کیا عالم عرب کے دینی جامعات میںصرف عربی زبان و ادب پر ہی زور دیا جاتا ہے؟

یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے

نکات:
۱- ہمارے مدارس کے نصاب ونظام تعلیم اور عالم عرب کے دینی جامعات کے نصاب ونظام تعلیم میں بنیادی فرق کیا ہے؟ ۲-ہندستانی مدارس میں ایک عام تأثر یہ ہے کہ علوم وفنون کی تعلیم کا جو معیار ہمارے مدارس میں ہے وہ عالمی جامعات میں نہیں ،لہٰذا وہاں ہمارے طلبہ کو صرف عربی ادب پڑھنا چاہیے ،یہ کہاں تک درست ہے ؟
۳-عالم عرب کے جامعات میں جا کر ہمارے طلبہ میں مسلکی پختگی باقی رہتی ہے یا نہیں؟
۴کیا ہندستان سے باہر جا کر ان جامعات میں پڑھنے والے طلبہ میں آزادی اور آزاد خیالی آجاتی ہے ؟ (ادارہ جام نور)

اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دوں اپنا ایک ذاتی تجربہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں -گزشتہ سال تعطیل میں ہندوستان گیا وہاں ایک ’’مولانا صاحب‘‘ سے ملاقات ہوئی گفتگو کے دوران انہوں نے پوچھا کہ آپ ازہر میں کیا پڑھ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ علوم قرآن اور تفسیر میں تخصص کررہا ہوں- اس پر بجائے اس کے کہ وہ پوچھتے کہ وہاں علوم قرآن اور تفسیر میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ اس کے بعد کوئی رائے قائم کرتے انہوں نے برجستہ فرمایا کہ آپ کو وہاں پر ’’ عربی ادب‘‘ پڑھنا چاہئے تھا تفسیر و حدیث کی تعلیم کا انتظام تو ہمارے یہاں بھی بہت معقول ہے، جس برجستگی سے انہوں نے یہ فرمایا تھا اسی برجستگی سے اس ’’ معقول انتظام‘‘ کے بارے میںمیں بھی عرض کرسکتا تھا کہ محترم! علوم قرآن، اصول تفسیر، مناھج المفسرین، طبقات المفسرین، الاسرائیلیات فی التفسیر، الدخیل فی التفسیر وغیرہ کی وہ کون کون سی کتب ہیں جو آپ کے مدارس میں تلاوت کی جاتی ہیں؟ مگر میں نے کسی مولویانہ کج بحثی میں پڑنے کی بجائے خاموشی زیادہ مناسب سمجھی- کیونکہ وہ ایک ’’ مولانا‘‘ ہیں لہٰذا اب انہیں کوئی کیونکر سمجھا سکتا ہے کہ جلالین و مدارک کے سر سری ترجمے اور بیضاوی کے ابتدائی دس بیس صفحہ پڑھنے پڑھانے کا نام ہی صرف تفسیر نہیں ہے بلکہ ع
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ علوم قرآن اپنے وسیع تر معنی میں بلاغت و معانی، فقہ اللغۃ اور نحو و صرف سب کو شامل ہے، اور شاید یہ بات بھی ’’ مولانا‘‘ کی سمجھ میں نہیں آتی کہ عربی ادب کا جو تنگ مفہوم موصوف کے ذہن میں ہے ( یعنی جدید عربی لکھنا اور بولنا) تو اتنا عربی ادب تو یہاں کسی بھی شعبہ میں محنت کر کے آسکتا ہے اس کے لیے شعبۂ عربی ادب میں ’’تحقیق و تدقیق‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں ہے- یہ غلط فہمی یا خوش فہمی صرف ان مولانا کی حد تک نہیں بلکہ ہمارے یہاں یہ ایک عام تأثر ہے کہ عالم عرب کے جامعات میں علوم دینیہ یا شرعیہ کی بجائے عربی ادب پڑھنا چاہئے کیونکہ باقی علوم کی تعلیم تو ہمارے مدارس میں بہت اچھی ہوتی ہے- مگرزمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ تأثر صد فی صد حقیقت کے خلاف اور ہماری نا واقفیت پر مبنی ہے- دوسرے عالمی جامعات سے قطع نظر اگر صرف ازھر شریف کے نصاب اورطریقہ تدریس کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں ہر فن کے لیے الگ الگ شعبہ ہیں جن میں ہر فن کے ماہر اساتذہ پڑھاتے ہیں ازھر شریف کے نصاب یا نظام تعلیم پر تفصیلی گفتگو کرنے کا یہ موقع نہیں ہے کیونکہ … ع
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

یہاں مختصراً چند باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں دینی علوم کے لیے یہاں پر پانچ کلیات یاFaculties ہیں Œ کلیۃ اصول الدین چ کلیۃ الشریعۃ الاسلامیۃ ژ کلیہ الدراسات الاسلامیہ والعربیۃ ڈ کلیۃ اللغۃ العربیۃ و آدابھا گ کلیۃ الدعوۃ- پھر ہر کلیۃ میں مختلف شعبے اور اقسام ہیں مثلاً کلیۃ اصول الدین میں مندرجہ ذیل چار شعبے ہیں Œ قسم التفسیر وعلوم القرآن چ قسم الحدیث و اصولہ ژ قسم العقیدۃ والفلسفہ ڈقسم الدعوۃ- اسی طرح کلیۃ اللغۃ العربیۃ میں پانچ شعبے ہیں- Œ قسم الادب والنقد چ قسم البلاغۃ ژ قسم اللغویات ڈ قسم الصحافۃ گ قسم التاریخ والحضارۃ- ایسے ہی دیگر تمام کلیات میں ع
قیاس کن زگلستاں من بہار مرا

اب مثال کے طور پر آپ قسم التفسیر و علوم القرآن کولیں- تو اس سال یعنی بی اے کے آخری سال میں ہمارے تیرہ ۱۳ سبجیکٹس یا مضامین تھے ان میں ۷؍ مضامین صرف علوم قرآن اور تفسیر سے متعلق تھے اب ان ۷؍ مضامین کا ذرا تنوع ملاحظہ فرمائیں-Œ تفسیر تحلیلی چ تفسیر موضوعی ژ اصول تفسیر ڈ مناھج المفسرین گ دخیل فی التفسیر ‘ ادوات التفسیر ’ اعجاز القرآن-

جہاں تک نظام تعلیم کا سوال ہے تو ان لوگوں نے زمانے کے تقاضوں اور عصر حاضر کے طلبہ کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر اپنے نصاب اور نظام میں بڑی خوش گوار تبدیلیاں کی ہیں، مثال کے طور پر صرف ایک مضمون تفسیر تحلیلی کو ہی لیں اس مرتبہ اس مضمون کے تحت دوسورتیں (سورۂ حجرات اور سورۂ شوریٰ) داخل درس تھیں، اب ان سورتوں کی تفسیر پڑھانے کے لیے بجائے اس کے کہ کوئی پرانی کتاب داخل درس کردی جائے اساتذہ خود ہی ایک مستقل کتاب تصنیف کرتے ہیں- اور اس کو مصنف خود ہی پڑھاتا ہے، کتاب کی تصنیف کا طریقہ یا اسلوب یہ ہوتا ہے کہ متقدمین ومتاخرین کی اہم کتب تفسیر کو سامنے رکھ کر یہ کتاب لکھی جاتی ہے جس میں ان تفاسیر کے تمام اہم مباحث ( وہ لغوی و بلاغی ہوں، فقہی ہوں یا عقائد کے ہوں) کا نچوڑاور خلاصہ نہایت آسان زبان اور سہل انداز میں درج کردیا جاتا ہے، اب چونکہ مصنف خود ہی کتاب پڑھاتا ہے لہٰذا اس لا یعنی اعتراض و جواب کی گنجائش بھی نہیں رہتی کہ ابتداء بسملہ کی کتنی صورتیں ہیں اور مصنف نے کتاب لکھنے سے پہلے بسم اللہ کی تھی یا نہیں اور اگر کی تھی تو زبانی کی تھی یا لکھ کر کی تھی اگر زبانی کی تھی تو فلاں تسلسل لازم آیا اور اگر لکھ کر کی تھی تو فلاں دور لازم آیا وغیرہ وغیرہ- اب اس مضمون کے امتحان کی سنئے- اس کا امتحان تحریری اور تقریری دونوں طرح ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تقریری امتحان اس کتاب کا نہیں ہوتا جو پڑھائی جاتی ہے بلکہ تقریری امتحان کے لیے تفسیر کی بنیادی کتابیں داخل ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ امتحان سے صرف ۱۵ روز پہلے بتایا جاتا ہے کہ امتحان کس کتاب سے دینا ہے- مثلاً اس مرتبہ ہمارے لیے تین کتابیں مقرر کی گئیں تھیں تفسیر بیضاوی، تفسیر کشاف، تفسیر قرطبی، امتحان سے صرف ۱۵ روز پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ طلبہ ان تینوں کتابوں سے سورۂ حجرات کی فلاں آیت سے فلاں تک ( تقریباً ۱۲ آیتیں) کی فوٹو کاپی کلیہ کی لائبریری سے حاصل کرلیں تقریری امتحان فلاں تاریخ کو ان تین کتابوں سے ہوگا، یہ صرف ایک مضمون کے نصاب، طریقہ تدریس اور نظام امتحان کی ایک جھلک تھی باقی کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے- یہ بھی یاد رہے کہ ازھر میں پاس ۳۳ نمبر پر نہیں بلکہ بی اے میں ۵۰ نمبر پر اور ایم اے میں ۶۰ نمبر پر ہوتا ہے عام طور پر طریقۂ تدریس یہ ہے کہ استاذ نے جو کچھ کتاب میں لکھا ہے وہ بغیر کتاب کھولے طلبہ کو سمجھا دیتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی بتادیتے ہیں کہ اس بحث کی مزید تفصیل فلاں کتاب کی فلاں جلد اور صفحہ پر ہے اب اگر طالب علم شوقین اور محنتی ہو تو کتب خانے میں جا کر اس کتاب کو دیکھ لے اگر وہاں کچھ سمجھ میں نہ آئے تو اگلے روز استاذ سے پوچھ لے وہ پوری بحث کی تشریح مع عبارت کے حل کردیں گے- یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ بعض مضامین ایسے ہیں جو کم وبیش تقریباً تمام کلیات اور تمام شعبوں میں مشترک ہیں مثلاً سیرۃ النبی، فقہ، استشراق، تقابل ادیان، اورتحریکات فکریہ معاصرہ ،تحریکات فکریہ میں دور جدید اور ماضی قریب کے فکری مکاتب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے- مثلاً الحادی تحریک، اشتراکیت ماسونیت، صیہونیت وغیرہ وغیرہ آپ کو حیرت ہوگی کہ میں ہندوستان کا ہوکر ہندو اور بدھ مذاہب کی تاریخ اور ان کے مذہبی عقائد واصول سے نا آشنا تھا- ان سے واقفیت بھی ازھر کے نصاب کی دین ہے-

طلبہ کی قلمی تربیت اور تحقیقی مزاج پیدا کرنے کے لیے یہاں ہر سال دو اور بعض شعبوں میں تین مقالے لکھوائے جاتے ہیں- اس کو انہوں نے ایک مستقل سبجیکٹ قرار دیا ہے جس میں پاس ہونا ضروری ہے، یہ مقالہ ۱۵؍ سے لے کر چالیس صفحات تک کا بھی ہو سکتا ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ مقالہ عربی میں لکھا جاتا ہے-مثلاً اس سال میں نے دو مقالے لکھے(۱) الاستشراق اھدافہ و منھجہ (۲) التفسیر العلمی للقرآن دراسۃ نقدیہ (اس مقالے کا اردو ترجمہ اب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے)

اگر ہمارے یہاں کے نصاب تعلیم کے تناظر میں یہاں کے نصاب اور نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو کئی اہم اور بنیادی فرق سامنے آتے ہیں-( یاد رہے کہ اس تقابلی مطالعہ سے درس نظامی کی تحقیر یا توہین مقصود نہیں ہے اس درس کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں منفی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر کے صرف اثباتی اور ایجابی پہلوؤں کی جنت میں رہنا دانش مندی نہیں ہے اس سے اصلاح اور ترقی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں)

(۱) ایک اہم چیز یہاں یہ ہے جو ہمارے یہاں بھی ہونا چاہئے کہ کسی بھی فن کو شروع کرنے سے پہلے ایک مختصر سی کتاب پڑھائی جاتی ہے جس کو ’’ مدخل‘‘ کہتے ہیں اس کتاب میں متعلقہ فن کی تعریف، تدوین، غرض و غایت، موضوع، اس پر تصنیف کردہ متقدمین و متاخرین کی اہم کتب ان کتب کا تعارف ان کی خوبیاں، خامیاں، اسلوب تصنیف وغیرہ سب کچھ موجو د ہوتا ہے- اس کے برخلاف ہمارے یہاں طالب اصول الشاشی سے لے کرحسامی تک اصول فقہ کا پورا نصاب پڑھ لیتا ہے مگر اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصول حنفی اور اصول شافعی میں بنیادی فرق کیا ہے یا اصول کرخی اور اصول بزدوی کس چڑیا کا نام ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ سر سری طور پر ہمارے یہاں فن کی تعریف غرض و غایت اور موضوع کی چند سطور پڑھائی جاتی ہیں مگر وہ بھی اس معقولی بحث کی نذر ہوجاتی ہیں کہ موضوع اسے کہتے ہیں جس کے عوارض ذاتیہ سے علوم میں بحث کی جائے- پھر اس کے بعد عوارض ذاتیہ کی تعریف اور تقسیم میں درس کا باقی وقت ختم ہوجاتا ہے-

(۲) ہمارے یہاں چونکہ کسی ایک کتاب کی تشریح اس کی مغلق اور چیستاںقسم کی عبارتوں کی توضیح اس کے ضمیر و مرجع کا تعین پر ہی درس کا انحصار ہوتا ہے اس طریقۂ درس کے فوائد جو بھی ہوں مگر اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہم اس کتاب کی حد تک تو بہت قابل ہوتے ہیں مگر جس فن یا علم پر وہ کتاب ہے اس میں خاطر خواہ درک پیدا نہیں ہوپاتا مثال کے طور پر شرح جامی اور مختصر المعانی وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے، یہ ایک عجیب و غریب صورت حال ہے- یہاں چونکہ درس کا انحصار کسی ایک کتاب پر نہیں ہے بلکہ براہ راست فن کی تعلیم ہوتی ہے اور کتاب بھی وہ داخل درس ہے جو بہت سی کتابوں کا نچوڑ ہے اس کے نتیجہ میں متعلقہ فن کی حد تک یہاں کے طالب علم کی معلومات اور مطالعہ اس سطح کے ہمارے طالب علم کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوتا ہے-

(۳) ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ ہمارے موجودہ نصاب اور طریقۂ درس سے ایک قسم کی جمودی فکر اور تقلیدی مزاج پیدا ہوجاتا ہے، جوآدمی کو لکیر کا فقیر بنادیتا ہے- جب کہ ازھر کے نصاب اور نظام تعلیم سے تحقیقی مزاج پیدا ہوتا ہے، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ میں فقہی تقلید کے انکار کی راہ پیدا کر کے غیر مقلد یت کے لیے راستہ صاف کررہا ہوںکیونکہ غیر مقلد ہونا الگ چیز ہے اور علمی و تحقیقی فکر کا حامل ہونا الگ بات ہے یہاں امتحان کے پرچوں میں سوا ل اس طرح ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ میں فریقین کے دلائل ان کا تحقیقی تجزیہ اور پھر اس مسئلہ میں اپنی رائے مع دلائل کے لکھو-

جہاں تک عقائد میں کمزوری یا مسلکی فکر میں تذبذب کا سوال ہے تو اس پر عرض ہے کہ ظاہر ہے کہ یہ ایک عالمی یونیورسٹی ہے جہاں ہر طرح کی فکر ورائے کے حامل اساتذہ موجود ہیں- ممکن ہے بعض طلبہ کسی استاذ کی فکر سے جزوی یا کلی طور پر متأثر ہوجائے- لیکن میری رائے میں ہمارے یہاں سے جو طلبہ یہاں آتے ہیں وہ فارسی کی پہلی پڑھ کر نہیں آتے بلکہ ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل ہوکر آتے ہیں ان کے عقائد و نظریات میں اتنی پختگی تو بہر حال ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی گمراہ فکر سے متأثر نہ ہوں بلکہ اپنے مسلک کا دفاع بھی کرسکیں، اگر آٹھ دس سال میں فارغ التحصیل کرنے کے بعد بھی آپ اپنے طلبہ میں اتنی صلاحیت اور پختگی پیدا نہ کرسکے تو پھر آپ کے مدارس اور ان کے نصاب تعلیم پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا- ذاتی طور پر میں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہاں مختلف مسالک اور مکاتب کی کتب کا مطالعہ کر کے اور مختلف المسالک لوگوں سے گفتگو اور علمی مذاکرے کے بعد میں اپنے مسلک میں اور بھی پختہ ہوگیا اگر یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ حنفی، سنی، اور ماتریدی مسالک کے اصول و کلیات پر پہلے میرا ایمان و اعتقاد صرف ’’ شنیدہ‘‘ تھا مگر اب ’’ دیدہ‘‘ کی منزل میں ہے -رہے فروعی اور جزوی مسائل تو ان پر تو خود اہل سنت والجماعت میں مختلف آرا موجود ہیں-

آزاد روی اور آزاد خیالی کے خطرے کو میں یکسر مسترد نہیں کرتا مگر اس بات کو اس زاوئیے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ در اصل یہ ایک چھ سٹر کا ہے جہاں سے مختلف سمت میں راستے جاتے ہیں اب یہ فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے کہ آپ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اگر طالب علم طبیعتاً آزاد خیال ہی ہو تو اس کو آپ اپنی من مانی کرنے سے نہیں روک سکتے بس فرق اتنا ہے کہ اس کے جو شوق اور مشاغل ہندوستان میں چھپ چھپاکر ہوا کرتے تھے اب یہاں بلا خوف و خطر کھلے عام کرسکتا ہے، اگر آپ کوتضیع اوقات ہی کرنے کا شوق ہے تو یہاں اس کے لیے اتنے سامان مہیا ہیں کہ عمر خضر بھی کم پڑجائے- اور اگر آپ علمی شوق رکھتے ہیں تو اس کے لیے بھی یہاں اتنا وسیع میدان ہے کہ آپ کو کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ملے گی- ازھر شریف کے علاوہ یہا ںعالم اسلام کی سب سے قدیم اور عظیم لائبریری دار الکتب المصریہ ہے اور اس سے دو قدم کے فاصلہ پر نیل کا ساحل بھی ہے جو اپنے رنگ و نور اور حسن و جمال کی وجہ سے سیر و تفریح کا عالمی مرکز ہے اب آپ کے قدم دار الکتب المصریہ کی طرف اٹھتے ہیں یا ساحل نیل کی طرف اس کا انتخاب تو آپ کو ہی کرنا ہے-
(جام نور ستمبر ۲۰۰۳ئ)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.