”آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے
بھی پیدل چلنے کی اجازت دے دیں“ ۔جواب ملا: ”مجھے سوار ہونے اور تمہیں پیدل
ہونے کی ضرورت نہیں، میں تو ہر قدم کو راہ باری تعالیٰ میں شمار کر رہا ہوں“۔
وہ دونوں پر وقار انداز میں آہستہ رفتار کے ساتھ شہر سے باہر جانے والے
رستے پر چل رہے تھے۔ ایک شخص پیدل اور دوسرا سوار تھا۔ پیدل چلنے والا شخص
اپنے سوار ساتھی کو ایسے نصیحتیں کر رہا تھا جیسے کوئی شفیق باپ اپنے بیٹے
کو لمبے سفر پر رخصت کرتے وقت نصیحت کرتا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا: ”تمہیں شام
میں تارک الدنیا راہب ملیں گے تم ان سے تعرض کرنا نہ ہی ان کی رہبانیت سے۔
بیچ سے سر منڈانے والے لوگوں سے اگر جنگ میں واسطہ پڑے تو ان کے سر کے اسی
حصہ پر تلوار کا وار کرنا“۔ سوار انتہائی انہماک سے یہ ہدایات سنتا جا رہا
تھا۔ پیدل شخص خلیفہ رسول، خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ تھے جنہوں
نے حضرت سیدنا یزیدؓ کو شام کی طرف لشکر کشی کرنے والی فوج کا امیر مقرر
کیا تھا اور اب حضرت یزیدؓ بن ابو سفیانؓ کو الوداع کہنے کچھ دور ،اُن کے
ساتھ چل رہے تھے۔
سیدنا یزیدؓ صاحب دارالامن سیدنا ابو سفیانؓ کے بڑے بیٹے اور امیر المومنین
سیدنا معاویہؓ کے بڑے بھائی تھے۔ آپؓ کی کنیت ابو خالد اور لقب خیر تھا۔ آپؓ
انتہائی متقی اور سلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے لقب کی وجہ سے حضرت
اقدسؓ یزید الخیر کے نام سے مشہور تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام
ہوئے اور انبیاءعلیہم السلام کے بعد افضل و اشرف ترین جنتی طبقہ یعنی صحابہ
کرامؓ کی جماعت میں شامل ہوئے۔یا یوں سمجھیں کہ گلشن محمدی کے معطر اور خوش
نماپھول اور آسمان نبوت کے ستاروں میں شامل ہوئے۔ دیگر صحابہ ؓ سمیت قرآن
کریم کی تقریباً سات سو آیات کے مصداق بنے۔ غزوہ حنین میں نبی اکرمﷺ کی
معیت میں کفر کے مقابلہ پر آئے۔ اس غزوہ کے مال غنیمت سے خاتم المعصومین ﷺ
نے حضرت سیدنا یزیدؓ کو چالیس اوقیہ سونا/چاندی اور ایک سو اونٹ مرحمت
فرمائے۔ نگاہ محمد مصطفیﷺ ،سیدنا یزیدؓ کی خدا داد صلاحیتوں کو بھانپ چکی
تھی اسی لیے آپﷺ نے بنی امیہ کے اس ممتاز اور اعلٰی صفات و صلاحیت کے مالک
سیدنا یزیدؓ کو بنی فراس کی امارت سونپ دی۔
عہد رسالت میں حضرت یزیدؓ کو اپنی گوناگوں صلاحیتوں کے استعمال کا موقع
قدرے کم میسر ہوا۔ اس لیے دور صدیقی و فاروقی میں سیدنا یزیدؓ نے کھل کر
اپنی فراست و ذہانت اور دانش مندی و دلیری کے جوہر دکھائے۔ سیدنا ابوسفیانؓ
کے قابل قدر فرزند اور امیرالمومنین سیدنا معاویہؓ کے بڑے بھائی سیدنا یزید
الخیر ؓ نے کفار کے خلاف جہاد میں سیدنا خالدؓ بن ولید سیف اللہ، فاتح مصر
سیدنا عمروؓ بن العاص اور امین الامت سیدنا ابو عبیدہ ؓ بن الجراح من عشرہ
مبشرہ کی معیت میں شجاعت و تدبر سے پُر وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو
کہ آب ِزر سے تحریر کرنے کے لائق ہیں۔ آنجنابؓ کی دی ہوئی مدبرانہ تجاویز
سے فتوحات شام میں زبردست مدد ملی۔ جنگ یرموک میں ایک فوجی دستہ کے قائد
سیدنا یزید ؓ تھے۔ خلیفہ ثانی، امام عدل وجلالت سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے
اپنے سنہری دور خلافت میں سیدنا یزیدؓ کو سرزمین انبیاءیعنی فلسطین کا امیر
بنایا۔ بصرہ، اجنادین اور اردن کی مہمات میں سیدنا خالدؓبن ولید، سیدنا
عمروؓ بن العاص اور سیدنا ابوعبیدہؓ بن الجراح جیسے جری اور مایہ ناز
جرنیلوں اور سپہ سالاروں کے ساتھ حضرت سیدنا یزیدؓ بھی قدم بہ قدم نہ صرف
شامل رہے بلکہ ان ناقابل تسخیر کمانڈروں کے ساتھ حیرت انگیز اور امتیازی
خدمات انجام دیں۔ سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت میں 18ھ کے اواخر یا
19ھ کے اوائل میں سرزمین شام پر یہ عبقری شخصیت، رفیق سیف اللہؓ و امین
الامتؓ یعنی سیدنا ابو خالد یزید الخیرؓ بن ابی سفیانؓ دنیا سے رخصت ہوئی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ عظیم قرآنی شخصیات ہیں جن کو اللہ
تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لسان صداقت سے جنت
کی بشارتیں دنیا میں ہی دے دیں۔ یہ حضرت محمدﷺ ہی کی صحبت کا فیض ہے کہ
تمام صحابہ کرامؓ بکو امت ِمسلمہ ،عادل اور جنتی تسلیم کرتی ہے۔ صحبت ِنبوت
ہی کا کرشمہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی قرآن و سنت میں بیان کی گئی عظمت کو کوئی
مضبوط سے مضبوط روایت بھی داغ دار نہیں کر سکتی۔
اس پر فتن دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کے نقش قد م پر چلتے ہوئے قرآن و سنت سے اپنی زندگی کے ہر قدم
پر رہنمائی حاصل کریں اور نسل نَو کو اسلام کی لازوال تعلیمات سے آگاہ
کریں۔ نوجوان نسل کو کم از کم اپنے عقائد و اعمال میں انتہائی مضبوط اور
غیر متزلزل ہونا چاہیے تاکہ وہ آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ
وقت مستعد رہیں۔ مسلم امہ کے اسلامی تشخص کو پارہ پارہ کرنے کے لیے یہ
سازشیں دور نبوت و خلافت سے جاری ہیں اور اب ان میں کچھ عرصہ سے تیزی آرہی
ہے۔ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں عصری تقاضوں کا پورا کرنا ضروری
ہے وہاں دینی طور پر بھی ہمیں علم و حکمت اور ہدایت و جرات کے روشن چراغوں
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حیات ِمبارکہ سے
رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ مگر خاطر خواہ اور مؤثر طور پر یہ امر اس وقت
پورا ہو گا جب ہمارے اور ہماری آئندہ نسلوں کے اذہان و قلوب میں عظمت
صحابہؓ ؓ کی شمع روشن ہو گی۔ اس لیے ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر نبیﷺ کی تربیت
یافتہ جماعت کے ہر ہر فرد کی عظمت و بزرگی کو معیار و مدار بنانے کی ضرورت
ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے والا بنادے۔آمین! |