علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں:
کہ مجھ سے سوال یہ کیا گیا کہ ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ولادت باسعادت کے سلسلہ میں کئے جانے والے اعمال کا شرع میں کیا حکم ہے؟
اچھا ہے یا برا اس کے کرنے والوں کو ثواب حاصل ہو گا یا نہیں؟ آپ نے اس کا
جواب یہ دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے متعلق ابتدائی
واقعات کو بیان کرنا اور آپ کی ولادت پاک پر ظاہر شدہ علامات کو بیان کرنا،
پھر کھانے کیلئے دسترخوان بچھانا ، یعنی کھانے کی اشیاء تقسیم کرنا اور غير
شرع حرکات کئے بغیر واپس لوٹ جانا اچھا کام ہے۔یہ تما م جن کا ذکر کیا ہے
یہ اچھی بدعات سے ہیں، ان پر عمل کرنے والے کو ثواب حاصل ہوتا ہے، کیونکہ
اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت کی تعظیم پائی جاتی ہے
اور آپ پر فرحت و خوشی کا اظہار زیادہ نعمتوں کے حصول کا سبب ہے۔ ﴿الحاوی
للفتاوی،ج۱،ص۱۷۹، ازجلال الدین سیوطی﴾
ساتویں صدی ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے
واقعات پر مشتمل شیخ ابوالخطاب بن وحید نے ایک کتاب تصیف کی جس کا نام
التنویر فی مولد البشیر و النذیر رکھا اس پر اس وقت کے بادشاہ مظفر ابوسعید
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرتا اور بہت مٹھائی ، مکھن،
مرغ اور بکرے کا گوشت اس کے دستر خوان پر ہوتا ، جس میں تیس ہزار طشت
مٹھائیوں کےہوتے۔ اس کی محفل میلاد میں بڑے جلیل القدر علمائ کرام اور
صوفیائ عظام شریک ہوتے۔ ﴿الحاوی للفتاوی،ج۱،ص۱۹۰،از جلال الدین سیوطی﴾ |