یہ دنیاتمھاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

 کچھ عرصہ پہلے ٹی وی چینلز پرایک خبر عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہی کہ ایک ہندوستانی لڑکی کو پراسرار حالات میں لاہور سے پایا گیا، رپورٹ کے مطابق اس لڑکی نے ایک جوڑے کی طرف دیکھ کررونا شروع کر دیاجو مارکیٹ میں خریداری کے لئے آیاتھا .لڑکی نے مسکان کے نام سے خود کی شناخت کروائی جوڑے کو بتایا کہ وہ بھارت کی ریاست راجستھان سے تعلق رکھتے تھے۔مسکان پانچ بہن بھائیوں کی دوسری بہن ہے۔ قریبی پولیس اسٹیشن میں لڑکی کو لے جایاگیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کس طرح باڈر پار کر کے لاہور پہنچ گئی؟اس خبر کو میڈ یا نے بہت زیادہ پھیلا دیا۔مختلف چینلز نے اس پر اچھی خاصی بحث بھی کی۔اور اس واقع کو لے کر مختلف قسم کی خبریں بھی سامنے آئیں۔بعد میں یہ پتا چلا کہ وہ لڑ کی پاکستانی ہی ہے اور یہ سارا ڈرامہ کر رہی تھی۔اور اسے یہ شوق انڈین ڈراموں کی وجہ سے پیدا ہوا۔مسکان نے بتایا کہ اسے ایکٹینگ کا بہت شوق ہے اسی وجہ سے اس نے جھوٹا ناٹک کیا۔مسکان اپنی کو ششں میں کامیاب بھی ہو ئی ا ور میڈیا نے اس بات کو بھرپور انداز میں عوام کے سامنے پیش بھی کیا۔ مسکان کی اس حرکت سے دو پہلوﺅں زیر غور ہے کہ اس نے ڈراموں کی بدولت تمام لوگوں کو پاگل بنا دیا اور میڈیا نے اتنی سی بات کو اتنا سنجیدہ کیوں لیا؟؟ یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل بھی میڈیا کی اس طرح کی سر گرمیاں دیکھنے میں آئیں ہیں جس میں میڈیا نے غیر ضروری باتوں کو بہت بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کرتاہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کسی بھی ملک میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور اگر بات پاکستانی میڈیا کی ہو تواس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔میڈیا اس وقت پاکستان کا تیسرا ستون ہے۔ہر امیر غریب کی آواز کو سنا، سمجھنا اور اس کی آواز کو پھیلانے کا کام سر انجام دیتا ہے۔مظلوم کی آواز کوعام کرتا ہے۔میڈیا نام ہے اظہار آزادی کا۔یہ تمام گناہگاروں کو بے نقاب کرتا ہے۔اور کسی ملک کی ترقی، خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔اور کسی بھی ملک کی خودمختاری کی علامت ہوتا ہے۔

مجھے اب بھی اپنے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب ہمارے گاﺅں میں چند گھر ایسے تھے جن کے پاس ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اور میرے آس پاس کے تمام پڑوسیوں کا ہجوم ڈرامہ دیکھنے کے لیے جمع ہو جایا کرتا تھا۔اور ہمارے صحن میں لوگ ا س طرح جمع ہوجاتے تھے کہ گھر سینما ہال کی مانند دیکھائی دیتا تھا۔آہستہ آہستہ وقت گزرنے لوگوں کا رجحان بڑھنے لگا اور ہر گھر میں ٹیلی ویژن آ گیا۔ میڈیا کی اصل ترقی سابق صدر پروز مشرف کے دور میں ہوئی۔میڈیا کی ترقی کا تاج صدر پروز مشرف کے سر جاتا ہے۔ان کے دور میں بہت زیادہ ٹی وی چینل نے اپنی نشر یات کا آغاز کیا۔میڈیا نے بہت جلد عوام کی توجہ اپنی راغب کر لی۔موجودہ دور میں شائد ہی کوئی ایسا گھر ہوجس میں ٹی وی موجود نہ ہو بلکہ ایک کی بجائے دو دو ٹی وی موجود ہوتے ہیں اور وہاں کیبل بھی لازمی موجود ہوتی ہے۔لیکن یہی میڈیا صدر پروز مشرف کے زوال کا باعث بنا۔“تم دس پندرہ ہزار روپے پر کسی اخبار میں خبریں سیدھی کررہے ہوتے یہ میں تھا جس نے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے اور تمہیں یہ مقام دیا”یہ الفاظ صدر پروز مشرف کے میڈیا کے کسی کے خلاف کیے ہوئے ہیں ۔

ایک وقت تھا جب میڈیا حکو مت کے ما تحت کام کرتا تھا لیکن اب سچائی اس کے برعکس ہے۔حکومت کو ہر کام میڈیا کی نظروں سے چوری کرنا پڑتا ہے۔میڈیا ان تمام خبروں کو عوام کے سامنے لے آتا ہے۔

اگر ہم میڈیا کی خوبیوں کو ذکر کریں تو لا تعداد ہیں۔میڈیا کی اہم صفات میں سب سے قابل ذکربات ایک عام آدمی کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچانا ہے جو کہ پہلے نا ممکن لگتا تھا۔میڈیا کی بدولت یہ دنیا بہت چھوٹی سی لگنے لگی ہے۔ادھر کچھ ہوا اور دوسری طرف میڈیا نے اسے عوا م کو اس کی خبر بھی مل گئی۔میڈیا فیصلہ سازوں اور عوام کے لیے سماجی، اقتصادی اور سیاسی تحریکوں کے دعوؤں کی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آزاد میڈیا جمہوری سیا ست ، پالیسی ساز اداروں اور عوام کے درمیان ایک مسلسل بات چیت اور رابطہ کو فروغ دیتا ہے۔میڈیا کا کام سچ اور جھوٹ کی تمیز عوام تک پہنچانا ہے۔

اب ایک نظر ان تمام حقائق پر بھی ڈالتے ہیں کہ کیا میڈیا حقیقت میں وہ تمام کام سر انجام دے رہا ہے؟؟کیا میڈیا اپنے تمام تر فرائض ٹھیک طرح سے نبھا رہا ہے؟؟

ایک خبرکے مطابق صدر اوباما نے پاکستان کے اندر امریکہ مخالف جذبات کو ریورس کرنے کے لئے 50 ملین ڈالر کا وعدہ ہے. یہ رقم پاکستان کے اندر ذرائع ابلاغ کی طرف پاکستان کے عوام کی بہتری کے لئے امریکہ کے مالی تعاون سے چلنے کا ارادہ منصوبوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے جائے گا.پاکستانی میڈیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہ ملکی مفاد کی نسبت غیر ملکی مفاد کو تر جیح دیتے ہیں۔ایسے عناصر ہمارے میڈ یا کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں؟ کیا کبھی میڈیانے کوئی معیار طے کیا ہے کہ اس کے چینلزپر کیا دکھانا چاہیے اور کیا نہیں۔

ہمارے “آزاد میڈیا” کا جھکاﺅ حرف عام میں دایئں بازو کے بجائے بائیں بازو کی طرف زیادہ ہے۔ میڈیا ہماری روز مرہ زندگی میں کچھ زیادہ ہی دخل دے رہا ہے۔ہمارا میڈیا معمولی باتوں اور معمولی معاملات کو کچھ زیادہ ہی مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے ا ور بہت ساری من گرہگ کہانیوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ہم صرف وہ دیکھتے ہیں جو ہمیں میڈیا دیکھاتا ہے چاہے وہ غلط ہو یا صحیح یہ الگ بات ہے۔جو بات قوم نے کبھی دماغ میں بھی نہیں ہوتی اس کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اکثراوقات مختلف ٹی وی چینلز پر بہت زیادہ بے حیائی کے پروگرام اور ٹی وی کمرشلز بھی پیش کیے جاتے ہیں جن کو فیملی اور اسپیشلی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا نہا یت ہی نا منا سب ہے۔ان کو دیکھ کر ہماری نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔میڈ یاکسی بھی تحزیب کا علم بردار ہوتا ہے۔یہ وہ عکس ہوتا ہے جس میں ہم اپنا آپ دیکھ سکتے ہیں۔اور اس وقت ہمارا میڈ یا بے حیائی کا طوفا ن برپا کر رہا ہے۔ اس وقت ہمارا میڈیا ہماری ثقافت کم اور غیر ملکی ثقافت کی جھلک زیادہ دیکھاتا ہے۔ ہماری عورتیں،بچے، جوان اور بوڑھے دین و دنیا کی فکر چھوڑ کر ٹی وی پروگرامز، فلموں اور ڈراموں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ہمارے بچو ں کو یہ تو نہیں پتا کہ محمد بن قاسم کون تھا؟ٹیپو سلطان کون تھا؟ بس ان کو فلمی ہیرو نینے کا شوق ہے۔

یہ ایک ایسی منفی تبدیلی ہے کہ اس کو فوراً نہ روکا گیا تو بہت خطرناک نتائج بھی دے سکتا ہے۔اگر ہما رے بچے اتنی زبردست اکٹنگ کر سکتے ہیں تو کیا وہ سچے مسلمان اور اچھے پاکستانی کیوں نہیں بن سکتے؟؟ بچوں ،بڑوں،عورتوں اورنوجوان کے لیے مختلف طرح کے پروگرامز ترتیب دیے جانے چاہیں جن کا ان کی زندگی میں صحیح معنوں میں کوئی فرق پڑے۔ ابھی بھی ان تمام غیر ضروری عناصر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔میڈ یا کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرامز، فلموں اور ڈراموں پیش کرے جن سے ہماری تہذیب نمایاں ہوجو ہماری ثقافت، اسلامی تہذیب کوفروغ دے۔مختلف طرح کے اسلامی پروگرامز اور ایسی ڈاکو مینٹری بنائے جن سے ہمارے نوجوانوں میں نیا جوش نیا ولو لہ پیدا ہو۔اور میڈیا کو غیر ملکی عناصر اور ان کی ثقافت سے پاک رکھا جا سکے۔ہماری حکومت اور میڈیا دونوں کو مل کر اس کی بہتری کے لیے کام کرنا ہو گا۔
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 18879 views I am student of master in mass communication.. View More