرویز مشرف کے خلاف بیانات دینے میں مصروف تھے دوسری طرف انہی دنوں ان میں تحائف کا تبادلہ بھی جاری تھا اور مشرف نے خان صاحب کو کتے کے پلے تحفے میں بھیجے تھے جو خان صاحب نے شکریہ کے ساتھ وصول کیے ۔ یاد رہے کہ اعلٰی حلقوں میں کتے کے بچوں کا تبادلہ مضبوط تعلقات کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔بہر حال ٹی وی پروگراموں کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو خان صاحب کو ماضی میں سیاسی حوالے سے خاص اہمیت حاصل نہ تھی اور ان کی پارٹی کو بھی طنزیہ طور پر ”تانگہ پارٹی“ کہا جاتا تھا۔ عمران خان وزیر اعظم بننے کے خواہش مند رہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہیں کبھی وزیر تک نہ بنایا گیااسی لیے جب 2011 میں کپتان نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے کا سفر شروع کیا اور لاہور میں عوامی مقبولیت شو کی تو سیاسی پنڈتوں نے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں ۔ کپتان کے مخالفوں نے فورا الزام لگایا کہ خان صاحب کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ میاں صاحب چونکہ اسٹبلشمنٹ کے ڈسے ہوئے ہیں اور ایک سابق جنرل کی وجہ سے انہیں تقریبا دس سال پاکستانی سیاست سے عملی طور پر کنارہ کش ہونا پڑا اس لیے ڈر تھا کہ اگر میاں صاحب اقتدار میں آگئے تو وہ کوئی نہ کوئی ایسا قانون ضرور پاس کروا دیں گے جو اسٹبلشمنٹ کو کسی مخصوص دائرہ تک محدود کر دے گا لہذا میاں صاحب کے ووٹ بنک کو ختم کرنے کے لیے کسی اور کو اوپر لانا ضروری تھا ۔ اب صوت حال یہ تھی کہ ذرداری لیگ یا پیپلز پارٹی کے ذریعے یہ ممکن نہ تھا ۔ جماعت اسلامی آزمائی ہوئی جماعت ہے لہذا اسے ”طاقت “ تو دی جا سکتی تھی لیکن اس قدر مقبولیت حاصل کرنا اس کے لیے مشکل تھی اور ان میں سے کوئی اس قدر اوپر نہیں آ سکتا تھا جو میاں صاحب کو برابر کی چوٹ دے سکے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی نظریاتی جماعت ہے اور مخصوص نظریات کی بنا پر وہ ایک مخصوص سطح سے زیادی پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی ۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ متحدہ مجلس عمل کا الیکشن جیتنے کے بعد ”مولانا“ صاحبان نے جو حال کیا وہ لوگوں کے سامنے تھا ۔ ق لیگ کا پرویز مشرف کی وجہ سے جو حال ہوا اور پھر مونس الہی کے لیے ڈوبتی ہوئی کشتی میں بیٹھنا پڑا اس نے انہیں ایک ایسا لنگڑا گھوڑا بنا دیا جس پر کمزور سے کمزور جواری بھی رقم لگانے پر تیار نہیں ہوتا۔ ڈوبتی کشتی اس لیے کہ اقتدار کے آخری سالوں میں عموما” سمجھدار“ سیاست دان حکمرانوں کی کشتی سے چھلانگ لگا دیتے ہیں جیسے بروقت شاہ محمود قریشی نے چھلانگ لگا دی لیکن چودھری صاحب کی مجبوری تھی کہ انہیں ہر حا ل میں اس کشتی میں سوار ہونا ہی تھا۔ طاہر القادری صاحب بھی کچھ ”تلخ“ تجربات کے بعد تائب ہو چکے ہیں ۔ عمران خان وہ واحد بندہ تھا جسے دوسروں کے مقابلے میں کئی حوالوں سے فوقیت حاصل ہے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ ابھی تک آزمائش کی بھٹی میں نہیں اترے لہذا آزمائی ہوئی پارٹیوںسے تنگ آئے لوگوں کے لیے وہ ایک بہترین آپشن ہیں ۔ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ خان صاحب کے لاہور والے جلسے کی کامیابیوں کے پیچھے پیپلز پارٹی کا بھی ہاتھ تھا ۔ پی پی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو کمزور کرنا چاہتی تھی کیونکہ اگر پنجاب ن لیگ کے ہاتھ سے نکل جائے یا کم از کم تخت پنجاب کے دو مضبوط امیدوار پیدا ہو جائیں جو آدھا آدھا تخت بانٹ لیں تو پی پی سندھ کارڈ کی بنا پر پاور میں رہے گی اور اقتدارکا ہما اس کے سر پر بیٹھا رہے گا لہذا اس لیے خان صاحب کے جلسے میں پی پی کے لوگ بھی شامل تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ خان صاحب کے جلسے کو کامیاب ” عام آدمی“ نے کروایا تھا ۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اتنی طاقتور بہر حال نہیں کہ وہ اتنا بڑا جلسہ اپنے نام کر سکے ۔

درحقیقت ”عام آدمی“ تبدیلی کی خواہش میں کپتان کے جلسے میںآیا ۔دوسری طرف بڑے بڑے اینکر اور تجزیہ نگاروں کو بھی اس جلسے میں دھکیلا گیا کیونکہ رپورٹر کی کوریج اور اینکر یا تجزیہ نگاروں کی رپورٹنگ میں بہرحال فرق ہوتا ہے ۔ یہاں اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے لیے ”دھکیلنا“ کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ میں نے عمران خان صاحب کا جلسہ بھی دیکھا اور کچھ عرصہ بعد اسی مقام پر ”دفاع پاکستان“ کے جلسے میں شریک تھا ۔ ” دفاع پاکستان“ کا جلسہ بلا شبہ خان صاحب کے جلسہ کا ہم پلہ تھا اور کئی حوالوں سے اسے خان صاحب کے جلسہ سے بڑا اور کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہ صرف میری ہی نہیں بلکہ وہاں میڈیا کے لیے مخصوص سیٹوں پر میرے ساتھ بیٹھے منرل واٹر پینے والے ایک بڑے تجزیہ نگار کی بھی یہی رائے تھی ، وہ ہر پندرہ منٹ بعد اپنی کرسی سے اٹھتے ، ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتے اور کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جلسے کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ” یہ جلسہ خان صاحب کے جلسے کو کاٹ گیا ہے ، لیکن اس کی کوریج ویسی نہیں ہو گی۔۔“

عمران خان نے انقلاب کا نعرہ لگایا جس پر ایک عام آدمی نے لبیک کہا کیونکہ حالات سے تنگ آئے ہوئے عام شہری کو یہ علم نہیں کہ انقلاب آتے آتے خون کی ندیاں بہا دیتا ہے اور اس خون میں سب سے زیادہ حصہ عام آدمی کا ہوتا ہے ۔بڑے لوگوں کو سونامی سے پناہ مل جاتی ہے لیکن عام آدمی اپنے گھر کے جس ٹوٹے ہوئے دروازہ کا سہارا لیے ہوتا ہے وہ زیادہ دیر نہیں چل پاتا ۔ خان صاحب کا دوسرا خوبصورت نعرہ ”تبدیلی“ ہے جو اتنا ہی خوبصورت ہے جتنا کبھی ” روٹی کپڑا اور مکان“ والا نعرہ تھا لیکن خان صاحب بھٹو جیسے بڑے سیاست دان اور ”فنکار“ ثابت نہ ہو سکے۔ بھٹو نے اگر ملیں قومیانے کا فیصلہ کیا اور جاگیریں ضبط کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ بھٹو کے اپنے گھر پر اپلائی نہیں ہوتا تھا ۔ مسٹر بھٹو کی جاگیریں قومی پراپرٹی کا حصہ نہیں بنیں لیکن میاں صاحب اور دیگر لوگ رگڑے گئے اور اگر ضیا صاحب تشریف نہ لاتے تو ایک عرصہ تک بھٹو کے مقابلے پر آنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ جاگیریں اور فیکٹریاں قومی تحویل میں جانے کی بنا پر سب کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے لیکن پھر بھی مسٹر بھٹو کا انداز سیاست ایسا تھا کہ خود میاں صاحب ایک زمانے مین ان کے پرستاروں میں رہے ہیں ،یقین نہ آئے تو میاں صاحب سے پوچھ لیں لیکن بد قسمتی سے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کپتان کے پاس ابھی ایسی فنکاری نہیں آئی ۔

عمران خان کے کامیاب جلسے کے بعد پنجاب میںمسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہوا وہ یہ تھا کہ دونوں جماعتیں اگلے انتخابات کے لیے ہر حلقے سے ایک امیدوارکو ٹکٹ دے سکتی ہیں لیکن ٹکٹ کے اعلان کے بعد باقی امیدوار خان صاحب کی جھولی میں چلے جاتے یہ ڈر ابھی بھی دونوں جماعتوں کو ہے اور خان صاحب کا پلس پوائنٹ ہے لیکن جلسے کے فوران بعد خان صاحب کی ٹون بدل گئی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ وہ احتیاط کا دامن تھامے رکھتے اور ذرا سنبھل کر اپنی اننگز پوری کرتے لیکن خان صاحب نے ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی کئی فاش غلطیاں کر دی ہیں ۔ خان صاحب کے پاس سب سے بڑا اور دلکش نعرہ ” تبدیلی“ کا تھا جو حالات سے تنگ آئے ”عام آدمی ‘ ‘ کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے کیونکہ ”عام آدمی“ آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیوں سے تنگ آ چکا ہے اور کسی ”تبدیلی“ کا خواہش مند ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو عام آدمی کو خوشحال زندگی کی ضمانت دے ۔ خان صاحب کے جلسے کی کامیابی کے بعد ان کے ساتھیوں نے ایک طوفان بد تمیزی برپا کر دیا۔ ٹی وی پروگراموں میں مخالف پارٹیوں پر کیچڑ اچھالنے کی مہم کا آغاز ہو گیا۔ یہاں تک کہ کپتان کے کالم نویس ہارون رشید صاحب نے ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسی شخصیت کے حوالے سے ایسی باتیں لکھنی شروع کر دیں جیسے ڈاکٹر خان( ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب sms کریں تو ڈاکٹر خان ہی لکھتے ہیں ) تحریک انصاف میں آنا چاہتے تھے لیکن انہیں ریجیکٹ کر دیا گیا جس پر ایٹمی سائنس دان نے حقیقت کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان صاحب کی طرف سے انہیں آفر آئی تھی جسے انہوںنے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ میں سیاست میںآ کر 80% لوگوں کی محبتوں کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتا ۔ ان دنوں جس کالم نویس نے عمران خان پر کوئی اعتراض کیا اسے تحریک انصاف کے ورکروں نے بے ہودہ اور گھٹیا sms کرنے شروع کر دیے حالانکہ نظریاتی اختلاف ہر جگہ ہوتا ہے اور اسے برداشت کرنا ہی بڑا پن ہے لیکن اس sms مہم نے نہ صرف سینئر کال نویسوں کا ”بلڈ پریشر“ ہائی کر دیا بلکہ اس کا الٹا نقصان بھی کپتان کو ہوا ۔

اسی طرح خان صاحب کے ساتھیوںنے مریم نواز کے حوالے سے کچھ کاغذات ایک ٹی وی پروگرام کے دوران لہرائے جنہیں میڈیا پر دیکھ کر مریم نواز نے اسی وقت اس چینل کو فون کیا اور کہا کہ ان کاغذات کی تصدیق بھی کرائی جائے ان کا کہنا تھا کہ ان کے نام پر کہیں بھی کوئی پراپرٹی ہی نہیں ہے لہذا یہ کاغذات جعلی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا ان کی تصدیق کروائے ۔ مریم نواز اس سے قبل سیاست میں نہیں تھیں لیکن کپتان کے ساتھیوں کی اس ”کارروائی“ کے بعد وہ بھی سیاست میں آ گئیں اور انہوں نے کچھ تقریبات میں تقاریر بھی کیں یعنی دوسرے الفاظ میں کپتان کے ساتھی ہی مریم نواز کو سیاست میں لانے کا باعث بنے ۔ خان صاحب سے ایک بڑی غلطی یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر کرپٹ اور دھتکارے ہوئے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا شروع کر دیا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بد ترین سیاسی بٹیرے خان صاحب کے کندھون پر تشریف فرماں ہیں ۔سب کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں لیکن دیگ کے چند دانے دیکھ کر بھی دیگ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر خان صاحب کے ساتھ ملنے والوں میں محمد فیض ٹمن پہلے پیپلز پارٹی میں تھے پھر مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے جب ق لیگ پر برا وقت آیا تو مسلم لیگ ن کے ساتھ مل گئے ۔ان کی ڈگری جعلی نکلی یعنی یہ قوم اور قانون دونوں کو دھوکہ دے رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن نے انہیں جعلی ڈگری کی بنا پر ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا اب یہ تحریک انصاف میں شامل ہیں ۔اسی طرح خان صاحب کا کہنا تھا کہ وہ شخص ملک و قوم کا وفادار نہیں ہو سکتا جس کے اثاثے ملک سے باہر ہوں لیکن دوسری طرف اعظم سواتی تحریک انساف میں شامل ہیں جو موجودہ پارلیمنٹ کے امیر ترین رکن تھے اور انہوں نے خود اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کا سارا کاروبار ملک سے باہر ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا اعظم سواتی نے تحریک انصاف میںشمولیت سے قبل اپنا کاروبار پاکستان منتقل کر لیا تھا ؟ اور اب ان کے سارے اثاثے پاکستان میں ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر انہیں تحریک انصاف میں ویلکم کرنے سے قبل عمران خان اپنے اصول کیوں بھول گئے؟ اسی طرح چودھری شاہد اکرم بھنڈر بھی پہلے مسلم لیگ ق کے ایم این اے تھے اور ان کا ماضی بھی تحریک انصاف کے پرانے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ وہ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران جناب وصی ظفر کے ساتھ وزیر مملکت برائے قانون تھے اور میڈیا پر چیف جسٹس افتخار محمدچودھری پر کیچڑ اچھالا کرتے تھے۔ انہوں نے مشرف کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے باوجود عہدہ چھوڑنامناسب نہ سمجھا اسی وجہ سے الیکشن میں انہیں تقریبا28 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی چودھری صاحب بھی اب تحریک انصاف کے سیاست دانوں میں شامل ہیں۔اسی طرح میاں اظہرجو پہلے مسلم لیگ ن میں تھے پھر مشرف کے حکم پر مسلم لیگ ق بنائی اورآمریت کوسپورٹ کیا 2008 کے الیکشن میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ، آج کل میاں اظہر بھی تحریک انصاف کے راہنماﺅں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک نام ظہیر عباس کھوکھر صاحب کا بھی ہے ۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا یہ 2002 کے الیکشن میں ایم پی اے بنے الیکشن کے فورا بعد جب اسٹبلشمنٹ نے پی پی پیٹریاٹ بنائی تو اس میں شامل ہو گئے 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے امیدوار تھے لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ، آج کل یہ بھی تحریک انصاف کا حصہ ہیں اسی طرح خورشید قصوری صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ اس وقت بھی مشرف کے ساتھ تھے جب عوام نے مشرف کو ریجیکٹ کر دیا تھا ، مشرف نے جب اپنی پارٹی بنانے کی تیاریاں شروع کیں تب بھی قصوری صاحب اس نئی پارٹی کے اہم اور سینیئر عہدے پر فائز تھے عوام ان سے اس قدر تنگ تھی کہ جب انہوں نے اپنے حلقے میں عمران خان کا جلسہ رکھوایا اور تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تو اس جلسہ کے بعد لوگ کرسیاں تک اٹھا کر لے گئے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے پارٹی کے جھنڈوںمیں سے یہ کہتے ہوئے ڈنڈے تک نکا ل لیے کہ ” قصوری کولوں جو کج نکلے او چھڈنا نہیں “ بعد میںخان صاحب نے بیان دیا کہ عوام بھوک اور غربت سے بہت تنگ ہے اس لیے ایسا ہوا لیکن خان صاحب نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ایسا قصوری صاحب کے حلقے میں ہی کیوں ہوا ؟ وہاں کے لوگوں کا یہ ذہن اور غربت کس کی مرہون منت ہے؟؟تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو ساتھ لے کر چلنے والے عمران خان کی پارٹی میں ایسے بے شمار لوگ شامل ہو چکے ہیں ۔ عمران خان کے ساتھ جو بڑے نام شامل ہوئے ان میں کسی قدر شفاف یا مقبول نام شاہ محمود قریشی صاحب کا بھی ہے جو پہلے ضیا الحق کی کابینہ میں ریلوے کے وزیر تھے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے اس کے بعد پیپلز پارٹی میں چلے گئے ،اپنے سیاسی سفر کے دوران اہم وزارتوں پر فائزرہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر انہیں ایک مرتبہ پھر مقبولیت حاصل ہوئی لیکن اندرونی حلقوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کا بنیادی اختلاف اہم وزارت کی تبدیلی کی وجہ تھا اور شاہ صاحب وزیر خارجہ کے عہدے پر رہنا چاہتے تھے یہی اختلاف علیحدگی کی بنیاد بنا جسے انہوں نے ریمنڈ ڈیوس ایشو میں تبدیل کر دیا ورنہ اس سے پہلے ان کے امریکہ کے حق میں بیانات سامنے آتے رہتے تھے ۔ البتہ اب تک ایک ایسا شخص تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے جس کی شمولیت خان صاحب کی ایک بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے اور وہ ہے جاوید ہاشمی ۔ جاوید ہاشمی اپنی اصولی سیاست اور حق بات کہنے کے حوالے سے مشہور ہیں ۔ انہیں مشرف دور میں وزیر آعظم کے عہدے کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنی اصولی سیاست ترک نہ کی اور جیل جانا قبول کر لیا اسی طرح وہ اسمبلی میںاپنی ہی پارٹی کے غلط اقدامات پر پارٹی کے خلاف بول پڑتے ہیںان کے ساتھ چلنا کسی قدر مشکل ہے ۔اور کچھ ایسی ہی بات انہوںنے خان صاحب کے کراچی کے جلسے میں بھی کہی کہ اگر خان صاحب نے وعدے توڑے تو پھر ہاشمی صاحب کا ان کے ساتھ چلنا مشکل ہو گا -

عمران خان کا موقف یہ ہے کہ وہ الیکشن کے وقت ان لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیں گے جن کا سیاسی ریکارڈ خراب ہے اور جن کا شمار کرپٹ لوگوں میں ہوتا ہے لیکن فی الحال خان صاحب کا یہ دعویٰ عوام کو سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا تو پھر انہیں پارٹی میں شامل کرنے کا مقصد کیا ہے؟؟انقلابیوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھیں اور ان کو ساتھ لے کر جلسوں میں شریک ہوں آخر ایسی کیا ضرورت پیش آئی جس نے خان صاحب کو مجبور کیا کہ وہ نہ صرف کرپٹ لوگوں کو پارٹی میں قبول کریں بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر باقاعدہ انہیں پارٹی میں شامل کر نے کی تقریب منعقد کریں اور پریس کانفرنس اور جلسے کریں؟؟ یہ بات عیاں ہے کہ کپتان انہی لوگوں کو پارٹی ٹکٹ بھی دے گا اور ان کو ہر طرح سے سپورٹ بھی کرے گا-

کپتان سے سیاست کی اس اننگز میں جو فاش غلطیاں ہوئیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کپتان نے الیکشن سے پہلے ہی اپنے اصول اور معاہدے توڑ ڈالے۔ سیاست دانوں کے بارے میں عموما رائے یہ ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے وعدے کرتا ہے اور جیتنے کی صورت میں توڑ دیتا ہے لیکن الیکشن جیتنے سے پہلے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ظاہر کرتا رہے کہ وہ وعدوں کا پکا ہے ۔ کپتان نے بھی اپنی سیاسی زندگی کی اس اننگز کے آغاز میں کچھ اصول اور قوانین بنائے لیکن ماضی کی طرح خود ہی یہ قانون اور معاہدے توڑنے شروع کر دیے ۔ خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ ”ون مین شو“ نہیں ہیں اور کسے پارٹی میں کیا عہدہ دینا ہے اس کا فیصلہ پارٹی میں ہی موجود ایک کمیٹی کرے گی اور ہر عہدے دار کو پہلے اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا ۔ اور یہ سارا عمل باہمی مشاورت سے ہو گا ۔ خان صاحب کا یہ اصول یا قانوں بلا شبہ بہت خوبصورت ہے اور باقی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ اصول اپنانا چاہیے لیکن اس وقت خان صاحب نے خود ہی اپنا یہ قانون توڑ دیا جب شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ شاہ محمود قریشی آخری وقت تک مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف سے بیک وقت رابطوں میں تھے اور کہا یہ جا رہا تھا کہ جو زیادہ بڑاعہدہ اور وعدہ کرے گا قریشی صاحب اس کے ساتھ مل جائیں گے بالآخر خان صاحب نے اپنے ہی ارشادات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے میدان مار لیا اور اپنے بعد سب سے بڑا پارٹی عہدہ قریشی صاحب کو سونپ دیا اور اس سلسلے میں قائم کمیٹی کو پس پشت کر دیا یعنی یہاں بھی وہی قانون چلا جو پاکستان میں عام سیاست دانوں نے روا رکھا ہوا ہے کہ طاقتور کے لیے سب جائز ہے اور کمزور کے لیے تو قانون ہوتا ہی ہے ۔ اسی بنا پر تحریک انصاف کی پرانی لیڈر اور کڑے وقت میں خان صاحب کے ساتھ کھڑی ہونے والی دفائی تجزیہ کار شیری مزاری نے خان صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ جب خان صاحب خود ہی اپنے بنائے ہوئے اصول توڑ رہے ہیں تو پھر ہم عوام کو کس بات کی یقین دہانی کرائیں ؟ انہی اختلافات کی بنا پر عمران خان کے کچھ اور پرانے ساتھی اور تحریک انصاف کے پرانے راہنما بھی اس وقت خان صاحب کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں جب اقتدار کی ہوس لوگوں کو تحریک انصاف میں آنے پر مجبور کر رہی ہے ۔۔۔

عمران خان کے بارے میں یہ تاثر بھی تھا کہ وہ جہادیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور قبائلی علاقوں میں ہونے والی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کی بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ اگر یہ معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیںتو یہ سب سے بہترین حل ہے لیکن خان صاحب نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی کچھ ایسے بیانات بھی داغ دیے جن سے پاکستان کے امیج کو عالمی برادری میں مزید دھچکا پہنچا۔ خان صاحب نے اپنے انٹرویو اور بیانات میںیہ ظاہر کیا کہ پاکستان کشمیر اور بھارت میں شدت پسند بھیجتا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر ایشو کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے تعلقات کو فروغ دینا چاہیے ۔ انہی دنوں عمران خان پر یہ اعتراض اٹھایا جا رہا تھا کہ وہ امریکی سفیر سے کیوں ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ خان صاحب نے کشمیر اور بھارت کے حوالے سے یہ بیانات کس کو خوش کرنے کے لیے دیے اور وہ کس پر کیا واضح کرنا چاہ رہے تھے اس بارے میں صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے اور میرے خیال میں یہ قیاس ایک عام آدمی زیادہ بہتر کر سکتا ہے ۔۔۔

25 دسمبر کو خان صاحب نے کراچی میں ایک اور کامیاب جلسہ کیا اس جلسے سے قبل یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ خان صاحب اور الطاف حسین کے درمیان ” بندے ہمارے جھنڈے تمہارے“کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ یعنی لوگ ایم کیو ایم کے ہوں گے لیکن ان کے پاس جھنڈے تحریک انصاف کے ہوں گے لیکن شرط یہ تھی کہ عمران خان اپنے جلسے میں ایم کیو ایم کے خلاف بات نہیں کریں گے ۔ خان صاحب کو چاہیے تھا کہ اس حوالے سے ”عام آدمی“ کو اعتماد میں لیتے لیکن الٹا خان صاحب نے اس بات کی تصدیق یوں کر دی کہ باقاعدہ اعلان کر دیا کہ ان کی اب الطاف حسین سے کوئی جنگ نہیں ہے اور تحریک انصاف مستقبل میں ایم کیو ایم سے ہاتھ ملا کر حکومت بھی بنا سکتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب نے بھی اقتدار کے لالچ میں وہی سب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو باقی سیاست دان کرتے ہیں ؟ خان صاحب تو تبدیلی اور انصاف کا نعرہ لے کر چلے تھے لیکن اقتدار کے لیے وہ اس پارٹی سے بھی ہاتھ ملانے پر رضا مند ہو گئے جس کے لیڈر کے خلاف وہ لندن میں مقدمہ کرنے کا دعوی کیا کرتے تھے۔ کیا عمران خان پہلے غلط تھے اور انہوں نے الطاف حسین پر جو الزامات لگائے وہ سب جھوٹ تھا ؟ اگر ایسا تھا تو پھر خان صاحب کو نہ صرف الطاف حسین سے بلکہ اس قوم سے بھی معافی مانگنی چاہیے جسے وہ بے وقوف بناتے رہے ۔ اور اگر عمران خان اس وقت درست تھے تو اس کا مطلب ہے وہ اب ” عام آدمی“ کا سودا کر چکے ہیں کیا خان صاحب اپنے اس عمل پر” عام آدمی“ سے معافی مانگنے کے جرات رکھتے ہیں ؟؟

عام آدمی خان صاحب کے ساتھ اس لیے ہے کیونکہ اس ”عام آدمی“ کو انصاف اور تبدیلی کی تلاش ہے ۔ یہ عام آدمی دوسرے ”عام آدمیوں “ کے ساتھ کھڑا ہو کر عوام بنتا ہے ۔ خان صاحب کے نعرے اور بیانات عام آدمی کے لیے کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں ۔ عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ اس عام آدمی کا سودا نہ کریں ۔ اپنے اصولوں اور قوانین کو اقتدار کے لالچ میں قربان نہ کریں ۔ میں نے کسی دوسری پارٹی کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ عوام ان پارٹیوں کو آزما چکے ہیں جبکہ خان صاحب سے عوام کو بہت امیدیں ہیں لیکن خان صاحب نے تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگا کر اگر اسی ڈگر پر چلنا ہے جس سے عوام تنگ آ چکے ہیں تو پھر انقلاب کیسے آئے گا؟ اگر خان صاحب نے انہی لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہے جو کرپٹ اور بے ایمان ہیں اور پہلے ہی عوامی دولت لوٹنے میںاپنا ثانی نہیں رکھتے تو پھر تبدیلی کہاں آئے گی؟ دوسری پارٹیوں سے کرپشن کی بنا پر دھتکارے ہوئے لوگ، جعلی ڈگری یافتہ یعنی قانون اور عوام کو دھوکہ دے کر اقتدار میں آنے والے لوگ، عوامی دولت لوٹنے والے اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کا اکٹھا کر کے خان صاحب حکومت بنانا چاہتے ہیں تو تبدیلی کیسے ممکن ہے؟ خان صاحب یہ گارنٹی کیسے دے سکتے ہیں کہ مشرف کی باقیات اور ہر بار کسی نہ کسی بہانے اقتدار میں رہنے والے اپنی روش بدل دیں گے یا کرپشن سے باز آ جائیں گے؟ اگر خان صاحب اقتدار کے لیے اپنے اصول توڑ رہے ہیں اور ہر اس پارٹی سے ہاتھ ملانے پر رضا مند ہو چکے ہیں جس پر وہ خود سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں تو پھر معاف کیجئے گا مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ خان صاحب عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ انقلاب آیا تو صرف اتنا آئے گا کہ ایک چہرہ بدل جائے گا لیکن نہ تو کرپشن ختم ہو گی اور نہ ہی مہنگائی۔ یہ نظام بھی ویسے ہی رہے گا اور لوٹنے والے بھی اقتدار میں ہوں گے، نقصان صرف عام آدمی کا ہو گا ۔ خان صاحب سے درخواست ہے کہ اس وقت آپ تبدیلی لانے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں لیکن خدارا عام آدمی کی امنگوں کا خون مت کیجئے ۔ اقتدار کے لالچ میں اصول اور قوانین مت توڑیں ورنہ ”عام آدمی“ کا یقین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لیڈروں سے اٹھ جائے گا -
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 50037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.