کیا موجودہ تصوف خالص اسلامی ہے ؟ صاحب نظر کی تحقیق پر صاحب دل کی تنقید

یہ مضمون علامہ اُسید الحق صاحب قادری بدایونی دامت برکاتہم القدسیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں، انڈیا) کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے

تصوف صدیوں سے اہل علم کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ،ادوار زمانہ کے ساتھ بحث کی جہتیں بھی مختلف ہوتی گئیں-صدیوں کے اس علمی اور نظریاتی سفر میں تصوف کو جہاںقدم قدم پر ایسے لوگ ملے جنہوںنے اپنا سب کچھ نثار کر کے اس قافلہ ٔ عشق ومستی میں شامل ہونا اپنی سعادت سمجھا ،تو وہیں ہر موڑ پرتصوف کو ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑا جنہوں نے اس سفر کو بے سمت اور اس پورے کارواں ہی کو گم کردہ راہ قرار دیا -جہاں تک تصوف کے مخالفین کا سوال ہے تو ان کو ہم متعدد طبقات میں تقسیم کر سکتے ہیں،ان میں وہ ظاہر پرست علما بھی ہیں جنہوں نے اس کو روح اسلام کے منافی ثابت کر نے کی کوشش کی،خود کو ’’موحد‘‘کہنے والے وہ زاہدان خشک بھی ہیں جنھوںنے اس کو بدعات وخرافات کا مجموعہ قراردیکر در خور اعتنا نہیں سمجھا،ان مخالفین میں وہ جدت پسند محققین بھی ہیں جنھوںنے اس کو امت کے لیے افیون قرار دیکر ٹکسال باہر کر دیا ،کچھ لوگوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور تصوف کو ’’چنیا بیگم‘‘کا لقب دیکر اس سے برأت کا اعلان کر دیا -

یہاں اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ تصوف کو کسی دور میں اس کے مخالفین سے وہ نقصان نہیں پہونچا جو اس کے نادان دوست اپنی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے پہونچا گئے -تصوف کی آڑ لے کر بے بنیاد عقائد ومراسم کو سند جواز عطا کرنے والوں کی کمی نہیں ،بے شمار بدعات وخرافات اور خلاف شرع امور کو اسی راہ سے جوازواستحسان کا درجہ حاصل ہوا ،رنگ برنگے کپڑے پہننے والے نام نہاد صوفیا اور فقرا کے لیے اسی کے نام پر کھلم کھلا شریعت مطہرہ کی مخالفت کا دروازہ کھلا-بقول اقبالؔ-ع-
بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست
اس قسم کے نادان دوستوں سے دو طرح کا نقصان پہونچا ،ایک تو تصوف کی اصل شکل مسخ ہوگئی ،اور دوسری طرف ظاہر پرستوں کو تصوف کی مخالفت کے لیے موادمل گیا -

اسی سلسلہ میں بدایوں کے ایک علمی خاندان کے فرزند پروفیسر ضیا احمدصدیقی بدایونی مرحوم(ولادت ۱۸۹۴ء وفات ۱۹۷۳ء )سابق صدر شعبۂ فارسی مسلم یونیورسٹی علیگڑھ نے آج سے لگ بھگ ۶۵ سال قبل ایک طویل مضمون بعنوان’’کیا موجودہ تصوف خالص اسلامی ہے؟‘‘ تحریر فرمایاتھا،یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ پروفیسر ضیا احمد صاحب کا شمار بدایوں کے ان فرزندوں میں ہوتا ہے جن پر سرزمین بدایوں کو بجا طور پر فخر ہے موصوف کے وسیع مطالعے،تاریخ پر گہری نظراور معقولی انداز استدلال کے پیش نظر اس مضمون کو ایک وقیع علمی کاوش کہا جاسکتا ہے،مضمون کے مندرجات سے کلی یا جزوی اختلاف واتفاق سے قطع نظر حق تو یہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے تحقیق وتنقید کا حق ادا کردیا ہے-اس طویل مضمون میں انہوںنے تاریخ تصوف کا جائزہ لیتے ہوئے تصوف کے مخالفین وموافقین کے نظریات کوتحقیق کی کسوٹی پر پرکھاہے ،پھرتصوف کے بنیادی مسائل اور ان کے مضمرات ونتائج پر سنجیدہ پیرایہ میں اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا ہے،مگر چونکہ ’’مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی تھی‘‘اس لیے جب مذکورہ مضمون شہزادۂ تاج الفحول حضرت مولانا مفتی عبدالقدیر عاشق الرسول قادری بدایونی قدّس سرّہ (ولادت۱۳۱۱ھ وفات ۱۳۷۹ھ مطابق۱۸۹۳ئ؍۱۹۶۰ئ)کی نظرسے گزرا تو آپ نے تصوف اور صوفیہ کا دفاع کرتے ہوئے ایک علمی اور سنجیدہ تحریر سپرد قلم فرماکر بصورت مکتوب پروفیسر صاحب موصوف کو ارسال کی،آپ نے اپنی تحریرمیں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو عام طور سے تصوف کی طرف سے اہل علم کے ذہن میں پیدا ہو گئی ہیں،ساتھ ہی ان نادان دوستوں کی بھی تردید کی ہے جنہوںنے تصوف کو بازیچۂ اطفال بنا کراس کی روح کو مردہ اور اس کی شکل کو مسخ کردیا -

زیر نظر مضمون میں ہم پروفیسر صاحب کی تحقیق اور اس پر حضرت عاشق الرسول کی تنقید ہدیۂ قارئین کریں گے ،خیال رہے کہ اس مضمون کامقصد تصوف کے سلسلہ میں کسی نئی بحث کا آغاز کرنا نہیں ہے،اور نہ ہی دو اہل علم کے درمیان محاکمہ کرنا مقصود ہے ،اس مضمون کو سپرد قلم کرتے وقت تین امور پیش نظر ہیں-پہلاتو یہ کہ حضرت عاشق الرسول کی تحریر سے تصوف کے سلسلہ میں ذہنوں میں پائی جانے والی بعض غلط فہمیاںکسی حد تک دور ہونگی ،دوسرا یہ کہ حضرت عاشق الرسول کے وسعت مطالعہ ،تصوف وتاریخ تصوف پر گہری نظر اور غیر معمولی تنقیدی بصیرت کو اجاگر کیا جاسکے گا ،تیسرا یہ کہ حضرت عاشق الرسول قدس سرہ کی تحریرسے یہ ا ندازہ بھی ہوگا کہ اپنے مخالف پر طنزوتعریض اور اس کی تحقیر وتوہین کے بغیر بھی داعیانہ اور عالمانہ اسلوب میں کس طرح احقاق حق اور ابطال باطل کا مقد س فریضہ ادا کیا جا سکتا ہے -

پروفیسر صاحب کا مضمون سہ ماہی’’ مصنف‘‘علی گڑھ ( شمارہ جنوری تا مارچ ۱۹۴۲ئ)میں شائع ہوا تھا ،یہ مضمون (ص:۱۲۷تاص:۱۴۸)

بائیس صفحات پر مشتمل ہے ،مضمون کی فوٹو کاپی اس وقت ہمارے پیش نظر ہے- حضرت عاشق الرسول کا تنقیدی مکتوب ساڑھے پانچ صفحات پر مشتمل ہے ،اس پر تاریخ وسن درج نہیں ہے ،یہ مکتوب حضرت کے بڑے صاحبزادہ مولانا عبد الہادی محمد میاں قادری علیہ الرحمۃ(سابق استاذ شعبۂ عربی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباددکن)کی تحریر میں ہے اور آخر میں حضرت عاشق الرسول کے دستخط ہیں،یہ مکتوب کتب خانہ مدرسہ قادریہ بدایوں کے ذخیرہ مخطوطات میں محفوظ ہے ،پروفیسر ضیا احمد صاحب کے نام مشاہیر کے خطوط بعد میں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کیے گئے تھے اس مجموعہ میں بھی مذکورہ مکتوب کاکچھ حصہ شائع کیا گیا ہے -ان ضروری وضاحتوں کے بعد اب ہم صاحب نظر(پروفیسر صاحب) کی تحقیق اور صاحب دل(حضرت عاشق الرسول)کی تنقید کی طرف آتے ہیں-

پروفیسر صاحب نے مضمون کا آغاز عشق حقیقی اور عشق مجازی پر ایک دل آویز تمہید سے کیا ہے ،وہ عشق کو ایک شراب قرار دیتے ہیں،اور اس کی مستیوں کا تذکرہ کرکے آخر میں فرماتے ہیں :
’’آج کی صحبت میں ہمیں یہ جستجو کرنی ہے کہ یہ شراب خاص میکدۂ اسلام کی کشید کی ہوئی ہے یاکسی باہر کے شراب خانہ سے لائی گئی ہے‘‘-

اس سلسلہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصوف کا اصل ماخذ کیا ہے؟یہ خوش نماپودا کس نے لگایا؟ابتدا میں کس نے اس کی آبیاری کی ،اور اس کا حسن وجمال کس کے ہنرِ چمن بندی کا رہین ِمنت ہے؟اس سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے کافی تفصیلی بحث کی ہے ،ان کے نزدیک اس سلسلہ میں پانچ نظریے ہیں:
(۱) تصوف ایک خود رو پودے کی طرح ہے جو مناسب زمین پاکر اگتا اور پھولتا پھلتا رہا ،اسلام میں بھی کسی داخلی یا خارجی اثر کے بغیر یہ تحریک از خود پیدا ہوئی اور موافق حالات میں ترقی پکڑ گئی-
(۲)تصوف سامی مذہب کے خلاف آریائی دماغ کا رد عمل ہے -
(۳)صوفیانہ عقائد مسیحی افکار کے مرہون منت ہیں-
(۴)یہ عقائد فلسفۂ یونان کی صدائے باز گشت ہیں-
(۵)تصوف عین تعلیمات اسلام کا خلاصہ اور ارشادات کتاب وسنت کا عطر ہے -

پروفیسر صاحب نے ان پانچوں نظریات کے دلائل بغیر تائید یا تردید کے ذکر کیے ہیں،جو تقریباً ۹ صفحات (ص:۱۲۸تاص:۱۳۶)پر محیط ہیں-اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اولین چار نظریات کو باطل قرار دیتے ہیں جب کہ پانچویں نظرئے سے جزواً انہیں اتفاق ہے اور جزواًاختلاف،اس کے بعد اسلامی تصوف کی تاریخ کا ایک سرسری خاکہ پیش کیا ہے -
حضرت عاشق الرسول کے خط کی ابتدا ان الفاظ میں ہوتی ہے :
’’اعزواکرم مولانا ضیا احمد زید مجدہ بارک اللہ لہ-السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ -الحمد للہ علی کل حال- عنایت نامہ مؤرخہ ۲۴ کل موصول ہوا اور آج جواب لکھ رہا ہوں،اس سے قبل آپ کا کوئی خط آنا یاد نہیں ،میں کوتاہ قلم ضرور ہوں مگر نہ اس قدر کہ آپ کے خط کا جواب نہ دیتا ‘‘-
اس کے بعد کچھ ذاتی نوعیت کے امورتحریر فرما کر حضرت لکھتے ہیں:
’’آپ کا مضمون تصوف وصول ہوا ،اول سے آخر تک ایک ساتھ پڑھ گیا ،بعض احباب نے مبالغہ سے کام لیا تھا ،اتنا سخت تو نہیں ،تا ہم اصولی طور سے بہت سے امور متکلم فیہ ہیں‘‘-

اس کے بعد تصوف کے بنیادی نظرئیے ’’مسئلہ وحدۃ الوجود‘‘پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مختصریہ کہ میرے نزدیک عقیدۂ توحید وجودی بیرونی اثر کا نتیجہ نہیں،بلکہ وہ حقیقت واقعہ کے طور پر ہر اس شخص پر منکشف ہوتا ہے جو احسان کے اعلیٰ مدارج پر فائزہو،پھر ان میں سے بعض حضرات نے اس کو بغلبۂ شوق علم سینہ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کردیاجس سے عوام میں فتنہ برپا ہوگیا اسی باعث اکثر اکابرین نے سکوت فرمایا اور بجز محرم راز دوسرے سے کچھ نہ کہا یہی طریق احوط ہے، ظاہر ہے کہ عوام الناس نہ اس کے لیے مکلف ہیں اور نہ مکلف ہو سکتے ہیں‘‘-

اس کے بعد پروفیسر صاحب کے پیش کردہ تاریخ تصوف کے خاکہ پر چند تنقیدی اشارات فرمائے ہیں -سب سے پہلے صوفی کے لقب سے کون بزرگ ملقب ہوئے ؟اس کے بارے میں پروفیسر صاحب فرماتے ہیں:
’’پہلے شخص جو صوفی کے لقب سے ملقب ہوئے وہ ابو ہاشم کوفی معاصر سفیان ثوری تھے ،بعض کے نزدیک اس لقب سے پہلے مشہور ہونے والے جابر بن حیان کوفی تھے‘‘-

مگر حضرت عاشق الرسول اس تحقیق سے متفق نہیں ہیں،آپ فرماتے ہیں:
’’آپ ناراض نہ ہوںبعض دیگر امور کی طرف بھی چند اشارات مناسب معلوم ہوتے ہیں،مضمون کے پہلے دس صفحات تاریخ تصوف پر محتوی ہیں،جن میں بہت سے امور متکلم فیہ ہیں،لیکن چند امور پر اکتفا مناسب معلوم ہوتا ہے ،علامہ شعرانی نے تحقیق فرمائی ہے کہ سب سے پہلے لفظ صوفی حضرت حسن بصری کے لیے استعمال ہوا ‘‘-

اسلام کے ابتدائی ادوار میں تصوف زاہدانہ زندگی،شب بیداری ،پبلک لائف سے کنارہ کشی ،اور قناعت پسندانہ طرزحیات سے عبارت تھا ،اس میں عقیدۂ وحدۃ الوجودیا توحید وجودی کے نظریہ کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب فرماتے ہیں:
’’حضرت بایزید اور شیح جنید سے پہلے تصوف ایک خاص قسم کی زاہدانہ اور قناعت پسندانہ زندگی کا نام تھا ،ان دونوں بزرگوں نے وحدۃ الوجود کا نغمہ اس لَے سے چھیڑا کہ درودیوار گونجنے لگے ‘‘-
حضرت عاشق الرسول کے نزدیک عقیدۂ وحدۃ الوجود کی ابتدا حضرت بایزید اور شیخ جنید سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیاد تو خلافت راشدہ ہی میں پڑ گئی تھی-آپ فرماتے ہیں:
’’سید الطائفہ اور حضرت بایزیدنے وحدۃ الوجود کا نغمہ سب سے پہلے نہیں چھیڑا بلکہ سب سے اول سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ لبیدبن ربیعہ کے اس مصرع کی مدح فرماکر اس عقیدہ کی توثیق فرمائی’’الا کل شیٔ ما سوااللہ باطل‘‘اس سے زیادہ تو کسی نے کچھ نہیں کہا،جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ اسی اجمال کی تفصیل ہے ‘‘-
ان دونوں بزرگوں کے مدتوں بعد تک عقیدۂ وحدۃ الوجود صرف علم سینہ کی حد تک رہا ،علم سینہ سے سب سے پہلے کس نے اس کوفلسفیانہ رنگ دیا؟اس بارے میں پروفیسر صاحب رقم طراز ہیں:
’’ان کے (حضرت جنید وبایزید کے)مدتوںبعد شیخ محی الدین ابن عربی نے وحدۃ الوجود کو جو اب تک ایک وجدانی اور ذوقی چیز سمجھی جاتی تھی عقلی اور استدلالی جامہ پہنا دیا اور تصوف کو خالص فلسفہ بنا دیا -ان کی تصانیف آج تک خواص اہل علم میں اس فن کے غوامض اسرار کی حامل مانی جاتی ہیں-خدا رحمت کرے امام غزالی پر انہوں نے اپنی مجتہدانہ تصانیف سے اسلامی عقائد کو ان کی اصل صورت میں پیش کیا اور تصوف کو فلسفہ کی غلامی سے بچا لیا ‘‘-
پروفیسر صاحب کی اس رائے پر حضرت عاشق الرسول تنقید فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ابن عربی کو اگر صرف اس لیے فلسفی کہا جائے کہ انہوں نے فلسفہ زدہ گروہ کو عقیدۂ وحدۃ الوجود سے آشنا کرنے کے لیے استدلالی رنگ اختیار کیاتو اور بات ہے ورنہ کہاں فلسفۂ افلاطونی اور کہاں عقیدۂ وحدۃ الوجود-البتہ اگر غزالی کی تصانیف پر غائر نظر ڈالی جائے تو ان کو بجائے صوفی کے فلسفی کہنا زیادہ آسان ہے ‘‘-
تصوف کے ابتدائی مصنفین میں پروفیسر صاحب نے مندرجہ ذیل بزرگوں کا ذکر کیا ہے :
’’تصوف کے ابتدائی مصنفین میںیحییٰ بن معاذ رازی،سید الطائفہ جنید بغدادی،شیخ نصر سراج طوسی،امام ابو القاسم قشیری خراسانی،اور شیخ علی بن عثمان ہجویری لاہوری کے اسماے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں‘‘-
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت تحریرفرماتے ہیں:
’’یہ بات سمجھ میںنہ آئی کہ اس سلسلہ میں ابن منصور کا کیوں تذکرہ نہ ہوا، اس کی قربانی اس قدر بے قیمت تو نہ تھی‘‘-
ابن منصور سے حضرت کی مراد الحسین بن منصور الحلاج البغدادی ہیں آپ کو ذوقعدہ ۳۰۹ھ کو بغداد میں قتل کیا گیا ،آپ کی صوفیانہ تصانیف میں کتاب الطواسین،بستان المعرفہ، البھجہ، حمل النوروالحیاۃ،اور خلق الانسان والبیان مشہور ہیں-بقول پروفیسر صا حب امام غزالی نے اپنی مجتہدانہ تصانیف سے تصوف کو فلسفہ کی غلامی سے بچایا مگر اس کے بعدکیا ہوا خود انہیں کی زبانی سنئے:
’’تاہم فارسی شعرا مثلاً سنائی، عطار، رومی، عراقی، احدی، شبستری، خسرو، حافظ اور جامی نے اپنے اپنے دور میں تصوف کی مئے مرد افگن جس میں وحدۃ الوجود کی چاشنی شامل تھی اس ذوق وشوق سے پی اور پلائی کہ زمین و آسمان سرشار ہوگئے‘‘-
جواباً حضرت فرماتے ہیں:
’’فارسی شعرا نے کون سی اصولی بات لبید سے بڑھ کر کہی ہے،ہاں طرز ادا تو ہر شخص کا جدا ہوتا ہے‘‘-
تصوف ابن عربی کی’’ فلسفیانہ تصانیف ‘‘،امام غزالی کے ’’مجتہدانہ دفاع‘‘اور فارسی شعرا کی ’’خمار آلود شاعری‘‘کے درمیان پروان چڑھتا گیا ،یہاں تک کہ بقول پروفیسر صاحب:
’’ہمارے ہندستان میں حضرت مجدد الف ثانی کا ظہور ہوا ،جنہو ں نے وحدۃ الوجود کے مقابلہ میں وحدۃالشہود کا عقیدہ ثابت کیا،اور اتباع کتاب وسنت پر بہت زور دیا ‘‘-
اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت عاشق الرسول فرماتے ہیں:
’’حضرت مجدد الف ثانی کے باب میں مجھے کچھ زیادہ عرض کرنا نہیں، میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ (قدوۃ السالکین حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر مطیع الرسول قادری بدایونی-اسید) نے حدود مقرر فرمادی ہیں اس کے آگے جانے کی اجازت نہیں،تا ہم یہ کہنا ہے کہ حضرت ممدوح بعض وقت تو کنزو ہدایہ پر اس قدر توجہ مبذول فرماتے ہیں کہ آئینۂ دل کو شکست تام ہوجاتی ہے ،فرماتے ہیں’’در حدیث قال قال بسیار است مرا قول ابو حنیفہ درکا راست‘‘ اور فرماتے ہیں’’مرا حدیث چہ کار قول ابو حنیفہ بیار‘‘مگر جب یہ عرض کیا جائے کہ ابو حنیفہ نے تکفیر اہل قبلہ کو منع فرمایا ہے تو حضور والا ابن عربی وامثالہم کی تکفیر کیوں فرماتے ہیں؟تو جواب ملتا ہے ’’رگِ فاروقیم سکوت نمی کند ‘‘حالانکہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توثیق اوپر گزری-وہ تو یہ کہئے کہ حضرت مجدد صاحب کے (بقول آپ کے) ’’ظہور‘‘ کے وقت حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق دہلوی جیسے بزرگ تشریف فرماتھے ورنہ خدا جانے کیا صورت حال ہوتی ‘‘-
نظریۂ وحدۃ الشہود جس کا ذکر پروفیسر صاحب نے حضرت مجدد صاحب کے حوالے سے کیا تھا اس پر حضرت عاشق الرسول ان الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں:
’’مسئلۂ وحدۃ الشہود کے متعلق کچھ کہنا نہیں ہے ،شہودی حضرات خود امر ِ غیر واقعہ کے مشاہدے کے قائل ہیں-ع-چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند’’-
پروفیسر صاحب کے بقول تصوف میں عقیدۂ وحدۃ الوجود جنید وبایزید نے شامل کیا پھر مجدد الف ثانی نے وحدۃ الشہود کا نظریہ پیش کیا -اب بیک وقت تصوف میں یہ دونوں قسم کے نظریات جاری ہوگئے ،ان دونوں نظریات کو آپس میں متضاد سمجھا جاتا رہا -پھر کیا ہوا ؟پروفیسر صاحب فرماتے ہیں:
’’پھر آخر عہد میں شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے ،جنہوں نے اپنی بلند پایہ تصانیف میں دونوں عقیدوں میں تطبیق کی کوشش کی ‘‘-
حضرت عاشق الرسول ارشاد فرماتے ہیں:
’’حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کو علامہ سبکی واتباعہ کی تحقیقات سے علیحدہ ہو کر دیکھا جائے تو اصل حقیقت ہویدا ہو،بہر حال صاحب موصوف وحدۃ الوجود کے قائل ہیں،ان کے ایک عزیز نے اس بحث میں رسالہ دمغ الباطل لکھا ہے ،جو ایک معتدل اور اچھی کتاب ہے ‘‘-
دمغ الباطل شاہ ولی اللہ دہلوی کے فرزند شاہ رفیع الدین دہلوی کا رسالہ ہے،حکیم محمود احمد برکاتی صاحب لکھتے ہیں:
’’شاہ ولی اللہ صاحب کے مکتوب مدنی کے جواب میں مولوی غلام یحییٰ بہاری (م ۱۷۶۷ئ) نے رسالہ کلمۃ الحق لکھا تھا، شاہ رفیع الدین نے کلمۃ الحق کے جواب میں دمغ الباطل تحریر فرمایا، اس رسالے کے مخطوطات سالار جنگ میوزیم دکن، رضا لائبریری رامپور اور کتب خانہ شیروانی علی گڑھ میں ہیں‘‘- (حکیم محمود احمد برکاتی : شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان، ص: ۱۰۹، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی ۱۹۹۲ئ)
حضرت آگے بعد فرماتے ہیں:
’’ہندستانی علما کا تذکر ہ ہو تو حضرت بحرالعلوم عبد العلی فرنگی محلی کے ذکر کے بغیر یہ تذکرہ ناتمام رہتا ہے ،حضرت کشفی اور استدلالی دونوں طریقوں سے وحدۃ الوجود کے قائل ہیں‘‘-
پروفیسر صاحب نے تصوف کی دو قسمیںبیان کی ہیں ،تصوف اعتقادی اورتصوف عملی،پھر تصوف عملی کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ،ایک اعمال مقصود بالذات دوسرے غیر مقصود بالذات- تصوف اعتقادی میں بنیادی حیثیت مسئلہ وحدۃ الوجود کو حاصل ہے ،اس لیے سب سے پہلے پروفیسر صاحب نے اسی پر بحث کی ہے ،وحدۃ الوجود یا بلفظ دگر توحید وجودی کی تشریح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’اس کا ماحصل یہ ہے کہ وجود صرف ایک ہے اور تمام اشیا جو نظر آتی ہیں اسی کی تجلیات یامظاہر ہیں -وجود حقیقی اور کائنات میں ذات وصفات کی نسبت ہے،اور چونکہ صفات عین ذات ہیں (لہٰذا) کائنات کا بھی حق تعالیٰ سے الگ کوئی وجود نہیں،بلکہ سب وہی ہے ،شیخ ابن عربی کا قول ہے ’’سبحان من خلق الأشیاء وہو عینہا‘‘ایک اور جگہ لکھتے ہیں’’الرب حق والعبد حق فما ادری من المکلف‘‘-اسی سے تخلیق عالم کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے،یعنی وجود بسیط یا ذات بُحت( جس کو عبدالکریم جیلی نے’’العمیٰ‘‘کے لقب سے یاد کیا ہے )لاتعین کی شان سے متصف تھی ،جب وہ اس کی مقتضی ہوئی کہ خود کو پہچانے تو اس نے تعینات یا تنزلات کی طرف رجوع کیا،جن کو عالم کائنات کہا جاتا ہے ‘‘-
توحید وجودی کی مذکورہ تشریح سے حضرت عاشق الرسول مطمئن نہیں ہیں ،آپ فرماتے ہیں:
’’عقائد صوفیہ میں توحید وجودی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ وجود حقیقی اور کائنات میں ذات وصفات کی نسبت ہے ،یہ عقیدہ نہ ابن عربی کا ہے نہ دیگر محققین صوفیہ کا -ہاں یہ سچ ہے کہ بعض جگہ مبہم مسئلہ کے لیے بصورت تشبیہ یہ کہا گیا ہے ،لیکن جب صوفیہ کائنات کا وجود اعتباری مانتے ہیںتو اس اعتبار کو ذات واجب کا نہ عین کہہ سکتے ہیں نہ صفات ‘‘-
مسئلہ وحدۃ الوجود کی تشریح کرنے کے بعد پروفیسر صاحب نے اس کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بتایا ہے،لکھتے ہیں:
’’اسلام تو خدا کی وحدانیت کے ساتھ اس کی خلاقیت، ربوبیت، رزاقیت اور انسان کی مخلوقیت،عبودیت اور مرزوقیت کا ببانگ دہل اعلان کررہا ہے- ’’ہوالذی خلقکم من طین‘‘وہی خدا ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، وہی رب العٰلمیناوررزاق ذوالقوۃ المتین ہے، جس کی شان پاک ہویطعِم ولا یطعَمہے اور ظاہر کہ مطعِم اور مطعَم ایک نہیں ہوسکتے- تخلیق کی غایت خود قرآن کے الفاظ میں یہ ہے’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘ہم نے جن اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا کہ ہمارے حضور اپنی عبودیت کا اعتراف کریں-اگر اس عقیدے کو نہ مانا جائے تو نیک اور بدکا امتیاز،شیخ وبرہمن کا فرق،،اسلام وکفر کا تفاوت،انبیا کی بعثت ،شرائع کی غایت،انسان کی تکلیف اور مسئولیت سب لغو ٹھہرتی ہے‘‘-
پروفیسر صاحب کی اس دلیل پر حضرت عاشق الرسول ان الفاظ میںتنقید فرماتے ہیں:
’’مجھے نہایت افسوس ہے کہ آپ نے بھی عوام کی طرح اس مغالطہ پر اعتماد فرمایا کہ اگر توحید وجودی ہوگی تو نیک وبد کا امتیاز،شیخ وبرہمن کا فرق اور انسان کی مسئولیت وتکلیف سب لغو ٹھہریں گے(معاذاللہ)یہی وہ منزل ہے جس سے انکار تصوف کی ابتدا ہوتی ہے ،اور اسی نقطہ پر افکار مخالفین کی انتہا -حالانکہ ابن عربی نے ہزار بار کہا ’’العبد عبد وان ترقی والرب رب وان تنزل‘‘فارسی میں بھی کسی نے کہا اور سچ کہا کہ:
ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی
صوفی نہ جنت ودوزخ کا انکار کرتا ہے نہ عذاب وثواب کا،نہ اسلام کا مخالف ہے نہ بعثت وشرائع کا، وہ تو تمام کائنات کو اسی ذات حق واجب الوجود کی نسبت کرتے ہوئے اعتباری تصور کرتا ہے، اور اصل وجود (ما بہ الموجودیت)کو ایک ہی تسلیم کرتا ہے وبس‘‘-
اس سلسلہ میں غلط فہمی پیدا ہونے کی اصل وجہ کیا ہے ؟اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت فرماتے ہیں:
’’آخر نصوص میں صدہا ایسے ہیںجیسیلن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا اورجف القلم بما ہو کائن-قرآن کریم واحادیث میں اس کی تائیدبتاکید آئی ہے ،مگر صدہا نصوص سیلیس للانسان الا ماسعیٰکی توثیق ہوتی ہے ،تو کیا یہ آپس میں مغائر ہیں؟(حاشا)بات یہ ہے کہ عامۃ الناس حواس ظاہر ہ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں،غیر شعوری طور پر ہمارے حواس (اور عقل انسانی بھی)اکثروبیشتر شکست کھاتے رہتے ہیں،عوام کے حواس دیدہ و دانستہ اس کو قبول کرنے میں پس وپیش کرتے ہیں،مگر توحید وجودی کے قائل اس شکست کا اعتراف کرتے ہیں،یہیں سے معرفت کے دروازے کھلتے ہیں-اس مسئلہ کی تفصیلات تو بغیر توجہ شیح کامل کے حاصل نہیں ہوتیں،اور اطمنان قلب بھی اسی وقت ملتا ہے،لیکن استدلالی طور سے متقدمین میں علامہ قونوی اور متاخرین میں حضرت بحر العلوم فرنگی محلی اور استاذ مطلق مولانافضل حق خیرآبادی نے اس بحث میں رسائل تصنیف فرمائے ہیں،مولانا فضل حق کا رسالہ غالباًعلامہ راغب الجیلانی کے پاس ہوگا اس کا مطالعہ کیجیے‘‘-
حضرت عاشق الرسول کی مذکورہ عبارت میں علامہ قونوی سے صدرالدین محمد بن اسحق القونوی مراد ہیں، آپ شیخ اکبرا بن عربی کے شاگرد تھے ،عمر رضا کحالہ کے مطابق سن ۶۷۲ھ میں آپ کی وفات ہوئی ،آپ کی صوفیانہ تصانیف میںالنصوص فی تحقیق الطور المخصوص،الفکوک فی مستندات حکم الفصوص،مفتاح اقفال القلوب لمفاتیح علام الغیوب،اور النفحات الالٰہیۃمشہور ہیں-حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی کے جس رسالہ کی طرف حضرت عاشق الرسول نے اشارہ فرمایا ہے اس کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے ’’آثارالاول‘‘ میں’’رسالہ فی وحدۃ الوجود‘‘کے نام سے درج کیا ہے ،جب کہ ’’قاموس المشاہیر‘‘کے مصنف نظامی بدایونی نے اس کو ’’رسالۂ توحید‘‘کے نام سے ذکر کیا ہے -فاضل خیرآبادی کے رسالہ کا نام ’’الروض المجود فی تحقیق وحدۃ الوجود‘‘ہے،یہ رسالہ عربی زبان میں ہے اور مطبوعہ ہے -
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توحید وجودی کے سلسلہ میں صوفیہ کے پاس کیا دلیل ہے،اور اس عقیدے کے ثبوت میں وہ کیا پیش کرتے ہیں؟پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’صوفیہ اپنی تائید میں تین چیزیں پیش کرتے ہیں-نقل،عقل اور کشف‘‘-
سب سے پہلے پروفیسر صاحب نے صوفیہ کے نقلی دلائل پر تنقیدی نظر ڈالی ہے ،نقل سے مراد قرآن وحدیث ہیں،پہلے انہوں نے صوفیہ کے قرآنی استدلال پر بحث کی ہے ،وہ آیات جو صوفیہ اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں ان کے بارے میںپروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ ان میں عموماً بغیر کسی صارف قطعی کے تاویل کی گئی ہے ،اس سلسلہ میں کچھ آیات اور ان کی صوفیانہ تفسیر نقل کرکے اس پر نقد کیا ہے،اس میں انہوںنے جو بنیادی نکتہ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ :
’’کسی نص قرآنی کا مفہوم متعین کرنے کے لیے بہت سی چیزیں درکار ہوتی ہیں،ادبیت وعربیت میں تبحر،لغات عرب اور اشعار جاہلیت پر عبور ،سرور عالم ﷺ اور صحابہ کی روایات پر اطلاع ،اسباب نزول پرنظر ،سیاق وسباق کا خیال اور دوسری نصوص واردہ کا تتبع ،اگر یہ سب چیزیں نہ ہوں تو وہ تفسیر تفسیر بالرائے اور وہ تاویل تاویل القول بما لایرضی بہ قائلہکی مصداق ہوگی، ہمیں افسوس ہے کہ حضرات صوفیہ کا استدلال اکثر اسی قبیل سے ہے ‘‘-
اس پر حضرت عاشق الرسول فرماتے ہیں:
’’آیات کے متعلق تو اصولی بات آپ نے فرمائی ہے جس کا خلاصہیہ ہے کہ تفسیر بالرائے مناسب نہیں -لیکن یہ نہ فرمایا کہ ان آیات کے ظواہر سے عدول آخر کس دلیل محکم کی بنیاد پر ہے ،آیا استدلالی عقل ان کو متأول سمجھنے پر مجبور کرتی ہے یا حواس ظاہر ا ن کے مدلول ظاہر سے ابا کرتے ہیں،یہ بیان محتاج تفصیل ہے‘‘-
صوفیہ کی طرف سے پیش کی جانے والی احادیث کے بارے میں پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ بیشتر اصول روایت کے اعتبار سے غیر مستند ہیں،اپنے اس دعوے کی دلیل میں انہوں نے چند احادیث نقل کرکے ان پر ائمہ حدیث کا نقد پیش کیا ہے ،اس پر حضرت عاشق الرسول فرماتے ہیں:
احادیث کے متعلق اکثر کو ضعیف اور بعض کو موضوع کہا گیا ہے-جرح وتعدیل ایک بڑا فن ہے، کسی شخص کا کسی راوی کو ضعیف یا وضاع کہنا اس کی احادیث کے ضعیف یا موضوع ہونے کے لیے دلیل کافی نہیں ہے -
پروفیسر صاحب نے صوفیہ کی مستدل احادیث میں سے ایک حدیث ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘(جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا)نقل کرکے اس پر مندرجہ ذیل تنقید کی ہے :
’’ابن تیمیہ نے اس کو موضوع کہا ہے ،سمعانی کا بیان ہے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے بلکہ یحییٰ بن معاذ کا قول ہے ‘‘-
حضرت عاشق الرسول فرماتے ہیں:
’’ہر حدیث کی بابت اس وقت کچھ لکھنا نہیں ہے ،صرف علامہ ابن تیمیہ کا نام دیکھ کر کچھ لکھنا پڑا ،صاحب موصوف سے خادمان مدرسہ قادریہ کو پرانا ربط ہے ،فرماتے ہیں کہ ’’حدیثمن عرف نفسہ فقد عرف ربہموضوع ہے‘‘اچھا صاحب موضوع ہے ،لیکن وفی انفسکم افلاتبصرونتو الحاقی نہیں،ظاہر ہے کہ معرفت سے مراد معرفت آیات وتجلیات ہی ہو سکتی ہے ،کہ معرفت کنہ ذات تو ممتنع بالذات ہے ،اس پر جمیع عقلا کا اتفاق ہے ‘‘-
پروفیسر صاحب نے احادیث کے ضعف اور وضع کے سلسلہ میں علامہ ابن جوزی کا بھی کئی جگہ ذکر کیا ہے ،اس پر حضرت فرماتے ہیں:
’’علامہ ابن جوزی نے بہت سی صحیح حدیثیں موضوعات میں داخل کردیں آخر علامہ سیوطی کو تعاقب کرنا پڑا‘‘-
پروفیسر صاحب نے ایک اور حدیث کان اللہ ولم یکن شیٔ معہ وہو الآن کما کان (اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہ تھا اور وہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا)نقل کر کے اس پر ملا علی قاری کی تحقیق پیش کی ہے،فرماتے ہیں:
’’ملا علی قاری کی تحقیق یہ ہے کہ آخری ٹکڑا(وہو الآن کما کان)حدیث نہیںبلکہ صوفیہ کا کلام ہے اور وجودیہ کا اضافہ ہے ‘‘-
حضرت عاشق الرسول جواباً ارشاد فرماتے ہیں :
’’ملا علی قاری سے کون دریافت کرے کہ آخری جملہ حدیث نہ سہی لیکن اس پر ان کا اعتقاد ہے کہ نہیں؟آپ ہی فرمائیے کہ آپ ’’الآن کما کان‘‘ کے معتقد ہیں یا ذات واجب میں کسی تغیر کے معترف ہیں؟ (معاذ اللہ)‘‘-
حضرت عاشق الرسول کی تنقید بہت معنیٰ خیز ہے،ایسی تنقید وہی کرسکتا ہے جو صاحب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دل بھی ہو ،مگر بہرحال ملا علی قاری کے دفاع میں یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ کسی بھی چیز کا نفس الامری حقیقت ہونا الگ بات ہے اور اس کا حدیث رسول ہونا الگ بات ہے ،ملا علی قاری کی تحقیق دوسرے باب سے متعلق ہے -پروفیسر صاحب کی پیش کردہ باقی احادیث کے بارے میں حضرت نے صرف اتنا فرمایا کہ:
’’ہر حدیث کے متعلق لکھنے کو دل چاہتا ہے ،مگر وقت نہیں اس لیے مجبوری ہے ‘‘-
صوفیہ کے نقلی دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر صاحب مزید فرماتے ہیں:
’’اسی طرح جناب امیر کا حضرت حسن بصری کو خرقہ تصوف پہنانا بھی بے اصل ہے،بلکہ ائمہ حدیث نے ان کا جناب مرتضوی سے سماع حدیث بھی تسلیم نہیں کیا ،تلقین جو صوفیہ میں متعارف ہے اور نسبت مصافحہ بھی سرور عالم ﷺ تک متصلاً ثابت نہیں‘‘-
اس پر حضرت عاشق الرسول ارشاد فرماتے ہیں:
’’لقاے حسن بصری بحضور مرتضوی قطعاً ثابت ہے -’’رسالہ فخر الحسن‘‘ اور اس کی شرح القول المستحسن میں اس کو اس وضاحت سے ثابت کردیا گیا ہے کہ انکار کی گنجائش نہیں -حدیث مصافحہ کا تسلسل دیکھنا ہو تورسالہ المناصحۃ فی تحقیق المصافحۃملاحظہ ہو،میں سمجھتا ہوں کہ یہ رسالہ بھی مولانا راغب کے پاس ہوگا -یہ حضرت تاج الفحول کی تصنیف ہے ‘‘-
حضرت نے جس’’ رسالہ فخرالحسن ‘‘کا تذکرہ فرمایا ہے وہ فخر سلسلہ ٔ چشتیہ نظامیہ حضرت مولانا فخرالدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت۱۱۲۶ھ وفات۱۱۹۹ھ)کی تصنیف ہے ،اور اس کی شرح القول المستحسن مولانا عزیزالزماں کی تصنیف ہے-
صوفیہ کے منقولی استدلال کے بعد اب پروفیسر صاحب صوفیہ کے عقلی دلائل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اب رہا عقلی استدلال ،اس میں شک نہیں کہ متاخرین صوفیہ نے عقلی دلائل کا طوفان بپا کردیا ہے ،بلکہ اسلامی توحید کے سیدھے سادھے مسئلہ کو خالص فلسفہ بنا دیا ‘‘-
پھر صوفیہ کی جانب سے مسئلہ وحدۃ الوجود پر پروفیسر صاحب نے ایک عقلی دلیل نقل کی ہے ،اور اس کو عقلی دلیل سے رد کرکے فرماتے ہیں:
’’عقائد کے بارے میں نصوص کے ہوتے ہوئے عقل کو مدار قرار دینا درست نہیں ،عقل شرع کی حاکم نہیں بلکہ محکوم ہے ‘‘-
حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
’’عقلی دلائل کے سلسلہ میں آپ نے بہت اختصار سے کام لیا اور یہ لکھنے کے باوجودکہ صوفیہ نے عقلی دلائل کا طوفان بپا کر دیا ہے کوئی مکمل دلیل نہیں لکھی ‘‘-
پھر حضرت اپنی جانب سے مسئلہ توحید وجودی پر ایک عقلی استدلال پیش کرتے ہیں:
’’میں عرض کروںاگر وجود کی حقیقت پر ہی غور کرلیا جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ تکثر کو قبول نہیں کرتا،وجود کے چند فراد ہوں تو مابہ الاشتراک کے ساتھ مابہ ا لامتیازکی بھی ضرورت ہوگی ،گویا مابہ الموجودیت اپنے وجود میں مزید کسی چیز کا محتاج ہے ،یہ اس قدر صاف اور مختصر بات ہے جس کا جواب نہیں،مگر کیا کیجیے کہ حواس ظاہر معقولات کو بلا دلیل رد کر دیتے ہیں،اس ورطہ سے نکلنے کے لیے توفیق الٰہی درکار ہے، آپ نے یہ درست فرمایا کہ نصوص کے ہوتے ہوئے عقل کو مدار قرار دینا درست نہیں بس آمنت باللہ الذی ہو الاول والآخر والظاہر والباطن،الا انہ لکل شیٔ محیط،صدق اللہ صدق اللہ ،صدق اللہ‘‘-
نقل وعقل پر بحث کے بعد اب پروفیسر صاحب صوفیہ کی تیسری اور آخری دلیل کشف کی طرف آتے ہیں،مگر اس سلسلہ میں تفصیل میں نہ جاکر بہت اختصار کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’آخر میں کشف کا نمبر آتا ہے ،مگر اس خصوص میں راقم سطور کو لب کشائی کاکوئی موقع نہیں ،البتہ یہاں حضرت مجدد کا ارشاد نقل کرنا کافی ہے ‘‘-
اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے ایک فارسی اقتباس نقل فرمایا ہے ،جس کا مختصراً خلاصہ یہ ہے کہ تمام کشفیات ظاہر شریعت کے مطابق ہوتے ہیں،اور سرِ مو ظاہر شریعت سے مخالفت نہیں رکھتے ،اور اگر بعض صوفیہ نہ ظاہر شریعت مے مخالف اپنا کشف بیان کیا ہے تو وہ یا ان کا سہو ہے یا سکر باطن -حضرت مجدد صاحب کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد پروفیسر صاحب فرماتے ہیں:
’’اس سے قطع نظر کشف ادلۂ شرعیہ میں بھی محسوب نہیں ہے ‘‘-
اس پر حضرت عاشق الرسول کی تنقید ملاحظہ فرمائیں،آپ رقم طراز ہیں:
’’اس کے بعد آپ نے کشف پر بحث کی ہے ،اور سب سے پہلے حضرت مجدد صاحب کے اقوال لکھے ہیں،حضرت کے ارشادات کی ماہیت سمجھنے کے لیے شیخ محقق مولانا عبد الحق کے رسائل کو دیکھنا چاہیے-یہ صحیح ہے کہ کشف ادلۂ شرعیہ میں نہیں ہے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دوسرے کے لیے وہ حجت نہیں ہے،مگر صاحب کشف حقیقت منکشفہ سے کیوں کر انکار کرے؟اس مقام پر امام ابو حنیفہ کے قول سے حجت حاصل کی جاتی ہے کہ رائے مبتلا بہ پر فتویٰ ہے ‘‘-
صوفیہ کے تینوں قسم کے دلائل پرنقد سے فارغ ہوکر پروفیسر صاحب فرماتے ہیں:
’’تصوف بذات خود ایک محمود عقیدہ ہے ،اور تصحیح خیال وتہذیب اعمال کے لیے اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ کوئی نہیں لیکن ہر تحریک کی طرح آخر اس میں بھی غلو سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے متعدد علمی اور عملی قباحتیں پیدا ہوگئیں‘‘-
حضرت عاشق الرسول ارشاد فرماتے ہیں:
’’اس کے بعد تصوف کو ایک محمود عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی چند خرابیاں بیان کی ہیں-میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس عقیدے کے سینہ سے صفحہ قرطاس پر آنے کے بعد ایک فتنہ برپا ہوگیا- ایک طرف تو عوام بغیر سوچے سمجھے اس دقیق مسئلہ پر بحث کرنے لگے اور ایسے ایسے اقوال معرض تحریر میں آگئے جو اصل مسئلہ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے تھے ،بلکہ بعض وقت تو اس مسئلہ کے بالکل مخالف عقائد بیان ہونے لگے ، دوسری جانب منکرین تصوف نے اپنی ناقص فہم کے مطابق اکابر کے مطالب کو غیر شعوری طور پر ان کے مقصد کے بالکل خلاف سمجھ لیا ،اس پر طوفان مخالفت بہت تیز ہوگیا ‘‘-
پروفیسر صاحب نے تصوف میں غلو کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی قباحتوں کا ذکر کرتے ہوئے سولہ(۱۶)قباحتیں شمار کی ہیں،ان کی نظر میں پہلی قباحت یہ ہے کہ :
’’صوفیہ وجودیہ کے نقطۂ خیال سے عامہ مسلمین موحدین جو حق تعالیٰ اور کائنات کی عینیت کے منکر ہیں یا مشرک ٹھہرتے ہیں یا ایمان باللہ سے محروم -اور یہ محض ہمارا منطقی استدلال نہیں بلکہ صراحتاً بعض مشائخ کی تحریرات سے ثابت ہے ‘‘-
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں پروفیسر صاحب نے حضرت شاہ عبدالرحمن لکھنوی صاحب کی مشہور کتاب ’’کلمۃ الحق‘‘سے یک عبارت پیش کی ہے -ان کی بیان کردہ اس پہلی قباحت کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت عاشق الرسول فرماتے ہیں:
’’یہ صحیح نہیں کہ محققین صوفیہ عامۃ المسلمین کو مشرک یا کافر سمجھتے ہیںجو نیک نفس گروہ فرعون پر فتویٔ کفر لگانے میں احتیاط کرے اس پر یہ الزام شدید ہے -شاہ عبدالرحمن صاحب یا بعض دیگر صاحبان نے اس سلسلہ میں کچھ شوخیاں فرمائی ہیں،اس کی اصل وجہ متکلمین کی وہ جرأتیں ہیں جو مسئلہ ذات وصفات میں کی گئی ہیں-بہرحال افراط وتفریط سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہئے‘‘-
ایمان فرعون کا قول شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ،اس موقف کی تائید میں ملا جلال الدین محقق دوانی نے ایک مستقل رسالہ ’’ایمان فرعون‘‘کے نام سے تصنیف فرمایا ہے،ملا جلال دوانی کے اس رسالہ کا رد ملا علی قاری نے ’’فر العون من مدعی ایمان فرعون‘‘کے نام سے لکھاہے،یہ دونوں رسالے المطبعۃ المصریہ قاہرہ سے علامہ ابن الخطیب کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ۱۹۲۴میں شائع ہوئے تھے جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں-بعض محققین کا خیال ہے کہ ایمان فرعون کا نظریہ شیخ اکبر کا نہیں ہے بلکہ یہ ان کی کتب میں تحریف وتلفیق کا نتیجہ ہے ،اس سلسلہ میں یہ ہیچ مداں راقم سطوراپنے ذاتی مطالعہ اور تحقیق کی روشنی میں بہت کچھ لکھ سکتا ہے لیکن سردست طوالت کے خوف سے میں معاصر محقق ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں،موصوف نے اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر فرمایا تھا جو غالباً ۱۹۹۶ء میں ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور کے کسی شمارہ میں شائع ہوا تھا،اہل ذوق وہاں اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں-
پروفیسر صاحب نے دوسری قباحت یہ بیان فرمائی ہے کہ :
’’جب عینیت امر حق ہے تو مشرک بھی موحد ہوئے -’’وقضیٰ ربک الاتعبدواالا ایاہ‘‘کی تفسیر اوپر گزری کہ خدا نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ظاہر ہے کہ کوئی خدا کے فیصلے کو بدل نہیں سکتا -لہٰذا بت پرست بھی دراصل اسی کی عبادت کرتے ہیں(الرسائل الالٰہیہ لابن عربی)اس پر ابن تیمیہ نے بجا ایراد کیا ہے کہ قضاے دینی اور قضاے تکوینی دو الگ الگ چیزیں ہیں،اور دونوں کو مخلوط کرنا درست نہیں‘‘-
حضرت عاشق الرسول جواباً ارشاد فرماتے ہیں:
’’یہ اکابر صفت شان رحمت میں غلو رکھتے تھے ،اور تمام کائنات کو مسلمان ثابت کرنے کی فکر میں رہتے تھے -اسلوب بیان اپنا اپنا جدا ہے -غزالی نے التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃمیں تمام دنیا کو بے گناہوں کی صف میں لا کھڑا کیا -ابن عربی نے بھی بعض وقت یہ کوشش کی ،پھر اپنی بعض تصانیف میں اس بحث کی علت غائی بھی بیان فرما دی ہے،ابن عربی کے رسائل الٰہیات جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ میں نے نہیں دیکھے اور نہ ابن تیمیہ کی تنقید دیکھی ہے -مگر اصولی طور سے یہ کہنا ہے کہ صرف قضاے تکوینی کی تسلیم سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا ،اشاعرہ اور معتزلہ کی شدید جنگ متعلق خلق افعال عباد کا یہی تصفیہ ہوتا ہے ورنہ وہ کہتے ہیں کہ ذمہ داری مشترک ہے ‘‘-
پروفیسر صاحب کی بیان کردہ تیسری خرابی کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اگر توحید وجودی مانی جائے تو اسلام وکفر ،نیکی وبدی ،حق وباطل اور جنتی ودوزخی میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘‘-
اس پر حضرت فرماتے ہیں :
’’صوفی اسلام وکفر کو ایک نہیں سمجھتا اور نہ جنت ودوزخ کو ایک مانتا ہے-ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد‘‘-
پروفیسر صاحب کے نزدیک تصوف کی چوتھی قباحت یہ ہے کہ:
’’حضور فخر عالم ﷺنے امور دین خصوصاً توحید کی تبلیغ اس اہتمام ،اعلان اور وسعت سے فرمائی کہ مثال نہیں ملتی،ہر ہر مسئلہ کی تکرار کے ساتھ ارشاد ہوتا تھااللھم ھل بلغت اللھم فاشھدعقل نہیں چاہتی کہ ایسے اہم مسئلہ کے بارے میں جو ام الاصول،راس الایمان اور مناط نجات ہو سکوت واہمال برتا ہو جب کہ غسل وطہارت کے معمولی مسائل کے جزئیات تک صحابہ کو تعلیم فرمائے ‘‘-
حضرت عاشق الرسول اس پر قدرے تفصیلی نقد فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ عقیدۂ وحدت باوجود حق ہونے کے بہت مشکل ہے اور عامۃ الناس اس کو سمجھنے کے مکلف نہیں ،اس لیے کہ کلام قدر عقول کی تاکید فرمائی گئی ہے ،حضرت ابو ہریرہ سے صحیح حدیث مروی ہے کہ دو طرح کے علوم مجھے رسول للہ ﷺ سے پہونچے ،ایک سب کو سکھاتا ہوں ،دوسرا اگر بیان کردوں تو تم لوگ مجھے قتل کردو-شریعت سہلہ سمحا کا اقتضا بھی ہے کہ عام فہم ہو ،اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے جو مسئلہ سب کی سمجھ میں آئے -عوام کے لیے نہ متکلمین کے لا عین ولاغیرکی چیستاں کی ضرورت ہے اور نہ (باوجود حق ہونے کے )مسئلہ وحدت الوجود کی -اس لیے سرکار رسالت روحی لہ فدا ﷺ یا خلفاے راشدین کے پاک السنہ سے اس کی عام اشاعت نہ فرمائی گئی ،یہی دین سمحا کا تقاضا تھا ،جس قدر اشارات فرمائے گئے کافی سے زیادہ ہیں-پھر سرکار ختمیت مرتبت ﷺ (جو خود مصداق ہو الاول والاخر والظاہر والباطن اوروہو بکل شیٔ علیم ہیں)یا خلفاے راشدین کے تمام معاملات مناظر مجادل کے لیے نہیں بلکہ ناظر منصف کے لیے دلائل قوی ہیں اور برہان ساطع -توحید وجودی کے عقیدے کے بغیر وہ اخلاق عام اور وہ مراعات تام ہو ہی نہیں سکتی -عرصہ ہوا جو ایک تحریر اپنے ایک سلجوقی دوست کے لیے لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’عقیدہ کا معاشرہ پر اثر‘‘اس کا مسودہ مل گیا تو ارسال کروں گا -بیک وقت دوست ودشمن پر یکساں حکمرانی اور بیک نگاہ اپنے پراے پر یکساں التفات -حضور آل احمد اچھے میاں مارہروی قدّس سرّہ نے اپنے خلیفہ حصرت شاہ عین الحق عبدالمجید بدایونی قدّس سرّہ کے لیے لکھا ہے ’’ظاہر او مثل ابو حنیفہ باطن او مثل منصور‘‘سچے صوفی کا یہی حال ہے ’’در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق‘‘خلفاے راشدین کی سی حکومت وہی کر سکتا ہے جو توحید وجودی کا عملاً قائل ہو -اس اجمال کی تفصیل تو فتوحات مکیہ کا وعظ ہو جائی گی -بایں ہمہ میں اس سے متفق ہوں کہ اس مسئلہ کو بازیچۂ اطفال نہ بنایا جائے ،اگر مسئلہ تقدیر پر بحث سے عوام کو روکا گیا ہے تو اس مسئلہ پر بحث کی خواص کو بھی اجازت نہ ہو اس کے لیے اخص الخواص کی ضرورت ہے‘‘-
پروفیسر صاحب نے پانچویں قباحت یہ بیان فرمائی ہے:
’’بلکہ لازم آتا ہے کہ معاذ اللہ خود سید الموحدین علیہ السلام اور آپ کے آل واصحاب اس خاص قسم کے عقیدے سے بے خبر تھے کیونکہ آپ کے اقوال افعال میں اس کا شائبہ بھی نہیں ملتا ‘‘-
اس پر حضرت نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ:
’’اس سلسلہ کا نمبر پانچ بہت تکلیف دہ ہے اس قدر کہ اس پر تنقید نہ کروں گا‘‘
چھٹی قباحت پروفیسر صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
’’ اس طور سے مذہب میں تاویلات کا دروازہ کھل گیا ،ظاہر ہے کہ صارف قطعی کے بغیر نصوص ظواہر میں تاویل کرنا جائز نہیں،ورنہ شرع سے امان اٹھ جائے گا‘‘-
حضرت فرماتے ہیں :
’’یہ صحیح ہے کہ صارف قطعی کے بغیر نصوص ظواہر میں تاویل جائز نہیں ،مگر ذرا اس’’ قطعیت‘‘کی بھی تعریف کر دی جائے ،کہیں وہ عقل متکلمانہ یا اقتضا حواس ظواہر مدرکہ تو نہیں ہے؟جب حقیقت واقعہ قلب عارف پر منکشف ہو جائے تو اس کی قطعیت کیسے ٹالی جائے؟‘‘-
ساتویں قباحت یہ لازم آئی کہ :
’’نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو ملت سمحا اور طریقۂ بیضا کا مصداق ہے،فلسفانہ موشگافیوں کا مجموعہ بن گیا ‘‘-
اس پر حضرت ارشاد فرماتے ہیں :
’’یہ صحیح ہے کہ جاہل صوفیوں (اور پڑھے لکھے متکلمین)کی وجہ سے ملت بیضا فلسفیانہ موشگافیوں کا مجموعہ بن کر رہ گئی وکان امر اللہ قدرا مقدورا‘‘-
اس کے بعد پروفیسر صاحب کی بیان کردہ باقی قباحتوں پر حضرت نے کوئی تنقید نہیں فرمائی ہے ،غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد کی بیان کردہ قباحتیں پچھلی قباحتوں پر ہی متفرع ہیں ،جب اصل پر ہی کلام کردیا گیا تو اب فرع پر کلام کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں-حضرت صرف اتنا فرماتے ہیں :
’’اب لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں ،ہاتھ میں درد ہے ،آنکھوں میں سرخی ،اس لیے اس ناتمام خط کو ناتمام ہی چھوڑتا ہوں … ع- سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لیے‘‘
خط ختم کرنے سے پہلے پروفیسر صاحب کی بیان کردہ سولہویں اور آخری قباحت پر بڑے دل نشیں پیرائے میں نقد فرماتے ہیں ،پروفیسر صاحب نے سولہویں قباحت یہ بیان کی تھی کہ:
’’غلو فی الدین اور تجاوز عن الحد نے ہماری قوم میں سینکڑوں بدعات پیدا کردیں،عبادت کے نئے نئے طریقے ،مجاہدے کی نئی نئی صورتیں اور قبور ومزارات پر طرح طرح کی بے اعتدالیاں ایسی نہیں جن کی مضرت اہل فہم پر مخفی ہو ‘‘-
حضرت فرماتے ہیں :
’’ختم سے پہلے یہ لکھ دوں کہ تجاوز عن الحد کی صورتوں میں قبور ومزارات کی بے اعتدالیوں کا ذکر بھی آگیا ہے ،جو صحیح بھی ہو تو تصویر کا ایک رخ ہے،آئندہ اشاعت میں یا تو اس کو حذف کر دیجئے یا پھر فیوض وبرکات کا جملہ معترضہ بھی لکھ دیجئے‘‘-
مقالہ کے آخر میں پروفیسر ضیا احمد صاحب نے تصوف کے سلسلہ میں اپنی صفائی بھی دی ہے جس کو نقل نہ کرنا علمی امانت کے خلاف ہوگا ،وہ فرماتے ہیں:
’’اوپر کے بیانات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم خدا نخواستہ سِرے سے صوفیہ کے منکر اور تصوف کے مخالف ہیں -ہمارے نزدیک ہر چیز کے جانچنے اور پرکھنے کے معیار کلام اللہ اور سنت رسول ہونا چاہئے،جو چیز اس کے مطابق ہو اخذ کر لی جائے جو مخالف ہو ترک کر دی جائے-درحقیقت جو سچے صوفیہ کرام گزرے ہیں وہ مقتدائے ملت اور پیشوائے امت تھے اور ان کا تصوف مغز اسلام اور روح ایمان تھا،اگر ا ن سے احیاناً کوئی ایسی چیز بھی مروی ہے جو ظاہر شریعت کے مخالف ہے تو بر تقدیر صحت روایت ظنوا المؤمنین خیراًکے بموجب اس کی مناسب تاویل ضروری ہے ،البتہ اصل معیار وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا -امام مالک نے کیا خوب فرمایا کہ رسول معصومﷺ کے سوا ہر شخص سے اس کے قول کا مؤاخذہ کیا جائے گا، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ تصوف،شریعت،طریقت ،کلام ہر چیز کو رسول معصوم کے ارشاد کی کسوٹی پر پرکھیں-کسی نے کیا خوب کہا ہے -
مصلحت دیدِ من آنست کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و سرِ طرۂ یارے گیرند
حضرت عاشق الرسول خط کے اختتام پر فرماتے ہیں:
’’یہ طویل خط قال اقول کے لیے نہیں لکھا ،نہ اس وقت میرے پاس کتب کا ذخیرہ ہے جو ہر بات پر تفصیل سے کچھ لکھتا -بہت سے امور تو لکھے ہی نہیں بعض لکھے تو اجمال کے ساتھ ،مقصد صرف یہ ہے کہ میرا عقیدہ آپ کو معلوم ہوجائے میں دعا بھی کرتا ہوںکہ یہ مسئلہ آپ کے قلب پر منکشف ہو جائے-آپ کو شاید علم ہے کہ علوم عربیہ میں مجھے طبیعات سے ذوق تھا ،اس کے لیے ٹونک اور رامپور کے سفر کیے،ظاہر ہے طبیعات کا طالب علم مسئلہ وحدت کو کیا مانتا،میں شدت سے مخالف تھا، بزم عرس میں بھائی ولی الدین مرحوم نے وحدت کے اشعار پڑھے تو میں بگڑ گیا ،حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ (اسید) تک بات پہونچی ،حضرت کی عادت کریمانہ سے سب واقف تھے ،حضرت کسی سے کچھ نہیں فرماتے تھے،عادتاً نہ مجھ سے کچھ فرمایا نہ بھائی ولی الدین سے،مگر اسی روز مجھے درود غوثیہ کی اجازت دے دی ،صبح ہونے سے قبل میں اس مسئلہ کا اسی یقین سے قائل تھا جس شدت سے مخالف-ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ-اگر طرز تخاطب میں کچھ سخن ہو تو معاف فرمائیں-ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باللہ-فقیر محمد عبد القدیرقادری‘‘-
مضمون کے اختتام پر ایک اہم بات کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو اگرچہ موضوع سے زیادہ متعلق تو نہیں ہے مگر بے محل بھی نہیں کہی جا سکتی-وہ یہ کہ حضرت عاشق الرسول کے شیخ طریقت قدوۃ السالکین حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر مطیع الرسول قادری بدایونی کی بہت سی کرامات اور خوارق عادت کا تذکرہ ان کے سوانح نگاروں نے کیا ہے ،مگر میرے خیال میں حضرت عاشق الرسول کا بیان کردہ مذکورہ واقعہ بھی ان کے شیخ کی کرامت میں شمار ہونا چاہئے،کیونکہ ’’طبیعات قدیم کے طالب علم ‘‘اور ’’وحدت الوجودکے شدید مخالف‘‘کو صرف ایک رات میں ادنیٰ توجہ سے وحدت الوجود کا اسی شدت سے قائل وحامی بنا دینا کسی کرامت سے کم نہیں ،ورنہ برسہا برس کے مجاہدوں کے بعد لوگ اس مقام تک پہونچتے ہیں-
(جامِ نور جون، جولائی ۲۰۰۷ئ)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440587 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.