پوری دنیا کی معیشت ساکھ کے
بحران سے گزر رہی ہے۔تحریر چوک سے لے کر وال اسٹریٹ تک بحران سے نکلنے کا
کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے۔ عالمی معیشت کو متوازن رکھنے کیلئے بنائے
گئے عالمی بینک ، عالمی تجارتی تنظیم اور بین الاقوامی فنڈبے بس نظر آ رہے
ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اور کوئی بازار
میں پونجی لگانے کو تیار نہیں ہے۔ سرمایہ کاری کمپنیوں کی حکمت عملی اور
اسٹاک مارکیٹ کی آگ میں اپنے خوابوں کے محل نذرآتش کرکے سرمایہ کار بازاروں
سے اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں کے انڈیکس بری طرح لڑھک گئے ہیں
اور بازاروں کے کرتادھرتا کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کئے
بغیر حالات سدھرنے والے نہیں ہیں۔ حکومتیںمعیشت میں اعتماد برقرار رکھنے
کیلئے سرمایہ داروں کے دباؤ میں عوام کو ’سب کچھ صحیح ہوجائے گا‘کا جھوٹا
دلاسہ دے رہی ہیں لیکن لوگ پالیسی سازوں کے دعووں پر یقین کرہی نہیں رہے
ہیں۔ عوام کی آواز حکومتوں تک پہنچانے کا دعوی کرنے والے شہری سماج پر بھی
سرمایہ داروں سے ملی بھگت کے الزامات عائدہو رہے ہیں۔ قاہرہ میں ’مطلق
العنان حکمراں‘ کو ہٹا کر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نتیجے کے طور پر
حکومت ، کاروباری طبقہ اور شہری سماج کسی بھی شعبہ پر عوام کو اعتماد نہیں
رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی بازاروں کی ساکھ پر ٹکی ہوتی ہے اور ایک
معیشت کا سفینہ ڈوبنے پر اس سے وابستہ ساری اقصادیات لرزنے لگتی ہیں۔ پوری
دنیا کے حصص بازاروں میں کہرام مچا ہوا ہے اور حکومتوں سے کہا جا رہا ہے کہ
معیشتوں میں عوام کا اعتماد قائم کیا جائے لیکن سرمایہ داروں کے ہاتھوں
دھوکا کھا چکے لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ساکھ پر
اٹھنے والے اس سوال کا جواب سرمایہ دارانہ نظام کی طرز تعمیر میں ہیپوشیدہ
ہے۔ کم سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کمانے کی خوہش میں نئے اصلاح کاروں نے
1990 کی دہائی میں سرمایہ کاری میں کمی لانے کی عالمی مہم چھیڑی تھی۔ سب سے
پہلے معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے مزدور اس مہم کی زد میں آئے۔
نئی ٹیکنالوجی کے سہارے بڑے پیمانے پر چھٹنی ہوئی اور باقی ملازمین کی
تنخواہوں میں کمی کر دی گئی۔
کم تنخواہوں نے لوگوں کو قرض لینے پر مجبور کیا اور اسی موڑ سے دنیا بھر کے
حصص بازارہوا سے باتیں کرنے لگے۔ انتہائی کم وقت میں چھوٹی رقم پر موٹا
منافع کمانے کے پھیر میں سرمایہ کارکمپنیوں کی فوج آن کھڑی ہونے لگی اور
لوگوں کا پیسہ حصص بازاروں میں جھونکا جانا لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کثیر
ملکی کمپنیوں کا انبار لگ گیا اور کئی ملک کیسینو اکنانی casino
economyیعنی زیادہ منافع کمانے کیلئے مادی سرمایہ کاری کی بجائے اسٹاک
مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کرنے والے بن گئے۔ ایک طرف تو زیادہ تر ملازمین
کی تنخواہیں مسلسل کم ہو رہی تھیں وہیںدوسری جانب انتظامیہ سے وابستہ کچھ
لوگوں کو اوٹ پٹانگ تنخواہیں دینے کا چلن زور پکڑتا گیا۔ اس صوتحال سے
معاشرے میں تیزی سے بے یقینی میں اضافہ ہوا اور وقت بدلنے کیساتھ کثیر ملکی
کمپنیوں کے سی ای او ہی حکومتیں چلانے لگے۔ منافع کا بڑا حصہ کمپنی کی ترقی
میں لگانے کا منتر بدل دیا گیا اور منافع کی رقم شیئرہولڈروں میں تقسیم کی
جانے لگی۔ کمپنیوں کا انتظام عوام ، حکومت یا ملازمین کے تئیں جواب دہ ہونے
کی بجائے محض شیئرہولڈروں کے تئیں جواب دہ ہوکر رہ گیا۔
چونکہ سرمایہ کاری نظام کے قوانین کے تحت اقتصادیات پوری طرح وسیع تھیں ،
لہذا شیئرہولڈروں نے منتظمین کی تنخواہوں کو کمپنی کے منافع سے وابستہ
کردیا دیا جبکہ کمپنیوں کا منافع بڑھنے کیلئے ضروری تھا کہ لوگوں کی کھپت
صلاحیت consumption میں اضافہ ہو۔ لیکن آمدنی میں مسلسل ہو تی ہوئی کمی کی
وجہ سے صارفین کا بازارسے بعد اور فاصلہ بدستور قائم تھا۔ منافع مسلسل بڑھ
رہا تھا لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ سرمایہ دنیا کی محض ایک فیصد
آبادی کی تجوری میں سمٹتا جا رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ رقم مارکیٹ میں
کھپت نہیں بڑھا سکی اور نہ ہی اس پر قدرت رکھتی ہے۔ ایسے میں مصنوعات کا
ذخیرہ بڑھتا گیا اور کمپنیوں کو بالآخراپنی پیداواری صلاحیت میں کمی کرنی
پڑی۔ طلبDemand کے فقدان کی وجہ سے سرمایہ کاری منصوبے بھی روک دئے گئے۔
دراصل بازار میں طلب پیدا کرکے کم لاگت کے سہارے ’منافع کمانے‘ کا طریقہ
ایک دہائی قبل ہی ناکام ہو گیا تھا ، لیکن قرض کا ’آب حیات‘ پلاکر بازار
میں خوشحالی کا ماحول برقرار رکھا گیا۔یعنی ایک توکریلا یعنی’قرض‘ اس پر
نیم چڑھا یعنی ’سودی قرض‘۔ لہذامصنوعات کی کھپت بڑھانے کیلئے سالانہ بونس
کے لالچ میں منتظمین نے کھلی چھوٹ کا پورا فائدہ اٹھایا اور تمام قاعدے
قوانین بالائے طاق رکھ کے قرض باٹنے شروع کر دئے۔ مقروض یا قرض طلب کرنے
والے کی قرض ادا کرنے کی صلاحیت کو جانے بغیرلوگوں کو رقم مہیا کرائی جانے
لگی۔ بازار میں قرض بانٹنے کی دوڑ مچی ہوئی تھی اور لوگ پیسہ لے کر مصنوعات
پر ٹوٹ پڑے ۔ صارفین کی اشیاءاور گھروں کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں مگر
اپنی جیبوں کوقرض کی رقم سے گرم کئے ہوئے لوگوں کا مطالبہ Deemandکم نہیں
ہو رہا تھا۔ قرض کی بنیاد پر ترقی کا یہ ماڈل چل نکلا اور حصص بازارروزانہ
بلندیوں کے رےکارڈ قائم کرنے لگے۔
جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں ترقی ہو رہی تھی مگر لوگوں کے پاس نوکریاں
نہیں تھیں۔ قرض بانٹ کر ترقی کرنے کا یہ طریقہ ایسا ’تباہ کن بم‘ تھا
جونقطہ عروج پر پہنچ کر پھٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔حتی کہ 2007 کے آخر میں
وہ دلخراش لمحہ آہی گیا جب سرمایہ کاری کا مرکزاور منبع سمجھے جانے والے
لیہہ مین برادرس Lehman Brothers،ا سٹینلے مورگنStanley Morgan اور اے آئی
جیAmerican International Group جیسی کمپنیوں نے ہاتھ کھڑے کر دئے۔ سارا
مالیاتی نظام آپس میں ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا ، لہذا ایک ایک کرکے ساری
تنظیمیں اس بھنور کی زد میں آ کرپھنس گئیں۔
ممبئی کی دلال اسٹریٹ کا سینسیکس وال اسٹریٹWall Sreet کے ڈا ؤجونسDAU
JONES کی راہ پر چلتا ہے اور اسی طرز پر حصص بازاروں کی توسط سے یہ آگ پوری
دنیا میں پھیل گئی۔ بازاروں سے بھیڑ غائب ہو گئی اور کمپنیوں کے گودام
فروخت سے محروم مصنوعات سے لبریزہو گئے۔ معیشت میں اعتماد برقرار رکھنے اور
مارکیٹ میں مانگ بڑھانے کیلئے ’قرض کی بنیاد پر ترقی‘ کا پرانا فارمولا پھر
استعمال کیا گیا جس کے تحت حکومتوں نے عوامی اخراجات میں کمی کرکے عوام کے
پیسوں سے’ حفاظتی پیکج‘تقسیم کرنے شروع کر دئے جس کی وجہ سے بازاروں میں
ایک مرتبہ پھر رونق لوٹ آئی اور ترقی کی شرح کے درست اعدادوشمار پیش کرتے
ہوئے حکومتوں نے حالات سنبھالنے کا دعوی کیا۔ حفاظت پیکجوں کے ذریعے پھر سے
آتی ہوئی یہ ترقی دراصل روزگارسے محروم تھی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا
بھر کی معیشتوں میں کرنٹ اکاؤنٹ Current Account کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔
یونان ، اٹلی اور اسپین جیسے کئی یوروپی ممالک میں جی ڈی پی کے مقابلے میں
چالو کھاتےCurrent Account کا خسارہ سو فیصد کا ہندسہ پار کر چکا ہے۔دراصل
یہ سرمایہ داروں کی منافع کی ہوس سے پیدا شدہ بحران کا ناکام علاج تھا جس
نے دنیا کو دوہری مندی کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔
پوری دنیا میں تقسیم کئے جا رہے حفاظتی پیکیجوں کو درست ٹھہرانے کیلئے کھپت
بڑھانے کی دلیل پیش کی جا رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا ماننا ہے کہ ان
پیکیجوں کے بوتے پر کمپنیاں سستی مصنوعات فراہم کروائیں گی اور لوگ خریداری
کیلئے بازار میں ٹوٹ پڑیں گے۔ کھپت بڑھنے سے جی ڈی پی کی رفتار بڑھ جائے گی
اور بے روزگاری ، غربت اور اقتصادی بدحالی جیسے مسائل حل ہوجائیں گے یا کم
ہو جائیں گے۔ حالانکہ کھپت میں اضافہ کرکے منافع کمانے کا یہ سرمایہ دارانہ
داؤ اب دقیانوسی اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کھپت بڑھنے پر کمپنیاں اپنی پیداوار
بڑھائیں گی جبکہ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کو محفوظ رکھنے
کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی شرح صفر سے ایک فیصد کے درمیان رہنی
چاہئے۔یہاں اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیںہے کہ زمین طویل عرصہ تک پیداوار
، کھپت اور منافع کے اس ماڈل کو نہیں برداشت نہیں کر سکے گی۔
اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کی کشتی اب ایسے بحران میں پھنس گئی ہے جس سے
نکلنے کی صورت اس کے بنانے والوں نے تیار ہی نہیں کی تھی۔نجات دہندہ
پالیسیوں کے ناکام ہونے کے بعد ’قابو طلب سرمایہ کاری‘Controlled
Capitalism کا راگ چھیڑا گیا اور معیشت کے ہر شعبے کو باضابطہ کرنے کیلئے
آزاد ریگولیٹری بنائے گئے۔ 2008 کی کساد بازاری نے پیمانوں کے سہارے سرمایہ
دارانہ نظام کی گاڑی چلانے کا بھرم دور کر دیا ہے کیونکہ ساکھ کا تعین کرنے
والی ایجنسیوں سمیت سارے ریگولیٹری خود دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔ ہندوستان
کے ٹیلی گھوٹالے میں ٹرائی ، ہوا بازی کی شعبہ کے بحران میں شہری ہوا بازی
کی ڈائریکٹوریٹ اور گیس گھوٹالے میںہائیڈروکاربن ڈائریکٹوریٹ سوالوں کے
گھیرے میںپھنسے ہوئے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس
میں سرمایہ داروں کے منافع پر کوئی پابندی یا روک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکی ماہر معاشیات اور شماریات ملٹن فریڈمےنMilton
Friedman‘31جولائی1912تا16نومبر2006 کا عوام کو دیا گیا ’آزادی کیلئے
سرمایہ دارانہ نظامCapitalism for Freedom کانعرہ اب سرمایہ دار کی آزادی
Freedom of capitalistمیں بدل چکا ہے۔
ولیم شیکسپیئر کا کہنا تھا کہ انسانوں اورتہذیوں کی زندگی میں عروج کو زوال
آتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام پر وہ وق آپہنچا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام
کابیڑا غرق ہونے سے امریکی ناخداؤں کی تدبیریں گذشتہ3برسوں کے دوران منہ کی
کھاچکی ہیں اور یوروپی ملاح جہازوں سے کودتے جا رہے ہیں۔ آئرلینڈ ، یونان ،
اسپین اور اٹلی جیسے ممالک یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں ، مگر
یوروپی یونین کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ منافع ، برانڈ ، سرمایہ کاری ،
کھپت اور فروغ جیسے ہرعلاج کا عالمگیریت کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کا
بحران رس رس کر‘بوند بوند اور قطرہ قطرہ ہوکر چین اورہندوستان جیسے ممالک
میں بھی پہنچ چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس فیصلہ کن موڑ پرعوام کے پاس سرمایہ
دارانہ نظام کا نجات دہندہ متبادل میسرہونے کے باوجود بے یقینی کی وجہ سے
محرومی کے شکار ہیں۔اشتراکیت پسند یا مارکسیMarxist آج بھی اپنے پرانے اور
انہدام کے باقیات پر تکیہ کر رہے ہیں ، وہیں باقی لوگ سرمایہ دارانہ نظام
کے رگ و جان کی دوا دارو میں مصروف ہیں۔ دنیا آج اسی تاریک راستے پربھٹک
رہی ہے جہاں آج سے بیس برس پہلے حیران و پریشان تھی جبکہ حق پسندوں کے
سامنے بلاسودی سرمایہ کاری کی روشن قندیل کامیابی کا راستہ دکھا رہی ہے۔ |