بچے من کے سچے تو سناکرتے تھے ۔بچے
سماج کے کھرے اوربیباک نقادبھی ہوتے ہیں۔یہ اب سامنے آیاہے۔پچھلے دنوں کسی
کام سے ہمیں گاؤں جاناپڑااہم امورنبٹانے کے بعدبوریت دورکرنے کےلئے ہم
کھیتوں کی طرف چل پڑے۔چلتے چلتے ہم اس دوایکڑ زمین کی طرف جانکلے جسکو بچوں
کے کھیلنے کےلئے باقاعدہ ایک گراؤنڈکی شکل دیدی گئی تھی۔گراؤنڈ کے ایک کونے
میں اینٹیں جماکرکے بچوں نے ایک چھوٹا ساسٹیج بنالیاتھاجسکووہ مختلف مشاغل
کےلئے استعمال کرتے ہیں اس وقت سٹیج پر کچھ بچے ایک قوالی پیش کررہے تھے
اورسامنے بیٹھے کم سن سامعین تالیوںسے قوالوں کی تال سے تال ملانے میں محو
تھے۔قریب پہنچنے پر قوالی کے بول سمجھ میں آنے لگے۔
کیساپاکستان ہے ،یہ کس کاپاکستان ہے؟
سوناجس کاقریہ قریہ ہرگلی ویران ہے
روح یہ بول سن کرمنجمدہوگئی اورپیشانی عرق آلود،یاوحشت یہ بچے کیاگارہے ہیں۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے کب اورکیسے یہ قوالی ختم ہوئی اورایک پرجوش پھولے
گالوںوالاننھاسیاستدان نعروں کی گونج میں سٹیج پر پہنچااورہاتھ
ہلاہلاکرکہنے لگا۔دوستوں یہ پاکستان ہے جس کوہم نے اپنے عمل سے پاپستان
بنادیاہے۔ یہاں ہر قسم کاپاپ آسانی وسہولت سے ممکن ہے۔ذخیرہ اندوزی،بھتہ
خوری اورسمگلنگ سے لیکربم بلاسٹ اورٹارگٹ کلنگ تک سب کیجئے کوئی پوچھنے
والانہیں ۔کیونکہ پوچھنے والے تورات کے اندھیرے میں جرائم کی پلاننگ کرنے
والے ماسٹرمائنڈکے خفیہ ٹھکانوںپرباادب سامع بن کربیٹھے بیٹھے سدھ بدھ
کھوچکے ہیں۔یہاں اشیاءخوردونوش کی قیمتیں آسمان کوچھورہی ہیںتوکیاہوا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
عوام الناس جسم وجان کارشتہ قائم رکھنے کےلئے عجب عجب حربے وحیلے خوداپنے
جسم وجان پر آزمانے جوگے جو ہیں۔وہ بچوں کودودھ کی جگہ پانی فیڈرمیں ڈال
ڈال کربہلالیتے ہیں اورچپائی کی جگہ چنے ابال ابال کرپیٹ کے دوزخ
کوٹھنڈاکیاکرتے ہیں۔اگریہ بھی ممکن نہ ہوتوخودسوزی اورخودکشی کاآسان نسخہ
ہے نا۔اسکے علاوہ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک لمبے تڑنگے نے
مقررکوگریبان سے پکڑکرسٹیج پرسے اتاردیا اور پختون لب ولہجہ میں
بولاچھوڑئیے چھوڑئیے یہ سب لٹیرے،پاپی اورتماشاگرہیں مگر اب انکی راگنیاںبے
تاثیرہوچکی ہیں اس تباہ شدہ قوم وملت کوتباہی سے اگرکوئی بچاسکتاہے تو وہ
صرف اورصرف ہم ہیں۔ ہم ناصرف دوسروں کامحاسبہ کرتے ہیں بلکہ خودکواس کےلئے
پیش کرنے کاارادہ بھی رکھتے ہیں ۔اگرہماری اس بات میں دم نہ ہوتاتو مختلف
دھڑوں کے جھاڑجھنکارہمارے سایہ عاطفت میں سمٹ آنے کی کوشش نہ کرتے۔پختون
مقررکوسندھی ٹوپی والے نے کہنی مارکرہٹایااورکہناشروع کیا۔
یہ سب ذہنی طورپرمفلوج ہوچکے ہیں۔یہ کیاسمجھیں حکمرانی کے ول پھیر۔۔۔۔؟انہیں
کیاخبرکہ کمزورمعیشت کوسہارادینے کےلئے کس کس طرح کشکول برداروباداب”وڈے
سائیں“کے حضورجاناپڑتاہے۔ اورکس طرح ایک ایک ڈالرکے بدلے سوسوجھڑکیں
اورکھرکیںبرداشت کرناپڑتی ہیں۔ہم نے اپنے اثاثوں اوربنک بیلنس میں اسی طرح
اضافے کئے۔اوہ سوری میرامطلب ہے ہم نے اسی طرح اس ملک کو ہمیشہ پاؤں پاؤں
چلتے رہنے پر مجبوررکھا۔(کبھی اڈاری نہیں مارنے دی)۔آپ یقین کیجئے۔۔۔۔۔اوراسکے
بعدپوراپنڈال چمچوں اورپتلی پتلی لکڑیوںسے مقررکی درگت بنانے لگا۔ارے توکون
ہوتاہے اس ملک کوپاؤں پاؤں چلانے والا؟ اور تو کیا سمجھتا ہے؟گیس کے
بغیر،بجلی وپانی اورعلاج کی سہولت کے بغیر،نان روٹی اورمعاشی خوشحالی کے
بغیر یہ ملک پاؤں پاؤں چلے گا؟تم جیسوںنے توملک کواوندھے منہ زمین پر
گرادیاہے۔اوراب اس سے آگے دیکھنے اورسننے کایارانہ رہاتھا۔ہم میںسواس اداس
اورگدلی آبجوکے کنارے ڈھے سے گئے جسکے شفاف پانیوں کے سنگیت کی سنگت میں ہم
نے جذبہ واحساس کومتشکل کرنے اورلفظوں کاچولاپہنانے کے ہنرکاآغازکیاتھا۔
حقیقت کی تلخی گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے دل ودماغ دونوں اس سوال کے کرب سے
دوچارہیں کہ پاکستان کا پاپستان بنانے والوں کاکوئی یوم حساب ہے بھی
یانہیں۔یہ بچے تلخی احساس وجذبہ کی کڑواہٹ سے نکل کر کبھی سندرسپنوں کی
شیرینی کامزہ چکھ سکیں گے؟من مندرکی مہین گھنٹیوں کے البیلے سروں میں
جھومناکیاآج کے ان ننھے نقادوں کامقسوم ہوسکتاہے یانہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ |