یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری
بدایونی کی ایوارڈ یافتہ کتاب خیرآبادیات سے پیش کیا گیا ہے
برصغیر ہندوپاک میں گیارہویں صدی ہجری کے بعد معقولات کی درس وتدریس کے
اکثر سلسلے ملا نظام الدین فرنگی محلی (وفات : ۱۱۶۱ھ ؍ ۱۷۴۸ء )کے توسط سے
آگے بڑھتے ہیں، جو مشہور ’’درس نظامی ‘‘کے بانی ہیں، ملا نظام الدین کے
تلامذہ میں ان کے صاحبزادے بحرالعلوم ملا عبدالعلی فرنگی محلی( وفات : ۲۵
۱۲ ھ ؍ ۱۸۱۰ء ) سے سلسلہ فرنگی محل آگے بڑھا، ملا نظام الدین کے دو اور
باکمال شاگرد ملا کمال الدین سہالوی ( وفات : ۱۱۷۵ھ ؍ ۱۷۶۱ئ۔)اور ملا
حمداللہ سندیلوی (وفات : ۱۱۶۰ھ ؍۱۷۴۷ئ) تھے، ان دونوں حضرات سے ملا اعلم
سندیلوی ( وفات : ۱۱۹۸ھ ؍ ۱۷۸۳ئ) نے اخذ علم کیا، ملا اعلم سندیلوی اپنے
زمانے کے باکمال مدرس اور معقولی تھے، بقول سید سلیمان ندوی ’’فضل وکمال کا
یہی وہ نخل بارآور ہے جس سے خیرآباد کی وہ شاخ نکلی ہے ،جو پھیل کر خود
ایک مستقل سلسلہ بن گئی ،اور جو سلسلہ خیرآباد کے نام سے مشہور ہے ‘‘۔ملا
محمد اعلم سندیلوی کے تلامذہ میں مولانا عبدالواجد خیرآبادی کا نام اہمیت
رکھتا ہے ،جن سے مولانا فضل امام خیرآبادی نے کسب فیض کرکے مدرسہ خیرآباد
کی بنیاد ڈالی،ان کے قابل فخر فرزند اور علمی جانشین علامہ فضل حق
خیرآبادی ہوئے جن کی ذات سے برصغیر میں منطق وفلسفہ اور حکمت وکلام کا ایک
مستقل مکتب فکر وجود میں آیا۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
( مولانا فضل امام خیرآبادی )مرحوم کے جانشین ،صاحبزادہ اور شاگرد مولانا
فضل حق صاحب خیرآبادی تھے ،جن کے دم عیسوی نے معقولات میں وہ روح پھونکی
کہ ابن سینائے وقت مشہور ہوئے ،دیار واطراف سے طلبہ نے ان کی طرف رجوع کیا
اور منطق وفلسفہ کو نئے طور سے ملک میں رواج دیا ،شروح وحواشی کی بڑی بڑی
کتابیں جو متأخرین کی نتائج طبع تھیں داخل درس ہوئیں( حیات شبلی:ص ۲۳)
علامہ فضل حق خیرآبادی کی تدریسی خدمات اور ان کے فیضان علمی کا تذکرہ
کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
مولانا فضل حق خیرآبادی کے تلامذہ اور تلامذہ در تلامذہ نے سارے ملک میں
پھیل کر علوم معقول کو بڑی رونق دی،اور وہ بڑے باکمال مدرس ثابت ہوئے،ان
بزرگوں میں سے تین ارباب کمال کی درسگاہوں کو خاص شہرت حاصل ہوئی،مولانا
عبدالحق خیرآبادی خلف الصدق مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا برکات
احمدبہاری ٹونکی،مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری جونپوری ۔مولانا عبدالحق
خیرآبادی نے رؤسائے رامپور کی قدر دانی سے رامپور کو اپنے فضل وکمال سے
منور کیا،مولانا برکات احمد صوبہ بہار میں ضلع مونگیر کے ایک گاؤں کے
تھے،ان کے والد حکیم دائم علی صاحب ٹونک جاکر رہ گئے تھے،مولانا برکات احمد
صاحب نے رئیس ٹونک کی قدر شناسی سے ٹونک کو علم وفن کا مرجع بنایا،مولانا
ہدایت اللہ خاں رامپور سے جونپور آئے،اور مدرسہ شیخ امام بخش میں علم وفضل
کی مجلس آراستہ کی،ان میں سے ہر ایک کی درسگاہ سے سیکڑوں علما تعلیم پاکر
نکلے۔ (مرجع سابق : ص ۲۳)
چودہویں صدی کے نصف اول تک معقولات کی درس وتدریس کو رونق مدرسہ خیرآباد
کے فضلاسے ہی رہی ،مولانا عبدالسلام خاں رامپوری لکھتے ہیں :
تیرہویں صدی میں معقولات کی گرم بازاری میں جس طرح اساتذہ فرنگی محل خصوصاً
بحرالعلوم ،ملا حسن اور ان کے تلامذہ ومنتسبین کو دخل رہا ہے، اسی طرح
چودہویں صدی میں یہ تسلسل خیرآبادی خاندان اور ان کے تلامذہ ومنتسبین سے
جاری رہاجو چودہویں صدی کے نصف اول سے کچھ زیادہ پر محیط ہے ،مولانا
عبدالحق خیرآبادی، شمس العلما مولانا ہدایت علی بریلوی، مولانا ہدایت اللہ
خاں رامپوری ،مولانا فضل حق رامپوری، حکیم برکات احمد ٹونکی وغیرہ فضلا اسی
صدی کے نصف اول اور اس کے بعد کے لوگ ہیں۔ (برصغیر کے علمائے معقولات : ص
۵۶ )
نصاب تعلیم :مدرسہ خیرآباد کا نصاب تعلیم بالجملہ تو وہی تھا جس کو ملا
نظام الدین نے درس نظامی کے نام سے متعارف کروایا تھا ، مگر وقت اور ضرورت
کے ساتھ ساتھ اس میں خیرآبادی علما نے اضافے بھی کیے، لہٰذا حکیم محمود
احمد برکاتی کے بقول مدرسہ خیرآباد کے نصاب تعلیم کو ’’نظامی خیرآبادی‘’
کہنا زیادہ مناسب ہوگا ،اس میں کچھ تو متقدمین کی کتب داخل کی گئیں مثلاً
شرح اشارات طوسی، محاکمات رازی ،افق مبین اورتجرید مع حواشی قدیمہ وجدیدہ
وغیرہ اور کچھ خیرآبادی علما کی کتابیں داخل درس ہوئیں مثلاً مرقات ( فضل
امام خیرآبادی ) ہدیہ سعیدیہ ( فضل حق خیرآبادی ) شرح مرقات ، شرح ہدایت
الحکمت،شرح مسلم الثبوت ( عبدالحق خیرآبادی )وغیرہ ، بعض مخصوص اور ذہین
طلبہ کو علامہ کا حاشیہ افق مبین اور حواشی تلخیص الشفا بھی پڑھائے جاتے
تھے۔زواہد ثلاثہ٭ بھی خیرآبادی علما کی مخصوص درسی کتابیں تھیں ،زواہد
ثلاثہ کے ساتھ بحرالعلوم کے حواشی بھی پڑھائے جاتے تھے۔
علمائے خیرآباد گو کہ معقول ومنقول کے جامع ہوا کرتے تھے مگر مدرسہ
خیرآباد کے نصاب تعلیم پر معقولیت کا رنگ غالب تھا، اسی لیے آپ دیکھیں گے
کہ عام طور پر طلبہ مدرسہ خیرآباد سے فراغت کے بعد علوم نقلیہ بالخصوص
حدیث وتفسیر کی تحصیل کے لیے کسی دوسری درسگاہ کا رخ کیا کرتے تھے، مگر یہ
کوئی قاعدہ کلیہ نہیں تھا بلکہ بہت سے خیرآبادی افاضل کی درسگاہوں میں
معقول ومنقول دونوں کا درس پوری مہارت اور محققانہ شان سے جاری
ہوتاتھا،مثال کے طور پر تاج الفحول مولانا عبدالقادر بدایونی، مولانا برکات
احمد ٹونکی اور مولانا امجد علی اعظمی کی درسگاہوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
مدرسہ خیرآباد کے عناصر اربعہ : علامہ فضل حق خیرآبادی کے بے شمار تلامذہ
اپنی اپنی جگہ افق درس وتدریس پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکے،اور ہر ایک کی
درسگاہ سے علما وفضلا کی ایک جماعت فارغ ہوکر نکلی،مگر ان تمام تلامذہ میں
علامہ کے چار شاگردوں کی درسگاہیں شہرۂ آفاق ہوئیں۔
(۱)علامہ کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خیرآبادی
(۲)تاج الفحول مولانا عبدالقادر بدایونی
(۳)استاذ العلما مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری
(۴)مولانا فیض الحسن سہارنپوری
ان چاروں حضرات کی درسگاہوں سے مدرسہ خیرآباد کافیض علم وفضل آفاق میں
پھیل گیا،پھر ان حضرات کی درسگاہوں نے بھی ایسے ایسے کاملان فن پیدا کیے جن
کی درسگاہیں خود اپنے زمانوں میں طلبہ کا مرکز توجہ بن گئیں،مولانا عبدالحق
خیرآبادی کی درسگا ہ سے سیکڑوں طلبہ نے استفادہ کیااور اپنے اپنے وقتوں
میںعلم وفن کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے۔ان کے تلمیذ راشد مولانا برکات
احمد ٹونکی اس اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیںکہ انہوں نے ’’مدرسہ
ٹونک‘‘کی بنیاد ڈالی جہاں سے علما کی ایک پوری فوج تیار ہوکر نکلی۔ان کے
تلامذہ میں علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری گوناگوں خوبیوں کے مالک
ثابت ہوئے، انہوں نے بھی ہندوستان کے طول وعرض میں کئی جگہ اپنی درسگاہ
آراستہ کی اور ایسے ایسے فاضل پیدا کیے جو خود اپنے اندر علم وفضل کی ایک
انجمن ثابت ہوئے۔
اسی طرح تاج الفحول نے مدرسہ قادریہ بدایوں میں بیٹھ کر خیرآبادی فیضان
علم کوعام کیا،آپ کے تلامذہ میں آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالمقتدر
قادری بدایونی اور مولانا محب احمد قادری بدایونی کی درسگاہیں اپنے زمانے
میں شہرۂ آفاق ہوئیں اور ایک زمانے نے ان سے استفادہ کیا،ان دونوں حضرات
کے تلامذہ نے آگے چل کر مدرسہ قادریہ کے تعلیمی کارواں کو آگے بڑھایااور
مدرسہ قادریہ غیر منقسم ہندوپاک میں علم وفضل اور تعلیم وتعلم کا ایک شجر
سایہ دار تسلیم کیا گیا، رب قدیر ومقتدر کے فضل اور اس کی توفیق سے یہ
ادارہ آج بھی طالبان علم معقول ومنقول کی خدمت کررہا ہے ،یہ بے بضاعت راقم
الحروف اسی مدرسے میں درس نظامی وخیرآبادی کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے
تدریسی خدمات انجام دے رہا ہے ۔
مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری نے کچھ عرصہ مدرسہ عالیہ رامپور میں درس
دیا،پھر جونپور میںبرسہا برس تدریس کرتے رہے،یہ سلسلہ آپ کی وفات پر ہی
ختم ہوا،آپ کے حلقہ درس سے ایسے ایسے کاملین روزگار پیدا ہوئے جو خود صاحب
مدرسہ تسلیم کیے گئے، آپ کے تلمیذ رشیدمولانا امجد علی اعظمی اپنے زمانے
میںدرس نظامی کے بہترین مدرس ہوئے ،اور انہوں نے ایک مستقل دبستان درس
وتدریس کی بنیاد ڈالی جس کو ہم مدرسہ امجدیہ کہہ سکتے ہیں،اس مدرسے نے بھی
معقول ومنقول دونوں میدانوں کے ایسے ایسے شہسوارپیدا کیے کہ زمانہ ان پر
ناز کرتا ہے،مدرسہ امجدیہ کے بے شمار فارغین میں مولانا عبدالعزیز
مرادآبادی کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے،جنہوں نے’’ مدرسہ اشرفیہ
مصباح العلوم‘‘ نام کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں اپنے تدریسی سفر کا آغاز
کیاجو بالآخر الجامعۃ الاشرفیہ( مبارکپوراعظم گڑھ) جیسی عظیم درسگاہ پر
جاکر ختم ہوا،یہ ادارہ آج برصغیر ہند وپاک کے چند بڑے دینی تعلیمی اداروں
میں سے ایک ہے اور آج بھی خیرآبادی فیضان پوری آب وتاب کے ساتھ یہاں سے
جاری ہے۔
مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری کے تلامذہ میں ایک اہم نام مولانا یار محمد
بندیالوی کا بھی ہے،جن کے شاگرد ملک المدرسین مولانا عطا محمد بندیالوی
ہوئے،آخری دور میں مولانا عطا محمد بندیالوی مدرسہ خیرآباد کی آبرو قرار
پائے،آپ کے شاگرد مولانا شاہ حسین گردیزی نے درست لکھا کہ :
خیرآبادکی جانشینی کا ادعا آپ ہی کو زیب دیتا ہے ،لاریب علم کے اس دور
انحطاط میں آپ کا وجود مسعود خیرآباد کا روشن چراغ ہے ( تجلیات مہر انور
: ص ۵۷۰ )
گزشتہ تیس چالیں برس میں پاکستان کے علمی افق پر جتنے بھی آفتاب وماہتاب
درخشاں نظر آتے ہیں ان میں سے اکثر کا علمی شجرہ نسب مدرسہ بندیال تک
پہنچتا ہے۔
مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے دیگر سیکٹروں افراد کے علاوہ علامہ شبلی
نعمانی نے علوم عربیہ میں خصوصی استفادہ کیا ،یہ استفادہ اتنا جامع اور
مکمل تھا کہ اس سلسلے کے کچھ واقعات لکھنے کے بعد علامہ شبلی کے شاگرد سید
سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
غرض اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مولانا فیض الحسن صاحب کے قلیل المدت درس کا
نقش علامہ مرحوم( شبلی ) پر کس قدر گہراپڑا تھا،یہی وجہ تھی کہ استاذ مرحوم
کو اپنے اساتذہ میں سے مولانا فیض الحسن صاحب کے ساتھ مخصوص شیفتگی تھی۔
(حیات شبلی:ص ۸۴)
علامہ شبلی کے مخصوص افکارونظریات سے قطع نظر وہ خود ایک وسیع الحلقہ مدرس
تھے، ندوۃ العلما کے زمانے میں ان سے علوم عربیہ اور دیگر فنون میں صدہا
افراد نے استفادہ کیا، جن کے تلامذہ در تلامذہ آج بھی ملک کے طول وعرض میں
موجود ہیں،ان حضرات کے شجر علمی کی جڑیں بھی علامہ شبلی اور مولانا فیض
الحسن سہارنپوری سے ہوتے ہوئے مدرسہ خیرآبادتک پہنچتی ہیں ۔
ان کے علاوہ علامہ کے شاگرد مولانا عبدالعلی خاں رامپوری سے مولانا احمد
رضا خاں فاضل بریلوی تک ،مولانا خیرالدین کے توسط سے مولانا ابوالکلام
آزاد تک اور مولانا نادرالدین (تلمیذمولانا عبدالحق خیرآبادی )کے توسط سے
مولانا عبدالقدیر صدیقی حیدرآبادی سے ہوتا ہوا جنوب ہند تک مدرسہ خیرآباد
کا فیضان علمی پہنچا ۔ ٭
مدرسہ خیرآباد کے فیضان علمی کے تذکرے کو میں اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے |