سورہ بقرہ میں جہاد اور قتال کا حج اور بیت حرام سے ربط

ڈاکٹر صلاح الدین عبد الحلیم سلطان

میں نے سورہ حج کے پہلے حصہ کی منفرد خصوصیات کے ذیل میں یہ بات ذکر کی ہے کہ قتال کی پہلی اجازت سورہ حج میں آئی ہے، اور پوری سورہ کا ماحول، کافروں کے تعلق سے اس کی شدت اور سختی، نیز مومنوں کے حق میں نصرت اور غلبے کا وعدہ ، اس ربط اور تعلق سے کافی مناسبت رکھتا ہے جو حج اور قتال وجہاد فی سبیل اللہ کے درمیان پایا جاتا ہے، سورہ حج میں اس ربط وتعلق کو دیکھ کر میرے اندر یہ داعیہ پیدا ہوا کہ میں پورے قرآن کا مطالعہ کروں کہ آیا یہ سورہ حج کے ساتھ خاص ہے یا پھر قرآن کے ان دیگر مقامات پر بھی ایسا ہی ہے، جہاں بیت حرام، قبلہ اور حج کے شعائر کا تذکرہ آیا ہے۔ذیل کے نصوص میں قتال وجہاد اور حج کے درمیان قرآن کی ان سورتوں کی روشنی میں کچھ باتیں پیش کروں گاجن کے اندر مسجد حرام، اور شعائر حج کا تذکرہ موجودہے:

اول: سورہ بقرہ:
۱۔ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِ‌قُ وَالْمَغْرِ‌بُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّ‌سُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّ‌سُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَ‌ةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ قَدْ نَرَ‌ىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْ‌ضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِ‌فُونَهُ كَمَا يَعْرِ‌فُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَ‌اتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ كَمَا أَرْ‌سَلْنَا فِيكُمْ رَ‌سُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَ‌اتِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الصَّابِرِ‌ينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرَ‌حْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ مِن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ‌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ‌ عَلِيمٌ ۔ (البقرہ: ۱۴۲ تا ۱۵۸) ان آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:(احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے؟ تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے رستے پر چلاتا ہے۔ اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلہ پر تم (پہلے) تھے اُس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور رحمت والا ہے۔ (اے محمدﷺ!) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیرپھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں پس ہم تمہیں اسی قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور تم لوگ جہاں ہوا کرو (نماز پڑھنے کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کر لیا کرو اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) اُن کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بے خبر نہیں ہے۔ اور اگر تم ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آؤ تو بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں اور تم بھی اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو اور اُن میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرو نہیں ہیں اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمہارے پاس دانش (یعنی اللہ کی وحی) آ چکی ہے، اُن کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (پیغمبر آخر الزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں مگر ایک فریق اُن میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔ (اے پیغمبر یہ نیا قبلہ) تمہارے رب کی طرف سے حق ہے تو تم ہر گز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔ اور ہر ایک (فرقے) کے لئے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو۔ تم جہاں ہوں گے اللہ تم سب کو جمع کر لے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو بلاشبہ وہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ (کر کے نماز پڑھا) کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (۔وہ الزام دیں تو دیں) سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو۔ جس طرح منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک بناتا اور کتاب (یعنی قرآن) اور دانائی سکھاتا ہے اور ایسی باتیں بتاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔ پس تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُن کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے۔ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرے والوں کو (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔ بیشک (کوہِ) صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اُس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے﴾ اور جو کوئی نیک کام کرے تو اللہ تعالیٰ قدر شناس اور دانا ہے۔﴾

یہ آیات مسجد اقصی سے مسجد حرام کی جانب تحویل قبلہ پرزور دیتی ہیں اور اس کا تعلق شہادت علی الناس کے فریضہ سے ہے، نیز تمام مقدسات سے متعلق ذمہ داری کی وارث امت مسلمہ کو قرار دیتی ہیں، لیکن اس واقعہ کی قابل ذکر بات جس کا میں نے اپنی کتاب ’قبلتنا بین امۃ راکدۃ ورائدۃ‘ میںذکر کیا ہے وہ یہ کہ تحویل قبلہ مسلمانوں کا ایک داخلی مسئلہ تھا، اس کا خاص اسلام اور مسلمانوں سے تعلق تھا، لیکن دشمنان اسلام نے بالخصوص یہودیوں نے اس واقعہ کو لے کر ایسی کہانی گڑھی جس میں اللہ برتر کی ذات اور مسلمانوں کے سلسلہ میں بدکلامی تھی، انہوں نے اللہ کے متعلق کہا کہ اس پر بداء جائز ہے، یعنی وہ ایک بات کہتا ہے اور پھر اس بات سے پلٹ جاتا ہے، حالانکہ وہ ذات برتر اس عیب سے پاک ہے، انہوں نے مسلمانوں کے حق میں بھی بدکلامی کی، انہوں نے کہا:سَیَقُولُ السُّفَہَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَن قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُواْ عَلَیْْہَا۔(البقرہ: ۱۴۲) ( احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے؟)۔ اس سخت انداز میں اللہ تعالی نے ہمارے دشمنوں کے موقف کو بیان کیا ہے، حالانکہ ان کو یقین ہے کہ ہمارا قبلہ ہی درست اور حق ہے لیکن وہ اس کی اتباع نہیں کرسکتے، پھر اللہ تعالی ہمارے تعبدی خصائص سے التزام پراور مسجد حرام کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرنے پر زور دیتا ہے، اور اس کا ایک ہدف بھی قرآن میں بیان فرمایا ہے: وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۔ وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْْکُمْ حُجَّۃٌ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَلأُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔ (البقرہ: ۱۴۹ تا ۱۵۰) (اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ (کر کے نماز پڑھا) کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (۔وہ الزام دیں تو دیں) سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو۔)،

اس منظر کا اختتام جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری اور اس کے اسلامی ارکان کو پورا کرنے سے متعلق ہے، وہ اسلامی ارکان ہیں علم، تزکیہ، ذکر وشکر، صبروصلوۃ، قتال کی تیاری، جان ومال اور پھلوں کی قربانی کیونکہ ان چیزوں میں اللہ کے یہاں اضافہ ہوتا ہے اور پروان چڑھتی ہیں۔ اور اس قربانی سے بندہ رحمت، ہدایت اور نعمتوں سے نوازا جاتا ہے، جیساکہ سابقہ آیات ۱۵۴ سے ۱۵۷کے دوران مذکور ہے، یہ ان مصائب پر صبر کی بات ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کے نتیجے میں لاحق ہوتے ہیں، کبھی کبھی نص کو سیاق سے الگ کرکے دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ضعف، کاہلی اوررسوائی جیسے امراض پر صبر کی دعوت دینے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں دشمنوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ مسلمانوں کے دل میں خوف اور ڈر بیٹھادیں، اور ہمارے ذخائر ہم سے لوٹ لے جائیں، جس کے نتیجے میں ہم بھوک اور کھانے پینے سے محرومی کے شکار بن جاتے ہیں، اس سے اس ذمہ داری اور قتال کے درمیان رشتہ واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے کہ اس منظر کا اختتام حج کے ایک رکن سے ہورہا ہے اور وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی ہے، جس کا ذکر آیت ۱۵۸ میں آیا ہے۔ نتیجہ قطعی طور سے معلوم ہے اور یہ معنی اور سنددونوں اعتبار سے ثابت ہے کہ ہمارے دشمن ہم کو اپنے قبلے کی جانب رخ کرکے نماز کی ادائیگی کرتے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ اپنی کوشش کرڈالیں گے کہ کسی طرح ہمیں اس سے روک دیں، اور ہمارے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے گہرا ایمان، جہاد کی تیاری اور خوف، بھوک، مال واسباب کی کسی بھی قلت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا اور صبر کے زیور سے آراستہ ہونا کہ جس کا ذکر اس قطعہ میں تین مرتبہ آیا ہے۔

۲۔ سورہ بقرہ کی آیات ۱۸۹ سے ۲۱۸ کے درمیان ایک انوکھامنظر بیان ہوا ہے، اس میں حج اور مناسک حج کی آیات کو جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کی آیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس کو ذیل میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

فرمان الہی ہے: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔(البقرہ:۱۸۹) (اے محمد ﷺ!۔) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں اُن کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکوکار وہ ہے جو پرہیز گار ہو۔ اور گھر میں اُن کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ۔)

اس میں اللہ تعالٰی چاند کے بارے میں بیان فرماتا ہے کہ یہ لوگوں کے کام کی میعادیں معلوم کرنے کے لیے ہے، اس کے بعدکی آیات کے اندر مضبوط انداز میں قتال کے بارے میں گفتگو ہے، ارشاد باری ہے: وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِ‌جُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَ‌جُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ بِالشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ وَالْحُرُ‌مَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ۔(البقرہ: ۱۹۰ تا ۱۹۴) ( اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اور ان (کافروں) کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے (یعنی مکہ سے) وہاں سے تم بھی اُن کو نکال دو اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل و خونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں اُن سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم اُن کو قتل کر ڈالو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔ اور اگر وہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔ اور اُن سے اُس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہو جائے اور (ملک میں) اللہ ہی کا دین ہو جائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں توظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہئے) ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلا ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اُس پر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کیساتھ ہے ۔)،

ان آیات میں ان سے جنگ کا حکم ہے جو ہماری جانب سے بغیر کسی زیادتی کے ہم سے قتال کرتے ہیں، اور کہا گیا کہ ان ظالموں کو جہاں بھی پائیں انہیں قتل کردیں۔ انہوں نے جیسے ہم کو دیس نکالا دیا ہے ہم بھی انہیں دیس نکالا دے دیں۔ کیونکہ انسانیت کو جس فتنہ میں یہ لوگ مبتلا کررہے ہیں وہ قتل سے بڑھ کر ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں اور مردوں عورتوں بلکہ بچوں کو بھی شراب وکباب کی محفلوں میں لے جاکر تباہ کردیا جاتا ہے، یہ بھی شرعی طور سے جہاد کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کہ نئی نسل کو اس فتنہ سے بچاکر رکھا جائے، وہیں آیت ۱۹۰ میں کہا گیا مسجد حرام کے پاس مشرکین سے قتال جائز نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اس میں پہل کربیٹھیں۔ یہ اللہ علیم وخبیر کی جانب سے ایک آیت کے اندربیان کردیا گیا ہے کہ ممکن ہے مشرکوں کا ظلم وزیادتی اوران کے لشکر مسجد حرام تک پہنچ جائیں، اورذیل کی آیت میں: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ‌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ‌ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُ‌دُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْ‌تَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ‌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۔ (البقرہ: ۲۱۷) ’’فیہ‘‘ کا لفظ یہ معنی رکھتا ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ محض مسجد حرام کی سرزمین ہی پر دراندازی نہیں کریں گے بلکہ حرم تک بھی وہ دراندازی کرسکتے ہیں، پھر صاف صاف یہ بات بھی بیان کردی گئی کہ اگر وہ مسجد حرام میں ہم سے برسرپیکار ہیں تو ان کا خون مباح ہے پھر اس کے بعد جہاد کی چرخ اٹھادی جاتی ہے اور کہا گیا کہ یہ محض مسجد حرام اور ارض مقدسات پر دراندازی کے سدباب کے لیے نہیں ہے بلکہ فتنوں کے سدباب کے لیے ہے، فرمان الہی ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۔ (البقرہ: ۱۹۳) (اور اُن سے اُس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہو جائے اور (ملک میں) اللہ ہی کا دین ہو جائے۔) ، پھر کلام کا رخ مکان مقدس یعنی مسجد حرام اور اس کے اطراف اور ایک مدت یعنی محترم مہینوں کی طرف موڑ دیا گیا، پھر کہا گیا کہ جو بھی ہم پر زیادتی کرے، ضروری ہے کہ ہم اس کو اسی جیسابدلہ دیں، مجھے اس قدر مضبوط ربط وتعلق، اسباب کا ذکر اور زمان ومکان کا اس قدر احاطہ کہیں اور نہیں ملتا، جیساکہ ان واضح اور قطعی آیات کے اندر ملتا ہے کہ جن کا مفہوم بالکل واضح ہے، ایک بندہ مومن کا یہ شیوہ ہونا چاہئے کہ وہ ان تقاضوں کو سمجھے گرچہ کہ کتنا ہی میڈیاآوازیں لگاتا رہے اور ہمیں اس بات کی دعوت دیتا رہے کہ ہم ہاتھ اٹھا لیں، ذلت اور رسوائی قبول کرلیں، اور کفار کے سرغنہ لوگوں کے ذریعہ عار قبول کرلیں خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، یہودی صہیونی ہوں یا عیسائی اور کوئی بھی فتنہ پرور ہوں، آج میڈیا کا یہ عالم ہے کہ وہ جہاد کی ہر ہر قسم کو یہ نام دے رہا ہے کہ اس میں تشدد ہے، دہشت گردی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے حکم کو من وعن تسلیم کرلینا ہی اصل حکمت ہے، بلکہ یہ وہ حقیقت ہے کہ اس کے بغیر ہم عزت وسربلندی سے ذلت ونکبت کی جانب چلے جائیں گے، غلبہ اور اقتدار کے بجائے محرومی اور مغلوبیت ہمارے ہاتھ آئے گی، ہم زمین پر اللہ کے خلیفہ کی جگہ ایک کمزور مخلوق بن کر رہ جائیں گے، ہماری خوشحالی فقروفاقہ میںتبدیل ہوجائے گی۔


قرآن کی ایک طویل ترین آیت ہے، جس میں مناسک حج کا تذکرہ آیا ہے، وہ ہے: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ۔ (البقرہ: ۱۹۶) (اور اللہ (کی خوشنودی) کیلئے حج اور عمرے کو پورا کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اُس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سرمنڈا لے تو) اُس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دُور ہو کر) تم مطمئن ہو جاؤ تو جو(تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایامِ حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ اور یہ حکم اس شخص کیلئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔)، اس آیت سے پہلے ایک اہم ترین آیت گزری ہے جس میں جہاد اور قتال کی تیاری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں مال، محنت اور وقت اور ہر اہم اور غیر اہم چیزکو ہم اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالیں، یہاں تک کہ وہ وقت نہ دیکھنا پڑے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، بلکہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کریں، جیساکہ فرمان الہی ہے: وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِین۔ (البقرہ:۱۹۵) (اور اللہ کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔)،

تعجب کی بات یہ ہے کہ اس آیت کا غلط مفہوم امت اسلامیہ کے عام افراد کے اندر ذلت اور پستی کے اسباب میں سے ایک سبب بن گیا بلکہ صحابہ کے زمانے میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ ایک بہادرترین نوجوان کسی غزوہ کے دوران ایک طویل حصاربندی کے بعددیوار پھلانگ بیٹھا اور چیختا ہوا کفار کے لشکر تک جاپہنچا، بعض مسلمانوں نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا، صحابیٔ رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ نے یہ سنا تو غضبناک ہوگئے، کہنے لگے:’’ تم نے آیت کا غلط مفہوم بیان کیا ہے، یہ آیت تو ہم انصار مدینہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی، جب اللہ نے اپنے دین کو سربلندی عطا کی، تو ہم نے کہا: کہ ہم اپنی تجارت وغیرہ کی جانب متوجہ ہوکر اسے بہتر بنالیتے ہیں، تو یہ آیات نازل ہوئی۔‘‘(تفسیر البحر المحیط، ابوحیان الاندلسی، بقرہ:۱۹۵، اس کی تخریج ترمذی نے کی ہے(۴!۷۳)، وہ کتے ہیں کہ یہ حس غریب صحیح روایت ہے، ابن حبان نے موارد الظمآن میں اس کو ذکر کیا ہے:ص:۴۰۱، ابواداؤد نے(۲۹۲)، حاکم نے(۲!۱۷۵) اور حاکم کہتے ہیں کہ یہ صحیحین کی شرائط پر ہے، اسی بات کی ذہبی نے بھی تائید کی ہے، لیکن اس میں اسلم ابوعمران کا ذکر ہے اور یہ شیخین کے رجال میں نہیں آتے ہیں، لیکن ابن حجر کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں۔)، اس طرح سے بنیادی طور پر یہ نفقہ جہاد وقتال ہی سے متعلق ہے، اس آیت کا حج کی آیات سے قبل آنا اسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے، اس کے بعد کی آیت میں حج، مناسک حج، آداب حج سے متعلق گفتگو ہے کہ جھگڑے، فسق اور رفث کو چھوڑ دیا جائے، عرفات میں افاضہ کیا جائے اور منی کے ایام میں اللہ رب العزت کو خوب خوب یاد کیا جائے، یہ ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو جلدی آگئے اور ان کے لیے بھی جنہوں نے تاخیر کی۔ان آیات کے اختتام پر ایک آیت وارد ہوئی جس کے معنی اور مفہوم بالکل واضح ہیں اور وہ قطعی طور سے قتال کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، خواہ نفس پر کتنا ہی گراں بارگزرے یا کتنے ہی بیرونی خطرات درپیش ہوں، فرمان الہی ہے: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْ‌هٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَ‌هُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ‌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ۔ (البقرہ:۲۱۶) (تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگی اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور (ان باتوں کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔)، اس کے بعد ہی ایک طویل آیت آئی ہے جس میں اللہ کے دشمنوں کی جانب سے محترم مہینوں میں قتال کا آغاز کردینے پر قتال کرنے سے متعلق گفتگو ہے، جیساکہ عبداللہ بن جحش کے سریہ کے ساتھ ہواتھاکہ انہوں نے عمروبن الحضرمی کے قافلہ پر یلغار کردی، متعدد مشرکین کو قتل کیا، اور سارا سامان ہانک لے گئے، انہوں نے ایسا اس وجہ سے کیا تھا کہ ان کے سامنے صرف دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ محترم مہینوں میں قتال کریں یا محترم سرزمین کے اندر قتال کریں، انہوں نے محترم مہینوں کو اختیار کیا کہ یہ وقتی طورپر محترم ہوتے ہیں جب کہ وہ سرزمین تو ہمیشہ اور سال کے تمام ایام کے لیے محترم قرار دی گئی ہے۔ جب مشرکوں نے یہ بات پھیلانی شروع کردی کہ مسلمان عام معاہدوں اور قبائل کے معروف کلچر کا احترام نہیں کرتے تو اس خطرناک تشہیر سے مسلمانوں کو کافی ملال ہوا، اور عبداللہ بن جحش کے سریہ کا کسی نے کوئی پرتپاک استقبال تک نہیں کیا، جیساکہ فتحیاب لشکروں کا خاص طور استقبال کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے ان مجاہدین اور تمام ہی مسلمانوں کی الجھنیں دور کرنے کے لیے واضح واضح آیات نازل فرمادیں:(سیرت ابن ہشام (۲!۵۹ تا۶۰)، س کی روایت بیہقی نے السنن الکبری میں کی ہے، صحیح سند کے ساتھ مرسل روایت کی ہے، ابن ابی حاتم کی روایت مرسل نہیں ہے، غزالی کی فقہ السیرہ کی تخریج میں البانی نے اس کو صحیح کہا ہے، تفسیر الطبری(۲!۴۴۶)، احمد شاکر نے عمدۃ التفسیر میں اس کو صحیح قرار دیا ہے، شوکانی نے فتح القدیر (۱!۳۲۴)میں اس کو صحیح سند سے روایت کیا ہے۔﴾

یَسْا يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ‌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ‌ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُ‌دُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْ‌تَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ‌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۔ (البقرہ: ۲۱۷) ((اے محمدﷺ!) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) اور اہلِ مسجد کو اُس میں سے نکال دینا ۔(جو یہ کفار کرتے ہیں) اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔)، ان آیات کے اندرعبداللہ بن جحش کے اجتہاد کو سراہا گیا ہے ، کفار کو ملامت کی گئی ہے جو اللہ کی راہ اور مسجد حرام سے روکتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے: فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (النساء:۶۵) (تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔﴾

اللہ رب العزت نے حقیقت واقعہ بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اپنے ازلی اور ہر چیز پر محیط علم کے ذریعہ ایک عام قانون بھی بنادیاکہ: وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّیَ یَرُدُّوکُمْ عَن دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ۔ (البقرہ:۲۱۷) ( اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔)، اس آیت میں اللہ تعالٰی نے قتال کی علت یہ بیان فرمائی کہ مشرکین سال میں کسی بھی دن ہتھیار نہیں رکھتے ہیں،فعل ماضی کا استعمال نہ کرتے ہوئے اسی وجہ سے فعل مضارع کا استعمال ہوا ہے کہ معلوم ہوجائے کہ وہ ہمیشہ قتال کرتے رہیں گے، بلکہ یہ ہر وقت اس قتال کے لیے تیار رہتے ہیں، ان کا ہدف صرف یہ نہیں ہے کہ ہماری سرزمین پر قابض ہوجائیں، ہمارے مقدسات پر تسلط حاصل کرلیں، ہماری عصمتیں لوٹ لیں بلکہ ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ ہمیں ہمارے دین سے دور کردیں، اسلام سے ہمیں بازرکھیں، ایمان سے ہمیں پھیر دیں، اس کے لیے ہر جگہ اور ہر حالت میں جہاد کی مستقل تیاری درکار ہے۔

حج اور جہاد سے متعلق گفتگو کے اختتام میں فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ يَرْ‌جُونَ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ۔ (البقرہ: ۲۱۸) (جو لوگ ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کیلئے (اپنا) وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔)، ایسا اس وجہ سے ہے کہ جہاد کے تقاضوں میں ایمان اور حرکت بھی شامل ہے، اور جہاد خالص اللہ کے لیے ہونا چاہئے، مقصود صرف اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت ہونی چاہئے۔

میں یہاں یہ بات ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ لفظ ’’کتب علیکم‘‘ سورہ بقرہ کے اندر چھ مقامات پر آیا ہے، ان میں سے تین قصاص، وصیت اور روزے سے متعلق ہیں، جبکہ تین مرتبہ اس کا ذکر مسلمانوں پر جہاد وقتال کی فرضیت کے ذیل میں آیا ہے، اس میں کسی ادنی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ لوگوں پر کوئی چیزفرض کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اعلٰی ترین الفاظ ہیں، مطلب یہ کہ پوری تاکید کے ساتھ فرض کیا جارہا ہے، قرض دیانت کے اعتبار سے صحیح ہوجاتا ہے لیکن قضا کے اعتبار اسی وقت صحیح ہوتا ہے، جبکہ کتابت، شہادت یااقرار موجود ہو، اس طرح قتال کو ہمارے اوپر مکتوب کیے جانے کے دومعانی ہیں کہ فرض ہے اور اس کی توثیق بھی موجود ہے، سورہ بقرہ میں لفظ’کتابت‘ کے ساتھ جن مقامات پر جہاد کا تذکرہ ہے وہ درج ذیل ہیں:
﴿الف) كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْ‌هٌ لَّكُمْ ۔ (البقرہ:۲۱۶) ( تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے اوروہ تمہیں ناگوارہے )۔
﴿ب) هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۔ (البقرہ ۲۴۶) (پیغمبر نے کہا کہ اگر تمہیں جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلوتہی کرو۔﴾
﴿ج) لَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۔(البقرہ:۲۴۶) (لیکن جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے﴾

یہ تین مقامات کا ذکر ہے، ہم ایک چوتھے اور صریح ترین مقام کا ذکر کرتے ہیں، سورہ نساء میں فرمان الہی ہے: لَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَ‌بَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِ‌يبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ۔ (سورہ نساء:۷۷) (بھلا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رہو اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب اُن پر جہاد فرض کر دیا گیا تو بعض لوگ اُن میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑبڑانے لگے کہ اے اللہ! تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کر دیا تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی (اے پیغمبر ان سے) کہہ و کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار کیلئے (نجاتِ) آخرت ہے۔ اور تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔﴾

ان آیات کے اندرمیرے خیال سے حج اور جہاد کے درمیان وہ رشتہ اور تعلق پایا جاتا ہے جس کے اندر کوئی تکلف، تاویل وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہے، مجھے حد درجہ افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر جو قرآن میں اختلاف کرتے پھرتے ہیں، اس کے نصوص کے درمیان اختلاف کرتے ہیں، اس کے احکام کو الگ الگ کردیتے ہیں، ان کے اس عمل سے قرآن کی حالت اس گھر کے جیسی ہوجاتی ہے جس کے تمام اجزاء مختلف مقامات پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن کوئی ایسافرد اس مکان کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے جواینٹوں کو ترتیب سے لگادے، اور دیوار تعمیر ہوجانے کے بعد اس کے اوپر چھت ڈال دے، اور کھڑکی دروازوں اور دوسری مطلوبہ اشیاء کا انتظام کردے، مسلم شریف میں ابن عمر کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اسلام کی عمارت پانچ چیزوں سے استوار ہوتی ہے، اللہ کی توحید، نماز کی اقامت، زکوۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے اور حج۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ العظام، ۱!۱۵۴، بخاری(۴۵۱۴)، صحیح ترمذی للالبانی(۲۶۰۹)، صحیح نسائی(۵۰۱۶)، مسند احمد تخریج: احمد شاکر: ۷!۱۷) یہ بنیاد ہے، عمارت کا باقی حصہ وہ تمام فرائض ہیں جن کی ادائیگی اسلام نے ہمارے ذمہ کی ہے۔

﴿اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید تفصیلات پیش کی جائیں گی﴾۔
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 35192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.