جاگیر داروں کا سرمایہ‘غریب عوام کا خون۔

روسو کو انقلابِ فرانس کا نقیب مانا جاتا ہے۔اس کے نزدیک ابتدائی انسان نہائیت نیک‘ معصوم اور بھولا بھالا تھا۔غرور‘ ہوا اور ہوس‘ نفرت اور عداوت‘لڑائی‘فسادغرضیکہ معاشرے کی تمام برائیوں سے پاک وہ بڑی سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔پیاس لگتی تو چشمے سے پانی پی لیتا،بھوک لگتی تو درختوں سے پھل کھا لیتا، نیند آتی تو کسی درخت کے سائے میں پاﺅں پھیلا کے سو جاتا۔ نہ غم امروز‘ نہ فکر فردا۔ نہ کوئی کسی کا آقااور نہ کسی کا محکوم۔لیکن فراغت اور مساوات کا یہ دور ذاتی ملکیت کے ہاتھوں برباد ہوگیا۔سول سوسائٹی کا حقیقی بانی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے زمین کے ایک ٹکڑے کو چاروں طرف سے گھیرا اور دعویٰ کیاکہ یہ زمین میری ہے،اگر کسی شخص نے اس گھیرے کو توڑ دیا ہوتااور لوگوں کو خبردار کیا ہوتاکہ دیکھو اس فریبی کی باتوں میں نہ آنا کیونکہ زمین کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں ہے بلکہ زمین کا پھل سب کا ہے‘ نسل انسانی کتنی جنگوں‘ کتنے جرائم‘کتنے قتل‘ کتنی بپتاﺅں‘ کتنی بربادیوں سے بچ گئی ہوتی۔روسو ذاتی ملکیت کا دشمن ہے۔جاگیری نظام کا دشمن ہے۔عدم مساوات کا دشمن ہے۔ اس کے نزدیک تمام برائیوں کی جڑذاتی ملکیت بالخصوص زمین کی ذاتی ملکیت ہے۔ وہ ذمین اور دوسری تمام چیزوں کو پورے معاشرے کی مشترکہ ملکیت دیکھنا پسند کرتا ہے‘جیسا کہ تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں تھا۔روسو کی رائے میں اناج اور لوہاانسان کے حق میں سب سے بڑی لعنت ثابت ہوئے۔انہیں اشیاءکے استعمال سے نابرابری میں اضافہ ہوا۔ذاتی ملکیت کو فروغ ہوااور ذاتی ملکیت کے تحفظ کیلیئے قانون بنائے گئے۔انسان کی آزادی سلب ہو گئی اور قناعت اور توکل کی جگہ نفع خوری اور مفادپرستی نے فروغ پایا۔

چند دن پہلے میرا جموں‘پاکستان باﺅنڈری لائن جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں آرمی کے نصب شدہ ٹاور سے میں نے باڑھ کے اس پار نظر دوڑائی تو مجھے کوئی فرق نہیں دکھائی دیا۔سورج کی روشنی سے استفادہ حاصل وہ بھی کرتے ہیں۔مستفید ہم بھی ہوتے ہیں۔رات ادھر بھی ہوتی ہے دن ادھر بھی نکلتا ہے۔بارش ادھر بھی ہوتی ہے ۔بادل ادھر بھی گرجتے ہیں۔اِدھر بھی گندم کے لہلہاتے کھیت تھے۔ادھر بھی تھے۔پھر میں نے باڑھ کی طرف سے غور سے دیکھا اور سوچا۔اچھایہ ہے وہ چیز جس نے کئی گھر تباہ کر دیے۔ لاکھوں معصوموں کا خون پی لیا۔اب بھی نہ جانے کتنے لوگوں کے سر پر تلوار بنے کھڑی ہے۔کتنے دنگے فساد ہوئے اس کی وجہ سے۔ یہاں سے تھوڑا ہٹ کے سوچیں تو دنیا میں ایسی لاکھوں حد بندیاں ہیں جس نے نسلِ انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ لا تعداد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفرقات‘لڑائی جھگڑے‘بغض‘فسادات کی واحد جڑیہ حد بندیاں نہیں ہیں؟پوری انسانیت اگر آدم کی اولاد ہے تو پھر آقا اور غلام کیوں؟ امیر کیوں غریب کیوں؟ چھوٹا کیوں بڑا کیوں؟ظالم اور مظلوم کیوں؟ ایک آدمی کو چوری کرنے کیلئے پہلے مجبور کر دو‘بعد میں جیل بھیج دو یا اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

ایک عام آدمی کے لیے یہ حدیں بے معنی ہیں۔ بلکہ اسے کبھی اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔کیونکہ وہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔اس کے پاس کھانا کھانے کیلیئے پیسے نہیں ہیں‘ پہننے کو کپڑے نہیں‘رہنے کو جگہ نہیں۔وہ صرف غلامی کیلیئے پیدہ ہوا ہے۔ سرمایہ داروں کی غلامی کیلیئے۔ محنت یہ کرے گا‘منافع دولت مند کو ہوگا۔فصلیں یہ کاٹے گا۔ دولت جاگیر دار کی بڑھے گی۔قانون صرف اور صرف سرمایہ دار کی جائیدادوں کی حفاظت کیلیئے بنے ہیں۔حکمران عوام سے روٹی‘کپڑا اور مکان کا وعدہ کرکے عوام سے یہی چھین لیتے ہیں۔ اور عوام کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔عوام نے جو کمانا ہے پھر اسے ٹہکس کی صورت میں واپس لوٹانا ہے۔یہ سب سوچتے ہوئے میں نے پرندوں کی طرف دیکھا جو دانا چن رہے تھے اور بلا روک ٹوک سرحد کے اِس پار اور اس پار آ جا رہے تھے۔
Shahid Chaudhry
About the Author: Shahid Chaudhry Read More Articles by Shahid Chaudhry: 13 Articles with 11896 views I am journalist and columnist. .. View More