دعوت و تبلیغ کے لیے خـانقاہی نظام کتنا مؤثر ہے؟

یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے
نکات-
۱-ماضی میں ان خانقاہوں کے قیام کا مقصد کیا تھا؟
۲-ماضی میں تبلیغ اسلام اور اصلاح معاشرہ میں اس کا کیا کردار رہا ؟
۳-موجودہ زمانے میں کیا دعوت وتبلیغ کے پس منظر میں اس کی افادیت مفقود ہوئی ہے؟
۴-کیا موجودہ خانقاہی رسو م وروایات کا تعلق تصوف سے ہے؟(ادارہ جام نور)
میرے دوست خوشتر نورانی کااصرار ہے کہ خانقاہی نظام پر جام نور کے تحریری مباحثہ کے لیے میں بھی کچھ لکھوں، اس پیہم اصرار کا ایک محرک وہ رشتہ ٔ خلوص و محبت تو ہے ہی جو ہمارے درمیان گزشتہ ۱۰؍۱۲؍ سال سے قائم ہے مگر شاید اس کے پیچھے یہ ’’ صحافتی سازش‘‘ بھی ہے کہ ملزم کو جج کی کرسی پر بٹھا کر اس کی زبان سے اسی کے خلاف فیصلہ سنا جائے تاکہ کسی استغاثہ اور عذر داری وغیرہ کی گنجائش ہی نہ رہے، مگر میری پریشانی کا سبب یہ ہے کہ مجھے ’’ سخن فہمی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ غالب کی طرفداری‘‘ کا بھی دعویٰ ہے مزید یہ کہ اس راہ میں کچھ ایسے ’’مقامات آہ و فغاں‘‘ بھی ہیں جن سے دامن بچاکر گزرجانا موضوع سے نا انصافی کے مترادف ہوگا اور ان پر کچھ لب کشائی شاید بہت سے نازک آبگینوں کو ٹھیس پہونچا دے، تاہم مجھے اپنے دوست کی خوشی زیادہ عزیز ہے اسی لیے موج دریا کا حریف ہونا قبول کررہا ہوں ورنہ کون نہیں جانتا کہ عافیت ہمیشہ ساحل پر ہوا کرتی ہے-
(۱) رشد و ہدایت، اصلاح احوال، تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن یہ وہ بنیادی مقاصد ہیں جن کے لیے خانقاہی نظام کو رائج کیا گیا تھا-
(۲) تبلیغ اسلام اور اصلاح معاشرہ میں خانقاہوں کا کردار اتنا عظیم اور روشن ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اصلاح امت کی کوئی بھی تاریخ خانقاہ کے بوریہ نشینوں اور صوفیاے کرام کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے، بالخصوص بر صغیر ہندو پاک میں آج جو توحید وکلمہ کی صدائیں گونج رہی ہیں یہ انہیں خانقاہوں کی دعوتی اور تبلیغی مساعی کا نتیجہ ہیں، تصوف اور اہل تصوف کے سخت ترین مخالف بھی دبی زبان ہی سے سہی مگر اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں-
(۳) موجودہ زمانے میں دعوت و تبلیغ کے پس منظر میں خانقاہی نظام کی افادیت مفقود نہیں ہوئی ہے بلکہ اور اجاگر ہوئی ہے- آج ہمیں اس نظام کی اتنی سخت ضرورت ہے جتنی شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی- ہاں خانقاہی نظام کا وہ کردار مفقود ہوگیا جو ماضی میں اس کا امتیاز رہا ہے- ورنہ چوتھیـ صدی ہجری سے لے کر آج تک دعوت و تبلیغ اور اصلاح احوال کا اس سے بہتر اور مؤثر طریقہ پیش نہیں کیا جاسکا-
(۴) موجودہ خانقاہی رسوم و روایات کا تعلق تصوف سے ہے یا نہیں؟ یہ بڑا مبہم سوال ہے، تاہم اگر رسوم و روایات سے صرف چادریں، گاگریں اور دعوتیں مراد ہیں تو شاید جواب نفی میں ہوگا-

اس تلخ حقیقت کا بہر حال اعتراف کرنا چاہیے کہ خانقاہی نظام کو جن دعوتی اور اصلاحی مقاصد کے لیے ہمارے اسلاف نے متعارف کرایا تھا ان مقاصد اور اہداف سے ہم بہت دور جا پڑے ہیں- اس نظام کی اصل روح ختم ہوگئی اب صرف ایک رسم رہ گئی ہے جس کو نسلاً بعد نسل نبھایا جارہا ہے، افسوس کہ جن خانقاہوں سے کبھی ’’ انا الحق‘‘ کا نعرئہ مستانہ سنائی دیا کرتا تھا وہاں حق کی تجلیات رخصت ہوئیں اب صرف ’’ انا‘‘ باقی رہ گئی ہے- یہ آپ کے سوالات کا مختصر جواب تھا- میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور مصر کے موجودہ خانقاہی نظاموں کا ایک تقابلی خاکہ پیش کردوں ممکن ہے اس کو پڑھ کر ہمارے یہاں کے مردہ ضمیر بیدار ہوں-

میں اپنے پانچ سالہ قیام مصر کے دوران شمال کے آخری شہر اسکندریہ سے لے کر جنوب کے آخری شہر اسوان تک بے شمار خانقاہوں میں حاضر ہوا ہوں، متعدد مشائخ کی زیارت کی ہے ان کی مجالس ذکر و فکر میں شرکت کی سعادت حاصل کی ہے اور ان کے مریدین سے مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کی ہے، اپنے ان تجربات کے دوران میں نے یہاں کے خانقاہی نظام کا بہت گہرا اور تنقیدی مطالعہ کیا ہے، اس مطالعہ کے نتائج حیرت انگیز بھی ہیں اور فرحت بخش بھی، بعض معمولی چیزوں کو اگرنظر انداز کردیا جائے ( جن سے مجھے اتفاق نہیں ہے) تویہ کہا جاسکتا ہے کہ مصر کا خانقاہی نظام کسی نہ کسی حد تک آج بھی اپنے صحیح خدو خال کے ساتھ اصلاح ظاہر و باطن کا فریضہ ادا کررہا ہے، اگر ہمارے یہاں کے خانقاہی نظام کا تقابل مصر کے خانقاہی نظام سے کیا جائے تو یہ ہوش ربا حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو ایک چلتے پھرتے انسان اور ایک بے جان و مردہ جسم میں ہوتا ہے، مثال کے طور پر میں یہاں چند باتوں کی طرف سر سری اشارہ کرنا چاہتا ہوں-
(۱) سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہاں عام طور پر مشائخ طریقت ذی علم ہوتے ہیں، مجھے کسی ایسے شیخ سے ملاقات کا اب تک اتفاق نہیں ہوا جس کو علم ظاہر کی بجائے ’’ علم لدنی‘‘ کا دعویٰ ہو-
(۲) ہر خانقاہ میں نہایت پابندی سے اذکار و اوراد کی ہفتہ وار مجالس منعقد ہوتی ہیں- خاص طور پر جمعہ کے دن قاہرہ اور قرب و جوار کے مشائخ اپنے مریدین کی جماعت کے ساتھ بڑی درگاہوں مثلا مشہد حسینی، سیدہ زینب اور سیدہ نفیسہ وغیرہ میں جمع ہوتے ہیں، جمعہ کی نماز کے بعد الگ الگ حلقے بنا کر بیٹھتے ہیں اور ذکر و فکر کی مجالس آراستہ کی جاتی ہیں، یہ منظر کتنا روح پرور ہوتا ہے یہ بیان نہیں کیا جاسکتا- اسی قسم کے مناظر جمعہ کے دن دوسرے شہروں مثلا طنطا، دسوق اور اسکندریہ میں بالترتیب سیدنا احمد البدوی، سیدنا ابراہیم الدسوقی اور امام بو صیری کے مزارات پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں-
(۳) بعض خانقاہوں میں ہفتہ وار درس بھی ہوتے ہیں مثلا درس قرآن، درس حدیث اور درس تصوف وغیرہ یہ درس یا تو خود صاحب سجادہ کا ہوتا ہے یا پھر ازہر شریف کے کسی عالم کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں-(۴) ایک اور اہم بات جو میںنے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ یہاں خانقاہوں کی آپس میں کوئی رسہ کشی اور چپقلش نہیں ہے، ایک دوسرے کی عزت و توقیر اور علم، بزرگی اور خدمات کا باہم اعتراف و اقرار یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مشربی زعم تعصب کی وہ بو العجبیاں یہاں دیکھنے کو نہیں ملتیں جو ہمارے یہاں قدم قدم پر نظر آتی ہیں-
(۵) کچھ مشائخ کو میںنے بہت قریب سے دیکھا ہے اور بعض سے صرف چند ایک ملاقاتیں ہیں- مگر ان سب میں ایک قدر مشترک دیکھی کہ یہ لوگ ہمارے علما و مشائخ کی طرح خود کو واجب التعظیم، دست بوسی وقدم بوسی کروانے کا پیدائشی حق دار اور مافوق الفطرت ہستی تصور نہیں کرتے بلکہ نہایت سادہ، متواضع اور منکسر المزاج ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی دست بوسی، ایک دوسرے کا جھوٹا پانی تبرکاً پینا اور ایک دوسرے کے لیے تعظیماً کھڑے ہوجانا شاید ہندوستان میں ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ( الا ماشاء اللہ)
اس سے زیادہ حیرت انگیز واقعہ سنیے، یمن کے ایک بزرگ ہیں شیخ حبیب علی الجفری -یہ جید عالم ہیں اور بہترین خطیب ہیں، مصر میں ان کے ہزاروں مریدین ہیں اور تقریباً ہر سال مصر کا دورہ کرتے ہیں، جب بھی مصر آتے ہیں تو مختلف خانقاہوں میں ان کے درس اور تقریریں ہوتی ہیں، متعدد بار یہ دیکھ کر مجھے ماضی کے صوفیا یاد آگئے کہ جس خانقاہ میں ان کے درس کی محفل تھی اس خانقاہ کے صاحب سجادہ نے اپنی خانقاہ میں آئے ہوئے بیسیوں لوگوں کو ان کا مرید کروا دیا، کیا ہندوستان میں کسی ایسے منظر کا آپ تصور کرسکتے ہیں، ہمارے یہاں تو حال یہ ہے کہ ممکن ہے کہ دوشیر کسی طرح ایک جنگل میں رہنے پر سمجھوتہ کر لیں،مگر دوپیر ایک حلقے میں نہیں رہ سکتے-
(۶) یہاں کا خانقاہی نظام اس حدتک کامیاب ہے کہ مرید ہونے کے بعد آدمی میں بڑی واضح تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے، ایک مرید فرائض و واجبات کے ساتھ اوراد و اذکار کا بھی رفتہ رفتہ پابند ہوجاتا ہے، آپ کسی مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں، نماز کے بعد جو شخص تسبیح پڑھنا شروع کردے یا چھوٹا سا پنج سورہ نکال کر ورد شروع کردے،آپ سمجھ لیں یہ کسی کا مرید ہے-
ہمارے یہاں ۱۰۰؍ میں سے ۹۵؍ لوگ مرید ہونے کے بعد بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے مرید ہونے سے پہلے تھے- نہ کردار و عمل میں کوئی فرق نہ زندگی میں کوئی انقلاب، ہاں اتنی تبدیلی ضرور آتی ہے کہ مرید ہونے سے پہلے ساری خانقاہوں اور مشائخ کا احترام کرتا تھا مگر کسی کے دامن سے وابستہ ہونے کے بعد اب ساری خانقاہیں اور مشائخ اس کی نظر میں ہیچ ہیں ،اب وہ نہ کسی دوسرے بزرگ کی تعظیم کرنے کو تیار ہے نہ کسی کی تعریف اس کو برداشت ہے- جلسہ میں تقریر ہو تو اس کے مشائخ کے علم و تقویٰ اور ان کی خدمات و کرامات کا ضرور ذکر کیا جائے، نعت پڑھی جائے تو اس کے پیر کی، سلام پڑھا جائے تو اس کے پیر کا لکھا ہوا، جلسہ میں نعرہ لگے تو اس کے پیر کے نام کا اور اگرخدا نخواستہ کسی جلسہ میں یہ سب نہ ہو تو اس کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا اس کا ’’ خانقاہی فریضہ‘‘ ہے…ع
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
(۷) یہاں کی خانقاہیں رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں، ایسی بہت سی خانقاہیں ہیں جہاں سے ازہر شریف کے مصری اور غیر ملکی طلبہ کے لیے ماہوار وظیفے مقرر ہیں، کچھ خانقاہوں کے زیر سرپرستی عصری اور دینی تعلیم کے بہت عمدہ اور جدیدنظام تعلیم و تربیت کے اسکول چل رہے ہیں- خانقاہ جعفریہ (قاہرہ) سے متصل ایک شاندار ہاسپٹل ہے جو تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہے اور یہاں مفت علاج ہوتا ہے، خانقاہ سے وابستہ اہل عقیدت و محبت اس کے تمام اخراجات باہمی تعاون سے برداشت کرتے ہیں، فلسطین کے مظلومین کی امداد کے لیے ان مشائخ نے اپنے مریدین سے خطیر رقم جمع کر کے فلسطین امدادی فنڈ میں جمع کروائی اور اب بھی کرواتے ہیں- اسی طرح عراق کے مریضوں اور زخمیوں کے لیے خون کا عطیہ دینے کی مہم چلائی گئی جس میں یہ خانقاہیں پیش پیش رہیں-
(۸) یہاں پر خانقاہوں کا ایک سماجی رول بھی ہے، قاہرہ سے تقریباً آٹھ سو کلو میٹر دور جنوب میں ایک تاریخی شہر ہے الاقصر، وہاں پر ایک مرتبہ ۲۵؍ روز اور ایک مرتبہ ۱۲؍ روز مجھے قیام کرنے کا اتفاق ہوا- الاقصر میں تین بڑی خانقاہیں ہیں، خانقاہ طیب ،خانقاہ رضوانیہ اور خانقاہ جیلانیہ ،وہاں میںنے دیکھا کہ زمین و جائیداد کے جھگڑے ہو ںیا گھریلومسائل ،عدالتوں اور کچہریوں میں مقدمہ بازی کی بجائے اس قسم کے زیادہ تر مسائل کا تصفیہ خانقاہی سطح پر کردیا جاتا ہے- (جام نور جون ۲۰۰۴ئ)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440454 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.