میری سلسٹے٬ بدقسمت پراسرار بحری جہاز

1861ء میں جب یہ بحری جہاز بن کر تیار ہوا تو اس کا نام دی ایمزون (The Amazon) رکھا گیا تھا۔ بد نصیبی شروع دن ہی سے دی ایمزون کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1862ء میں جب یہ جہاز اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا تو ایک حادثے کا شکار ہو گیا اور اسے خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ سفر سے واپسی پر جب اسے مرمت کیا جا رہا تھا تو اسے آگ لگ گئی۔ اسی طرح کے کچھ واقعات بعد میں بھی رونما ہوئے۔ آخر تنگ آکر دی ایمزون کو بیچ دیا گیا اور اس کا نام تبدیل کر کے میری سلسٹے (Mary Celeste) رکھ دیا گیا۔

نئے مالک کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب میری سلسٹے کو سمندر میں لنگر انداز کرنے کے لیے ملاح نہ ملے، کیونکہ ملاحوں میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ میری سلسٹے ایک بدقسمت بحری جہاز ہے۔ آخر بڑی مشکل سے ملاحوں کو راضی کیا گیا اور جہاز کا کپتان بنجمن برجز (Benjamin Briggs) کو مقرر کیا گیا۔

image


4 نومبر 1872 کو میری سلسٹے جب نیویارک سے اٹلی کو روانہ ہوا تو جہاز پر کچی شراب کے 1700 ڈرم لدے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ آٹھ ملاح اور کپتان کی بیوی سارہ اور ان کی دو سالہ بیٹی صوفیہ بھی جہاز پر سوار تھے۔ روانگی کے وقت موسم خاصا خوشگوار تھا اور ایک اچھے سفر کی امید کی جا رہی تھی۔

میری سلسٹے اپنے رستے میں پڑنے والی ایک بندرگاہ ایزورز (Azores) پر پہنچا تو اس وقت تک کوئی اہم واقعہ پیش نہیں آیا تھا، مگر جونہی میری سلسٹے نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا، موسم تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ طوفانی ہوا چلنا شروع ہوچکی تھی، اگرچہ یہ برجز جیسے تجربہ کار کپتان کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہ تھی۔

5 نومبر کو موسم کی تبدیلی اور جہاز کے اٹلانٹک (بحر اوقیانوس) پہنچ جانے کے متعلق لاگ بک میں بتایا گیا۔ یہ آخری بات تھی جو لاگ بک میں درج کی گئی۔ لاگ بک ایسی کاپی کو کہتے ہیں جس میں بحری جہاز کا کپتان سفر میں پیش آنے والی دن بھر کی اہم باتیں درج کرتا ہے۔

image


دس دن بعد 5 دسمبر کو ایک اور بحری جہاز ڈی گریشیا (Dei Gratia) کے کپتان مورہاؤس (Morehouse) نے دور افق پر ایک سیاہ دھبا دیکھا۔ جلد ہی اس نے پہچان لیا کہ وہ کوئی بحری جہاز تھا۔ جب ڈی گریشیا، میری سلسٹے کے قریب آگیا تو کپتان مورہاؤس نے دوربین آنکھوں سے لگائی اور میری سلسٹے کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ جہاز حرکت نہیں کر رہا۔ اسے جہاز پر زندگی کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔

کپتان مورہاؤس نے اپنے تین آدمی اس ساکت و جامد جہاز کی طرف بھیجے تاکہ وہ صحیح صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔ ملاح جب جہاز کے قریب پہنچے تو انہیں جہاز کی بیرونی دیوار پر میری سلسٹے لکھا نظر آیا۔ جہاز پر مکمل خاموشی طاری تھی، مگر کسی قسم کی گڑبڑ کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ جہاز کے عرشے پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ جہاز پر موجود امدادی کشتیوں میں سے ایک کشتی غائب تھی۔ عرشے سے ہو کر جب وہ جہاز کے اندرونی حصے میں پہنچے تو کئی حیرانیاں ان کی منتظر تھیں۔

کپپتان کے کمرے میں انہوں نے دیکھا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر صحیح سالم پڑی ہے اور کپتان کی میز پر ناشتے کی ٹرے سجی ہے۔ اس میں ابلا ہوا انڈا اس طرح کاٹ کر رکھا ہوا ہے جس طرح ابھی کوئی ناشتا کرنے آ بیٹھے گا، مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ جہاز پر انہیں صرف ایک جاندار ملا اور وہ تھی ایک عدد بلی جو الماری کے اوپر سو رہی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں ایک خنجر بھی ملا جس پر خون کے چھینٹے تھے۔

image


تینوں آدمیوں نے جہاز کے دوسرے کمروں کا جائزہ لیا تو وہاں بھی چیزیں سلیقے سے رکھی تھیں، مگر انسان غائب تھے۔ وہ فوراً اپنے جہاز کی طرف لوٹے تاکہ کپتان کو اس عجیب و غریب صورت حال سے آگاہ کر سکیں۔ جب کپتان مورہاؤس کو ساری بات کا علم ہوا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جہاز پر سوار تمام افراد طوفان کی وجہ سے جہاز کو چھوڑ کر جان بچا کر نکل گئے ہیں، مگر تینوں ملاح اس بات سے متفق نہیں تھے کیونکہ انہوں نے جہاز پر طوفان کے کوئی آثار نہیں دیکھے تھے۔ اس پر کپتان نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ جہاز پر موجود ملاحوں میں سے کچھ نے بغاوت کر کے جہاز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہو، لیکن ملاحوں کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو باغی افراد جہاز کو اسی طرح چھوڑ کر کیوں جاتے اور جہاز پر ضرور خون خرابے کے آثار پائے جاتے۔ اس سے صورت حال بہت دلچسپ اور خاصی حد تک پراسرار ہو گئی۔

کپتان مورہاؤس نے انہی تینوں ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ میری سلسٹے کو قریبی بندرگاہ جبرالٹر (جبل الطارق) تک لے چلیں۔ چنانچہ ڈی گریشیا کے پیچھے پیچھے میری سلسٹے جبرالٹر تک پہنچا۔ وہاں پہنچ کر برطانوی حکومتی عہدے داروں نے جہاز کو اپنے قبضے میں لے کر تفتیش شروع کر دی اور سب سے پہلے کپتان مورہاؤس اور اس کے عملے پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

کیا یہ ممکن ہے کہ جہاز پر بحری قزاقوں نے حملہ کر دیا ہو؟ اگر ایسا ہوا تھا تو وہ خود کہاں گئے؟ انہوں نے جہاز کو لوٹا کیوں نہیں؟ کچی شراب کے نو خالی ڈرم جہاز سے ملے ہیں، کیا جہاز کا عملہ یہ گھٹیا شراب پیتا رہا اور اس وجہ سے پاگل ہو کر انہوں نے سمندر میں چھلانگیں لگا دیں۔ امدادی کشتی کہاں گئی؟ کیا کپتان برجز نے سب لوگوں کو جہاز خالی کرنے کا حکم دے دیا؟ برطانوی تفتیشی افسر بے تکے سوالات کیے جا رہے تھے، جن کے جوابات کپتان مورہاؤس یا اس کا عملہ بالکل نہ جانتا تھا۔

image


اس سے زیادہ پراسرار بات کیا ہو سکتی تھی کہ جہاز دس دنوں تک بغیر کسی ملاح کے اپنے مقررہ رستے پر چلتا رہا تھا۔ یہ بات کپتان برجز کی لاگ بک سے معلوم ہوتی تھی کیونکہ لاگ بک میں آخری تحریر 25 نومبر کی تھی جبکہ کپتان مورہاؤس نے اسے 5 دسمبر کو ڈھونڈا تھا۔ اتنے دنوں تک بغیر کسی ملاح یا ڈرائیور کے جہاز کا سمندر میں صحیح سلامت اپنے سفر پر رہنا نہایت حیرت انگیز تھا۔

تفتیشی عملہ اس نتیجے پر پہنچا کہ آخر کوئی نہ کوئی تو جہاز پر ہو گا جو جہاز کو اتنے دنوں تک چلاتا رہا۔ تو پھر وہ شخص کہاں گیا؟ سوال پھر ابھرا، جس کا جواب پہلے کی طرح کسی کے پاس نہ تھا۔ چنانچہ 10 مارچ1877 کو میری سلسٹے کیس کی سرکاری سطح پر تفتیش بند کر دی گئی۔ ابھی تک غائب ہونے والی امدادی کشتی اور جہاز کے گیارہ افراد لا پتا تھے۔

اگرچہ سرکاری سطح پر میری سلسٹے کیس پر تفتیش بند ہو چکی تھی، مگر لوگوں میں اس کی دلچسپ کہانی ابھی تک گردش کر رہی تھی۔ 1913ء میں، اس واقعے کے چالیس سال بعد اس حادثے کی ایک غیر معمولی وضاحت سامنے آئی۔ یہ وضاحت نامہ ایک مرحوم شخص ایبل فوسڈیک (Abel Fosdyk) نے لکھا تھا، جس میں اس نے میری سلسٹے کے راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔

فوسڈیک کے مطابق وہ میری سلسٹے پر اس وقت غیر قانونی طور پر سفر کر رہا تھا اور جہاز پر سوار لوگوں کی فہرست میں اس کا نام درج نہیں تھا۔ سفر کے دوران کپتان برجز نے جہاز کے بڑھئی کو جہاز کی پچھلی جانب ایک پلیٹ فارم بنانے کو کہا تاکہ اس پر کپتان کی بیٹی صوفیہ کھیل سکے۔ اس مقصد کے لیے بڑھئی نے ایک بڑی سی میز بنائی اور اسے عرشے کے ساتھ جوڑ دیا۔ ایک صبح ایک ملاح سے کپتان کی بحث ہو گئی کہ آدمی کپڑوں سمیت سمندر میں تیر سکتا ہے یا نہیں۔ کپتان کا کہنا تھا کہ کپڑوں کے ساتھ تیرا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کپڑوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دی۔

جہاز پر سوار دوسرے افراد اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کے لیے صوفیہ کی نازک سی میز پر چڑھ گئے، نتیجتاً میز اتنے لوگوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور تمام لوگ سمندر میں جا گرے۔ اچانک شارک مچھلیاں اکٹھی ہونے لگیں اور وہ سب افراد کو تر نوالے کی طرح نگل گئیں۔ فوسڈیک بھی انہی افراد میں شامل تھا، مگر ایک تختے پر سوار ہو جانے کی وجہ سے وہ شارقوں سے بچ نکلا اور آخر کار افریقا کے کسی ساحل تک پہنچ گیا۔

فوسڈیک کی اس کہانی کو من گھڑت سمجھا گیا کیونکہ اس پر بہت سے سوالات اٹھتے تھے۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس نے اتنے برسوں تک خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی اور اس راز سے پہلے پردہ کیوں نہ اٹھایا گیا؟

آنے والے گیارہ برسوں میں میری سلسٹے کو 17 مرتبہ فروخت کیا گیا۔ آخر اپنی زندگی کے 23 ویں سال بحیرۂ کیریبئن (Caribbean Sea) میں سفر کرتے ہوئے ایک چٹان سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اس طرح یہ پراسرار بحری جہاز اپنے پراسرار واقعات سے انسانوں کو حیرت میں ڈال کر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

1872ء میں اس جہاز سے مسافروں کا یوں غائب ہو جانا دنیا کی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ تھا، جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ ابھی تک اس کا صحیح حل نہیں مل سکا، مگر ممکن ہے آنے والے چند برسوں میں نئی تحقیقات اس بھید کا صحیح حل سامنے لے آئیں۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Mary Celeste was launched in Nova Scotia in 1860. Her original name was "Amazon". She was 103 ft overall displacing 280 tons and listed as a half-brig. Over the next 10 years she was involved in several accidents at sea and passed through a number of owners. Eventually she turned up at a New York salvage auction where she was purchased for $3,000. After extensive repairs she was put under American registry and renamed "Mary Celeste".