یہ تقریبا ًایک دہائی قبل کی ایک
خوشگوار شام تھی، ملک بھر سے چند نوجوان اک عزم صمیم اور قلب سلیم کے ساتھ
اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے اور سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ان کے انداز ِ فکر
کی بنیادی اکائی یہ تھی کہ جو ملک اور ریاست اسلام کے نام پر قائم کی گئی ،
جس قطعہ ارضی پر اسلام کا پھریرا لہرانے کی خاطر برصغیر کے دس لاکھ سے
زائدمسلم نوجوانوں ،بوڑھوں اور بچوں نے جانوں کا نذرانہ دیا اور عورتوں نے
اپنی عصمتوں کو قربان کیا ، آخر کیا وجہ ہے کہ آج بھی اس دھرتی پر اسلامی
نظام کے نفاذ کا خواب صحیح معنوں میں پورا نہیں ہو سکا ،پاکستا ن کے تعلیمی
اداروں میں آج بھی لارڈ میکالے کا ”کالا“ نظام تعلیم نافذالعمل ہے اور ایک
راسخ العقیدہ مسلم معاشرے کی نسل نو کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے
طبقاتی نظام تعلیم کی جانب راغب کیا جا رہا ہے ؟کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ لا
الہ اللہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں اسلامی قیادت کا ہمیشہ سے فقدا ن
رہا ہے ؟کیا دیوانگی ہے کہ جس الگ خظے کے حصول کے لیے لاکھوں بہنوں ،
بھائیوں نے جانوں اور عزتوں کی قربانی دی تھی آج وہاں پالیسی سوشلزم اور
کمیونزم کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔چنانچہ مسلم امہ کی اسی عظمت گم گشتہ کی
بحالی کا عزم کیے ان نوجوانوں کی مسلسل محنت شاقہ اورکئی دنوں کی فکر کے
بعدمورخہ 12جنوری2002کو ”مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن“کی داغ بیل ڈال دی گئی
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ محض سچے جذبے اور لگن کے بل بوتے پر یہ طلبہ
جماعت ملک کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی اور آج ملک کی شاید ہی کوئی
ایسی درسگاہ ، کالج اور یونیورسٹی ہو جہاں پر ایم ایس او کی یہ فکر اور
نظریہ موجود نہ ہو ۔دگر گوں معاشرتی صورتحال ، ناموافق حالات و واقعات کی
کٹھنائیوں کے باوجود ایم ایس او نے اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر کام کیا ہے
اور ان گزشتہ دس سالوں میں اسلامی نظام کو رائج کر نے ، طبقاتی او رگروہی
نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے اس طلبہ جماعت نے عظیم تر جدو جہد ، ہمت اور
سعی کی ۔اس کے پیش نظر اولین مقصد اسلامی نظام کے قیام کی کوشش رہی ہے اور
اسی منزل کے حصول کی خاطر ایم ایس او نے ہر سٹیج پر اپنی آواز بڑی موثر ،
توانا ومربوط انداز سے بلند کی ہے اور اپنا مقدمہ پورے دلائل کے ساتھ پیش
کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ، اس کے انتھک اور محنتی کارکنوں نے
ملک کے کونے کونے میں اپنے نظریے کے پرچا ر کی خاطر کوئی کسر اٹھا نہیں ر
کھی ۔ ایم ایس او نے کردار سازی کے ذریعے سے پاکستان کے تازہ دم اور صالح
نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار کر کے اس مملکت کے نظریاتی دفاع کی جنگ لڑی اور
ملت کو لادینیت ، سیکولر اورمادیت کے طوفان بلاخیز سے بچانے کی خاطر اس کے
بے رحم تھپیڑے خوداپنے بدن پر سہے ، اسے بارہا حکمرانوں کے ظلم و ستم کا
نشانہ بھی بننا پڑا مگر ٹکراﺅ کی پالیسی سے رخ موڑتے ہوئے ہمیشہ اس نے
استقامت کا دامن مضبوطی سے تھام کر روشنیوں کی سمت اپنا سفر جاری رکھا ۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ صرف وہی تحریکیں اور جماعتیں ہی اپنے وجود کو
تادیر برقرار رکھ سکی ہیں جن کا کوئی واضح مقصد ، کاز ،مشن اور اصول وضع ہو
، ان کے کارکن کسی نظریے سے مرصع ہوں اور ان کی منزل متعین ہو ، بغیر مقصد
اور ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر بننے والی تحریکیں زمانے کی گرد میں کہیں
گم ہوجایا کر تی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا نام و نشان تک مٹ
جاتا ہے، اس لحاظ سے فقط ایک واضح مقصد اور دوٹوک مشن ہی ہے جو آج بھی تمام
تر خراب اور نا گفتہ بہ حالات کے باوجود نوجوانوں کی اس عملی تنظیم کو
برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ طبقاتی نظام تعلیم کا معاملہ ہو یا تعلیمی بجٹ میں
کمی کا مسئلہ ، سیلف فنانس سکیموں کا ایشو ہو یا آغا خان تعلیمی بورڈ کے
خلا ف مہم جوئی کا ،یہ طلبہ جماعت ہر اس معاملے یا ایشو میں پیش پیش رہی ہے
اور ہر اس نظریے میںرکاوٹ بنی ہے جس سے ملک و ملت کی نظریاتی سرحدوں پر زد
پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ اس بالغ نظر طلبہ جماعت میں ایک منظم اور مربوط طریقہ
کار کے تحت قیادت کا چناﺅ کیا جاتا ہے ، نظریے کی مضبوطی ، موثر تربیت ،
اطاعت امیر اور درپیش مسائل کے حل کے لیے نئے اور فریش دماغ افراد کی خدمات
لی جاتی ہیں جس سے اس طلبہ آرگنائزیشن کو ایک نئی طرح کی جلا میسر آتی ہے
اور قافلے پھر سے تازہ دم ہو کر روشنیوں کی سمت اپنا سفر جاری رکھتے ہیں ۔
علاقائی سطح پر میٹنگز، سٹڈی فورمز کا انعقاد کیا جاتا ہے ، اسی تنظیم کے
زیر اہتمام ایک ماہوار مجلہ ”نقیب طلبہ“ باقاعدگی سے اسلام آباد سے شائع ہو
رہا ہے جو کارکنوں کی علمی استعداد اور نظریات کی پختگی کافریضہ بطریق احسن
انجام دے رہا ہے ، درحقیقت انہی اوصاف کی بناءپر ہی” مسلم سٹوڈنٹس آرگنائز
یشن “کا ننھا پودا آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی گھنی
چھاﺅں تلے اس دھرتی کے راسخ العقیدہ مسلم نوجوان جوق در جوق جمع ہو رہے ہیں
اور یہ طلبہ تحریک تعلیمی اداروں کی ایک قابل ذکر تعداد کے ذہنوں کو اپنے
ٹھوس اسلامی و ملی نظریات کی بناءپر مسخر کر کے ان کے دلوں کی دھڑکن بن چکی
ہے۔ اسلامیان پاکستان کی صفوںمیں ایم ایس او تازہ ہوا کے جھونکے کی صورت
نمودار ہوئی ہے اور طلبہ کی اس عملی تحریک نے جہاں سکول ، کالج اور
یونیورسٹیز کے طلباءکو اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کرانے میں اہم رول
ادا کیا ہے وہیں دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا
ہے ، میں نے دیکھاہے کہ ایم ایس او نے موثر لٹریچر ، لیکچرزکے ذریعے سے
نوجوان نسل بالخصوص طلبہ میں ایک احساس ذمہ داری کی نئی روح پھونک ڈالی ہے
اور ان کے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کا بڑے احسن و مدلل طریقے سے جواب
دے کر انہیں روشنیوں کے اس سفرمیں اپنے ساتھ شریک کر لیا ہے ۔ ایسے حالات
میں جب کہ وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں کئی طرح کے طبقاتی نظام تعلیم
نافذ العمل ہیں اور غریب ،امیر ، شہری ، دیہاتی کو پیش نظررکھ کر تعلیمی
پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں ، فحاشی ، عریانی ، ناچ گانے اور میوزیکل
کلاسز تعلیمی اداروں کی پہچان بن چکی ہیں ، آفاقی مذہب اسلام سے مسلسل
بیذاری کی صدائیں کانوں سے ٹکرا رہی ہیں ،تحریک پاکستان کے لاکھوں شہداءاور
غازیوں کی قربانیاں پس پشت ڈال کر مملکت کو سیکولر و مادیت اور بے دین سٹیٹ
قرار دیے جانے کی راہیں ہموار کر کے اسلام پسندوں کی راہیں مسدود کی جارہی
ہیں ، اسلام کے نام پر قائم شدہ اس ملک میں سب سے زیادہ مسائل ، مشکلات اور
افتاد کا سامنا اسلام کے سچے شیدائیوں کو کرنا پڑ رہا ہے اورنوجوان نسل میں
بے دین نظریات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ،ایسے حالات میں پاکستانی طلبہ کی
یہ جماعت آج سے دس سال پیشتر میدان عمل میں اتر چکی ہے اور نامساعد حالات
کی ان کٹھنائیوں ، نشیب و فراز کے باوجود اس طلبہ جماعت کا وجود کسی طور پر
بھی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ آج جب کہ مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن
گیارہویں برس میں قدم رکھ رہی ہے تو واضح طور لگ رہا ہے کہ وہ معمولی سا
چراغ جو12جنوری 2002کو چند طلبہ نے اخلاص نیت کے بل بوتے پر جلایا تھا
پاکستانی طلبہ کے لیے کسی ’ ’مینارہ نور“ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ وطن
عزیز جن مسائل و مشکلا ت سے گزر رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان طبقے
کے لیے صحیح سمت کا تعین کیا جائے ، بالخصوص مغربی ہتھکنڈوں اور مغرب پرست
پاکستانی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں سے نبرد آزما ہونے کی خاطرنسل نو کو
آگے آنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو قوم کی امیدوں کا مرکز و
محورہے اور جواسلامیان پاکستان کے مفادات کی خاطر کچھ کر گزرنے کی ہمت ،
طاقت اور استطاعت رکھتا ہے ۔ قوی امید ہے کہ ان حالات میں 12جنوری 2012کو
ایم ایس او کے زیر انتظام آل پاکستان طلبہ کنونشن کا ظہور پذیر ہونا یاس
اور ناامیدی کے اندھیروں سے خلاصی پا نے ،محرومیوں کے خاتمے اور طبقاتی
نظام تعلیم سے بے زاری کی ایک مضبوط، مستحکم و توانا آواز ثابت ہو گا ، اس
طلبہ اجتما ع سے نوجوانوں میں ایک نئی امنگ اور روح بیدار ہو گی اور وہ ایک
بار پھر تازہ دم ہو کرپختہ یقین کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے عزم کا
اظہار کریں گے ۔ سکول ، کالج ، یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے طلبہ کا یہ
اکٹھ پاکستان کو اسلامی و فلاحی ریاست بنانے میں اور طلبہ کو اپنی ذمہ
داریوںکااحساس دلانے میں بڑی حد تک ممدو معاون ثابت ہو گا اور پوری ملت پر
امید ، حوصلے ، عزم اور یقین کی پختگی کے نئے در وا ہوتے چلے جائیں گے ۔ (انشاءاللہ) |