عطاء اللہ کوہستانی
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 155ممالک میں خواتین پر تشدد ہورہا ہے ،
جن میں گھریلو تشدد سرفہرست ہے ۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں عورتوں کی موت
اور معذوری کا بڑا سبب گھریلو تشدد ہے ۔وہاں عورتوں کی بڑی تعداد اپنے
سابقہ اور موجودہ شوہروں کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہے۔وہ عورتیں جن کو
گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کی عمریں 16 سے44کے درمیان ہوتی ہے
۔اس رپورٹ کے مطابق امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سال بھر میں تقریباً سات
لاکھ واقعات گھریلو تشدد کے رونما ہوئے، جبکہ گینگ ریپ اور اغوا کے کیسز اس
کے علاوہ ہیں۔اسپین میں عورتوں کی بڑی تعدادگھریلو تشدد کاشکار ہے ۔جنوبی
افریقہ میں اکثر مرد اپنی عورتوں کو تشدد کے بعد گولی مارکر ہلاک کر دیتے
ہیں ۔ روس میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ابتری کا اندازہ اس بات سے
لگایاجاسکتاہے کہ روسی حکومت نے خودیہ بات تسلیم کی ہے کہ صرف1999 ء میں
تقریباًچودہ ہزار خواتین اپنے ہی خاندان کے مردوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار
ہوئیں۔ بھارت دنیا کا ایک بڑا سیکولر ملک ہے ،وہاں ہر 24 منٹ بعد کسی نہ
کسی عورت کو پیٹا جاتا ہے ،ہر34 منٹ بعد کسی نہ کسی کا ریپ ،ہر34 منٹ بعد
کسی نہ کسی عورت کو اغوا کیا جاتا ہے، جبکہ ہر 93 منٹ بعدکسی نہ کسی عورت
کو کم جہیز لانے پرجلا کر مار دیاجاتا ہے ۔ قارئین کرام!یہ ان ممالک کی
حالت زار ہے جو حقوق نسواں کے علمبردارسمجھے جاتے ہیں۔دن رات آزادی نسواں
اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹتے ،اسلام کی مقدس تعلیمات و اقدار کو خواتین کے
حقوق کے منافی قرار دیتے ،مشرقی معاشرے میں خواتین کی حالت زار پر دل گرفتہ
نظر آتے اورمشرقی خواتین کی معاشی ترقی اور آزادی(حیا کابیش قیمت جوہر
چھیننے) کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔لیکن اگر ہم اعداد شمار کی روشنی میں
جائزہ لیں کہ حقوق نسواں کے علمبردار معاشرے نے عورت کوکیا ترقی دی ؟کتنی
وزیر اعظم یا صدر بنیں؟اور کتنوں کو دیگر بڑے مناصب عطاہوئے ؟توایسی عورتوں
کی تعداد بمشکل صد فی لاکھ ہوگی۔ان گنی چنی عورتوں کو مناصب دینے کے نام پر
لاکھوں خواتین کو بڑی بے دردی سے گھسیٹ کر سڑکوں اور بازاروں ،چوراہوں پر
لایاگیا اور مردوں کی تسکین ہوس کے لیے عورت کے جسم کو ہوٹلوں ،کاؤنٹروں
اوردکانوں پر سجایا گیا، جہاں ہر دم وہ ہوس زادوں کی غلیظ نظروں سے پامال
ہوتی ہیں۔معاش کا اضافی بوجھ اٹھانے کے باوجودبھی مغر بی خاتون آج بھی
گھریلو ذمہ داریوں سے آزادنہیں ، ستم بالائے ستم مساوات کے علمبردار وں کے
ہاں آج بھی عورت کی محنت کا معاوضہ مرد کے مقابلے میں کم ہے ،اور تمام
گھٹیا اور نچلے درجے کے کام ہوٹلوں میں ویٹر ، مسافروں کے کمروں کی صفائی ،چادریں
بدلنا،روم اٹینڈنٹ کی تمام ذمہ دارریاں حواء کی بیٹی انجام دیتی ہے ، جہاں
نام نہاد حقوق نسواں کے چمپئین ،مساوات اورآزادی نسواں کے علمبردار بنت
حواء کا تقدس پامال کرتے ہیں جسے ہمارا میڈیا اور نام نہاد روشن خیال طبقہ
ترقی اور زآزادی کا نام دیتے نہیں تھکتا، لیکن بقول اقبال۔
ع تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضر ت انساں کے لیے اس کا ثمر موت |